• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلالہ جیسے لعنتی فعل پر آپکو سمجھانے کے لئے،،، انتہائی ضروری بات،،

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
مارچ 07، 2014
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
38
السلام علیکم

جزاک اللہ خیر، یار آپکی بھی سمجھ نہیں آتی کبھی برا بھلا کہتے ہو اور کبھی بھائی، سمائل!

حلالہ پر ہر ایک کی رائے الگ سے ھے جیسے ڈاکٹر ذاکر کی رائے سے سب سے مختلف کہ ایک مرتبہ 3 طلاق دے کر مکمل فارغ ہونے کے بعد پھر واپسی ہو سکتی ھے، پھر دوسری مرتبہ 3 طلاقیں دینے کے بعد پھر واپسی اسی طرح تیسری مرتبہ 3 طلاقیں دینے کے بعد بالکل فارغ۔ یہ اس کی رائے ھے اس پر میرا متفق ہونا یا نہ ہونا ہی کافی ھے نہ کہ اسے برا بھلا کہنا۔

مسئلہ کوئی بھی ہو اس پر سب کی رائے لینی چاہئے مگر جب ذہن بن چکا ھے کہ صرف رائے اسی کی سنیں گے جو فارم کے مسلک سے ملتا ہو گا اس کے علاوہ دوسرا جو بھی رائے دے گا اسے کسی بھی مسلک کی چھاپ لگا دیں اپنا کام بن گیا۔ اس لئے میں اختلافی مسائل پر رائے دینے سے گریز کرتا ہوں، اگر کوئی علمی مسئلہ ہوا تو ضرور رائے دی جائے گی۔

ہر انسان اپنی مرضی کا مالک ھے جو اپنی ضرورت کے مطابق کام کرتا ھے، جسے اس کی ضرورت ھے وہ نہ تو یہاں حلالہ پر مسئلہ جاننے آئے گا اور نہ ہی اپنی نسبت کے مفتی سے فتوٰی لے گا، نہ حلالہ آپ نے کروانا ھے اور نہ میں نے اس لئے کسی بھی مسئلہ یا سوال پر دوسرں کی رائے بھی جانی جائے تو ایک دوسرے کے خیالات جاننے کا موقع ملتا ھے۔

والسلام


امام احمد بن حنبل رحمتہ الله علیہ سے کسی نے پوچھا کے ایک علاقے میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک اصحاب الحدیث جو روایتیں تو بیان کرتے ہیں مگر صحیح ضعیف کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ دوسرے اصحاب الراے ہیں جو اپنی راے کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی معرفت حدیث بہت تھوڑی ہے کس سے مسلہ پوچھنا چاہیے۔
امام احمد بن حنبل رحمتہ الله علیہ نے جواب دیا کے اصحاب الحدیث سے پوچھنا اصحاب الراے سے مت پوچھنا۔
تاریخ بغداد : ١٣ / ٤٤٩ وسند صحیح، المحلی لا بن حزم : ١ / ٦٨، السنتہ لعبدالله بن احمد

اس مندرجہ ذیل حدیث سے بات صاف ہوجاتی ہے کے رائے کی اہمیت دین میں کیا ہے۔اس حدیث میں رائے دینے والے ذاکر نایک یا کنعان صاحب نہیں بلکہ شاگرد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے بارے میں الله فرماتے ہیں۔ سورہ البینه آیات ٨ "الله ان سے راضی ہوا اور یہ الله سے راضی"۔

صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 587
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا میری یہ رائے ہے کہ اگر کوئی صفا ومروہ کے درمیان طواف نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور میں بھی صفا مروہ کے درمیان طواف نہ کرنے کی پرواہ نہیں کرتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اے میرے بھانجے! جو تو نے کہا برا کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفا ومروہ کے درمیان طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی طواف (سعی) کیا اور یہی سنت ہے اور جو لوگ مُشَلَل میں منات (بت) کا احرام باندھتے تھے وہ لوگ صفامروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے تو جب اسلام آیا اور اس بارے میں ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو اللہ نے آیت نازل فرمائی ترجمہ صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تو جو آدمی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان کا طواف کرے اور اگر اس طرح ہوتا جیسا کہ تم کہتے ہو تو یہ آیت اس طرح آتی کہ ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف نہ کریں زہری کہتے ہیں کہ اس نے حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام سے اس کا ذکر کیا تو وہ اس سے خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہی دراصل علم ہے اور میں نے اہل علم میں سے بہت سے لوگوں سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ عرب کے لوگ صفا مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ان دو پتھروں کے درمیان ہمارا طواف کرنا جاہلیت کے زمانہ کے کاموں میں سے تھا اور دوسرے انصار لوگوں نے کہا کہ ہمیں صفا مروہ کے درمیان طواف کا حکم نہیں دیا تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے (البقرہ)۔

دین کسی کی جاگیر نہیں جس میں خیالات کی روشنی ڈالی جائے میرے بھائی دین اسلام کی تو راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں۔ آپ ضرور متفق ہوسکتے ہیں اور آپ کے لیے یہ کافی ہوگا پر میرے نزدیک الله کا فرمان اور میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات صرف صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہی کافی ہے۔ اور یہ میری رائے نہیں بلکہ اصحاب اکرام رضوان الله اجمعین اور صلف صالحین کا منہج اور طریقہ ہے.

دعا ہے کے الله آپ کو اور مجھے سمجھنے کی توفیق عطا فرمانے - آمین
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

امام احمد بن حنبل رحمتہ الله علیہ سے کسی نے پوچھا کے ایک علاقے میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک اصحاب الحدیث جو روایتیں تو بیان کرتے ہیں مگر صحیح ضعیف کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ دوسرے اصحاب الراے ہیں جو اپنی راے کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی معرفت حدیث بہت تھوڑی ہے کس سے مسلہ پوچھنا چاہیے۔
امام احمد بن حنبل رحمتہ الله علیہ نے جواب دیا کے اصحاب الحدیث سے پوچھنا اصحاب الراے سے مت پوچھنا۔
تاریخ بغداد : ١٣ / ٤٤٩ وسند صحیح، المحلی لا بن حزم : ١ / ٦٨، السنتہ لعبدالله بن احمد

اس مندرجہ ذیل حدیث سے بات صاف ہوجاتی ہے کے رائے کی اہمیت دین میں کیا ہے۔اس حدیث میں رائے دینے والے ذاکر نایک یا کنعان صاحب نہیں بلکہ شاگرد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے بارے میں الله فرماتے ہیں۔ سورہ البینه آیات ٨ "الله ان سے راضی ہوا اور یہ الله سے راضی"۔

دین کسی کی جاگیر نہیں جس میں خیالات کی روشنی ڈالی جائے میرے بھائی دین اسلام کی تو راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں۔ آپ ضرور متفق ہوسکتے ہیں اور آپ کے لیے یہ کافی ہوگا پر میرے نزدیک الله کا فرمان اور میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات صرف صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہی کافی ہے۔ اور یہ میری رائے نہیں بلکہ اصحاب اکرام رضوان الله اجمعین اور صلف صالحین کا منہج اور طریقہ ہے.

دعا ہے کے الله آپ کو اور مجھے سمجھنے کی توفیق عطا فرمانے - آمین
محترم اگر کوئی پیچھے رہ گیا ہو تو اسے بھی ساتھ لے لیں، یہاں ریسلنگ نہیں چل رہی بھئی اب میں مار کھا کے تھک گیا تو اپنا ہاتھ آگے لا اور تو اندر آ جا۔ "امام احمد بن حنبل کا قول، رائے ھے حدیث رسول نہیں" آپ نے جو عبارت کوٹ کی ھے اس پر تھوڑا غور کر لیتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ "مسئلہ کوئی بھی ہو اس پر سب کی رائے لینی چاہئے" کیا آپ فارم میں حدیث مبارکہ اور قرآن مجید کی تلاوتیں سنا رہے ہیں؟ رائے ہی تو دے رہے ہیں، اصحاب الحدیث تو آپ بھی نہیں شائد، آپ کا شمار بھی اصحاب الرائے میں ھے۔ تھریڈ بنانے والا بھی اصحاب الرائے ھے۔ "سنو سب کی کرو اپنی"

مجھے ذاکر نائک سے کیوں ملا رہے ہیں اس کا اپنا ایک مقام ھے میں دوسرں کی طرح اس کی بھی عزت کرتا ہوں۔

والسلام
 
شمولیت
مارچ 07، 2014
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
38
السلام علیکم



محترم اگر کوئی پیچھے رہ گیا ہو تو اسے بھی ساتھ لے لیں، یہاں ریسلنگ نہیں چل رہی بھئی اب میں مار کھا کے تھک گیا تو اپنا ہاتھ آگے لا اور تو اندر آ جا۔ "امام احمد بن حنبل کا قول، رائے ھے حدیث رسول نہیں" آپ نے جو عبارت کوٹ کی ھے اس پر تھوڑا غور کر لیتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ "مسئلہ کوئی بھی ہو اس پر سب کی رائے لینی چاہئے" کیا آپ فارم میں حدیث مبارکہ اور قرآن مجید کی تلاوتیں سنا رہے ہیں؟ رائے ہی تو دے رہے ہیں، اصحاب الحدیث تو آپ بھی نہیں شائد، آپ کا شمار بھی اصحاب الرائے میں ھے۔ تھریڈ بنانے والا بھی اصحاب الرائے ھے۔ "سنو سب کی کرو اپنی"

مجھے ذاکر نائک سے کیوں ملا رہے ہیں اس کا اپنا ایک مقام ھے میں دوسرں کی طرح اس کی بھی عزت کرتا ہوں۔

والسلام

شاید آپ واقعی حق بات سے تھک گئے ہیں میں نے کب کہا امام احد کا قول حدیث ہے رائے نہیں میں نے تو ان کا ایک قول آپ کے گوشگزار کیا تھا کے ان کا قول بھی یہی ہے کے اصحاب الرآئے کی نہ سنو اصحاب الحدیث کی سنو ۔میری رائے دین میں کوئی معنی نہیں رکھتی میرے بھائی اور نہ کسی امتی کی۔ اور کسی کی رائے لینا یا نہ لینا یہ فیصلہ دین میں آپ کرنے والے آپ اور میں کون ہوتے ہیں- رائے اس وقت لی جا سکتی ہے جب قرآن اور حدیث پھر اجماع میں کچھ نہ ملے۔ پھر رائے دینے والو کی طرف باریکی سے دیکھا جائے گا وہ ایک الگ عنوان ہے۔ آپ اب بھی وہیں کھڑے ہیں کہ سنو سب کی کرو اپنی بھائی دین میں نہ کسی کی سنی جاےگی نہ اپنی کی جائے گی۔ مندرجہ بالا حدیث یہی واضح کرتی ہے کہ صحابی کی رائے بھی نہیں چلے گی جب الله کا احکام اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان آجائے۔

اور رہی بات آپ نے کہا آپ کو نہ ملاؤں ذکر نایک سے تو میرے بھی میں نے ملایا نہیں اک مثال دی تھی کے یہ رائے آپ کی یا ذاکر نایک کی نہیں بلکہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی جسے مسترد کیا گیا۔

فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ --سورة النساء آیت ٥٩
اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے-

آیت واضح ہے اپنی کرنے کو نہیں کہا الله نے ہمیں ۔

اپنی اپنی کرنا دین میں شریعت سازی ہے اور یہ خلا شرک ہے اور ہاں یہ میری رائے نہیں ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
حلالہ جائز یا ناجائز ؟
فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا Ǽ۝ۭ
تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کر لو ۔ اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کر سکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو ۔ اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔
قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر 03
وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ ۭ
اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اسطرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کر لو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی۔
قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر 24
وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ ۭ
اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جب کہ ان کا مہر دیدو اور ان کے عفت قائم رکھنی مقصود ہو کھُلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی۔
قرآن ، سورت المائدہ ، آیت نمبر 05
اوپر ذکر کی گئی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ نکاح کا مقصد
عورت کے ساتھ انصاف کرنا
مال خرچ کر نا (مہر ادا کرنا)
عفت قائم رکھنا
کھلی بدکاری نہ کرنا
چھپی دوستی نہ کرنا
یہ صورت تو اس وقت ہے کہ جب ایک مرد اور عورت اوپر بیان کردہ مقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئےنکاح کریں۔جبکہ حلالہ کی صورت میں چونکہ ان میں سے کسی بھی مقصد کا لحاظ نہیں کیا جاتا بلکہ الٹا ان کو پامال کیا جاتا ہے تو اس سے نہ تو نکاح صحیح ہوتا ہے اور نہ ہی عورت پہلے مرد کے لیے حلال ہوتی ہے۔ پہلے مرد کے لیے عورت صرف اسی صورت میں حلال ہو سکتی ہے جب دوسرا مرد اوپر بیان کردہ مقاصد کو پورا کرے پھر اگر دونوں کے درمیان ناموافقت ہو جائے اور مرد اپنی بیوی کو اپنی مرضی سے طلاق دے۔ چونکہ مرد اور عورت برضا و رغبت ایک دوسرے سے نکاح کرتے ہیں تو وہ دونوں جدا بھی ناموافقت ہی کی بنا پر ہوتے ہیں اور مرد بھی طلاق ناموافقت ہی کی بنا پر دیتا ہے نہ کہ دوسرے مرد سے حلالہ کروانے کے لیے۔دوسرا یہ کہ نکاح کے بعدمرد عورت کے نان و نفقہ کا منتظم ہوتا ہے اور عورت اپنے خاوند کی مال و آبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ جبکہ حلالہ کی صورت میں یہ چیزیں بھی مفقود ہوتی ہیں۔ لہذا "حلالہ" سے عورت پہلے مرد کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ڛ
اے ایمان والو! اپنے عہدوں کو پورا کرو۔
قرآن ، سورت المائدہ ، آیت نمبر 01
اس آیت میں بھی اللہ تعالٰی نے اپنے عہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور منجملہ ان میں ایک عہد "نکاح" کا بھی ہے جو اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب مرد اور عورت تا حیات قرآن و سنت کی شرائط کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کریں جبکہ حلالہ میں یہ عہد بھی نہیں پایا جاتا بلکہ اس میں کھلی بدکاری اور چھپی دوستی پائی جاتی ہے جیسا کہ اوپر آیات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ٢٣٠؁
پھر اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی ہاں اگر دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو وہ ان لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے جو دانش رکھتے ہیں۔
قرآن ، سورت البقرۃ ، آیت نمبر 230
اس آیت میں دو دفعہ" فَاِنْ طَلَّقَھَا " کے الفاظ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ پہلا شوہرجس طرح ناموافقت کی بنا پر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے بلکل اسی طرح دوسرا شوہر بھی اسی عورت کو نکاح کے بعدناموافقت ہی کی بنا پر طلاق دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ" تَنْكِحَ" کے لفظ میں بھی وہی مقاصد ہونگےجس کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالٰی کی حدیں جس طرح پہلے نکاح میں قائم رکھتا ضروری ہیں بلکل اسی طرح دوسرے نکاح میں بھی ضروری ہیں۔ یہ حدیں اسی صورت میں قائم رکھیں جا سکتی ہیں جب مرد اور عورت اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کریں۔
اگر کوئی اس آیت سے حلالہ کا جواز ثابت کرنا چاہتا ہے تو ماننا پڑیگا کہ عورت کی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں ہے جو اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کے لیے چند لمحات کے لیےکسی دوسرے شخص کی بانہوں میں جھولنا بھی گوارہ کر سکتی ہے۔ ایسی حرکت کا ارتکاب کسی غیر عفیفہ اور غیر صالحہ عورت کی طرف تو منسوب کیا جاسکتا ہے مگر ایک عفیفہ و صالحہ عورت کی طرف ہرگز گنوارہ نہیں کیا جا سکتا۔
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۭ
مرد عورتوں پر حاکم ومسلط ہیں اس لیے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال و آبروکی) خبر داری کرتی ہے ۔
قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر 35-34
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو "قوام" اور عورتوں کو" صالحات ، قانتات اور حافظات" کا معزز خطاب دیا ہے۔ چناچہ ان خطابات سے ملقب لوگوں کے لیے حلالہ کا نظریہ پیش کرنا قرآن کو کھیل اور ہنسی بنانا ہےجس کا تصور کوئی ادنٰی ایمان والا بھی نہیں کر سکتا۔
ان تصریحات سے واضح ہوا کہ اخلاقا حلالہ ایک نہایت گری ہوئی حرکت ہے اور اسکا شیدائی اور تمنائی یقینا بے غیرتی کی انتہا ء کو بھی پار کیا ہوا ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
حلالہ جائز یا ناجائز ؟
فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا Ǽ۝ۭ
تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کر لو ۔ اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کر سکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو ۔ اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔
قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر 03
وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ ۭ
اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اسطرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کر لو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی۔
قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر 24
وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ ۭ
اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جب کہ ان کا مہر دیدو اور ان کے عفت قائم رکھنی مقصود ہو کھُلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی۔
قرآن ، سورت المائدہ ، آیت نمبر 05
اوپر ذکر کی گئی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ نکاح کا مقصد
عورت کے ساتھ انصاف کرنا
مال خرچ کر نا (مہر ادا کرنا)
عفت قائم رکھنا
کھلی بدکاری نہ کرنا
چھپی دوستی نہ کرنا
یہ صورت تو اس وقت ہے کہ جب ایک مرد اور عورت اوپر بیان کردہ مقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئےنکاح کریں۔جبکہ حلالہ کی صورت میں چونکہ ان میں سے کسی بھی مقصد کا لحاظ نہیں کیا جاتا بلکہ الٹا ان کو پامال کیا جاتا ہے تو اس سے نہ تو نکاح صحیح ہوتا ہے اور نہ ہی عورت پہلے مرد کے لیے حلال ہوتی ہے۔ پہلے مرد کے لیے عورت صرف اسی صورت میں حلال ہو سکتی ہے جب دوسرا مرد اوپر بیان کردہ مقاصد کو پورا کرے پھر اگر دونوں کے درمیان ناموافقت ہو جائے اور مرد اپنی بیوی کو اپنی مرضی سے طلاق دے۔ چونکہ مرد اور عورت برضا و رغبت ایک دوسرے سے نکاح کرتے ہیں تو وہ دونوں جدا بھی ناموافقت ہی کی بنا پر ہوتے ہیں اور مرد بھی طلاق ناموافقت ہی کی بنا پر دیتا ہے نہ کہ دوسرے مرد سے حلالہ کروانے کے لیے۔دوسرا یہ کہ نکاح کے بعدمرد عورت کے نان و نفقہ کا منتظم ہوتا ہے اور عورت اپنے خاوند کی مال و آبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ جبکہ حلالہ کی صورت میں یہ چیزیں بھی مفقود ہوتی ہیں۔ لہذا "حلالہ" سے عورت پہلے مرد کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ڛ
اے ایمان والو! اپنے عہدوں کو پورا کرو۔
قرآن ، سورت المائدہ ، آیت نمبر 01
اس آیت میں بھی اللہ تعالٰی نے اپنے عہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور منجملہ ان میں ایک عہد "نکاح" کا بھی ہے جو اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب مرد اور عورت تا حیات قرآن و سنت کی شرائط کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کریں جبکہ حلالہ میں یہ عہد بھی نہیں پایا جاتا بلکہ اس میں کھلی بدکاری اور چھپی دوستی پائی جاتی ہے جیسا کہ اوپر آیات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ٢٣٠؁
پھر اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی ہاں اگر دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو وہ ان لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے جو دانش رکھتے ہیں۔
قرآن ، سورت البقرۃ ، آیت نمبر 230
اس آیت میں دو دفعہ" فَاِنْ طَلَّقَھَا " کے الفاظ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ پہلا شوہرجس طرح ناموافقت کی بنا پر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے بلکل اسی طرح دوسرا شوہر بھی اسی عورت کو نکاح کے بعدناموافقت ہی کی بنا پر طلاق دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ" تَنْكِحَ" کے لفظ میں بھی وہی مقاصد ہونگےجس کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالٰی کی حدیں جس طرح پہلے نکاح میں قائم رکھتا ضروری ہیں بلکل اسی طرح دوسرے نکاح میں بھی ضروری ہیں۔ یہ حدیں اسی صورت میں قائم رکھیں جا سکتی ہیں جب مرد اور عورت اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کریں۔
اگر کوئی اس آیت سے حلالہ کا جواز ثابت کرنا چاہتا ہے تو ماننا پڑیگا کہ عورت کی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں ہے جو اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کے لیے چند لمحات کے لیےکسی دوسرے شخص کی بانہوں میں جھولنا بھی گوارہ کر سکتی ہے۔ ایسی حرکت کا ارتکاب کسی غیر عفیفہ اور غیر صالحہ عورت کی طرف تو منسوب کیا جاسکتا ہے مگر ایک عفیفہ و صالحہ عورت کی طرف ہرگز گنوارہ نہیں کیا جا سکتا۔
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۭ
مرد عورتوں پر حاکم ومسلط ہیں اس لیے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال و آبروکی) خبر داری کرتی ہے ۔
قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر 35-34
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو "قوام" اور عورتوں کو" صالحات ، قانتات اور حافظات" کا معزز خطاب دیا ہے۔ چناچہ ان خطابات سے ملقب لوگوں کے لیے حلالہ کا نظریہ پیش کرنا قرآن کو کھیل اور ہنسی بنانا ہےجس کا تصور کوئی ادنٰی ایمان والا بھی نہیں کر سکتا۔
ان تصریحات سے واضح ہوا کہ اخلاقا حلالہ ایک نہایت گری ہوئی حرکت ہے اور اسکا شیدائی اور تمنائی یقینا بے غیرتی کی انتہا ء کو بھی پار کیا ہوا ہے۔


بہت اچھا لکھا آپ نے اللہ آپ کو جزا ے خیر دے امین​
بس اتنا بتا دیں کہ اشماریہ بھائی کی بات کی کیا اہمیت ہے یہاں​
یاد رہے کہ شریعت نکاح سے ابقاء عقد چاہتی ہے نہ کہ ایک رات کی ہمبستری۔ البتہ اگر کوئی ایک رات کی ہمبستری کر کے طلاق دے دے تو خاتون زوج اول کے لیے حلال ہو جاتی ہے۔
واللہ اعلم
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بہت اچھا لکھا آپ نے اللہ آپ کو جزا ے خیر دے امین​
بس اتنا بتا دیں کہ اشماریہ بھائی کی بات کی کیا اہمیت ہے یہاں​
میں اشماریہ صاحب کی اس بات سے تو متفق ہوں :-
” یاد رہے کہ شریعت نکاح سے ابقاء عقد چاہتی ہے نہ کہ ایک رات کی ہمبستری “
مگر اس بات کی وضاحت آپ ان سے کروائیں:-
” البتہ اگر کوئی ایک رات کی ہمبستری کر کے طلاق دے دے تو خاتون زوج اول کے لیے حلال ہو جاتی ہے “
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میں اشماریہ صاحب کی اس بات سے تو متفق ہوں :-
” یاد رہے کہ شریعت نکاح سے ابقاء عقد چاہتی ہے نہ کہ ایک رات کی ہمبستری “
مگر اس بات کی وضاحت آپ ان سے کروائیں:-
” البتہ اگر کوئی ایک رات کی ہمبستری کر کے طلاق دے دے تو خاتون زوج اول کے لیے حلال ہو جاتی ہے “
قرآن کریم نے کہا ہے حتی تنکح زوجا غیرہ
تنکح سے مراد جماع یا ہمبستری ہے۔
قرآن نے کہا ہے:۔
"وہ عورت اس مرد کے لیےاس کے بعد حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے ہمبستری کر لے۔"
قرآن خود بتا رہا ہے کہ دوسرے شوہر سے ہمبستری سے حلال ہو جائے گی تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
اب اس پر عقلی گھوڑے دوڑائے جائیں اور ثابت کیا جائے کہ "نہیں یہ تو لعنتی فعل ہے اور لعنتی فعل سے تو عورت حلال نہیں ہو سکتی" تو اس کا مطلب کیا یہ نہیں ہوگا کہ ہم قرآن کریم کی بات میں تخصیص کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآن کا حتی تنکح کہنا اس نکاح کے بارے میں ہے جس میں اتفاق سے طلاق ہو جائے؟ حالاں کہ نہ یہ تخصیص قرآن نے خود کی ہے اور نہ کسی اور دلیل سے ہو رہی ہے۔ صرف ایک عقلی پچ ہے کہ لعنتی کام کا نتیجہ درست نہیں ہونا چاہیے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس آیت میں بھی اللہ تعالٰی نے اپنے عہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور منجملہ ان میں ایک عہد "نکاح" کا بھی ہے جو اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب مرد اور عورت تا حیات قرآن و سنت کی شرائط کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کریں جبکہ حلالہ میں یہ عہد بھی نہیں پایا جاتا بلکہ اس میں کھلی بدکاری اور چھپی دوستی پائی جاتی ہے جیسا کہ اوپر آیات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ٢٣٠؁
پھر اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی ہاں اگر دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو وہ ان لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے جو دانش رکھتے ہیں۔
قرآن ، سورت البقرۃ ، آیت نمبر 230
اس آیت میں دو دفعہ" فَاِنْ طَلَّقَھَا " کے الفاظ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ پہلا شوہرجس طرح ناموافقت کی بنا پر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے بلکل اسی طرح دوسرا شوہر بھی اسی عورت کو نکاح کے بعدناموافقت ہی کی بنا پر طلاق دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ" تَنْكِحَ" کے لفظ میں بھی وہی مقاصد ہونگےجس کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالٰی کی حدیں جس طرح پہلے نکاح میں قائم رکھتا ضروری ہیں بلکل اسی طرح دوسرے نکاح میں بھی ضروری ہیں۔ یہ حدیں اسی صورت میں قائم رکھیں جا سکتی ہیں جب مرد اور عورت اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کریں۔
اگر کوئی اس آیت سے حلالہ کا جواز ثابت کرنا چاہتا ہے تو ماننا پڑیگا کہ عورت کی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں ہے جو اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کے لیے چند لمحات کے لیےکسی دوسرے شخص کی بانہوں میں جھولنا بھی گوارہ کر سکتی ہے۔ ایسی حرکت کا ارتکاب کسی غیر عفیفہ اور غیر صالحہ عورت کی طرف تو منسوب کیا جاسکتا ہے مگر ایک عفیفہ و صالحہ عورت کی طرف ہرگز گنوارہ نہیں کیا جا سکتا۔
محترمی
اس آیت سے حلالہ کا جواز یعنی شرط لگا کر حلالہ کا جواز نہیں ثابت کیا جاتا بلکہ یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اگر کسی نے یہ معاملہ کر لیا توعورت پہلے شوہر کے لیے قرآن کی صراحت کی وجہ سے حلال ہو جائے گی۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترمی
اس آیت سے حلالہ کا جواز یعنی شرط لگا کر حلالہ کا جواز نہیں ثابت کیا جاتا بلکہ یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اگر کسی نے یہ معاملہ کر لیا توعورت پہلے شوہر کے لیے قرآن کی صراحت کی وجہ سے حلال ہو جائے گی۔
لگتا ہےآپ قرآن سے حلالہ ثابت کروا کر ہی دم لیں گے اور پھر شائد آپ کے " عشقِ حلالہ" کو تسکین پہنچے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں اللہ کے لیے قرآن سے مت کھیلو۔ میں نے قرآن کی روشنی میں یہ ثابت کردیا ہے کہ جس آیت کو " حلالہ " کے جواز میں پیش کیا جاتا ہے وہ حلالہ کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف ہے۔ اگر آپ کا یہی رویہ رہا تو مجھے اندیشہ ہے ایک دن آپ کہیں قرآن ہی سے بے نیاز نہ ہو جائیں اور اپنی " عقلی گھوڑے" کی کسوٹی پر ایک الگ " شریعت " کی بنیاد ڈال دیں۔
اور آپ کا یہ کہنا کہ:-
" البتہ اگر کوئی ایک رات کی ہمبستری کر کے طلاق دے دے تو خاتون زوج اول کے لیے حلال ہو جاتی ہے "
اس کی تین ہی وجوہات ہو سکتی ہیں:-
1) طلاق دینے والا ذہنی مریض ہو۔
2) طلاق حلالہ کی نیت سے دی گئی ہو۔
3) ناموافقت کی بنا پر طلاق ہو۔ ( یہ معقول وجہ ہے )
کیونکہ طلاق دینے والا کسی وجہ ہی سے طلاق دیتا ہے ایسے ہی بلاوجہ طلاق نہیں دیتا۔
میں آپ کو ایک بار پھر کہتا ہوں کہ میرے مضمون کو غور سے پڑھیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
قرآن کریم نے کہا ہے حتی تنکح زوجا غیرہ
تنکح سے مراد جماع یا ہمبستری ہے۔
قرآن نے کہا ہے:۔
"وہ عورت اس مرد کے لیےاس کے بعد حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے ہمبستری کر لے۔"
قرآن خود بتا رہا ہے کہ دوسرے شوہر سے ہمبستری سے حلال ہو جائے گی تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
اب اس پر عقلی گھوڑے دوڑائے جائیں اور ثابت کیا جائے کہ "نہیں یہ تو لعنتی فعل ہے اور لعنتی فعل سے تو عورت حلال نہیں ہو سکتی" تو اس کا مطلب کیا یہ نہیں ہوگا کہ ہم قرآن کریم کی بات میں تخصیص کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآن کا حتی تنکح کہنا اس نکاح کے بارے میں ہے جس میں اتفاق سے طلاق ہو جائے؟ حالاں کہ نہ یہ تخصیص قرآن نے خود کی ہے اور نہ کسی اور دلیل سے ہو رہی ہے۔ صرف ایک عقلی پچ ہے کہ لعنتی کام کا نتیجہ درست نہیں ہونا چاہیے۔
محترم اشماریہ صاحب -

آپ قرآن کے ظاہری معنی سے یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ ایک عورت 'حلالہ ' کے لعنتی فعل کے ذریے حلال ہو جائے گی -

قرآن میں بہت سے احکمامت ایسے ہیں کہ اگر ان کو صرف ظاہری معنی پر محلول کر لیا جائے تو وہ عمل قابل قبول یا قابل حجت نہیں ہوتا -

مثال کے طور پر نماز قصر سے متعلق آیت ملاحظه ہو :

"وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾"
" اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی نمازیں قصر کردو اگر تمہیں کفار کے حملہ کردینے کا خوف ہے کہ کفار تمہارے لئے کھلے ہوئے دشمن ہیں (101)


مندرجہ بالا آیت کے ظاہری الفاظ سے پتا لگتا ہے کہ نماز قصر کا مسئلہ دشمن کے خطرے کے ساتھ مشروط ہے جبکہ احادیث نبوی کی رو سے نماز قصر ایک عمومی حکم ہے اور اس میں پر خطر اور پر امن سفروں میں کوئی فرق نہیں -نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا فرمان ہے کہ "الله نے تم پر صدقہ کر دیا ہے کہ سفر میں تم جس حالت میں ہو چاہے خوف یا امن نماز کو قصر کر لو -

نما حرم علیکم المیتة .......تم پر تو حرام کیا گیا ہے مردہ (سورہ بقرة آیت 173)

قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہوا کہ مردہ (یعنی جو حلال جانور اپنی طبعی موت مرجائے )حرام ہے ۔ اور اب کسی بھی مردہ کو کھانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ حرام ہے ۔ لیکن حدیث میں ہے :
''ھو االطور ماء ہ والحل میتتہ ''۔
''سمند ر کا پانی پاک ہے اور اس کا ''مردہ''(مچھلی )حلال ہے''۔

اس طرح خرید و فروخت اور تجارت کے متعلق قرآن میں حکم ہے :



يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ سوره البقرہ ٢٨٢
اے ایمان والو! جب تم کسی وقت مقرر تک آپس میں ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور چاہیئے کہ تمہارے درمیان لکھنے والے انصاف سے لکھے-


اب سوال ہے کہ کیا لین دین کے ہر معاملے میں لکھنا ضرروی ہے؟؟ قرآن تو که رہا ہے کہ ہر معاملے میں لکھ لیا کرو لیکن بہت سے لین دین کے معاملات ایسے ہیں کہ جن میں نبی کریم نے یہ حکم نہی دیا کہ اپنے معاملات کی لکھت پڑھت ضروری ہے - لیکن قرآن کے ظاہری معنی یہی بتاتے ہیں کہ ہر معاملے میں لکھنا ضروری ہے اور لکھنے والا انصاف سے کام لے وغیرہ-

آگے الله فرماتا ہے کہ: وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ سوره البقرہ ٢٨٢
جب آپس میں سودا کرو تو گواہ بنا لو اور لکھنے والے اور گواہ بنانے والے کو تکلیف نہ دی جائے
-
کیا قرآن کی اس آیت کی رو سے ہر مرتبہ خرید و فروخت میں گواہ بنانا ضروری ہے ؟؟

یہ چند مثالیں ہیں جو اس بات کو بیان کرتی ہیں ہیں کہ ضروری نہیں کہ قرآن کی آیت سے جو ظاہری الفاظ آپ اخذ کر رہے ہیں وہی اس کے حکم پر عمل کو ثابت کرتے ہیں- احادیث کی رو سے بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ قرآن کے ان الفاظ جن میں احکامات کا ذکر ہے احادیث نبوی میں ان کے اصل معنی و مفہوم کیا ہیں -

جب ایک چیز نا جائز ہے تو اس کا ذریے کسی دوسرے عمل کو جائز کہنا قرآن و احادیث کے ساتھ ایک مذاق ہے -

الله ہم کو اپنی دین کا صحیح علم و فہم عطا کرے (آمین)-
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top