• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدث اصغر کی صورت میں مصحف قرآنی کو ہاتھ لگانے کا حکم

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
جزاک اللہ بھائی بالکل درست فرمایا۔ لیکن عدم ذکر عدم نفی کی دلیل نہیں ہوتا۔ درج بالا پوسٹ میں، میں نے جو حدیث پیش کی ہے اس پر غور فرما کر اپنی معلومات اور علم شئیر کریں۔
اس حدیث کے بارے میں علما نے کہا ہے کہ یہ کفار کے بارے میں ہے کیوں کہ مشرک نجس ہیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان لا یمس القرآن الا طاہر‘‘ پاک آدمی کے سوا قرآن کو کوئی نہ چھوئے۔ (موطا امام مالک)

اب مسئلہ یہ ہے کہ حدیث میں قرآن چھونے کے لئے جو طاہر کی شرط ہے اس سے صرف جنابت اور حیض ونفاس سے پاک شخص مراد ہے یا باوضو شخص۔ تو امام مالک نے اس حدیث کی توضیح میں فرمایا ہے کہ قرآن کو صرف باوضو شخص ہی ہاتھ لگائے۔ معلوم ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک طاہر سے باوضو شخص مراد ہے۔ امام مالک کے علاوہ بھی سلف میں سے کئی لوگ اس طاہر سے مراد باوضو شخص ہی لیتے ہیں۔

عبداللہ بن جار اللہ بن ابرہیم الجاراللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حدث سے پاک (باوضو) ہو کر تلاوت کرے، خواہ یہ حدث چھوٹا ہو یا بڑا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’لا یمسہ الا المطھرون‘‘ اسے بس پاک (فرشتے) ہی ہاتھ لگاتے ہیں۔(فضائل قرآن،ص47، طبع دارلسلام)
لفظ طاہر مشترک ہے؛اس میں تین احتمال ہیں:
ایک مومن
دوسرے حدث اصغر اور اکبر سے پاک مغتسل اور با وضو
تیسرے عمومی نجاست سے پاک
اب یہاں ایک معنی کو متعین کرنے کے لیے علاحدہ سے قرینہ درکار ہے ۔
امام مالک اگر حدث اصغر سے پاک مراد لیتے ہیں تو امام حسن بصری کے نزدیک قرآن چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری نہیں اور وہ امام مالک سے متقدم ہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کیلئے جو کتاب لکھی تھی تو وہ یمن جا رہے تھے جہاں مشرک زیادہ تھے ظاھر یہی ہے کہ مراد مسللم تھے کہ قرآن کو وہاں کے مشرک نہ چھوئیں
باقی جو آچار ہیں اس میں صرف اتنا ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے حکم دیا وضو کر کے آو سلمان رضی اللہ عنہ کو لوگوں نے کہا وضو کر لیں کہ ھمیں قرآن کی آیت بارے کچھ پوچھنا ہے
تو اس سے و اللہ اعلم جو بظاہر معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ مستحب ہے واجب نہیں
وجوب کیلئے دلیل چاھیئے کتاب و سنت سے جو کہ ابھی تک نہیں ملی باقی عدم ذکر الشئی لا یستلزم عدمہ یا یستلزم عدمہ کیا صحیح ہے ابھی تک متذبذب ہوں جس بات کی طرف ذھن جاتا ہے وہ یہ ہے
کہ احادیث میں عدم ذکر الشی یستلزم عدمہ ہے شرعی حکم میں فرامین نبویہ میں باقی جو قصص اخبار واقعات ہیں جن سے شرعی مسائل مستنبط نہیں ہوتے وہاں کہا جا سکتا ہے عدم ذکر الشئی لا یستلزم عدمہ
ان تجد عیبا فسد الخللا جل من لا عیب فیہ و علا
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بات یہ ہے کہ جو مس قرآن کے لئے وضو کو ادب و احترام کی وجہ سے ضروری سمجھتے ہیں ان کے پاس تو اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے ایک قرآن کی آیت ہے یعنی ’’لایمسہ الاالمطھرون‘‘ ہے۔ علماء بیان کرتے ہیں اس آیت سے اگر لوح محفوظ والا قرآن مجید مراد لیا جائے تو ’’المطھرون‘‘ سے مراد فرشتے ہونگے اور اگر دنیاوی او زمینی قرآن مراد لیا جائے تو ’’المطھرون‘‘ سے مراد باوضو شخص ہوگا۔

اس کے علاوہ موطا امام مالک کی بیان کردہ حدیث’’ان لایمس القرآن الاطاہر‘‘ بھی ان کے پاس اپنے موقف کے لئے دلیل ہے۔ کیونکہ اہل حدیث قرآن و حدیث کا فہم سلف صالحین سے لیتے ہیں اور متعدد سلف سے اس حدیث میں ذکر کردہ طاہر سے باوضو شخص مراد لینا ثابت ہے۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس موقف کے مخالفین بھی باوضو ہو کر قرآن چھونے کو افضل و بہتر سمجھتے ہیں پھر افضل اور بہتر چیز چھوڑ کر مفضول عمل پر اصرار کیوں؟

جو لوگ بلاوضو قرآن چھونے کے قائل ہیں ان کے پاس کیا دلیل ہے؟؟؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
سوال یہ ہے کہ وضو کے وجوب کی صریح دلیل کیا ہے؟؟
کوئی بھی نہیں تو وجوب ثابت نہ ہوا؛باقی استحباب عمومی دلائل سے ثابت ہے کہ ہر وقت باوضو رہنا چاہیے ؛عدم وجوب کے قائلین ہر گز اس پر اصرار نہیں کرتے کہ بے وضو ہی قرآن پڑھا جائے؛صرف وجوب کا انکار ہے جس کی دلیل صریح موجود نہیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
جو لوگ بلاوضو قرآن چھونے کے قائل ہیں ان کے پاس کیا دلیل ہے؟؟؟
دلیل استصحاب؛یعنی ہر شے اپنے اصل پر باقی رہے گی الا یہ کہ اس کے خلاف دلیل آ جائے؛قرآن کی تلاوت کے لیے وضو کے وجوب کی دلیل چوں کہ موجود نہیں لہٰذا اصلاً یہ جائز اور مباح ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
دلیل استصحاب؛یعنی ہر شے اپنے اصل پر باقی رہے گی الا یہ کہ اس کے خلاف دلیل آ جائے؛قرآن کی تلاوت کے لیے وضو کے وجوب کی دلیل چوں کہ موجود نہیں لہٰذا اصلاً یہ جائز اور مباح ہے۔
مطلب یہ کہ بلاوضو قرآن چھونے پر کوئی صریح یا غیرصریح دلیل موجود نہیں ہے۔ بلکہ شرعی اصول کی روشنی میں اسے جائز کہا گیا ہے؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
مطلب یہ کہ بلاوضو قرآن چھونے پر کوئی صریح یا غیرصریح دلیل موجود نہیں ہے۔ بلکہ شرعی اصول کی روشنی میں اسے جائز کہا گیا ہے؟
قرآن و حدیث میں یہ خاص جزئی دلیل موجود نہیں کہ بلاوضو قرآن چھونا جائز ہے البتہ عمومی دلائل موجود ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
مجھے جہاں تک سمجھ آتی ہے کہ دو مسائل ہیں۔ ایک تلاوت قرآن اور دوسرا مس مصحف۔ بلا وضو قرآن مجید پڑھنا جائز ہے اور وضو کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے جبکہ بلاوضو مس مصحف جائز نہیں ہے۔

اور اس کی دلیل قرآن مجید کی وہی آیت اور حدیث جو اوپر نقل ہو چکی ہے۔ جہاں اس حدیث کے معنی ومفہوم میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہے تو اس کا جواب یہ ہے:

فقہائے سبعہ اور ائمہ اربعہ نے حدیث میں طاہر سے مراد حدث اکبر اور اصغر دونوں لیے ہیں۔ یہاں فقہائے سبعہ یا ائمہ اربعہ کو ہم بطور دلیل نقل نہیں کر رہے۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ دلیل کا معنی ومفہوم ان سلف صالحین نے وہی بیان کیا ہے جو ہم کہہ رہے ہیں۔ تو سلف صالحین اگرچہ خود سے دلیل تو نہیں ہے لیکن دلیل کے فہم میں ان کا فتوی ایک مقام رکھتا ہے لہذا اس لیے یہ بات نقل کر دی ہے۔

دوسری بات جو امام نووی اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نقل کی ہے کہ صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت علی، حضرت سلمان الفارسی، حضرت سعد بن ابی وقاص کا یہی قول منقول ہے کہ بلاوضو مصحف کو چھونا جائز نہیں ہے۔ اور ان ائمہ کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس کے مخالف قول صحابہ میں نہیں ہے۔

قال شيخ الإسـلام ابن تيمية : ( و أما مس المصحف فالصحيح أنه يجب له الوضوء كقول الجمهـور ) [ مجموع الفتاوى : 21/288 ]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ مس مصحف میں صحیح رائے یہ ہے کہ اس کے لیے وضو کرنا واجب ہے جیسا کہ جمہور کا قول ہے۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کہتے ہیں کہ جو مسئلہ بکثرت پیش آتا ہے اس میں شریعت کی ضرور واضح طور پر راھنمائی ہوتی ہے
لیکن اس مسئلہ میں آثار میں سے کسی میں بھی وجوب نہیں ثابت ہو رہا اقوال تو مل رہے ہیں وجوب کے لیکن کس اثر سے استدلال ہے ابھی تک نہیں سمجھ پایا
علی کل حال مسئلہ شروع سے ہی اختلافی ہے قصہ بس ایمان کا ہے و من یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب
 
Top