• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : التَّدَاوِيْ بِالْحِجَامَةِ وَ الكَيِّ
پچھنے لگوانے اور داغنے کے ساتھ علاج کرنا


(1480) عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ قَالَ جَائَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي أَهْلِنَا وَ رَجُلٌ يَشْتَكِي خُرَاجًا بِهِ أَوْ جِرَاحًا فَقَالَ مَا تَشْتَكِي ؟ قَالَ خُرَاجٌ بِي قَدْ شَقَّ عَلَيَّ فَقَالَ يَا غُلاَمُ ائْتِنِي بِحَجَّامٍ فَقَالَ لَهُ مَا تَصْنَعُ بِالْحَجَّامِ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ! قَالَ أُرِيدُ أَنْ أُعَلِّقَ فِيهِ مِحْجَمًا قَالَ وَاللَّهِ إِنَّ الذُّبَابَ لَيُصِيبُنِي أَوْ يُصِيبُنِي الثَّوْبُ فَيُؤْذِينِي وَ يَشُقُّ عَلَيَّ فَلَمَّا رَأَى تَبَرُّمَهُ مِنْ ذَلِكَ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ إِنْ كَانَ فِي شَيْئٍ مِنْ أَدْوِيَتِكُمْ خَيْرٌ فَفِي شَرْطَةِ مِحْجَمٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ عَسَلٍ أَوْ لَذْعَةٍ بِنَارٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ مَا أُحِبُّ أَنْ أَكْتَوِيَ قَالَ فَجَائَ بِحَجَّامٍ فَشَرَطَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ


عاصم بن عمر بن قتادہ کہتے ہیں کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما ہمارے گھر میں آئے اور ایک شخص کو زخم کی تکلیف تھی (یعنی پھوڑا ہو گیا تھا) ۔ سیدناجابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تجھے کیا تکلیف ہے؟ وہ بولا کہ ایک پھوڑا ہوگیا ہے جو کہ مجھ پر نہایت سخت ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے غلام! ایک پچھنے لگانے والے کو لے کر آ۔ وہ بولا کہ پچھنے لگانے والے کا کیا کام ہے؟ سیدناجابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس زخم پر پچھنے لگوانا چاہتا ہوں، وہ بولا کہ اللہ کی قسم! مجھے مکھیاں ستائیں گی اور کپڑا لگے گا تو مجھے تکلیف ہو گی اور مجھ پر بہت سخت (وقت) گزرے گا۔ جب سیدناجابر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس کو پچھنے لگانے سے رنج ہوتا ہے تو کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’ اگر تمہاری دواؤں میں بہتر کوئی دوا ہے تو تین ہی دوائیںہیں ،ایک تو پچھنا ،دوسرے شہد کا ایک گھونٹ اور تیسرے انگارے سے جلانا۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں داغ لینا بہتر نہیں جانتا۔‘‘ راوی نے کہا کہ پھر پچھنے لگانے والا آیا اور اس نے اس کو پچھنے لگائے اور اس کی بیماری جاتی رہی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1481) عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا اسْتَأْذَنَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي الْحِجَامَةِ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم أَبَا طَيْبَةَ أَنْ يَحْجُمَهَا قَالَ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ كَانَ أَخَاهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ أَوْ غُلاَمًا لَمْ يَحْتَلِمْ

سیدناجابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنے لگوانے کی اجازت چاہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطیبہ کو ان کے پچھنے لگانے کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ ابوطیبہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے رضاعی بھائی تھے یا نابالغ لڑکے تھے (جن سے پردہ ضروری نہیں اور ضرورت کے وقت دوا کے لیے اگر عورت یا لڑکا نہ ملے تو اجنبی شخص بھی لگا سکتا ہے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلتَّدَاوِي بِقَطْعِ الْعِرقِ وَ الْكَيِّ
رگ کاٹنے اور داغنے سے علاج




(1482) عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ طَبِيبًا فَقَطَعَ مِنْهُ عِرْقًا ثُمَّ كَوَاهُ عَلَيْهِ



سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس حکیم کو بھیجا ، اس نے ایک رگ کاٹی پھر اس پر داغ دیا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ : اَلتَّدَاوِي لِلْجِرَاحِ بِالكَيِّ
زخم کا علاج داغ دینے سے


(1483) عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رُمِيَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي أَكْحَلِهِ قَالَ فَحَسَمَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِيَدِهِ بِمِشْقَصٍ ثُمَّ وَ رِمَتْ فَحَسَمَهُ الثَّانِيَةَ


سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اکحل (ایک رگ ہے) میں تیر لگا ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے ہاتھ سے تیر کے پھل سے داغ دیا، ان کے (زخم پر پھر) سوزش ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ داغ دیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلتَّدَاوِي بِالْخَمْرِ
شراب کے ساتھ علاج (جائز نہیں)


فيهِ حَدِيْثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ قَدْ تَقَدَّمَ فِيْ كِتَابِ الأَشْرِبَةِ

اس باب کے بارے میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کتاب الاشربہ میں گزر چکی ہے (دیکھیے حدیث: ۱۲۷۹)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ الطَّاعُوْنِ
طاعون کے بیان میں


بَابٌ : فِيْ الطَّاعُوْنِ وَ أَنَّهُ رِجْزٌ فَلاَ تَدْخُلُوْا عَلَيْهِ وَ لاَ تَخْرُجُوْا فِرَارًا مِنْهُ

طاعون کے بارے میں اور یہ کہ یہ ایک عذاب ہے، اس لیے نہ تو اس (طاعون زدہ بستی) میں داخل ہو اور نہ اس (طاعون زدہ بستی) سے بھاگو
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604


(1484) عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهُ قَالَ إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ أَوِ السَّقَمَ رِجْزٌ عُذِّبَ بِهِ بَعْضُ الأُمَمِ قَبْلَكُمْ ثُمَّ بَقِيَ بَعْدُ بِالأَرْضِ فَيَذْهَبُ الْمَرَّةَ وَ يَأْتِي الأُخْرَى فَمَنْ سَمِعَ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ يَقْدَمَنَّ عَلَيْهِ وَ مَنْ وَقَعَ بِأَرْضٍ وَ هُوَ بِهَا فَلاَ يُخْرِجَنَّهُ الْفِرَارُ مِنْهُ


سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ بیماری (طاعون ایک) عذاب ہے جو تم سے پہلے ایک امت کو ہوا تھا۔پھر وہ زمین میں باقی رہ گیا۔ کبھی چلا جاتا ہے، کبھی پھر آتا ہے۔ لہٰذا جو کوئی کسی ملک میں سنے کہ وہاں طاعون ہے، تو وہ وہاں نہ جائے اور جب اس کے ملک میں طاعون نمودار ہو تو وہاں سے بھاگے بھی نہیں۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1485) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ إِلَى الشَّامِ حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أَهْلُ الأَجْنَادِ أَبُو عُبَيْدَةَ ابْنُ الْجَرَّاحِ وَ أَصْحَابُهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الْوَبَائَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ادْعُ لِيَ الْمُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ فَدَعَوْتُهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ وَ أَخْبَرَهُمْ أَنَّ الْوَبَائَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ فَاخْتَلَفُوا فَقَالَ بَعْضُهُمْ قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ وَ لاَ نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ وَ قَالَ بَعْضُهُمْ مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم وَ لاَ نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَائِ فَقَالَ ارْتَفِعُوا عَنِّي ثُمَّ قَالَ ادْعُ لِيَ الأَنْصَارَ فَدَعَوْتُهُمْ لَهُ فَاسْتَشَارَهُمْ فَسَلَكُوا سَبِيلَ الْمُهَاجِرِينَ وَاخْتَلَفُوا كَإِخْتِلاَفِهِمْ فَقَالَ ارْتَفِعُوا عَنِّي ثُمَّ قَالَ ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَاهُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْفَتْحِ فَدَعَوْتُهُمْ فَلَمْ يَخْتَلِفْ عَلَيْهِ رَجُلاَنِ فَقَالُوا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَ لاَ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَائِ فَنَادَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي النَّاسِ إِنِّي مُصْبِحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ ابْنُ الْجَرَّاحِ أَ فِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ ؟ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ كَانَ عُمَرُ يَكْرَهُ خِلاَفَهُ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ أَ رَأَيْتَ لَوْ كَانَتْ لَكَ إِبِلٌ فَهَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ إِحْدَاهُمَا خَصْبَةٌ وَ الأُخْرَى جَدْبَةٌ أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ ؟ وَ إِنْ رَعَيْتَ الْجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ قَالَ فَجَائَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ كَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ فَقَالَ إِنَّ عِنْدِي مِنْ هَذَا عِلْمًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَ إِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَ أَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ قَالَ فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثُمَّ انْصَرَفَ


سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے۔ جب (مقام) سرغ پر پہنچے (جو کہ کنارہ حجاز پر شام سے متصل ایک بستی ہے) تو ان سے اجناد کے لوگوں نے ملاقات کی (اجناد سے مراد شام کے پانچ شہرہیں، فلسطین ، اردن، دمشق ، حمص اور قنسرین)۔ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ان سے بیان کیا کہ شام کے ملک میں وبا پھیل گئی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا کہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے سامنے مہاجرین اولین کو بلاؤ۔ (مہاجرین اولین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو) میں نے ان کو بلایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ لیا اور ان سے بیان کیا کہ شام کے ملک میں وبا پھیلی ہوئی ہے۔ انہوں نے اختلاف کیا۔ بعض نے کہا کہ آپ ایک اہم کام کے لیے نکلے ہیں ، اس لیے ہم آپ کا لوٹنا مناسب نہیں سمجھتے۔ بعض نے کہا کہ تمہارے ساتھ وہ لوگ ہیں جو پہلے لوگوں میں سے باقی رہ گئے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں اور ہم ان کو وبائی ملک میں لے جانا مناسب نہیں سمجھتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ اب تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ انصار کے لوگوں کو بلاؤ۔ میں نے ان کو بلایا تو انہوں نے ان سے مشورہ لیا۔ انصار بھی مہاجرین کی چال چلے اور انہی کی طرح اختلاف کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ اب قریش کے بوڑھوں کو بلاؤ جو فتح مکہ سے پہلے (یا فتح کے ساتھ ہی) مسلمان ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو بلایا اور ان میں سے دو نے بھی اختلاف نہیں کیا،سب نے یہی کہا کہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو لے کر لوٹ جائیے اور ان کو وبا کے سامنے نہ کیجیے۔ آخر سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں منادی کرا دی کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہوں گا (اور مدینہ لوٹوں گا) تم بھی سوار ہو جاؤ ۔ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیاتقدیر سے بھاگتے ہو؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کاش یہ بات کوئی اور کہتا (یا اگراور کوئی کہتا تو میں اس کو سزا دیتا) اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ برا جانتے تھے ان کا خلاف کرنے کو،ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔ کیا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک کنارہ سرسبز اورشاداب ہو اور دوسرا خشک اور خراب ہو اور تم اپنے اونٹوں کو سرسبز اور شاداب کنارے میں چراؤ تو اللہ کی تقدیر سے چرایا اور جو خشک اور خراب میں چراؤ تب بھی اللہ کی تقدیر سے چرایا ۔ (سیدناعمر رضی اللہ عنہ کامطلب یہ ہے کہ جیسے اس چرواہے پر کوئی الزام نہیں ہے بلکہ اس کا فعل قابل تعریف ہے کہ جانوروں کو آرام دیا ایسا ہی میں بھی اپنی رعیت کا چرانے والا ہوں تو جو ملک اچھا معلوم ہوتا ہے ادھر لے جاتا ہوں او ریہ کام تقدیر کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین تقدیر الٰہی ہے۔)؟اتنے میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور وہ کسی کام کو گئے ہوئے تھے ،انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو ا س مسئلہ کی دلیل موجود ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’جب تم سنو کہ کسی ملک میں وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تمہارے ملک میں وبا پھیلے تو بھاگو بھی نہیں۔‘‘ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا (کہ ان کی رائے حدیث کے موافق قرار پائی) اور واپس لوٹ آئے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ الطِّیَرَۃِ واَلْعَدْوَی
طیرۃ اور عدویٰ کے بیان میں


بَابٌ : لاَ عَدْوَي وَ لاَ طِيَرَةَ وَ لاَ صَفَرَ وَ لاَ هَامَةَ

نہ متعدی بیماری کوئی چیز ہے اور نہ طیرہ ، نہ صفر اور نہ ھامہ


(1486) عَنْ أَبِيْ سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ عَدْوَى وَ لاَ صَفَرَ وَ لاَ هَامَةَ فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَمَا بَالُ الإِبِلِ تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَائُ فَيَجِيئُ الْبَعِيرُ الأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ فِيهَا فَيُجْرِبُهَا كُلَّهَا؟ قَالَ فَمَنْ أَعْدَى الأَوَّلَ ؟ وَ فِيْ رِوَايَةٍ: لاَ عَدْوَى وَ لاَ طِيَرَةَ وَ لاَ صَفَرَ وَ لاَ هَامَةَ

ابوسلمہ بن عبدالرحمن سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور صفر ا ور ہامہ کی کوئی اصل نہیں۔‘‘ تو ایک دیہاتی بولا کہ یا رسول اللہ! اونٹوں کا کیا حال ہے؟ ریت میں ایسے صاف ہوتے ہیں جیسے کہ ہرن اور پھر ایک خارشی اونٹ ان میں جاتا ہے اور سب کوخارشی کر دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر پہلے اونٹ کو کس نے خارشی کیا تھا؟‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عدویٰ ،طیرہ ،صفر اور ہامہ کوئی چیز نہیں ہیں۔‘‘ (عدویٰ سے مراد کسی بیماری کا متعدی ہونا ، طیرہ کا مطلب کسی چیز سے یافال پکڑنا ، صفر سے مراد صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھنا جیسے آج بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں اور ہامہ سے مراد الوہے کہ جسے عرب منحوس سمجھتے تھے)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : لاَ يُوْرِدُ مُمْرِضٌ عَلَى مُصَحٍّ
بیمار اونٹ تندرست اونٹ پر نہ لایا جائے


(1487) عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ عَدْوَى وَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ يُورِدُ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُهُمَا كِلْتَيْهِمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ صَمَتَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ قَوْلِهِ لاَ عَدْوَى وَ أَقَامَ عَلَى أَنْ لاَ يُورِدُ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ قَالَ فَقَالَ الْحَارِثُ بْنُ أَبِي ذُبَابٍ وَ هُوَ ابْنُ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ قَدْ كُنْتُ أَسْمَعُكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تُحَدِّثُنَا مَعَ هَذَا الْحَدِيثِ حَدِيثًا آخَرَ قَدْ سَكَتَّ عَنْهُ كُنْتَ تَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ عَدْوَى فَأَبَى أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَعْرِفَ ذَلِكَ وَ قَالَ لاَ يُورِدُ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ فَمَا رَآهُ الْحَارِثُ فِي ذَلِكَ حَتَّى غَضِبَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَرَطَنَ بِالْحَبَشِيَّةِ فَقَالَ لِلْحَارِثِ أَ تَدْرِي مَاذَا قُلْتُ قَالَ لاَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّيْ قُلْتُ أَبَيْتُ ۔ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ وَ لَعَمْرِي لَقَدْ كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ عَدْوَى فَلاَ أَدْرِي أَ نَسِيَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَوْ نَسَخَ أَحَدُ الْقَوْلَيْنِ الآخَرَ

ابن شہاب سے روایت ہے کہ سیدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنھما نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔‘‘ (اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی بیماری کسی سے خود بخود نہیں لگتی، دوسرے کسی کو بھی لگتی ہے تو اﷲ کے حکم سے ہی لگتی ہے ۔اسی لیے بیمار اونٹ کو تندرست کے پاس نہ لانے کا حکم دیا )اور ابوسلمہ یہ حدیث بھی بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیمار اونٹ تندرست اونٹوں کے پاس نہ لایا جائے۔‘‘ ابوسلمہ نے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان دونوں حدیثوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے ،پھر اس کے بعد انہوں نے یہ حدیث کہ ’’بیماری نہیں لگتی‘‘ بیان کرنا چھوڑ دی اور یہ بیان کرتے رہے کہ بیمار اونٹ تندرست اونٹ پر نہ لایا جائے۔ حارث بن ابی ذباب نے جو کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے ان سے کہا کہ اے ابوہریرہ ! تم اس حدیث کے ساتھ ایک دوسری حدیث بھی بیان کیا کرتے تھے، اب تم اس کو بیان نہیں کرتے ۔وہ حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انکار کیااور کہا کہ میں اس حدیث کو نہیں پہچانتا، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: ’’بیمار اونٹ تندرست اونٹ کے پاس نہ لایا جائے۔‘‘ حارث نے ان سے اس بات میں اس حد تک جھگڑا کیا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غصے ہوئے اور انہوں نے حبش کی زبان میں کچھ کہا۔ پھر حارث سے پوچھاکہ تم سمجھتے ہو کہ میں نے کیا کہا؟ حارث نے کہا کہ نہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے یہی کہا کہ میں اس حدیث کے بیان کرنے کا انکار کرتا ہوں۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری عمر کی قسم! سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہم سے اس حدیث کو بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ۔‘‘ پھر معلوم نہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کو بھول گئے یا ایک حدیث سے دوسری حدیث کو انہوں نے منسوخ سمجھا۔(صحیح بخاری میں نسخ کا ذکر نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ ہم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کے سوا کوئی حدیث بھولتے نہیں دیکھا)
 
Top