• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1526) عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِنَّ مَثَلِي وَ مَثَلَ مَا بَعَثَنِيَ اللَّهُ بِهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى قَوْمَهُ فَقَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنَيَّ وَ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْعُرْيَانُ فَالنَّجَائَ فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ فَأَدْلَجُوا فَانْطَلَقُوا عَلَى مُهْلَتِهِمْ وَ كَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوا مَكَانَهُمْ فَصَبَّحَهُمُ الْجَيْشُ فَأَهْلَكَهُمْ وَ اجْتَاحَهُمْ فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِي وَ اتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِهِ وَ مَثَلُ مَنْ عَصَانِي وَ كَذَّبَ مَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ

سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میری مثال اور میرے دین کی مثال جو کہ اللہ نے مجھے دے کر بھیجاہے، ایسی ہے جیسے اس شخص کی مثال جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم! میں نے لشکر کو اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھا ہے (یعنی دشمن کی فوج کو) اور میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں، پس جلدی بھاگو۔ اب اس کی قوم میں سے ایک گروہ نے اس کا کہنا مانا اور وہ شام ہوتے ہی بھاگ گئے اور آرام سے چلے گئے اور ایک گروہ نے جھٹلایا اور وہ صبح تک اس ٹھکانے میں رہے اور صبح ہوتے ہی لشکر ان پر ٹوٹ پڑا اور ان کو تباہ کیا اور جڑ سے اکھیڑ دیا۔ پس یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے میری اطاعت کی اور جو کچھ میں لے کر آیا ہوں ، اس کی اتباع کی اور جس نے میرا کہنا نہ مانا اور سچے دین کو جھٹلایا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : تَتْمِيْمُ الأنْبِيَائِ وَ خَتْمُهُمْ بِالنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم
انبیاء کے آنے کی تکمیل اورخاتمہ (ختم نبوت)سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہونا


(1527) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَثَلِي وَ مَثَلُ الأَنْبِيَائِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَ أَجْمَلَهُ إِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهُ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَ يَعْجَبُونَ لَهُ وَ يَقُولُونَ هَلاَّ وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ ؟ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری اور دوسرے پیغمبروں کی مثال جوکہ مجھ سے پہلے ہو چکے ہیں ،ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اس کی زیبائش اور آرائش کی ،لیکن اس کے کونوں میں سے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ۔پس لوگ اس کے گرد پھرنے لگے اور انہیں وہ عمارت پسند آئی اور وہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ یہاں کیوں نہ رکھ دی گئی؟‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم الانبیاء ہوں۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بابٌ : تَسْلِيْمُ الحَجَرِ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم
پتھر کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنا


(1528) عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الآنَ


سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو مکہ میں ہے ،وہ مجھے نبوت سے پہلے سلام کیا کرتا تھا۔ میں اس کو اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : نَبْعُ الْمَائِ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی بہنا


(1529) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَصْحَابَهُ بِالزَّوْرَائِ قَالَ وَ الزَّوْرَائُ بِالْمَدِينَةِ عِنْدَ السُّوقِ وَ الْمَسْجِدِ فِيمَا ثَمَّهْ دَعَا بِقَدَحٍ فِيهِ مَائٌ فَوَضَعَ كَفَّهُ فِيهِ فَجَعَلَ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فَتَوَضَّأَ جَمِيعُ أَصْحَابِهِ قَالَ قُلْتُ كَمْ كَانُوا يَا أَبَاحَمْزَةَ ؟ قَالَ كَانُوا زُهَائَ الثَّلاَثِ مِائَةِ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب (مقام) زوراء میں تھے اور زوراء مدینہ میں مسجد اور بازار کے نزدیک ایک مقام ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اپنی ہتھیلی اس میں رکھ دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی پھوٹنے لگا اور تمام اصحاب y نے وضو کر لیا۔ قتادہ نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوحمزہ! اس وقت آپ کتنے آدمی ہوں گے؟ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تین سو کے قریب تھے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : آياتُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِيْ الْمَائِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی نبوت ) کے نشانات پانی میں


(1530) عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَامَ غَزْوَةِ تَبُوكَ فَكَانَ يَجْمَعُ الصَّلاَةَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَ الْعَصْرَ جَمِيعًا وَ الْمَغْرِبَ وَ الْعِشَائَ جَمِيعًا حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمًا أَخَّرَ الصَّلاَةَ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَ الْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ دَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ ذَلِكَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَ الْعِشَائَ جَمِيعًا ثُمَّ قَالَ إِنَّكُمْ سَتَأْتُونَ غَدًا إِنْ شَائَ اللَّهُ عَيْنَ تَبُوكَ وَ إِنَّكُمْ لَنْ تَأْتُوهَا حَتَّى يُضْحِيَ النَّهَارُ فَمَنْ جَائَهَا مِنْكُمْ فَلاَ يَمَسَّ مِنْ مَائِهَا شَيْئًا حَتَّى آتِيَ فَجِئْنَاهَا وَ قَدْ سَبَقَنَا إِلَيْهَا رَجُلاَنِ وَ الْعَيْنُ مِثْلُ الشِّرَاكِ تَبِضُّ بِشَيْئٍ مِنْ مَائٍ قَالَ فَسَأَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم هَلْ مَسَسْتُمَا مِنْ مَائِهَا شَيْئًا ؟ قَالاَ نَعَمْ فَسَبَّهُمَا النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَالَ لَهُمَا مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ قَالَ ثُمَّ غَرَفُوا بِأَيْدِيهِمْ مِنَ الْعَيْنِ قَلِيلاً قَلِيلاً حَتَّى اجْتَمَعَ فِي شَيْئٍ قَالَ وَ غَسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِيهِ يَدَيْهِ وَ وَجْهَهُ ثُمَّ أَعَادَهُ فِيهَا فَجَرَتِ الْعَيْنُ بِمَائٍ مُنْهَمِرٍ أَوْ قَالَ غَزِيرٍ شَكَّ أَبُو عَلِيٍّ أَيُّهُمَا قَالَ حَتَّى اسْتَقَى النَّاسُ ثُمَّ قَالَ يُوشِكُ يَا مُعَاذُ ! إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ أَنْ تَرَى مَا هَاهُنَا قَدْ مُلِئَ جِنَانًا

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سفر میں دو نمازوں کو جمع کرتے تھے پس ظہر اور عصر دونوں ملا کر پڑھیں اور مغرب اور عشاء ملا کر پڑھی۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دیر کی پھر نکلے اور ظہر اور عصر ملا کر پڑھیں پھر اندر چلے گئے۔ پھر اس کے بعد نکلے تو مغرب اور عشاء ملا کر پڑھیں۔ اس کے بعد فرمایا: ’’کل تم لوگ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور دن نکلنے سے پہلے نہیں پہنچ سکو گے اور جو کوئی تم میں سے اس چشمے کے پاس جائے ،تو اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے جب تک میں نہ آ ؤں۔‘‘ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اس چشمے پر پہنچے اور ہم سے پہلے وہاں دوآدمی پہنچ گئے تھے۔ چشمہ کے پانی کا یہ حال تھا کہ جوتی کے تسمہ کے برابر ہو گا، وہ بھی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں آدمیوں سے پوچھا کہ:’’ تم نے اس کے پانی میں ہاتھ لگایا؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ہاں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برا کہا (اس لیے کہ انہوں نے حکم کے خلاف کیا تھا) اور اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سنایا۔ پھر لوگوںنے چلوؤںسے تھوڑا تھوڑا پانی ایک برتن میں جمع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھویا ،پھر وہ پانی اس چشمہ میں ڈال دیا ،تو وہ چشمہ جوش مار کر بہنے لگا اور لوگوں نے (اپنے جانوروں اور آدمیوں کو) پانی پلانا شروع کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے معاذ! اگر تیری زندگی رہی تو تو دیکھے گا کہ اس (چشمے) کا پانی باغوں کو بھر دے گا۔‘‘ (یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ تھا اس لشکر میں تیس ہزار آدمی تھے اورایک روایت میں ہے کہ ستر ہزار آدمی تھے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : بَرَكَةُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِي الطَّعَامِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی وجہ سے) طعام میں برکت


(1531) عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم يَسْتَطْعِمُهُ فَأَطْعَمَهُ شَطْرَ وَسْقِ شَعِيرٍ فَمَا زَالَ الرَّجُلُ يَأْكُلُ مِنْهُ وَامْرَأَتُهُ وَضَيْفُهُمَا حَتَّى كَالَهُ فَأَتَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ لَوْ لَمْ تَكِلْهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ وَ لَقَامَ لَكُمْ


سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانا طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آدھا وسق ’’جو‘‘ دیے (ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے)۔ پھر وہ شخص ، اس کی بیوی اور مہمان ہمیشہ اس میں کھاتے رہے، یہاں تک کہ اس شخص نے اس کو ماپا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو اس کو نہ ماپتا تو ہمیشہ اس میں سے کھاتے اور وہ ایسا ہی رہتا (کیونکہ ان سے اللہ تعالیٰ کا بھروسا جاتا رہا اور بے صبری ظاہر ہوئی، پھر برکت کہاں رہے گی)۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1532) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا حُفِرَ الْخَنْدَقُ رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَمَصًا فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِي فَقُلْتُ لَهَا هَلْ عِنْدَكِ شَيْئٌ ؟ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَمَصًا شَدِيدًا فَأَخْرَجَتْ لِي جِرَابًا فِيهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَ لَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِنٌ قَالَ فَذَبَحْتُهَا وَ طَحَنَتْ فَفَرَغَتْ إِلَى فَرَاغِي فَقَطَّعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ لاَ تَفْضَحْنِي بِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ مَنْ مَعَهُ قَالَ فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّا قَدْ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَ طَحَنَتْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ كَانَ عِنْدَنَا فَتَعَالَ أَنْتَ فِي نَفَرٍ مَعَكَ فَصَاحَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَالَ يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ إِنَّ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ صَنَعَ لَكُمْ سُورًا فَحَيَّ هَلاً بِكُمْ وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ وَ لاَ تَخْبِزُنَّ عَجِينَتَكُمْ حَتَّى أَجِيئَ فَجِئْتُ وَ جَائَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقْدَمُ النَّاسَ حَتَّى جِئْتُ امْرَأَتِي فَقَالَتْ بِكَ وَ بِكَ فَقُلْتُ قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ لِي فَأَخْرَجْتُ لَهُ عَجِينَتَنَا فَبَصَقَ فِيهَا وَ بَارَكَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرْمَتِنَا فَبَصَقَ فِيهَا وَ بَارَكَ ثُمَّ قَالَ ادْعِي خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعَكِ وَ اقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَ لاَ تُنْزِلُوهَا وَ هُمْ أَلْفٌ فَأُقْسِمُ بِاللَّهِ لَأَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَ انْحَرَفُوا وَ إِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ كَمَا هِيَ وَ إِنَّ عَجِينَتَنَا أَوْ كَمَا قَالَ الضَّحَّاكُ لَتُخْبَزُ كَمَا هُوَ

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ جب (مدینہ کے گرد) خندق کھودی گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوکا پایا ، میں اپنی بیوی کے پاس لوٹا اورکہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بھوکا پایا ہے۔ اس نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع ’’جو‘‘ تھے اورہمارے پاس بکری کا پلا ہوا بچہ تھا ، میں نے اس کو ذبح کیا اور میری بیوی نے آٹا پیسا۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی میں نے اس کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹنے لگا تو عورت بولی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے رسوا نہ کرنا (کیونکہ کھانا تھوڑا ہے کہیں بہت سے آدمیوں کی دعوت نہ کر دینا) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور چپکے سے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع ’’جو‘‘ کا آٹا جو ہمارے پاس تھا، تیار کیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر تشریف لایے ۔یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا اور فرمایا: ’’اے خندق والو ! جابر نے تمہاری دعوت کی ہے تو چلو۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی ہانڈی کو مت اتارنا اور آٹے کی روٹی مت پکانا، جب تک میں نہ آجاؤں۔‘‘ پھر میں گھر میں آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا ،وہ بولی کہ تو ہی پریشان ہو گا اور لوگ تجھے ہی برا کہیں گے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو وہی کیا جو تو نے کہا تھا (لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا اور سب کو دعوت سنا دی) میں نے وہ آٹا نکالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لب مبارک اس میں ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر ہماری ہانڈی کی طرف چلے اور اس میں بھی تھوکا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد (میری بیوی سے) فرمایا: ’’ ایک روٹی پکانے والی اور بلالے جو تیرے ساتھ مل کر پکائے اور ہانڈی میں سے ڈوئی نکال کر ڈالتی جا، اس کو اتارنا مت۔‘‘ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے،پس میں قسم کھاتا ہوں کہ سب نے کھایا، یہاں تک کہ چھوڑ دیا اور لوٹ گئے اور ہانڈی کا وہی حال تھا، ابل رہی تھی اور آٹا بھی ویسا ہی تھااس کی روٹیاں بن رہی تھیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1533) عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّصلی اللہ علیہ وسلم ثَلاَثِينَ وَ مِائَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ ؟ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ فَعُجِنَ ثُمَّ جَائَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم أَبَيْعٌ أَمْ عَطِيَّةٌ أَوْ قَالَ أَمْ هِبَةٌ ؟ فَقَالَ لاَ بَلْ بَيْعٌ فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً فَصُنِعَتْ وَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَى قَالَ وَ اَيْمُ اللَّهِ مَا مِنَ الثَّلاَثِينَ وَ مِائَةٍ إِلاَّ حَزَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حُزَّةً حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا إِنْ كَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهُ وَ إِنْ كَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ قَالَ وَ جَعَلَ قَصْعَتَيْنِ فَأَكَلْنَا مِنْهُمَا أَجْمَعُونَ وَ شَبِعْنَا وَ فَضَلَ فِي الْقَصْعَتَيْنِ فَحَمَلْتُهُ عَلَى الْبَعِيرِ أَوْ كَمَا قَالَ

سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کیا کسی کے پاس کھانا ہے؟‘‘ ایک شخص کے پاس ایک صاع اناج نکلا یا تھوڑا کم یا زیادہ ۔پھر وہ سب گوندھا گیا۔پھرایک مشرک آیا ،جس کے بال بکھرے ہوئے تھے،دراز قد تھا، بکریاں لے کر ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو (بکری) بیچتا ہے یا ہدیہدیتا ہے؟‘‘ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبہ کا لفظ بولا۔ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ بیچتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی تو اس کا گوشت تیار کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ اللہ کی قسم! ایک سو تیس آدمی میں سے کوئی نہ رہا، جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلیجی میں سے کچھ جدا نہ کیا ہوا۔ اگر وہ موجود تھا تو اس کو دیدیا اور اگر موجود نہ تھا تو اس کا حصہ رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو برتنوں میں گوشت نکالا، پھر ہم سب نے ان میں سے کھایا اور سیر ہو گئے بلکہ پیالوں میں کچھ بچ رہا۔ اس کو میں نے اونٹ پر رکھ لیا یا ایسا ہی کہا ـ(اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو معجزے ہیں ایک تو کلیجی میں برکت اور دوسرا بکری میں برکت)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1534) عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا نَاسًا فُقَرَائَ وَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَرَّةً مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَلاَثَةٍ وَ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ أَوْ كَمَا قَالَ وَ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَائَ بِثَلاَثَةٍ وَ انْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِعَشَرَةٍ وَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِثَلاَثَةٍ قَالَ فَهُوَ وَ أَنَا وَ أَبِي وَ أُمِّي وَ لاَ أَدْرِي هَلْ قَالَ وَ امْرَأَتِي وَ خَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صُلِّيَتِ الْعِشَائُ ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى نَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَجَائَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَائَ اللَّهُ قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِكَ ؟ قَالَ أَوَ مَا عَشَّيْتِهِمْ ؟ قَالَتْ أَبَوْا حَتَّى تَجِيئَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ قَالَ فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ وَ قَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَ سَبَّ وَ قَالَ كُلُوا لاَ هَنِيئًا وَ قَالَ وَ اللَّهِ لاَ أَطْعَمُهُ أَبَدًا قَالَ فَاَيْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلاَّ رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا قَالَ حَتَّى شَبِعْنَا وَ صَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ ؟ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ قَالَ لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا ؟ قَالَتْ لاَ وَ قُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلاَثِ مِرَارٍ قَالَ فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ قَالَ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ قَالَ وَ كَانَ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضَى الأَجَلُ فَعَرَّفْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلاً مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ إِلاَّ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ كَمَا قَالَ

سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا: ’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین کو لے جائے اور جس کے پاس چار کا ہو وہ پانچویں یا چھٹے کو بھی لے جائے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو لے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل وعیال بھی دس کے قریب تھے تو گویا آدھا کھانا مہمانوں کے لیے ہوا) ۔سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمارے گھر میں اس کے ، میرے اورمیرے باپ اور ماں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ راوی نے کہا کہ شاید اپنی بیوی کا بھی کہا اور ایک خادم جو میرے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رات کا کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھایا ،پھر وہیںٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی گئی۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ گئے اور وہیں رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ غرض بڑی رات گزرنے کے بعد جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ گھر آئے اور ان کی بیوی نے کہا کہ تم اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں رہ گئے تھے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا کہ مہمانوں نے تمہارے آنے تک نہیں کھایا اور انہوں نے مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا تھا لیکن مہمان ان پر نہ کھانے میں غالب ہوئے۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ناراضگی کے ڈر سے) چھپ گیا تو انہوں نے مجھے پکارا کہ اے سست مجہول یا احمق! تیری ناک کٹے اور مجھے برا بھلا کہا اورمہمانوں سے کہا کہ کھاؤ اگرچہ یہ کھانا خوشگوار نہیں ہے (کیونکہ بے وقت ہے) اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں اس کو کبھی بھی نہ کھاؤں گا۔ سیدنا عبدالرحمن نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم جو لقمہ اٹھاتے نیچے وہ کھانا اتنا ہی بڑھ جاتا، یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کھانے کو دیکھا، وہ اتنا ہی ہے یا زیادہ ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن (ان کا نام ام رومان تھا اور بنی فراس ان کا قبیلہ تھا) یہ کیا ہے؟ وہ بولیں کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم! کہ یہ تو پہلے سے بھی زیادہ ہے ،تین حصے زیادہ ہے۔ (یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیاء سے کرامت ظاہر ہو سکتی ہے)۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کھایا اور کہا کہ میں نے جو قسم کھائی تھی وہ (غصے میں ) شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا، اس کے بعد وہ کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ میں بھی صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان عقد تھا (یعنی صلح کا اقرار تھا)، پس اقرار کی مدت گزر گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ آدمی ہمارے ا وپر مقرر کیے اور ہر ایک کے ساتھ لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ پھر وہ کھانا ان کے سامنے کر دیا اور سب لوگوں نے اس میں سے کھایا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فيْ بَرَكَةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِي اللَّبَنِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے دودھ میں برکت کے متعلق


(1535) عَنِ الْمِقْدَادِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَقْبَلْتُ أَنَا وَ صَاحِبَانِ لِي وَ قَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَ أَبْصَارُنَا مِنَ الْجَهْدِ فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ يَقْبَلُنَا فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَانْطَلَقَ بِنَا إِلَى أَهْلِهِ فَإِذَا ثَلاَثَةُ أَعْنُزٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا قَالَ فَكُنَّا نَحْتَلِبُ فَيَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنَّا نَصِيبَهُ وَ نَرْفَعُ لِلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم نَصِيبَهُ قَالَ فَيَجِيئُ مِنَ اللَّيْلِ فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لاَ يُوقِظُ نَائِمًا وَ يُسْمِعُ الْيَقْظَانَ قَالَ ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَهُ فَيَشْرَبُ فَأَتَانِي الشَّيْطَانُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَ قَدْ شَرِبْتُ نَصِيبِي فَقَالَ مُحَمَّدٌ يَأْتِي الأَنْصَارَ فَيُتْحِفُونَهُ وَ يُصِيبُ عِنْدَهُمْ مَا بِهِ حَاجَةٌ إِلَى هَذِهِ الْجُرْعَةِ فَأَتَيْتُهَا فَشَرِبْتُهَا فَلَمَّا أَنْ وَ غَلَتْ فِي بَطْنِي وَ عَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ إِلَيْهَا سَبِيلٌ قَالَ نَدَّمَنِيَ الشَّيْطَانُ فَقَالَ وَيْحَكَ مَا صَنَعْتَ؟ أَشَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم فَيَجِيئُ فَلاَ يَجِدُهُ فَيَدْعُو عَلَيْكَ فَتَهْلِكُ فَتَذْهَبُ دُنْيَاكَ وَ آخِرَتُكَ ؟ وَ عَلَيَّ شَمْلَةٌ إِذَا وَ ضَعْتُهَا عَلَى قَدَمَيَّ خَرَجَ رَأْسِي وَ إِذَا وَضَعْتُهَا عَلَى رَأْسِي خَرَجَ قَدَمَايَ وَ جَعَلَ لاَ يَجِيئُنِي النَّوْمُ وَ أَمَّا صَاحِبَايَ فَنَامَا وَ لَمْ يَصْنَعَا مَا صَنَعْتُ قَالَ فَجَائَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَلَّمَ كَمَا كَانَ يُسَلِّمُ ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى ثُمَّ أَتَى شَرَابَهُ فَكَشَفَ عَنْهُ فَلَمْ يَجِدْ فِيهِ شَيْئًا فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَائِ فَقُلْتُ الآنَ يَدْعُو عَلَيَّ فَأَهْلِكُ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي وَ اسْقِ مَنْ سَقَانِي قَالَ فَعَمَدْتُ إِلَى الشَّمْلَةِ فَشَدَدْتُهَا عَلَيَّ وَ أَخَذْتُ الشَّفْرَةَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى الأَعْنُزِ أَيُّهَا أَسْمَنُ فَأَذْبَحُهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَإِذَا هِيَ حَافِلَةٌ وَ إِذَا هُنَّ حُفَّلٌ كُلُّهُنَّ فَعَمَدْتُ إِلَى إِنَائٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم مَا كَانُوا يَطْمَعُونَ أَنْ يَحْتَلِبُوا فِيهِ قَالَ فَحَلَبْتُ فِيهِ حَتَّى عَلَتْهُ رَغْوَةٌ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ أَ شَرِبْتُمْ شَرَابَكُمُ اللَّيْلَةَ ؟ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! اشْرَبْ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! اشْرَبْ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ رَوِيَ وَ أَصَبْتُ دَعْوَتَهُ ضَحِكْتُ حَتَّى أُلْقِيتُ إِلَى الأَرْضِ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم إِحْدَى سَوْآتِكَ يَا مِقْدَادُ ! فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! كَانَ مِنْ أَمْرِي كَذَا وَ كَذَا وَ فَعَلْتُ كَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَا هَذِهِ إِلاَّ رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَ فَلاَ كُنْتَ آذَنْتَنِي فَنُوقِظَ صَاحِبَيْنَا فَيُصِيبَانِ مِنْهَا ؟ قَالَ فَقُلْتُ وَ الَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُبَالِي إِذَا أَصَبْتَهَا وَ أَصَبْتُهَا مَعَكَ مَنْ أَصَابَهَا مِنَ النَّاسِ

سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے دونوں ساتھی آئے اور (فاقہ وغیرہ کی ) تکلیف سے ہماری آنکھوں اور کانوں کی قوت جاتی رہی تھی۔ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر پیش کرتے تھے لیکن کوئی ہ میں قبول نہ کرتاتھا۔ آخر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہ میں اپنے گھر لے گئے۔ وہاں تین بکریاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کا دودھ دوہو ،ہم تم سب پئیں گے۔‘‘ پھر ہم ان کا دودھ دوہاکرتے اور ہم میں سے ہر ایک اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ رکھ چھوڑتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لاتے اور ایسی آواز سے سلام کرتے جس سے سونے والا نہ جاگے اور جاگنے والا سن لے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آتے،نماز پڑھتے ،پھر اپنے دودھ کے پاس آتے اور اس کو پیتے۔ ایک رات جس میں میں اپنا حصہ پی چکا تھا کہ شیطان نے مجھے بھڑکایا ۔شیطان نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو انصار کے پاس جاتے ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے دیتے ہیں اور جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت ہے، مل جاتاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیاضرورت ہو گی؟ آخر میں آیا اور وہ دودھ پی گیا۔ جب دودھ پیٹ میں سما گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ دودھ نہیں ملنے کا تو اس وقت شیطان نے مجھے ندامت کی اور کہنے لگا کہ تیری خرابی ہو تو نے کیا کام کیا؟ تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ پی لیا،اب آپ آئیں گے اور دودھ کو نہ پائیں گے تو تجھ پر بددعا کریں گے اور تیری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوں گی۔ میں ایک چادر اوڑھے ہوئے تھا جب اس کو پاؤں پر ڈالتا تو سر کھل جاتا اور جب سر ڈھانپتا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور مجھے نیند بھی نہ آئی اور میرے ساتھی سو گئے اور انہوں نے یہ کام نہیں کیا، تھا جو میں نے کیا تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور معمول کے موافق سلام کیا پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، اس کے بعد دودھ کے پاس آئے، برتن کھولا تو اس میں کچھ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرآسمان کی طرف اٹھایا، میں سمجھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بددعا کرتے ہیں اور میں تباہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! کھلا اس کو جومجھے کھلائے اور پلا اس کو جو مجھے پلائے۔‘‘ یہ سن کر میں نے اپنی چادر کو مضبوط باندھا اور چھری لی اور بکریوں کی طرف چلا کہ جو ان میں سے موٹی ہو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ذبح کروں۔ دیکھا تو اس کے تھن میں دودھ بھرا ہوا ہے۔ پھر دیکھا تو اور بکریوں کے تھنوں میں بھی دودھ بھرا ہوا ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں کا ایک برتن لیا جس میں وہ دودھ نہ دوہتے تھے (یعنی اس میں دوہنے کی خواہش نہیں کرتے تھے) ۔اس میں میں نے دودھ دوہا، یہاں تک کہ اوپر جھاگ آ گیا (اتنا زیادہ دودھ نکلا) او ر میں اس کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے اپنے حصے کا دودھ رات کو پیا یا نہیں؟‘‘ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! آپ دودھ پیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی کرمجھے دیا تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اور پیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور پیا پھر مجھے دیا، جب مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیر ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں نے لے لی ہے، میں ہنسا ،یہاں تک کہ خوشی کے مارے زمین پر گر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اے مقداد! تو نے کوئی بری بات کی، وہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میرا حال ایسا ہوا اور میں نے ایسا قصور کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس وقت کا دودھ (جو خلاف معمول اترا) اللہ کی رحمت تھی۔ تو نے مجھ سے پہلے ہی کیوں نہ کہا ہم اپنے دونوں ساتھیوں کو بھی جگا دیتے کہ وہ بھی یہ دودھ پیتے ؟ میں نے عرض کی کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا کلام دے کر بھیجا ہے کہ اب مجھے کوئی پروا نہیں جب آپ نے اللہ کی رحمت حاصل کر لی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاصل کی تو کوئی بھی اس کو حاصل کرے۔
 
Top