ابوالمریم
رکن
- شمولیت
- مارچ 07، 2014
- پیغامات
- 23
- ری ایکشن اسکور
- 15
- پوائنٹ
- 38
السلام علیکم
جزاک اللہ خیر، یار آپکی بھی سمجھ نہیں آتی کبھی برا بھلا کہتے ہو اور کبھی بھائی، سمائل!
حلالہ پر ہر ایک کی رائے الگ سے ھے جیسے ڈاکٹر ذاکر کی رائے سے سب سے مختلف کہ ایک مرتبہ 3 طلاق دے کر مکمل فارغ ہونے کے بعد پھر واپسی ہو سکتی ھے، پھر دوسری مرتبہ 3 طلاقیں دینے کے بعد پھر واپسی اسی طرح تیسری مرتبہ 3 طلاقیں دینے کے بعد بالکل فارغ۔ یہ اس کی رائے ھے اس پر میرا متفق ہونا یا نہ ہونا ہی کافی ھے نہ کہ اسے برا بھلا کہنا۔
مسئلہ کوئی بھی ہو اس پر سب کی رائے لینی چاہئے مگر جب ذہن بن چکا ھے کہ صرف رائے اسی کی سنیں گے جو فارم کے مسلک سے ملتا ہو گا اس کے علاوہ دوسرا جو بھی رائے دے گا اسے کسی بھی مسلک کی چھاپ لگا دیں اپنا کام بن گیا۔ اس لئے میں اختلافی مسائل پر رائے دینے سے گریز کرتا ہوں، اگر کوئی علمی مسئلہ ہوا تو ضرور رائے دی جائے گی۔
ہر انسان اپنی مرضی کا مالک ھے جو اپنی ضرورت کے مطابق کام کرتا ھے، جسے اس کی ضرورت ھے وہ نہ تو یہاں حلالہ پر مسئلہ جاننے آئے گا اور نہ ہی اپنی نسبت کے مفتی سے فتوٰی لے گا، نہ حلالہ آپ نے کروانا ھے اور نہ میں نے اس لئے کسی بھی مسئلہ یا سوال پر دوسرں کی رائے بھی جانی جائے تو ایک دوسرے کے خیالات جاننے کا موقع ملتا ھے۔
والسلام
امام احمد بن حنبل رحمتہ الله علیہ سے کسی نے پوچھا کے ایک علاقے میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک اصحاب الحدیث جو روایتیں تو بیان کرتے ہیں مگر صحیح ضعیف کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ دوسرے اصحاب الراے ہیں جو اپنی راے کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی معرفت حدیث بہت تھوڑی ہے کس سے مسلہ پوچھنا چاہیے۔
امام احمد بن حنبل رحمتہ الله علیہ نے جواب دیا کے اصحاب الحدیث سے پوچھنا اصحاب الراے سے مت پوچھنا۔
تاریخ بغداد : ١٣ / ٤٤٩ وسند صحیح، المحلی لا بن حزم : ١ / ٦٨، السنتہ لعبدالله بن احمد
اس مندرجہ ذیل حدیث سے بات صاف ہوجاتی ہے کے رائے کی اہمیت دین میں کیا ہے۔اس حدیث میں رائے دینے والے ذاکر نایک یا کنعان صاحب نہیں بلکہ شاگرد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے بارے میں الله فرماتے ہیں۔ سورہ البینه آیات ٨ "الله ان سے راضی ہوا اور یہ الله سے راضی"۔
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 587
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا میری یہ رائے ہے کہ اگر کوئی صفا ومروہ کے درمیان طواف نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور میں بھی صفا مروہ کے درمیان طواف نہ کرنے کی پرواہ نہیں کرتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اے میرے بھانجے! جو تو نے کہا برا کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفا ومروہ کے درمیان طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی طواف (سعی) کیا اور یہی سنت ہے اور جو لوگ مُشَلَل میں منات (بت) کا احرام باندھتے تھے وہ لوگ صفامروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے تو جب اسلام آیا اور اس بارے میں ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو اللہ نے آیت نازل فرمائی ترجمہ صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تو جو آدمی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان کا طواف کرے اور اگر اس طرح ہوتا جیسا کہ تم کہتے ہو تو یہ آیت اس طرح آتی کہ ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف نہ کریں زہری کہتے ہیں کہ اس نے حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام سے اس کا ذکر کیا تو وہ اس سے خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہی دراصل علم ہے اور میں نے اہل علم میں سے بہت سے لوگوں سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ عرب کے لوگ صفا مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ان دو پتھروں کے درمیان ہمارا طواف کرنا جاہلیت کے زمانہ کے کاموں میں سے تھا اور دوسرے انصار لوگوں نے کہا کہ ہمیں صفا مروہ کے درمیان طواف کا حکم نہیں دیا تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے (البقرہ)۔
دین کسی کی جاگیر نہیں جس میں خیالات کی روشنی ڈالی جائے میرے بھائی دین اسلام کی تو راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں۔ آپ ضرور متفق ہوسکتے ہیں اور آپ کے لیے یہ کافی ہوگا پر میرے نزدیک الله کا فرمان اور میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات صرف صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہی کافی ہے۔ اور یہ میری رائے نہیں بلکہ اصحاب اکرام رضوان الله اجمعین اور صلف صالحین کا منہج اور طریقہ ہے.
دعا ہے کے الله آپ کو اور مجھے سمجھنے کی توفیق عطا فرمانے - آمین