لطحاوی نے لکھا ہے ۔۔
لوگوں کی ایک عجیب وغریب سوچ یہ ہے کہ جہاں کہیں تقلید کا لفظ آیااس سے بس وہ فقہی تقلید خود ساختہ طورپر مراد لے لیتے ہیں۔جیسے کہ آج کل کے روشن خیال علامہ اقبال کے کلام سے مدرسہ پر نکتہ چینی کرتے ہیں جب کہ یہ بات متحقق ہے کہ اس وقت اسکول کوبھی مدرسہ ہی کہاجاتاتھااوراقبال کے کلام میں جہاں جہاں مدارس پر طنز اوراس کی خومیوں کی جانب اشارہ ہے اس میں زیادہ ترمراد اسکول اورکالجز ہی مراد ہیں۔
اسی طرح کاحال کچھ لوگوں کاہے جہاں کہیں تقلید کالفظ آیابس سمجھ لیاکہ اس سے فقہی تقلید مراد ہے جب کہ معلوم ہوناچاہئے کہ تقلید ایک کثیرالجہات معنی کالفظ ہے کبھی اس سے رسوم ورواج مراد ہوتے ہیں کبھی طرز اورمنہج اورکبھی وہ تحقیق کی ضد ہوتاہے
اگرکسی کو اتنی توفیق کی ارزانی نہ ہوئی ہو کہ وہ باتوں کو صحیح طرز سے سمجھ سکے توبحث کرنا کوئی ضروری چیز نہیں ہے۔
اقبال شاعرتھے فلسفی تھے دین کے خادم اوردین کا درد رکھنے والے تھے۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی پستی پر کڑھتے تھے اورکوشاں تھے کہ یہ امت دوبارہ اپنے اقبال اورعروج سے ہمکنار ہو اس کیلئے انہوں نے شاعری کے ذریعہ قوم کے تن مردہ میں جان پھونکنے کی کوشش کی ۔کچھ کامیابی ہوئی اورکچھ ناکامی ۔کامیابی صرف اس قدر کہ بقول حالی
وہ سوتے میں ابکلبلانے لگے ہیں
اس سے زیادہ نہیں
خود اقبال کو بھی اعتراف تھاکہ وہ جن سے مخاطب ہیں وہ مردہ لوگ ہیں چنانچہ انہوں نے رابندرناتھ ٹیگور اوراپناموازنہ کرتے ہوئے کہاہے۔
اوچمن زادہ چمن پروردہ ای
من دمیدم اززمین مردہ ای
اقبال فقیہہ نہیں تھے ۔نہ انہوں نے خود کے فقیہہ ہونے کا دعویٰ کیااورنہ ہی ان کے کلام کے شارحین نے ان کو فقیہہ سمجھاہے اورجہاں تقلید کارونارویاہے اس کو فقہی تقلید کہاہے۔کسی کو اس تعلق سے دیکھناہوتو یوسف سلیم چشتی کی اقبال کے کلام کی شرح دیکھ لے۔
کچھ بزعم خود جید جاہلین اگراقبال کے کلام میں کسی تقلید کا لفظ آنے سے اس کو فقہی تقلید سمجھنے لگیں تویہ ان کی غلط فہمی ہے یاغلط فہمی پر متنبہ کرنے والے کا قصور ہے؟
اگربحث برائے بحث مان بھی لیں کہ تقلید سے فقہی تقلید مراد ہے توبھی اولاتواقبال کی کسی بات کو فقہی طورپر قبول واستناد کا درجہ نہیں دیاجاسکتا۔
دوسرے یہ کہ وہ خود آخر میں جدید مجہتدین کے انداز اجتہاد کو دیکھتے ہوئے اس کےقائل ہوگئے تھے کہ ماضی کے علماء کی اقتداء ہی بہتر ہے۔
جلوہ اش ماراازمابیگانہ کرد
سازماراازنوابیگانہ کرد
ازدل ماآتش دیرینہ برد
نورونارلاالہ ازسینہ برد
اجتہاد اندرزمان انحطاط
قوم رابرہم ہمی پیچد بساط
زاجتہاد عالمان کم نظر
اقتدابررفتگاں محفوظ تر
میری پوری بات ماقبل میں جس کا ابن داؤد نے کوٹ کیاہے اقبال کے کلام کے تناظر میں تھا۔اوراسی حیثیت سے یہ بات کی گئی تھی ۔اس سے نہ یہ مطلب ومقصود تھاکہ اگرکسی فقہی کتاب میں بھی تقلید کا لفظ ہوگاتواس سے بھی اصطلاحی تقلید معلوم نہیں ہوگی۔
یہ اصولی بات ہے کہ آدمی جس تناظر میں کلام کرتاہے اس کے کلام کا مفہوم بھی اسی تناظر میں لیاجائے گا۔آدمی فقہ کے تعلق سے گفتگو کررہاہے وہاں تقلید سے تقلید ہی مراد لی جائے گی۔ کوئی شاعر تقلید کا لفظ استعمال کرتاہے تواس کو فقہی تقلید سمجھنا میرے خیال سے سمجھنے والے کی سخن فہمی کومشتبہ بنانے کیلئے کافی ہے۔
بہرحال میراکام صرف اس قدر ہے کہ اپنی بات کی وضاحت کردوں جن کا
شیوہ اوررٹ مرغ کی ایک ٹانگ ہے ان سے مجھے کوئی بحث منظورنہیں ہے۔