28- بَاب فِي أَكْلِ الضَّبِّ
۲۸-باب: گوہ کھانے کا بیان
3793- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ خَالَتَهُ أَهْدَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ سَمْنًا وَأَضُبًّا وَأَقِطًا، فَأَكَلَ مِنَ السَّمْنِ وَمِنَ الأَقِطِ، وَتَرَكَ الأَضُبَّ تَقَذُّرًا، وَأُكِلَ عَلَى مَائِدَتِهِ، وَلَوْ كَانَ حَرَامًا مَا أُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: خ/الہبۃ ۷ (۲۵۷۵)، الأطعمۃ ۸ (۵۷۸۹)، ۱۶ (۵۴۰۲)، الاعتصام ۲۴ (۷۳۵۸)، م/الذبائح ۷ (۱۹۴۷)، ن/الصید ۲۶ (۴۳۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵۵، ۲۸۴، ۳۲۲، ۳۲۹، ۳۴۰، ۲۴۷) (صحیح)
۳۷۹۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کی خالہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گھی، گوہ اور پنیر بھیجا، آپ نے گھی اور پنیر کھایا اور گوہ کو گھن محسوس کرتے ہوئے چھوڑ دیا، اور آپ کے دستر خوان پر اسے کھایا گیا، اگر وہ حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کے دسترخوان پر نہیں کھایا جاتا۔
3794- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَيْتَ مَيْمُونَةَ، فَأُتِيَ بِضَبٍّ مَحْنُوذٍ فَأَهْوَى إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِيَدِهِ، فَقَالَ بَعْضُ النِّسْوَةِ اللاتِي فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ: أَخْبِرُوا النَّبِيَّ ﷺ بِمَا يُرِيدُ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهُ، فَقَالُوا: هُوَ ضَبٌّ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدَهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَحَرَامٌ هُوَ [يَارَسُولَ اللَّهِ]؟ قَالَ: < لا، وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ >، قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ، فَأَكَلْتُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَنْظُرُ۔
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۱۰ (۵۳۹۱)، ۱۴ (۵۴۰۰)، الذبائح ۳۳ (۵۵۳۷)، م/الذبائح ۷ (۱۹۴۶)، ن/الصید ۲۶ (۴۳۲۱)، ق/الصید ۱۶ (۳۲۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۸، ۸۹)، دی/الصید ۸ (۲۰۶۰) (صحیح)
۳۷۹۴- خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے تو آپ کی خدمت میں بھنا ہوا گوہ لایا گیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا تو میمو نہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں موجود بعض عورتوں نے کہا: نبی ﷺ کو اس چیز کی خبر کر دو جسے آپ کھانا چاہتے ہیں، تو لوگوں نے عرض کیا:(اللہ کے رسول!) یہ گوہ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا ۔
خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! کیا یہ حرام ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''نہیں لیکن میری قوم کی سر زمین میں نہیں پایا جاتا اس لئے مجھے اس سے گھن محسوس ہوتی ہے ''۔
( یہ سن کر ) میں اسے کھینچ کر کھانے لگا، رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔
3795- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ ثَابِتٍ بْنِ وَدِيعَةَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي جَيْشٍ، فَأَصَبْنَا ضِبَابًا، قَالَ: فَشَوَيْتُ مِنْهَا ضَبًّا، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَوَضَعْتُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ: فَأَخَذَ عُودًا فَعَدَّ بِهِ أَصَابِعَهُ، ثُمَّ قَالَ: < إِنَّ أُمَّةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسِخَتْ دَوَابَّ فِي الأَرْضِ، وَإِنِّي لاأَدْرِي أَيُّ الدَّوَابِّ هِيَ>، قَالَ: فَلَمْ يَأْكُلْ وَلَمْ يَنْهَ۔
* تخريج: ن/الصید ۲۶ (۴۳۲۵)، ق/الصید ۱۶ (۳۲۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۰)، دي/الصید ۸ (۲۰۵۹) (صحیح)
۳۷۹۵- ثابت بن ودیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک لشکر میں تھے کہ ہم نے کئی گوہ پکڑے، میں نے ان میں سے ایک کو بھونا اور اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے سامنے رکھا، آپ ﷺ نے ایک لکڑی لی اور اس سے اس کی انگلیاں شمار کیں پھر فرمایا: ''بنی اسرائیل کا ایک گروہ مسخ کر کے زمین میں چوپایا بنا دیا گیا لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ کون سا جانور ہے''، پھر آپ ﷺ نے نہ تو کھایا اور نہ ہی اس سے منع کیا۔
3796- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ زُرْعَةَ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي رَاشِدٍ الْحُبْرَانِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ أَكْلِ لَحْمِ الضَّبِّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۰۲) (حسن)
۳۷۹۶- عبدالر حمن بن شبل اوسی انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ضب : گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسمار بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لئے یا طلاء کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ ﷺ کے دسترخوان پر یہ کھایا گیا اس لئے حلال ہے۔
جس جانور کو نبی اکرمﷺ کے دسترخوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجد کے علاقہ میں پایا جانے والا جانور ہے ، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے، فرقہ زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے ، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے ۔
نجد کے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر( ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے :
- ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتا ہے ،اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈا زرعی اور پانی والے علاقوں میں عام طورپر پایا جاتا ہے۔
- نجدی ضب (گوہ ) پانی نہیں پیتا اور بلا کھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتا ہے،کبھی طویل صبرکے بعد اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے، جب کہ برصغیرکا گوہ پانی کے کناروں پرپایا جاتا ہے ، اور خوب پانی پیتا ہے ۔
- نجدی ضب ( گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے ، جلدشکارہوجاتا ہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ کاپکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے ۔
- نجدی ضب( گوہ) کے پنجے آدمی کی ہتھیلی کی طرح نرم ہوتے ہیں، جب کہ ہندوستانی گوہ کے پنجے اور اس کی دم نہایت سخت ہوتی ہیں، اور اس کے ناخن اس قدرسخت ہوتے ہیں کہ اگروہ کسی چیز کو پکڑلے تو اس سے اس کا چھڑانا نہایت دشوار ہوتا ہے ، ترقی یافتہ دورسے پہلے مشہورہے کہ چور اس کی دم کے ساتھ رسی باندھ کر اسے مکان کے پچھواڑے سے اوپرچڑھادیتے اور یہ جانور مکان کی منڈیرکے ساتھ جاکرمضبوطی سے چمٹ جاتا اور پنجے گاڑلیتا اور چور اس کی دم سے بندھی رسی کے ذریعہ اوپرچڑھ جاتے اور چوری کرتے ،جب کہ نجدی ضب (گوہ) کی دم اتنی قوت والی نہیں ہوتی ۔
- ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اور پھنکارتی ہے ، جب کہ نجدی ضب( گوہ) ایسانہیں کرتی ۔
- ہندوستانی گوہ ایک بدبودار جانورہے اور اس کے قریب سے نہایت ناگوار بدبوآتی ہے ،جب کہ نجدی ضب( گوہ) میں یہ نشانی نہیں پائی جاتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی گوہ گندگی کھاتی ہے ، اور کیڑے مکوڑے بھی ، نجدی ضب( گوہ) کیڑے مکوڑے اور خاص کر ٹڈی کھانے میں مشہور ہے ،لیکن صحراء میں گندگی کا عملاً وجودنہیں ہوتا اور اگرہوبھی تومعمولی اور کبھی کبھار ، صحراء میں پائی جانے والی بوٹیوں کوبھی وہ کھاتا ہے ۔
- نجدی ضب( گوہ) کی کھال کوپکاکرعرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے ، جس کو
'' ضبة'' کہتے ہیں اور ہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسااستعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے ۔
- نجدی ضب نامی جانور اپنے بنائے ہوئے پُرپیچ اور ٹیڑھے میڑھے بلوں (سوراخوں)میں اس طرح رہتا ہے کہ اس تک کوئی جانور نہیں پہنچ سکتا، اور اسی لیے حدیث شریف میں امت محمدیہ کے بارے میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں چلے جانے کی تعبیرموجود ہے ، اور یہ نبی اکرمﷺ کی کمال باریک بینی اور کمالِ بلاغت پر دال ہے ، امت محمدیہ سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طرح طرح کی گمراہیوں اور ضلالتوں کا شکار ہوگی ، حتی کہ اگرسابقہ امتیں اپنی گمراہی میں اس حدتک جاسکتی ہیں جس تک پہنچنامشکل بات ہے تو امت محمدیہ وہ کام بھی کرگزرے گی ، اسی کو نبی اکرمﷺ نے اس طرح بیان کیا کہ اگرسابقہ امت اپنی گمراہی میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں گھسی ہوگی تو امت محمدیہ کے لوگ بھی اس طرح کا ٹیڑھا میڑھا راستہ اختیارکریں گے اور یہ حدیث ضب (گوہ) کے مکان یعنی سوراخ کے پیچیدہ ہونے پر دلالت کررہی ہے ، اور صحراء نجدکے واقف کار خاص کرضب ( گوہ) کاشکارکرنے والے اس کو بخوبی جانتے ہیں ،اور ضب (گوہ) کو اس کے سوراخ سے نکالنے کے لیے پانی استعمال کرتے ہیں کہ پانی کے پہنچتے ہی وہ اپنے سوراخ سے باہرآجاتی ہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ پرائے گھروں یعنی مختلف سوراخوں اور بلوں اور پرانے درختوں میں موجودسوراخ میں رہتی ہے ۔
ضب اور ورل میں کیا فرق ہے؟
صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اور اس سے بڑا بالو، اور صحراء میں پائے جانے والے جانورکو ''وَرَل'' کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے : ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانورہے ، جوضب کی خلقت پر ہے ، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتا ہے ، بالواور صحراء میںپایاجاتا ہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانورہے ،جس کی دم لمبی اور سرچھوٹا ہوتا ہے ، ازہری کہتے ہیں: ''وَرَل''عمدہ قامت اور لمبی دم والاجانورہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے،بسااوقات اس کی دم دوہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے ، اور ضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے ،اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی ، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اور اس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکارکرنے اور اس کے کھانے کے حریص اور شوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری ، سخت اور گانٹھ والی ہوتی ہے ،دم کا رنگ سبززردی مائل ہوتا ہے ، اور خود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے ،اور موٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلاہوجاتا ہے ،اور یہ صرف ٹڈی ،چھوٹے کیڑے اور سبزگھاس کھاتی ہے ، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی ، اور ورل بچھو ، سانپ ، گرگٹ اور گوبریلاسب کھاتا ہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے ، تریاق ہے ، بہت تیز موٹاکرتا ہے ، اسی لیے عورتیں اس کواستعمال کرتی ہیں، اور اس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کوتیز کرتا ہے ، اور اس کی چربی کی مالش سے عضوتناسل موٹا ہوتا ہے (ملاحظہ ہو: تاج العروس : مادہ ورل ، و لسان العرب )
سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اور ورل اور ہندوستان پائے جانے والے جانورجس کو گوہ یا سانڈاکہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے،بایں ہمہ نجدی ضب( گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اور کراہت کی کوئی بات نہیں ، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت وحرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہئے ، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبواٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غورکرنے کی ہے ، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہوجائے تو اس کاکھانا منع ہے ، اس کو اصطلاح میں ''جلالہ''کہتے ہیں،تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہوگا، البتہ برصغیرکے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہوگا ۔
ضب اور ورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹرمحمداحمد المنیع پروفیسرکنگ سعود یونیورسٹی ، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں ، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوںلکھ کر دی :
نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتا ہے ، اور ''ورل ''نہیں کھایا جاتا ہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور ورل کا شکارمشکل کام ہے ،ضب گھاس کھاتا ہے ، اور ورل گوشت کھاتا ہے ،ضب چیرپھاڑکرنے والا جانور نہیں ہے ،جب کہ ورل چیرپھاڑکرنے والا جانور ہے ، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتا ہے ،ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے ،ضب کا سر چوڑا ہوتا ہے ، اور وَرل کا سر دم نما ہوتا ہے ، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے ،اور ورل کی گردن لمبی ہوتی ہے ، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے ،ضب کھُردرا اوکانٹے دارہوتا ہے ، اور ورل نرم ہوتا ہے ، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے ، اور ورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے ،اور دُم سے شکاربھی کرتا ہے ، ضب گوشت باکل نہیں کھاتا ، اور ورل ضب اور گرگٹ سب کھا جاتا ہے ، ضب تیز جانور ہے ،اور ورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجودہے ،وہ دانتوں سے کاٹتا ہے ،اور دم اور ہاتھ سے حملہ کرتا ہے ، ضب ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کاٹ کراور ہاتھوں سے نوچ کر یا دُم سے مارکرتا ہے ،اور وَرل بھی ایسا ہی کرتا ہے ،ضب میں کچلی دانت نہیں ہے ،اور وَرل میں کچلی دانت ہے ، ضب حلال ہے ، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ زہریلا جانورہے ۔
صحرائے عرب کا ضب ، وَرل اور ہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصدصرف یہ ہے کہ اس جانورکے بارے میں صحیح صورتِ حال سامنے آجائے ، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اور دوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بناپر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے ، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایساجانور ہے جس کو پانی سے عشق اور کیچڑسے محبت ہے اور جب یہ تالاب میں داخل ہوجائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے ، اگربھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کرکے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہئے ،اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پرغورکرنا چاہئے اور عاملین حدیث کے نقطہ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہئے ۔
گوہ کی کئی قسمیں ہیں اور ہوسکتا ہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشترک ہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفیدہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔
حکیم مظفر حسین اعوان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں: نیولے کے مانند ایک جنگلی جانور ہے ، دم سخت اور چھوٹی ، قد بلی کے برابرہوتا ہے ، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے ، رنگ زرد سیاہی مائل ، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم ...اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔(کتاب المفردات : ۴۲۷) ، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے ۔
گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں: مشہورجانور ہے ، جوگرگٹ یا گلہری کی مانندلیکن اس سے بڑاہوتا ہے ،اس کی چربی اور تیل دواء مستعمل ہے ، مزاج گرم وتر بدرجہ اوّل، افعال واستعمال بطورمقوی جاذب رطوبت ، معظم ذکر، اور مہیج باہ ہے (کتاب المفردات : صفحہ ۲۷۵)