- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
42- بَاب الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ
۴۲-باب: سفر میں صیام رکھنے کا بیان
2402- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ حَمْزَةَ الأَسْلَمِيَّ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَجُلٌ أَسْرُدُ الصَّوْمَ أَفَأَصُومُ فِي السَّفَرِ؟ قَالَ: < صُمْ إِنْ شِئْتَ، وَأَفْطِرْ إِنْ شِئْتَ >۔
* تخريج: م/الصیام ۱۷ (۱۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۵۷)، وقد أخرجہ: خ/الصوم ۳۳ (۱۹۴۲)، ت/الصوم ۱۹ (۷۱۱)، ن/الصیام ۳۱ (۲۳۰۸)، ۴۳ (۲۳۸۶)، ق/الصیام۱۰ (۱۶۶۲)، ط/الصیام ۷ (۳۴)، حم (۶/۴۶، ۹۳، ۲۰۲، ۲۰۷)، دي/الصوم ۱۵(۱۷۴۸) (صحیح)
۲۴۰۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول! میں مسلسل صیام رکھتا ہوں تو کیا سفر میں بھی صیام رکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' چاہو تو رکھو اور چاہو تو نہ رکھو''۔
2403- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ [الْمَدَنِيُّ] قَالَ: سَمِعْتُ حَمْزَةَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ الأَسْلَمِيَّ يَذْكُرُ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي صَاحِبُ ظَهْرٍ أُعَالِجُهُ: أُسَافِرُ عَلَيْهِ، وَأَكْرِيهِ، وَإِنَّهُ رُبَّمَا صَادَفَنِي هَذَا الشَّهْرُ -يَعْنِي رَمَضَانَ- وَأَنَا أَجِدُ الْقُوَّةَ، وَأَنَا شَابٌّ، وَأَجِدُ بِأَنْ أَصُومَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ أَنْ أُؤَخِّرَهُ فَيَكُونُ دَيْنًا، أَفَأَصُومُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَعْظَمُ لأَجْرِي أَوْ أُفْطِرُ؟ قَالَ: < أَيُّ ذَلِكَ شِئْتَ يَا حَمْزَةُ ؟! >۔
* تخريج: تفرد المؤلف بہذا السیاق، وانظر ماقبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۴۰) (ضعیف)
(اس کے رواۃ ''محمد بن حمزۃ''اور''محمدبن عبد المجید'' لین الحدیث ہیں)
۲۴۰۳- حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں سواریوں والا ہوں، انہیں لے جایا کرتا ہوں، ان پر سفر کرتا ہوں اور انہیں کرایہ پر بھی دیتا ہوں، اور بسا اوقات مجھے یہی مہینہ یعنی رمضان مل جاتا ہے اور میں جوان ہوں اپنے اندر صیام رکھنے کی طاقت پاتاہوں، میں یہ بھی سو چتا ہوں کہ صیام مؤخر کرنے سے آسان یہ ہے کہ اسے رکھ لیا جائے ، تاکہ بلاوجہ قرض نہ بنا رہے ،اللہ کے رسول! میرے لئے صیام رکھنے میں زیا دہ ثواب ہے یا چھوڑ دینے میں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''حمزہ! جیسا بھی تم چاہو''۔
2404- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ حَتَّى بَلَغَ عُسْفَانَ، ثُمَّ دَعَا بِإِنَائٍ فَرَفَعَهُ إِلَى فِيهِ لِيُرِيَهُ النَّاسَ، وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ، فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ: قَدْ صَامَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَفْطَرَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ۔
* تخريج: خ/الصوم ۳۸ (۱۹۴۸)، م/الصیام ۱۵ (۱۱۱۳)، ن/الصیام ۳۱ (۲۲۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۹)، وقد أخرجہ: ق/الصیام ۱۰(۱۶۶۱)، ط/الصیام ۷ (۲۱)، حم (۱/۲۴۴، ۳۵۰)، دي/الصوم ۱۵ (۱۷۴۹) (صحیح)
۲۴۰۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے یہاں تک کہ مقام عسفان پر پہنچے، پھر آپ ﷺ نے ( پا نی وغیر ہ کا) برتن منگایا اور اسے اپنے منہ سے لگایا تا کہ آپ اسے لوگوں کو دکھا دیں ( کہ میں صیام سے نہیں ہوں) اور یہ رمضان میں ہوا ، اسی لئے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے صیام بھی رکھا ہے اور افطار بھی کیا ہے ، تو جو چاہے صیام رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
2405- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي رَمَضَانَ، فَصَامَ بَعْضُنَا، وَأَفْطَرَ بَعْضُنَا، فَلَمْ يَعِبِ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ، وَلاالْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ۔
* تخريج: خ/الصوم ۳۷ (۱۹۴۷)، م/الصیام ۱۵ (۱۱۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۰)، وقد أخرجہ: ط/الصیام ۷ (۲۳) (صحیح)
۲۴۰۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رمضان میں سفر کیا تو ہم میں سے بعض لوگوں نے صیام رکھا اور بعض نے نہیں رکھا تو نہ تو صیام توڑنے والوں نے، صیام رکھنے والوں پرعیب لگایا، اور نہ صیام رکھنے والوں نے صیام توڑنے والوں پر عیب لگایا۔
2406- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَوَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، الْمَعْنَى قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ قَزَعَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ وَهُوَ يُفْتِي النَّاسَ وَهُمْ مُكِبُّونَ عَلَيْهِ، فَانْتَظَرْتُ خَلْوَتَهُ، فَلَمَّا خَلا سَأَلْتُهُ عَنْ صِيَامِ رَمَضَانَ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي رَمَضَانَ عَامَ الْفَتْحِ؛ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَصُومُ وَنَصُومُ، حَتَّى بَلَغَ مَنْزِلا مِنَ الْمَنَازِلِ فَقَالَ: < إِنَّكُمْ قَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ، وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ > فَأَصْبَحْنَا: مِنَّاالصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ، قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلا فَقَالَ: < إِنَّكُمْ تُصَبِّحُونَ عَدُوَّكُمْ وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ فَأَفْطِرُوا > فَكَانَتْ عَزِيمَةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ .
قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: ثُمَّ لَقَدْ رَأَيْتُنِي أَصُومُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ قَبْلَ ذَلِكَ وَبَعْدَ ذَلِكَ۔
* تخريج: م/الصیام ۱۶ (۱۱۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۸۳)، وقد أخرجہ: ن/الصیام ۳۱ (۲۳۱۱)، حم (۳/۳۵) (صحیح)
۲۴۰۶- قزعہ کہتے ہیں کہ میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ لوگوں کو فتوی دے رہے تھے، اور لوگ ان پر جھکے جا رہے تھے تو میں تنہائی میں ملا قات کی غرض سے انتظار کرتا رہا، جب وہ اکیلے رہ گئے تو میں نے سفر میں رمضان کے مہینے کے صیام کا حکم دریافت کیا، انہوں نے کہا: ہم فتح مکہ کے سال رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر پر نکلے، سفر میں اللہ کے رسول بھی صیام رکھتے تھے اور ہم بھی، یہاں تک کہ جب منزلیں طے کرتے ہوئے ایک پڑائو پر پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا:''اب تم دشمن کے بالکل قریب آگئے ہو، صیام چھوڑ دینا تمہیں زیادہ توانائی بخشے گا''، چنانچہ دوسرے دن ہم میں سے کچھ لوگوں نے صیام رکھا اور کچھ نے نہیں رکھا ، پھر ہمارا سفر جاری رہا پھر ہم نے ایک جگہ قیام کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' صبح تم دشمن کے پاس ہو گے اور صیام نہ رکھنا تمہارے لئے زیا دہ قوت بخش ہے ، لہٰذا صیام چھو ڑدو'' ، یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے تاکید تھی ۔
ابو سعید کہتے ہیں:پھر میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس سے پہلے بھی صیام رکھے اور اس کے بعد بھی۔