السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بھائی میری اصلاح پر حریص ہونے پر اللہ آپ کو خلوص اور اجر عظیم عطا فرمائے امین
واياك
یہاں آپ میں اور مجھ میں چند باتوں پر اتفاق ہے اور چند میں اختلاف ہے
1-پہلی بات کہ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو بعض سلفی علماء کفر اعتقادی کہتے ہیں اور بعض غیر اعتقادی پس ایک عالم دوسرے کو اجتہادی غلطی پر تو کہ سکتا ہے مگر گمراہ یا تکفیری اور مرجیئہ نہیں کہ سکتا اس پر ہمارا اتفاق ہے
نہیں بھائی! یہاں ہمارا اتفاق نہیں ہے۔
تحكيم بغير ما انزل الله میں کفر اعتقادی ہی ہے، اور جو اسے کفر عملی قرار دیتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں، گمراہ ہیں، اور اور اسی تکفیر بلا حق کو اختیار کرنے والے کو تکفیری اور کہنا یا خوارج کے راستے پر قرار دینا بالکل صحیح ہے!
اور جہاں تک
تحكيم بغير ما انزل الله کو کو اعتقادی کفر سے منسلک کرنے والوں کو مرجئہ قرار دینے کی بات ہے، تو یہ تو مخالفین نے ارجاء کی نئی تعریف نکالی ہے! وگرنہ مرجئی قرار دیئے جانے کے حقدار تو وہ لوگ ہیں جو اپنے مسجد و مدارس میں ایمان مجمل کی تعلیم دیتے ہیں، !! ایمان مجمل تو آپ کو معلوم ہوگا، لیکن قارئین کی آسانی کے لئے پیش کر دیتا ہوں:
اِيمانِ مجمل:
اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَآئِهِ وَصِفَاتِهِ وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِهِ اِقْرَارٌ م بِاللِّسَانِ وَتَصْدِيْقٌ م بِالْقَلْبِ.
’’میں ایمان لایا اللہ پر جیسا کہ وہ اپنے اسماء اور اپنی صفات کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے، زبان سے اقرار کرتے ہوئے اور دل سے تصدیق کرتے ہوئے۔
یہ ہے اصل میں ارجاء!!
تحكيم بغير ما انزل الله کو اعتقادی کفر سے منسلک کرنے والوں کو اگر مرجئہ قرار دیا جائے تو مجھے نہیں معلوم کہ امت کے سلف سے بھی کوئی اس فتوے کی زد سے محفوظ رہے گا!!
لہٰذا میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ یہ مرجئہ مرجئہ کی رٹ لگانے والوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کیا جائے کہ آپ بھی سختی نہ کرو اور ہم بھی سختی نہ کریں!!
کیونکہ یہ معالہ راجح مرجوح کا نہیں!! یہ ان احکامات کا معاملہ نہیں کہ ایک عالم رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کو سنت قرار دیتا ہے ، اور ایک عالم رکوع کے بعد ہاتھ کھلے چھوڑنے کو!!
یہ معاملہ ایمان و کفر کا ہے!! ، جس سے من قال لا اله الله محمد رسول الله کی جان و مال کے حلال و مباح ہی نہیں، بلکہ واجب القتل قرار دیئے جانے کا ہے!
اب ہر معاملہ کو اسی طرح اجتہادی غلطی کی چادر میں چھپا دیا جائے ، تو بتلائے کہ پھر
جهم بن صفوان ، اور
واصل بن عطاء کا کیا قصور ہے؟ انہوں نے بھی "اجتہاد" کیا! اور تو اور پھر ان خوارج بشمول
ابن ملجم کا کیا قصور تھا، اس کا بھی تو "اجتہاد" ہی تھا!! ایک مثال اور لے لیں کہ پھر تو طاہر القادری صاحب کو بھی گمراہ نہیں کہنا چاہئے!! آخر وہ بھی تو شیخ الاسلام ہے! اس کی جہالت کو بھی" اجتہادی" غلطی قرار دے دیا کریں!!
لہٰذا ، انہیں اس معاملے میں گمراہ قرار دیا جانا بالکل صحیح ہے! اور جو خوارج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے راستے کو اختیار کرے تو یہ بتلانا بھی ضروری ہے کہ یہ خوارج کے نقش قدم پر ہیں!!
2-تاتاری حکمرانوں کے کافر ہونے پر ہمارا اتفاق ہے البتہ اسکی علت پر اختلاف ہو سکتا ہے
جی ! میں نے تو تاتاریوں کی تکفیر کی علت کا ثبوت پیش کردیا ہے!! اب اس پر آپ کو اختلاف ہے تو کیوں ہے؟؟ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جو تاتاریوں کی تکفیر کرتے ہیں وہ خود یہ علتیں بیان کرتے ہیں!! پھر علت پر اختلاف چہ معنی دارد!!
3-بعض مسلمان حکمرانوں میں تاتاری حکمرانوں والے کفریہ عقائد سب یا کچھ کے موجود ہونے پر سلفی علماء میں اختلاف ہے کچھ کے ہاں وہ موجود ہیں اور کچھ کے ہاں نہیں ہیں پس اگر کوئی تاتاری حکمرانوں کے اوپر مذکورہ کفریہ عقائد کو آج کے بعض مسلم حکمرانوں میں موجود سمجھتا ہے تو وہ اسکا اجتہاد ہے اور کوئی نہیں سمجھتا تو وہ اسکا اجتہاد ہے البتہ کوئی سلفی عالم دوسرے گروہ کو اس سلسلے میں گمراہ یا خارجی و مرجیئہ کہنے میں درست نہیں ہو گا
کون سے مسلمان حکمران نے اس طرح کے عقائد کا اقرار کیا ہے؟ آپ بھی جانتے ہیں کہ کسی کا عقیدہ بغیر اس کے اقرار کے ہم تو نہیں جان سکتے!! اب اس معاملے میں کون سا اجتہاد؟ کہ کوئی اجتہاد کرکے کسی کے عقیدہ کو جانچتا رہے!! کہ شاید اس کے دل میں یہ عقیدہ ہے!! یا شاید وہ اس عقیدہ کا حامل ہے!! عقیدے کے حوالے سے جب تک کسی شخص کا کوئی اقرار نہ ہوگا، یعنی کلام نہ ہوگا ، کسی کو کوئی تخیلاتی گھوڑے چلانے کی کوئی اجازت نہیں!!! عقائد کے حوالے سے اقرار یعنی کلام پر حکم کے معاملہ میں اختلاف ہو سکتا ہے، اسے ضرور اجتہادی غلطی کہا جا سکتا ہے!!
اب جن دو مسائل کا آپ نے ذکر کیا ہے اس میں پہلے پر آپ اور میں اپنے دلائل یہاں دے کر بحث کر سکتے ہیں البتہ یہاں حالات کے تقاضے کے مطابق شاید ایسا کرنا درست نہ ہواور دوسرا جو تکفیر معین کا آپ نے کہا ہے تو وہ اشکال پھر خود تاتاریوں کی تکفیر میں پھر کیوں نہیں کیا جاتا یعنی تاتاریوں کی تو ہم اوپر مذکورہ کفریہ عقائد کی وجہ سے تکفیر معین کے قانون کو نظر انداز کر جاتے ہیں مگر یہاں اس کی بات چھیڑنا چاہتے ہیں اگر کوئی کہے کہ انکی تکفیر معین تو علماء نے کی ہے تو یہی صورتحال تو آج بھی موجود ہے پھر فرق کیا ہے
تاتاریوں کی تکفیر کا معاملہ آپ قادیانیوں کی تکفیر کے مشابہ سمجھیں!! کہ جس طرح قادیانیوں کو علماء نے پکی ٹھکی دلیل کی بنیاد پر کافر قرار دیا ہے، اسی طرح کا معاملہ تاتاریوں کے ساتھ بھی تھا۔ جو آپ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت میں دیکھا ہوگا!
اسی طرح پکی ٹھکی دلیل کے ساتھ کل بھی تکفیر کی جا سکتی تھی ، آج بھی کی جا سکتی ہے اور کل بھی کی جا سکے گی!! لیکن دلیل ایسی پکی ٹھکی ہونی چاہئے!!نہ کہ خوارج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تکفیر کر دی جائے!! صرف اس بنیاد پر کہ چونکہ علماء نے تکفیر کی ہے تو کوئی بات نہیں جو مانتا ہے مانے جو نہیں وہ نہ مانے!! پھر یہ معاملہ آپ بریلویوں کے بارے میں بھی اختیار کریں!! کہ وہ اہل الحدیث علماء کو کافر قرار دیتے ہیں، بشمول محمد بن عبد الوهاب رحمۃ اللہ کے!! نہ صرف اہل الحدیث، بلکہ دیوبندی حضرات بھی ان کے تکفیری تیر سے نہیں بچتے!! اور پھر کبھی وہ ان "مرتدین" کے خلاف تلوار اٹھا لیں ، تو انہیں بھی گمراہ نہ کہنا!! کیونکہ وہ بھی تو علماء ہیں!!!
لہٰذا جس معاملے میں کسی عالم کی گمراہی سامنے آئے گی وہ بیان کی جائے گی!! اور اسے اس معاملہ میں کم سے کم گمراہ ضرور قرار دیا جائے گا!!
آپ نے علم الاسماء الرجال سے تو واقف ہونگے ، آپ کو ایک نہیں کئی ایسی مثالیں ملیں گے، کہ راویوں کو گمراہ، مرجئہ ، قدریہ ، خارجی، وغیرہ قرار دیا گیا ہے!! اور ان میں علماء بھی تھے!!
ایک مثال عرض کردوں ! ویسے میرے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ مثال مجھے بہت ہی شدید و سخت یاد آتی ہے! لیکن خیر عرض پھر بھی کئے دیتا ہوں:
آپ اس ایمان مجمل کو ماننے والوں کے امام اعظم کو ہی دیکھ لیں!! انہیں گمراہ بھی کہا گیا ہے، گمراہ کن بھی کہا گیا ہے، مرجئہ بھی کہا گیا ہے! اور یہاں تک کہ خوارج کا راستہ اختیار کرنے کی جرح بھی ہے!!
وضاحت:محترم بھائی کچھ تکفیر تو جائز ہوتی ہے اور کچھ نا جائز ہوتی ہے اور جو یہ جائز تکفیر بھی ہے یہ بھی سب علماء کے ہاں نہیں بلکہ کچھ کے ہاں جائز ہوتی ہے البتہ آج کل جو پاکستان میں پاکستانی طالبان (جن کے عقائد میں ہی خرابیاں ہیں) وہ دجہاد کو غلط طریقے سے کر کے اسکو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں تو ان کو کچھ نہ کچھ سپورٹ اس جائز اور نا جائز تکفیر دونوں سے ملتی ہے اس میں کوئی انکار نہیں کر سکتا یعنی جائز تکفیر بھی انکے غلط کام کو پھیلانے کا سبب بنتی ہے پس سد ذرائع کو دیکھتے ہوئے ہم جائز تکفیر (بعض کے ہاں جائز) پر بھی توقف کر سکتے ہیں البتہ میرے خیال میں یہ بات توقف کی حد تک ہو تو بہتر ہے کیونکہ میرے خیال میں دوسری طرف اگر جائز تکفیر کو مطلقا حرام کہ کر اس کا ارتکاب کرنے والوں کو تکفیری اور خارجی جیسے الفاظ سے نوازیں گے تو وہ جب اپنے پاس دلائل بھی رکھتے ہوں گے اور علماء کی تائید بھی تو وہ لازمی شدید ردعمل دکھائیں گے اور اس کا نتیجہ وہ بھی ہو سکتا ہے جو نماز میں پاوں سے پاوں ملانے والے حنفی اور اہل حدیث کا بعض دفعہ ہوتا ہے یعنی دونوں ہی حجم سے کم یا زیادہ کھول کر شریعت کے خلاف کر رہے ہوتے ہیں پس میرے خیال میں جب ہم انکو جائز اجتہاد کی اجازت دیں گے تو وہ ہماری بات کو سنیں گے ورنہ شیر آ گیا شیر آ گیا کی طرح کہیں وہ ہمارے دلائل پر توجہ دینا ہی نہ چھوڑ دیں اور پھر وہ گمراہی کی گہراہیوں میں گرتے ہی نہ چلے جائیں اور یہی کچھ آج ہو رہا ہے یہ میری رائے ہے اور فوق کل ذی علم علیم والی بات تو آپ جانتے ہیں
عبدہ بھائی! تکفیری کسی ایسے شخص کو نہیں کہا جاتا ، جو تکفیر بالحق کرتا ہے! تکفیری اسے کہا جا تا ہے جو تکفیر بلاحق کرتا ہے!! اور وہ بھی یہ نہیں کہ اجتہادی غلطی کی بناء پر، بلکہ جو خوارج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تکفیر کرتا ہے!
نوٹ: یہ تو ہوئی اب تک کی تمہیدی بحث۔ اب اگر ہم اصل مدعا کی طرف آجائیں تو بہتر ہو گا!