• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : النَّهْيُ عَنْ مُنَاجَاةِ الاثْنَيْنِ دُوْنَ الثَّالِثِ
تین آدمیوں میں سے دو آدمیوں کی الگ اور آہستہ بات چیت کی ممانعت


(1430) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا كُنْتُمْ ثَلاَثَةً فَلاَ يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الآخَرِ حَتَّى تَخْتَلِطُوا بِالنَّاسِ مِنْ أَجْلِ أَنْ يُحْزِنَهُ


سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم تین آدمی ہو تو تم میں سے دو تیسرے شخص کو الگ کر کے آہستہ سے بات نہ کریں، یہاں تک کہ تم سے اور لوگ بھی ملیں۔ اس لیے کہ اس (تیسرے شخص کو) رنج ہو گا۔‘‘ (وہ کہے گا کہ میں اتنا بے کار آدمی ہوں کہ مجھے بات میں شامل نہ کیا گیا)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلسَّلاَمُ عَلَى الْغِلْمَانِ
بچوں کو سلام (کرنا)


(1431) عَنْ سَيَّارٍ قَالَ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ فَمَرَّ بِصِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ وَ حَدَّثَ ثَابِتٌ أَنَّهُ كَانَ يَمْشِي مَعَ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَرَّ بِصِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ وَ حَدَّثَ أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَمَرَّ بِصِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ


سیار کہتے ہیں کہ میں ثابت بنانی کے ساتھ جا رہا تھا ، وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور حدیث بیان کی کہ وہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہے تھے ،بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، بچوںکے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : لاَ تَبْدَؤُوا الْيَهُوْدَ وَالنَّصَارَى بِالسَّلاَمِ
تم یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو


(1432) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ تَبْدَئُوا الْيَهُودَ وَ لاَ النَّصَارَى بِالسَّلاَمِ فَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي طَرِيقٍ فَاضْطَرُّوهُ إِلَى أَضْيَقِهِ

سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل مت کرو اور جب تم کسی یہودی یا نصرانی سے راستے میں ملو تو اس کو تنگ راہ کی طرف (چلنے پر) مجبور کر دو۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ : الرَّدُ عَلَى أَهْلِ الْكِتَابِ
اہل کتاب کے سلام کا جواب


(1433) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سَلَّمَ نَاسٌ مِنْ يَهُودَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوا السَّامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ وَ عَلَيْكُمْ فَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَ غَضِبَتْ أَ لَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا ؟ قَالَ بَلَى قَدْ سَمِعْتُ فَرَدَدْتُ عَلَيْهِمْ وَ إِنَّا نُجَابُ عَلَيْهِمْ وَ لاَ يُجَابُونَ عَلَيْنَا


سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ یہود کے چند لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ،توکہا کہ السام علیکم یااباالقاسم! (یعنی اے ابو القاسم تم پر موت ہو)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وعلیکم۔‘‘ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا غصے ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سناکہ انہوں نے کیا کہا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں نے سنا اور اس کاجواب بھی دیا اور ہم ان پر جو دعا کرتے ہیں وہ قبول ہوتی ہے اور ان کی دعا قبول نہیں ہوتی۔‘‘ (ایسا ہی ہوا کہ الٹی موت یہود پر پڑی وہ مرے اور مارے گئے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَنْعُ النِّسَائِ أَنْ يَخْرُجْنَ بَعْدَ نُزُوْلِ الْحِجَابِ
پردے کا حکم آجانے کے بعد عورتوں کے (کھلے منہ) نکلنے کی ممانعت


(1434) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ أَزْوَاجَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كُنَّ يَخْرُجْنَ بِاللَّيْلِ إِذَا تَبَرَّزْنَ إِلَى الْمَنَاصِعِ وَ هُوَ صَعِيدٌ أَفْيَحُ وَ كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم احْجُبْ نِسَائَكَ فَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَفْعَلُ فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي عِشَائً وَ كَانَتِ امْرَأَةً طَوِيلَةً فَنَادَاهَا عُمَرُ أَلآ قَدْ عَرَفْنَاكِ يَا سَوْدَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حِرْصًا عَلَى أَنْ يُنْزَلَ الْحِجَابُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ الْحِجَابَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رات کو حاجت کے لیے ان مقامات کی طرف جاتیں ،جو مدینہ کے باہر تھے اور وہ صاف اور کھلی جگہ میں تھے۔ (یعنی قضاء حاجت کے لیے) اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ اپنی عورتوں کو پردہ میں رکھیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ کا حکم نہ دیتے۔ ایک دفعہ ام المومنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنھا رات کو عشاء کے وقت نکلیں اور وہ دراز قدعورت تھیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ا ن کو آواز دی اور کہا کہ اے سودہ بنت زمعہ! ہم نے تمہیں پہچان لیا اور یہ اس لیے کیا کہ پردہ کاحکم اترے۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے کہا پھر اﷲ تعالیٰ نے پردے کاحکم نازل فرما دیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ : اَلإِذْنُ لِلنِّسَائِ فِي الْخُرُوْجِ لِحَاجَتِهِنَّ
عورتوں کو اپنی ضروریات کے لیے باہر نکلنے کی اجازت


(1435) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ خَرَجَتْ سَوْدَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بَعْدَ مَا ضُرِبَ عَلَيْهَا الْحِجَابُ لِتَقْضِيَ حَاجَتَهَا وَ كَانَتِ امْرَأَةً جَسِيمَةً تَفْرَعُ النِّسَائَ جِسْمًا لاَ تَخْفَى عَلَى مَنْ يَعْرِفُهَا فَرَآهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا سَوْدَةُ وَ اللَّهِ مَا تَخْفَيْنَ عَلَيْنَا فَانْظُرِي كَيْفَ تَخْرُجِينَ قَالَتْ فَانْكَفَأَتْ رَاجِعَةً وَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي بَيْتِي وَ إِنَّهُ لَيَتَعَشَّى وَ فِي يَدِهِ عَرْقٌ فَدَخَلَتْ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنِّي خَرَجْتُ فَقَالَ لِي عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَذَا وَ كَذَا قَالَتْ فَأُوحِيَ إِلَيْهِ ثُمَّ رُفِعَ عَنْهُ وَ إِنَّ الْعَرْقَ فِي يَدِهِ مَا وَضَعَهُ فَقَالَ إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ


ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ جب ہ میں پردے کا حکم ہوا، اس کے بعد سودہ رضی اللہ عنھا حاجت کونکلیں اور وہ ایک موٹی عورت تھیں، جو سب عورتوں سے موٹاپے میں نکلی رہتیں اور جو کوئی ان کو پہچانتا تھا، اس سے چھپ نہ سکتیں تھیں (یعنی وہ پہچان لیتا)، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھااور کہا کہ اے سودہ ! اللہ کی قسم! تم اپنے آپ کو ہم سے چھپا نہیں سکتیں، اس لیے سمجھو کہ تم کیسے نکلتی ہو؟ یہ سن کر وہ لوٹ کر آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں رات کاکھانا کھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی، اتنے میں سودہ رضی اللہ عنھا آئیں اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں نکلی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایسے ایسے کہا۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی حالت ہوئی ،پھر وہ حالت جاتی رہی اور ہڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ہی میں تھی ،آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رکھا نہ تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہیں حاجت کے لیے نکلنے کی اجازت ملی ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : جَعْلُ الْمَرْأَةِ ذَاتِ الْمَحْرَمِ مِنْ خَلْفِهِ
محرم عورت کو اپنے پیچھے بٹھانا


(1436) عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَتْ تَزَوَّجَنِي الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ مَا لَهُ فِي الأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَ لاَ مَمْلُوكٍ وَ لاَ شَيْئٍ غَيْرَ فَرَسِهِ قَالَتْ فَكُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ وَ أَكْفِيهِ مَئُونَتَهُ وَ أَسُوسُهُ وَ أَدُقُّ النَّوَى لِنَاضِحِهِ وَ أَعْلِفُهُ وَ أَسْتَقِي الْمَائَ وَ أَخْرُزُ غَرْبَهُ وَ أَعْجِنُ وَ لَمْ أَكُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ وَ كَانَ يَخْبِزُ لِي جَارَاتٌ مِنَ الأَنْصَارِ وَ كُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ قَالَتْ وَ كُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَى مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِي أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم عَلَى رَأْسِي وَ هِيَ عَلَى ثُلُثَيْ فَرْسَخٍ قَالَتْ فَجِئْتُ يَوْمًا وَ النَّوَى عَلَى رَأْسِي فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ مَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَدَعَانِي ثُمَّ قَالَ إِخْ إِخْ لِيَحْمِلَنِي خَلْفَهُ قَالَتْ فَاسْتَحْيَيْتُ وَ عَرَفْتُ غَيْرَتَكَ فَقَالَ وَاللَّهِ لَحَمْلُكِ النَّوَى عَلَى رَأْسِكِ أَشَدُّ مِنْ رُكُوبِكِ مَعَهُ قَالَتْ حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِخَادِمٍ فَكَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَتْنِي

سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما کہتی ہیں کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے مجھ سے نکاح کیا ( جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے) اور ان کے پاس کچھ مال نہ تھا اور نہ کوئی غلام تھا اور نہ کچھ اور سوائے ایک گھوڑے کے۔ میں ہی ان کے گھوڑے کو چراتی اور سارا کام گھوڑے کا اور سدھائی بھی کرتی اور ان کے اونٹ کے لیے گٹھلیاں بھی کوٹتی اور اس کو چراتی بھی اور اس کو پانی بھی پلاتی اور ڈول بھی سی دیتی اور آٹا بھی گوندھتی لیکن میں روٹی اچھی طرح نہ پکا سکتی تھی، تو ہمسایہ کی انصاری عورتیں میری روٹیاںپکا دیتیں اوروہ بہت محبت کرنے والی عورتیں تھیں۔ اسماء رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں زبیر رضی اللہ عنہ کی اس زمین سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوجاگیر کے طور پر دی تھی، اپنے سر پر گٹھلیاں لایا کرتی تھی اور وہ جاگیر مدینہ سے دو میل دور تھی۔( ایک میل چھ ہزار ہاتھ کا ہوتا ہے اور ہاتھ چوبیس انگلی کا اور انگلی چھ جو کی اور فرسخ تین میل کا) ایک دن میں وہیں سے گٹھلیاں لا رہی تھی کہ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، پھر اونٹ کے بٹھانے کو اخ اخ بولا تاکہ مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیں۔ مجھے شرم آئی اور غیرت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! گٹھلیوں کا بوجھ سر پر اٹھانا میرے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے۔‘‘ (یعنی ایسے بوجھ کو تو گواراکرتی ہے اور میرے ساتھ بیٹھ کیوں نہیں جاتی؟) سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے کہا کہ بعد میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک خادمہ دے دی، وہ گھوڑے کا سارا کام کرنے لگی ،گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : إِذَا مُرَّ بِرَجُلٍ وَ مَعَهُ امْرَأَةٌ فَلْيَقُلْ: إِنَّهَا فُلاَنَةٌ
جب کوئی اپنی بیوی کے ساتھ جا رہا ہو اور کوئی شخص راستہ میں مل جائے ،تو یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ فلاں (میری بیوی) ہے


(1437) عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلاً فَحَدَّثْتُهُ ثُمَّ قُمْتُ لِأَنْقَلِبَ فَقَامَ مَعِيَ لِيَقْلِبَنِي وَ كَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَمَرَّ رَجُلاَنِ مِنَ الأَنْصَارِ فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم أَسْرَعَا فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالاَ سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ وَ إِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَرًّا أَوْ قَالَ شَيْئًا


ام المومنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے ، میں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو آئی ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کیں ،پھر میں لوٹ جانے کو کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے پہنچا دینے کو میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور میرا گھر اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کے مکان میں تھا۔ راستے میں انصار کے دو آدمی ملے۔ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ جلدی جلدی چلنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ٹھہرو! یہ صفیہ بنت حیی ہے۔‘‘ وہ دونوں بولے کہ سبحان اللہ! یارسول اللہ! (یعنی ہم بھلا آپ پر کوئی بدگمانی کر سکتے ہیں؟) آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح دوڑتا پھرتا ہے اور میں ڈرا کہ کہیں تمہارے دل میں برا خیال نہ ڈالے (اور اس کی وجہ سے تم تباہ ہو)۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : نَهْيُ الرَّجُلِ عَنِ الْمَبِيْتِ عِنْدَ امْرَأَةٍ غَيْرِ ذَاتِ مَحْرَمٍ
آدمی کو غیر محرم عورت کے ساتھ رات گزارنے کی ممانعت


(1438) عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَلآ لاَ يَبِيتَنَّ رَجُلٌ عِنْدَ امْرَأَةٍ ثَيِّبٍ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ نَاكِحًا أَوْ ذَا مَحْرَمٍ


سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ خبردار رہو کہ کوئی مرد کسی شادی شدہ عورت کے پاس رات کو نہ رہے مگر یہ کہ اس عورت کا خاوند ہو یا اس کا محرم ہو۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1439) عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَائِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ ؟ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ قَالَ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ : الْحَمْوُ: أَخُوْ الزَّوْجِ وَ مَا أَشْبَهَهُ مِنْ اَقَارِبِ الزَّوْجِ ابْنِ الْعَمِّ وَ نَحْوِهِ

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔‘‘ ایک انصاری شخص بولا کہ یارسول اللہ! دیور کے متعلق کیا خیال ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیور تو موت ہے۔‘‘ (یعنی اصل خطرہ تو دیور سے ہے)۔ سیدنا لیث بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ دیور موت ہے، تو دیور سے مراد خاوند کے عزیز اور اقربا ہیں جیسے خاوند کا بھائی یا اس کے چچا کا بیٹا (خاوند کے جن عزیزوں سے عورت کا نکاح کرنا درست ہے ، وہ سب دیوروں میں داخل ہیں، ان سے پردہ کرنا چاہیے سوائے خاوند کے باپ یا داد ا یا اس کے بیٹے کے کہ وہ محرم ہیں اور ان سے پردہ نہیں)ـ۔
 
Top