• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42- بَاب الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ
۴۲-باب: سفر میں صیام رکھنے کا بیان​


2402- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ حَمْزَةَ الأَسْلَمِيَّ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَجُلٌ أَسْرُدُ الصَّوْمَ أَفَأَصُومُ فِي السَّفَرِ؟ قَالَ: < صُمْ إِنْ شِئْتَ، وَأَفْطِرْ إِنْ شِئْتَ >۔
* تخريج: م/الصیام ۱۷ (۱۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۵۷)، وقد أخرجہ: خ/الصوم ۳۳ (۱۹۴۲)، ت/الصوم ۱۹ (۷۱۱)، ن/الصیام ۳۱ (۲۳۰۸)، ۴۳ (۲۳۸۶)، ق/الصیام۱۰ (۱۶۶۲)، ط/الصیام ۷ (۳۴)، حم (۶/۴۶، ۹۳، ۲۰۲، ۲۰۷)، دي/الصوم ۱۵(۱۷۴۸) (صحیح)
۲۴۰۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول! میں مسلسل صیام رکھتا ہوں تو کیا سفر میں بھی صیام رکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' چاہو تو رکھو اور چاہو تو نہ رکھو''۔


2403- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ [الْمَدَنِيُّ] قَالَ: سَمِعْتُ حَمْزَةَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ الأَسْلَمِيَّ يَذْكُرُ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي صَاحِبُ ظَهْرٍ أُعَالِجُهُ: أُسَافِرُ عَلَيْهِ، وَأَكْرِيهِ، وَإِنَّهُ رُبَّمَا صَادَفَنِي هَذَا الشَّهْرُ -يَعْنِي رَمَضَانَ- وَأَنَا أَجِدُ الْقُوَّةَ، وَأَنَا شَابٌّ، وَأَجِدُ بِأَنْ أَصُومَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ أَنْ أُؤَخِّرَهُ فَيَكُونُ دَيْنًا، أَفَأَصُومُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَعْظَمُ لأَجْرِي أَوْ أُفْطِرُ؟ قَالَ: < أَيُّ ذَلِكَ شِئْتَ يَا حَمْزَةُ ؟! >۔
* تخريج: تفرد المؤلف بہذا السیاق، وانظر ماقبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۴۰) (ضعیف)
(اس کے رواۃ ''محمد بن حمزۃ''اور''محمدبن عبد المجید'' لین الحدیث ہیں)
۲۴۰۳- حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں سواریوں والا ہوں، انہیں لے جایا کرتا ہوں، ان پر سفر کرتا ہوں اور انہیں کرایہ پر بھی دیتا ہوں، اور بسا اوقات مجھے یہی مہینہ یعنی رمضان مل جاتا ہے اور میں جوان ہوں اپنے اندر صیام رکھنے کی طاقت پاتاہوں، میں یہ بھی سو چتا ہوں کہ صیام مؤخر کرنے سے آسان یہ ہے کہ اسے رکھ لیا جائے ، تاکہ بلاوجہ قرض نہ بنا رہے ،اللہ کے رسول! میرے لئے صیام رکھنے میں زیا دہ ثواب ہے یا چھوڑ دینے میں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''حمزہ! جیسا بھی تم چاہو''۔


2404- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ حَتَّى بَلَغَ عُسْفَانَ، ثُمَّ دَعَا بِإِنَائٍ فَرَفَعَهُ إِلَى فِيهِ لِيُرِيَهُ النَّاسَ، وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ، فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ: قَدْ صَامَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَفْطَرَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ۔
* تخريج: خ/الصوم ۳۸ (۱۹۴۸)، م/الصیام ۱۵ (۱۱۱۳)، ن/الصیام ۳۱ (۲۲۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۹)، وقد أخرجہ: ق/الصیام ۱۰(۱۶۶۱)، ط/الصیام ۷ (۲۱)، حم (۱/۲۴۴، ۳۵۰)، دي/الصوم ۱۵ (۱۷۴۹) (صحیح)
۲۴۰۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے یہاں تک کہ مقام عسفان پر پہنچے، پھر آپ ﷺ نے ( پا نی وغیر ہ کا) برتن منگایا اور اسے اپنے منہ سے لگایا تا کہ آپ اسے لوگوں کو دکھا دیں ( کہ میں صیام سے نہیں ہوں) اور یہ رمضان میں ہوا ، اسی لئے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے صیام بھی رکھا ہے اور افطار بھی کیا ہے ، تو جو چاہے صیام رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔


2405- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي رَمَضَانَ، فَصَامَ بَعْضُنَا، وَأَفْطَرَ بَعْضُنَا، فَلَمْ يَعِبِ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ، وَلاالْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ۔
* تخريج: خ/الصوم ۳۷ (۱۹۴۷)، م/الصیام ۱۵ (۱۱۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۰)، وقد أخرجہ: ط/الصیام ۷ (۲۳) (صحیح)
۲۴۰۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رمضان میں سفر کیا تو ہم میں سے بعض لوگوں نے صیام رکھا اور بعض نے نہیں رکھا تو نہ تو صیام توڑنے والوں نے، صیام رکھنے والوں پرعیب لگایا، اور نہ صیام رکھنے والوں نے صیام توڑنے والوں پر عیب لگایا۔


2406- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَوَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، الْمَعْنَى قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ قَزَعَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ وَهُوَ يُفْتِي النَّاسَ وَهُمْ مُكِبُّونَ عَلَيْهِ، فَانْتَظَرْتُ خَلْوَتَهُ، فَلَمَّا خَلا سَأَلْتُهُ عَنْ صِيَامِ رَمَضَانَ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي رَمَضَانَ عَامَ الْفَتْحِ؛ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَصُومُ وَنَصُومُ، حَتَّى بَلَغَ مَنْزِلا مِنَ الْمَنَازِلِ فَقَالَ: < إِنَّكُمْ قَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ، وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ > فَأَصْبَحْنَا: مِنَّاالصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ، قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلا فَقَالَ: < إِنَّكُمْ تُصَبِّحُونَ عَدُوَّكُمْ وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ فَأَفْطِرُوا > فَكَانَتْ عَزِيمَةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ .
قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: ثُمَّ لَقَدْ رَأَيْتُنِي أَصُومُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ قَبْلَ ذَلِكَ وَبَعْدَ ذَلِكَ۔
* تخريج: م/الصیام ۱۶ (۱۱۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۸۳)، وقد أخرجہ: ن/الصیام ۳۱ (۲۳۱۱)، حم (۳/۳۵) (صحیح)
۲۴۰۶- قزعہ کہتے ہیں کہ میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ لوگوں کو فتوی دے رہے تھے، اور لوگ ان پر جھکے جا رہے تھے تو میں تنہائی میں ملا قات کی غرض سے انتظار کرتا رہا، جب وہ اکیلے رہ گئے تو میں نے سفر میں رمضان کے مہینے کے صیام کا حکم دریافت کیا، انہوں نے کہا: ہم فتح مکہ کے سال رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر پر نکلے، سفر میں اللہ کے رسول بھی صیام رکھتے تھے اور ہم بھی، یہاں تک کہ جب منزلیں طے کرتے ہوئے ایک پڑائو پر پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا:''اب تم دشمن کے بالکل قریب آگئے ہو، صیام چھوڑ دینا تمہیں زیادہ توانائی بخشے گا''، چنانچہ دوسرے دن ہم میں سے کچھ لوگوں نے صیام رکھا اور کچھ نے نہیں رکھا ، پھر ہمارا سفر جاری رہا پھر ہم نے ایک جگہ قیام کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' صبح تم دشمن کے پاس ہو گے اور صیام نہ رکھنا تمہارے لئے زیا دہ قوت بخش ہے ، لہٰذا صیام چھو ڑدو'' ، یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے تاکید تھی ۔
ابو سعید کہتے ہیں:پھر میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس سے پہلے بھی صیام رکھے اور اس کے بعد بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- بَاب اخْتِيَارِ الْفِطْرِ
۴۳-باب: سفر میں صیام نہ رکھنا بہتر ہے اس کے قائلین کی دلیل​


2407- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ -يَعْنِي ابْنَ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ- عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَسَنٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَأَى رَجُلا يُظَلَّلُ عَلَيْهِ وَالزِّحَامُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: < لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ >۔
* تخريج: خ/الصوم ۳۶ (۱۹۴۶)، م/الصیام ۱۵ (۱۱۱۵)، ن/الصیام ۲۷ (۲۲۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۹، ۳۱۷، ۳۱۹، ۳۵۲، ۳۹۹) (صحیح)
۲۴۰۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جس پر سایہ کیا جار رہا تھا اور اس پر بھیڑ لگی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' سفر میں صیام رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ''۔


2408- حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا أَبُو هِلالٍ الرَّاسِبِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ سَوَادَةَ الْقُشَيْرِيُّ، عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ -رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ إِخْوَةِ بَنِي قُشَيْرٍ- قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَانْتَهَيْتُ، أَوْ قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ يَأْكُلُ، فَقَالَ: < اجْلِسْ فَأَصِبْ مِنْ طَعَامِنَا هَذَا > فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: <اجْلِسْ أُحَدِّثْكَ عَنِ الصَّلاةِ وَعَنِ الصِّيَامِ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى وَضَعَ شَطْرَ الصَّلاةِ، أَوْ نِصْفَ الصَّلاةِ، وَالصَّوْمَ: عَنِ الْمُسَافِرِ، وَعَنِ الْمُرْضِعِ، أَوِالْحُبْلَى >، وَاللَّهِ لَقَدْ قَالَهُمَا جَمِيعًا أَوْ أَحَدَهُمَا، قَالَ: فَتَلَهَّفَتْ نَفْسِي أَنْ لا أَكُونَ أَكَلْتُ مِنْ طَعَامِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: ت/الصوم ۲۱ (۷۱۵)، ن/الصیام ۲۸ (۲۲۷۶)، ق/الصیام ۱۲ (۱۶۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۴۷، ۵/۲۹) (حسن صحیح)
۲۴۰۸- انس بن مالک ۱؎ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے( جو بنی قشیر کے برادران بنی عبداللہ بن کعب کے ایک فرد ہیں) وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے گھوڑ سوار دستے نے ہم پر حملہ کیا، میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس پہنچا، یا یوں کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف چلا، آپ کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا:'' بیٹھو، اور ہمارے کھانے میں سے کچھ کھاؤ''، میں نے کہا : میں صیام سے ہوں ،آپ ﷺ نے فرمایا:''اچھا بیٹھو، میں تمہیں صوم وصلاۃ کے بارے میں بتاتا ہوں: اللہ نے ( سفر میں) صلاۃ آدھی کردی ہے، اور مسافر، دودھ پلانے والی، اور حاملہ عورت کو صیام رکھنے کی رخصت دی ہے'' ،قسم اللہ کی! آپ ﷺ نے دونوں کا ذکر کیا یا ان دونوں میں سے کسی ایک کا ، مجھے رسول اللہ ﷺ کے کھانے میں سے نہ کھا پانے کا افسوس رہا ۔
وضاحت ۱؎ : یہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے خادم خاص کے علاوہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44- بَاب مَنِ اخْتَارَ الصِّيَامَ
۴۴-باب: سفر میں صیام رکھنا افضل ہے اس کے قائلین کی دلیل​


2409- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي بَعْضِ غَزَوَاتِهِ فِي حَرٍّ شَدِيدٍ حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، أَوْ كَفَّهُ عَلَى رَأْسِهِ، مِنْ شِدَّةِ الْحَرِّ، مَافِينَا صَائِمٌ، إِلا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ۔
* تخريج: خ/الصوم ۳۵(۱۹۴۵)، م/الصیام ۱۷(۱۱۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۷۸)، وقد أخرجہ: ق/الصیام ۱۰ (۱۶۶۳)، حم (۵/۱۹۴، ۶/۱۴۴) (صحیح)
۲۴۰۹- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمر اہ کسی غزوے میں نکلے، گرمی اس قدر شدید تھی کہ شدت کی وجہ سے ہم میں سے ہر شخص اپنا ہاتھ یا اپنی ہتھیلی اپنے سر پر رکھ لیتا، اس موقعے پر رسول اللہ ﷺ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی صیام سے نہ تھا۔


2410- حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ (ح) وَحَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الأَزْدِيُّ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ ابْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: سَمِعْتُ سِنَانَ بْنَ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ الْهُذَلِيِّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ كَانَتْ لَهُ حَمُولَةٌ تَأْوِي إِلَى شِبَعٍ فَلْيَصُمْ رَمَضَانَ حَيْثُ أَدْرَكَهُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۷۴، ۴۷۶، ۵/۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عبد الصمد''ضعیف ہیں)
۲۴۱۰- سلمہ بن محبق ہذلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس کے پاس منزل پر ایسی سواری ہو جو اسے ایسی جگہ پہنچا سکے جہاں اسے راحت وآسودگی ملے تو وہ جہاں بھی رمضان کا مہینہ پالے صیام رکھے''۔


2411- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ حَبِيبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ أَدْرَكَهُ رَمَضَانُ فِي السَّفَرِ > فَذَكَرَ مَعْنَاهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۶۱) (ضعیف)
۲۴۱۱- سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حالت سفر میں رمضان جسے پالے...''، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
45- بَاب مَتَى يُفْطِرُ الْمُسَافِرُ إِذَا خَرَجَ؟
۴۵-باب: مسافر سفر پر نکلے تو کتنی دور جا کر صیام توڑ سکتا ہے؟​


2412- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ (ح) وَحَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَحْيَى، الْمَعْنَى، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، وَزَادَ جَعْفَرٌ: وَاللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ أَنَّ كُلَيْبَ بْنَ ذُهْلٍ الْحَضْرَمِيَّ أَخْبَرَهُ، عَنْ عُبَيْدٍ [قَالَ جَعْفَرٌ]: ابْنُ جَبْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفِينَةٍ مِنَ الْفُسْطَاطِ فِي رَمَضَانَ، فَرُفِعَ، ثُمَّ قُرِّبَ غَدَاهُ، قَالَ جَعْفَرٌ فِي حَدِيثِهِ: فَلَمْ يُجَاوِزِ الْبُيُوتَ حَتَّى دَعَا بِالسُّفْرَةِ، قَالَ: اقْتَرِبْ، قُلْتُ: أَلَسْتَ تَرَى الْبُيُوتَ؟ قَالَ أَبُوبَصْرَةَ: أَتَرْغَبُ عَنْ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ قَالَ جَعْفَرٌ فِي حَدِيثِهِ: فَأَكَلَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۴۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۷، ۳۹۸) دي/الصوم ۱۷(۱۷۵۴) (صحیح)
۲۴۱۲- عبیدبن جبرکہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے صحابی ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ کے ہم راہ رمضان میں ایک کشتی میں تھا جوفسطاط شہر کی تھی، کشتی پر بیٹھے ہی تھے کہ صبح کا کھانا آگیا ،( جعفر کی روایت میں ہے کہ) شہر کے گھروں سے ابھی آ گے نہیں بڑھے تھے کہ انہوں نے دستر خوان منگوایا اور کہنے لگے: نزدیک آجائو ، میں نے کہا :کیا آپ ( شہر کے) گھروں کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ ( ابھی تو شہر بھی نہیں نکلا اور آپ کھانا کھا رہے ہیں) کہنے لگے: کیا تم رسول اللہ ﷺ کی سنت سے اعراض کرتے ہو؟ (جعفر کی روایت میں ہے) تو انہوں نے کھانا کھایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
46- بَاب قَدْرِ مَسِيرَةِ مَا يُفْطَرُ فِيهِ
۴۶-باب: کتنی دور کے سفر میں صیام نہ رکھا جائے​


2413- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ -يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ- عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ مَنْصُورٍ الْكَلْبِيِّ أَنَّ دِحْيَةَ بْنَ خَلِيفَةَ خَرَجَ مِنْ قَرْيَةٍ مِنْ دِمَشْقَ مَرَّةً إِلَى قَدْرِ قَرْيَةِ عُقْبَةَ مِنَ الْفُسْطَاطِ، وَذَلِكَ ثَلاثَةُ أَمْيَالٍ، فِي رَمَضَانَ، ثُمَّ إِنَّهُ أَفْطَرَ وَأَفْطَرَ مَعَهُ نَاسٌ، وَكَرِهَ آخَرُونَ أَنْ يُفْطِرُوا، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى قَرْيَتِهِ قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ الْيَوْمَ أَمْرًا مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَرَاهُ، إِنَّ قَوْمًا رَغِبُوا عَنْ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَصْحَابِهِ، يَقُولُ ذَلِكَ لِلَّذِينَ صَامُوا، ثُمَّ قَالَ عِنْدَ ذَلِكَ: اللَّهُمَّ اقْبِضْنِي إِلَيْكَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۹۸) (ضعیف)
(اس کے راوی ''منصورکلبی'' مجہول ہیں)
۲۴۱۳- منصور کلبی سے روایت ہے کہ دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ ایک بار رمضان میں دمشق کی کسی بستی سے اتنی دور نکلے جتنی دور فسطاط سے عقبہ بستی ہے اور وہ تین میل ہے، پھر انہوں نے اور ان کے ساتھ کے کچھ لوگوں نے تو صیام توڑ دیا لیکن کچھ دوسرے لوگوں نے صیام توڑنے کو ناپسند کیا، جب وہ اپنی بستی میں لوٹ کر آئے تو کہنے لگے : اللہ کی قسم آج میں نے ایسا منظر دیکھا جس کا میں نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا ، لوگوں نے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے طریقے سے اعراض کیا، یہ بات وہ ان لوگوں کے متعلق کہہ رہے تھے ، جنہوں نے سفر میں صیام رکھا تھا ، پھر انہوں نے اسی وقت دعا کی : اے اللہ! مجھے اپنی طرف اٹھا لے (یعنی اس پُر آشوب دور میں زندہ رہنے سے موت اچھی ہے)۔


2414- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَخْرُجُ إِلَى الْغَابَةِ فَلا يُفْطِرُ وَلا يَقْصِرُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ؟؟؟) (صحیح موقوف)
۲۴۱۴- نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما غابہ ۱؎ جاتے تو نہ توصیام توڑتے، اور نہ صلاۃ ہی قصر کرتے۔
وضاحت ۱؎ : غابہ ایک جگہ ہے جومدینہ سے تھوڑی دور کے فاصلہ پر شام کے راستے میں پڑتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
47- بَاب مَنْ يَقُولُ صُمْتُ رَمَضَانَ كُلَّهُ
۴۷-باب: یہ کہنا کہ میں نے پور ے رمضان کے صیام رکھے کیسا ہے؟​


2415- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الْمُهَلَّبِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ إِنِّي صُمْتُ رَمَضَانَ كُلَّهُ [وَ]قُمْتُهُ كُلَّهُ> فَلاأَدْرِي أَكَرِهَ التَّزْكِيَةَ أَوْ قَالَ لا بُدَّ مِنْ نَوْمَةٍ أَوْ رَقْدَةٍ۔
* تخريج: ن/الصیام ۴ (۲۱۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۰، ۴۱، ۴۸، ۵۲) (ضعیف)
(اس کے راوی''حسن بصری'' مدلس ہیں اورعنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
۲۴۱۵- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے پورے رمضان کے صیام رکھے، اور پو رے رمضان کا قیام کیا''۔
راوی حدیث کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ آپ ﷺ کی یہ ممانعت خود اپنے آپ کو پاکباز و عبادت گزار ظاہر کرنے کی ممانعت کی بنا پر تھی ، یا اس وجہ سے تھی کہ وہ لازمی طور پر کچھ نہ کچھ سویا ضرور ہوگا( اس طرح یہ غلط بیانی ہوجائے گی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
48- بَاب فِي صَوْمِ الْعِيدَيْنِ
۴۸-باب: عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کے دن صیام کا بیان​


2416- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَهَذَا حَدِيثُهُ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ: شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ فَبَدَأَ بِالصَّلاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ: أَمَّا يَوْمُ الأَضْحَى فَتَأْكُلُونَ مِنْ [لَحْمِ] نُسُكِكُمْ وَأَمَّا يَوْمُ الْفِطْرِ فَفِطْرُكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ ۔
* تخريج: خ/الصوم ۶۶ (۱۹۹۰)، الأضاحی ۱۶ (۵۵۷۱)، م/الصیام ۲۲ (۱۱۳۷)، ت/الصوم ۵۸ (۷۷۱)، ق/الصیام ۳۶ (۱۷۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۶۳)، وقد أخرجہ: ط/العیدین ۲ (۵)، حم (۱/۲۴، ۳۴، ۴۰) (صحیح)
۲۴۱۶- ابو عبید کہتے ہیں کہ میں عمررضی اللہ عنہ کے ساتھ عید میں حاضرہوا، انہوں نے خطبے سے پہلے صلاۃ پڑھائی پھر انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں دنوں میں صیام رکھنے سے منع فرمایا ہے: عید الاضحی کے صیام سے تو اس لئے کہ تم اس میں اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو، اور عید الفطر کے صیام سے اس لئے کہ تم اپنے صیام سے فارغ ہوتے ہو ۔


2417- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ صِيَامِ يَوْمَيْنِ: يَوْمِ الْفِطْرِ، وَيَوْمِ الأَضْحَى، وَعَنْ لِبْسَتَيْنِ: الصَّمَّاءِ، وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، وَعَنِ الصَّلاةِ فِي سَاعَتَيْنِ: بَعْدَ الصُّبْحِ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ۔
* تخريج: خ/الجمعۃ ۶ (۸۸۴)، وجزاء الصید ۲۶ (۱۸۶۴)، والصوم ۶۸ (۱۹۹۶)،م/الصوم۲۲ (۸۲۷)، ت/الصوم ۵۸ (۷۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۰۴)، وقد أخرجہ: ق/الصیام ۳۶ (۱۷۲۲)، حم (۳/۳۴، ۹۶)، دي/الصوم ۴۳ (۱۷۹۴) (صحیح)
۲۴۱۷- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دنوں کے صیام سے منع فرمایا: ایک عیدالفطر کے دوسرے عیدالا ٔضحی کے ، اسی طرح دو لباسوں سے منع فرمایا ایک صمّاء ۱؎ دوسرے ایک کپڑے میں احتباء ۲؎ کرنے سے (جس سے ستر کھلنے کا اندیشہ رہتا ہے) نیز دو وقتوں میں صلاۃ پڑھنے سے منع فرمایا: ایک فجر کے بعد، دوسرے عصر کے بعد۔
وضاحت ۱؎ : صمّائ : صمّاء کی صورت یہ ہے کہ آدمی پورے جسم پر کپڑا لپیٹ لے جس میں کوئی ایسا شگاف نہ ہو کہ ہاتھ باہر نکال سکے اور اپنے ہاتھ سے کوئی موذی چیز دفع کرسکے۔
وضاحت ۲؎ : احتباء : کی صورت یہ ہے کہ دونوں پاؤں کھڑا رکھے ، انہیں پیٹ سے ملائے رکھے، اوردونوں سرین پر بیٹھے اور کپڑے سے دونوں پاؤں اور پیٹ باندھ لے یا ہاتھوں سے حلقہ دے لے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
49- بَاب صِيَامِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ
۴۹-باب: ایام تشریق (۱۱،۱۲،۱۳ذی الحجہ) کے صیام کا بیان​


2418- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَلَى أَبِيهِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقَرَّبَ إِلَيْهِمَا طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ عَمْرٌو: كُلْ فَهَذِهِ الأَيَّامُ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَأْمُرُنَا بِإِفْطَارِهَا وَيَنْهَانَا عَنْ صِيَامِهَا، قَالَ مَالِكٌ: وَهِيَ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۵۱)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۴۴(۱۳۷)، حم (۴/۱۹۷)، دي/الصوم ۴۸ (۱۸۰۸) (صحیح)
۲۴۱۸- ام ہانی رضی اللہ عنہا کے غلام ابو مرہ سے روایت ہے کہ وہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے ہم راہ ان کے والد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے دونوں کے لئے کھانا پیش کیا اور کہا کہ کھائو، توعبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا: ''میں تو صیام سے ہوں''، اس پر عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا : کھائو کیونکہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ان دنوں میں صیام توڑ دینے کا حکم فرماتے اور صیام رکھنے سے منع فرماتے تھے ۔
مالک کا بیان ہے کہ یہ ایام تشریق کی بات ہے۔


2419- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ (ح) وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيٍّ، وَالإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ وَهْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الإِسْلامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ >۔
* تخريج: ت/الصوم ۵۹ (۷۷۳)، ن/المناسک ۱۹۵ (۳۰۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۵۲)، دي/الصوم ۴۷ (۱۸۰۵) (صحیح)
۲۴۱۹- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یو م عرفہ یوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید ہے ،اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
50- بَاب النَّهْيِ أَنْ يُخَصَّ يَوْمُ الْجُمُعَةِ بِصَوْمٍ
۵۰-باب: جمعہ کے دن کو صیام کے لئے خا ص کرنا منع ہے​


2420- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَصُمْ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِلا أَنْ يَصُومَ قَبْلَهُ بِيَوْمٍ أَوْ بَعْدَهُ >۔
* تخريج: م/الصیام ۲۴ (۱۱۴۴)، ت/الصوم ۴۲ (۷۴۳)، ق/الصیام ۳۷ (۱۷۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۳)، وقد أخرجہ: خ/الصوم ۶۳(۱۹۸۵)، حم (۲/۴۵۸) (صحیح)
۲۴۲۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں کوئی جمعہ کو صیام نہ رکھے سوائے اس کے کہ ایک دن پہلے یا بعد کو ملا کر رکھے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
51- بَاب النَّهْيِ أَنْ يُخَصَّ يَوْمُ السَّبْتِ بِصَوْمٍ
۵۱-باب: سنیچر کے دن کو صیام کے لئے خاص کرنا منع ہے​


2421- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ (ح) وَحَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ قُبَيْسٍ مِنْ أَهْلِ جَبَلَةَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، جَمِيعًا عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُسْرٍ السُّلَمِيِّ، عَنْ أُخْتِهِ، وَقَالَ يَزِيدُ (الصَّمَّاءِ) أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: <لاتَصُومُوا يَوْمَ السَّبْتِ إِلا فِي مَاافْتُرِضَ عَلَيْكُمْ، وَإِنْ لَمْ يَجِدْ أَحَدُكُمْ إِلا لِحَاءَ عِنَبَةٍ أَوْ عُودَ شَجَرَةٍ فَلْيَمْضَغْهُ >.
قَالَ أَبودَاود: وَهَذَا حَدِيثٌ مَنْسُوخٌ۔
* تخريج: ت/الصوم ۴۳ (۷۴۴)، ق/الصیام ۳۸ (۱۷۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۱۰، ۱۸۹۶۴، ۱۹۲۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۶۸)، دي/الصوم ۴۰ (۱۷۹۰) (صحیح)
۲۴۲۱- عبداللہ بن بسرسلمی مازنی رضی اللہ عنہما اپنی بہن مّاء رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''فرض صیام کے علاوہ کوئی صیام سنیچر کے دن نہ رکھو اگر تم میں سے کسی کو (اس دن کا نفلی صیام توڑنے کے لئے) کچھ نہ ملے تو انگور کا چھلکہ یا درخت کی لکڑی ہی چبا لے''۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ منسوخ حدیث ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے، اور اس میں کراہت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی سنیچر کو صیام کے لئے مخصوص کردے، کیونکہ یہود اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، اس تأویل کی صورت میں امام ابو داود کا اسے منسوخ کہنا درست نہیں ہے، اور کسی صورت میں اس حدیث میں اور اگلے باب کی حدیث ( اور اس دن کے صیام نبوی کی احادیث) میں کوئی تعارض نہیں باقی رہ جاتا، کہ صیام رکھنے کی صورت میں اس دن کو مخصوص نہیں کیا گیا، ( ملاحظہ ہو: تہذیب السنن لابن القیم ۳؍ ۲۹۷- ۳۰۱، و زاد المعاد۱؍۲۳۷- ۲۳۸، وصحیح ابی داود ۷؍۱۸۰)
 
Top