• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : إِذَا رَحِمَ اللَّهُ أُمَّةً قَبَضَ نَبِيَّهَا قَبْلَهَا
جب اللہ تعالیٰ کسی امت پر رحمت فرماتا ہے تو اس کی امت سے پہلے نبی کو وفات دے دیتا ہے


(1596) عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ إِذَا أَرَادَ رَحْمَةَ أُمَّةٍ مِنْ عِبَادِهِ قَبَضَ نَبِيَّهَا قَبْلَهَا فَجَعَلَهُ لَهَا فَرَطًا وَ سَلَفًا بَيْنَ يَدَيْهَا وَ إِذَا أَرَادَ هَلَكَةَ أُمَّةٍ عَذَّبَهَا وَ نَبِيُّهَا حَيٌّ فَأَهْلَكَهَا وَ هُوَ يَنْظُرُ فَأَقَرَّ عَيْنَهُ بِهَلَكَتِهَا حِينَ كَذَّبُوهُ وَ عَصَوْا أَمْرَهُ


سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ عزوجل جب کسی امت پر رحم کرتا ہے تو اس کا نبی امت کی ہلاکت سے پہلے فوت ہو جاتا ہے اور وہ اپنی امت کا پیش رو ہوتا ہے اور جب کسی امت کی تباہی چاہتا ہے تو اس کو نبی کے سامنے ہلاک کرتا ہے اور ان کی ہلاکت سے نبی کی آنکھ کو ٹھنڈا کردیتا ہے کیونکہ وہ ( امت) اس کو جھٹلانے والی اور اس کے احکام کی نافرمانی کرنے والی ہوتی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ قَوْلِهِ تَعَالَى { فَلاَ وَ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُوْنَ حَتَّى يُحَكِّمُوْكَ .....} الآية
اللہ تعالیٰ کے قول {فَلاَ وَ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُوْنَ حَتَّى يُحَكِّمُوْكَ } الایۃ کے بارے میں


(1597) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ فَقَالَ الأَنْصَارِيُّ سَرِّحِ الْمَائَ يَمُرُّ فَأَبَى عَلَيْهِمْ فَاخْتَصَمُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِلزُّبَيْرِ اسْقِ يَا زُبَيْرُ ! ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَائَ إِلَى جَارِكَ فَغَضِبَ الأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ ؟ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ نَبِيِّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ قَالَ يَا زُبَيْرُ ! اسْقِ ثُمَّ احْبِسِ الْمَائَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ فَقَالَ الزُّبَيْرُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ { فَلاَ وَ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا }

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ انصار کے ایک آدمی نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ (جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (مقام) حرہ کے موہرے میں جھگڑا کیا (حرہ کہتے ہیں کالے نوکدار پتھر والی زمین کو) جس سے کھجور کے درختوں کو پانی دیتے تھے۔ انصاری نے کہا کہ پانی کو چھوڑ دے کہ بہتا رہے۔ سیدنا زبیر نے انکار کیا۔آخر سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھگڑا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے زبیر!تو اپنے (درختوں کو) پانی پلا لے ،پھر پانی کو اپنے ہمسائے کی طرف چھوڑ دے۔ ‘‘یہ سن کر انصاری غصہ میں آ کر کہنے لگا کہ یارسول اللہ! زبیرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی کے جو بیٹے تھے (اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رعایت کی)۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے زبیر! اپنے درختوں کو پانی پلا۔ پھر پانی کو روک لے، یہاں تک کہ وہ منڈیروںتک چڑھ جائے۔‘‘ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی بارے میں اتری کہ ’’اللہ کی قسم! وہ مومن نہ ہوں گے جب تک تجھ کو اپنے جھگڑوں میں حاکم نہ بنائیں گے پھر جو تو فیصلہ کر دے اس سے رنج نہ کریں اور مان لیں۔‘‘ پوری آیت
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604


بَابٌ : فِيْ اتِّبَاعِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَوْلِهِ تَعَالَى {لاَ تَسْأَلُوْا عَنْ أَشْيَائَ إِنْ تُبْدَلَكُمْ تَسُؤْكُمْ}

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اللہ تعالیٰ کے قول {لَا تَسْأَلُوْا عَنْ أَشْیَائَ إِنْ تُبْدَلَکُم تَسُوْ کُمْ } الخ کے بارے میں


(1598) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ أَصْحَابِهِ شَيْئٌ فَخَطَبَ فَقَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَ النَّارُ فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَ الشَّرِّ وَ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلاً وَ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا قَالَ فَمَا أَتَى عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمٌ أَشَدُّ مِنْهُ قَالَ غَطَّوْا رُئُوسَهُمْ وَ لَهُمْ خَنِينٌ قَالَ فَقَامَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَ بِالإِسْلاَمِ دِينًا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا قَالَ فَقَامَ ذَالِكَ الرَّجُلُ فَقَالَ مَنْ أَبِي ؟ قَالَ أَبُوكَ فُلاَنٌ فَنَزَلَتْ { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَائَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ} (المائدة: 101)


سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی کوئی بات سنی (جو بری تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’میرے سامنے جنت اور دوزخ لائی گئی اور میں نے آج کی سی بہتری اورآج کی سی برائی کبھی نہیں دیکھی (یعنی جنت میں نعمتیں ا ور دوزخ میں عذاب)۔ اگر تم وہ کچھ جانتے جو میں جانتا ہوں تو البتہ تم لوگ کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔‘‘ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب yپر اس دن سے زیادہ کوئی سخت دن نہیں گزرا۔ انہوں نے اپنے سروں کو چھپا لیا اور رونے کی آواز ان سے نکلنے لگی۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر ،اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے پر راضی ہوگئے۔ ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا کہ میرا باپ کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرا باپ فلاں شخص تھا (اس کانام بتا دیا )۔‘‘تب یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’اے ایمان والو ! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر وہ ظاہر ہوں تو تم کوبری لگیں۔‘‘ (المائدہ: ۱۰۱)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1599) عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبيْ وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْئٍ لَمْ يُحَرَّمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَحُرِّمَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمانوں میں سے سب سے بڑا قصور اس مسلمان کا ہے جس نے وہ بات پوچھی جو مسلمانوں پر حرام نہ تھی، لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام ہوگئی۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1600) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلاً قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَيْنَ أَبِي ؟ قَالَ فِي النَّارِ فَلَمَّا قَفَّى الرَّجُلُ دَعَاهُ فَقَالَ إِنَّ أَبِي وَ أَبَاكَ فِي النَّارِ

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا کہ یارسول اللہ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دوزخ میں ۔‘‘ جب وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور فرمایا: ’’میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنم میں ہیں۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِي الإِنْتِهَائِ عَمَّا نَهَى عَنْهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ تَرْكِ الإِخْتِلاَفِ عَلَيْهِ فِي الْمُسَائَلَةِ
جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روک دیں، اس سے رکنے کے بارے میں اور آپس میں سوالات کرنے میں اختلاف کو ترک کرنے کابیان


(1601) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُوْلُ مَا نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ فَاجْتَنِبُوْهُ وَ مَا أَمَرْتُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوْا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَثْرَةُ مَسائِلِهِمْ وَ اخْتِلاَفُهُمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’ میں تمہیں جس کام کا حکم کروں اس کو اپنی استطاعت کے مطابق بجا لاؤ ،کیونکہ تم سے پہلے لوگ تباہ ہو گئے (کیونکہ وہ) بہت سوال پوچھتے تھے اور اپنے پیغمبروں پر اختلاف کرتے ۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604


بَابٌ : فِيْمَا أَخْبَرَ بِهِ النّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ أَمْرِ الدِّيْنِ وَ الْفَرْقِ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ الرَّأْيِ لِلدُّنْيَا

دین کی جس بات کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم خبر دیں ،اس میں اور دنیاوی رائے میں فرق کے متعلق


(1602) عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَرَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِقَوْمٍ عَلَى رُئُوسِ النَّخْلِ فَقَالَ مَا يَصْنَعُ هَؤُلآئِ ؟ فَقَالُوا يُلَقِّحُونَهُ يَجْعَلُونَ الذَّكَرَ فِي الأُنْثَى فَيَلْقَحُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا أَظُنُّ يُغْنِي ذَلِكَ شَيْئًا قَالَ فَأُخْبِرُوا بِذَلِكَ فَتَرَكُوهُ فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِذَلِكَ فَقَالَ إِنْ كَانَ يَنْفَعُهُمْ ذَلِكَ فَلْيَصْنَعُوهُ فَإِنِّي إِنَّمَا ظَنَنْتُ ظَنًّا فَلاَ تُؤَاخِذُونِي بِالظَّنِّ وَ لَكِنْ إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنِ اللَّهِ شَيْئًا فَخُذُوا بِهِ فَإِنِّي لَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ


سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جو کھجور کے درختوں کے پاس تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟‘‘ لوگوںنے عرض کی کہ پیوند لگاتے ہیں یعنی نر کو مادہ میں رکھتے ہیں کہ وہ گابہ ہو جاتی ہے(یعنی زیادہ پھل لاتی ہے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ فائدہ نہیں ہے۔‘‘ یہ خبر ان لوگوں کو پہنچی تو انہوں نے پیوند کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر اس میں ان کو فائدہ ہے تو وہ کریں، میں نے تو ایک خیال کیا تھا تو میرے خیال کو نہ لو۔لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم بیان کروں تو اس پر عمل کرو، اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا نہیں ہوں۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : تَمَنِّيْ رُؤْيَةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ الْحِرْصِ عَلَيْهِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے کی تمنا اور اس پر حریص ہونے کے بارے میں


(1603) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ الَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أَحَدِكُمْ يَوْمٌ وَ لاَ يَرَانِي ثُمَّ لَأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مَنْ أَهْلِهِ وَ مَالِهِ مَعَهُمْ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ ( يَعْنِي: ابْنَ مُحَمَّدِ بْنَ سُفْيَانَ) الْمَعْنَى فِيهِ عِنْدِي لَأَنْ يَرَانِي مَعَهُمْ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَ مَالِهِ وَ هُوَ عِنْدِي مُقَدَّمٌ وَ مُؤَخَّرٌ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے!ایک دن ایسا آئے گا جب تم مجھے دیکھ نہ سکو گے اور میرا دیکھنا تمہیں تمہارے بال بچوں اور اپنے مال سے زیادہ عزیز ہو گا۔‘‘ ـ(اس لیے میری صحبت غنیمت سمجھو، زندگی کا اعتبار نہیں اور دین کی باتیں جلدسیکھ لو)۔ ابو اسحاق( یعنی ابن محمد بن سفیان) نے کہا کہ میرے نزدیک اس کا معنی یہ ہے (کہ معنی وہی ہے الفاظ کا اختلاف ہے)
ابواسحاق (یعنی ابن محمد بن سفیان) نے کہا کہ لَأَنْ يَرَانِي مَعَهُمْ کا مطلب میں یہ سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدارمقدم ہوگا اور اسی عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ : فِيْمَنْ يَوَدُّ رُؤْيَةَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم بِأَهْلِهِ وَ مَالِهِ
اس آدمی کے بارے میں جو پسند کرے کے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھنا نصیب ہو جائے اگرچہ میرے اہل و عیال قربان ہو جائیں


(1604) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ يَكُونُونَ بَعْدِي يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِأَهْلِهِ وَ مَالِهِ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں بہت چاہنے والے میرے وہ لوگ ہوںگے جو میرے بعد پیدا ہوںگے، ان میں سے کوئی یہ خواہش رکھے گا کہ کاش! اپنے گھر والوں اور مال سب کو قربان کرے اور مجھے دیکھ لے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ ذِکْرُ الْأَنْبِیَائِ وَ فَضْلِھِمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْھِمْ وَسَلَّمَ
انبیاء کا ذکر اور ان کے فضائل کا بیان


بَابٌ : فِي ابْتِدَائِ خَلْقِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ
آدم علیہ السلام کی پیدائش کی ابتداء کے بارے میں


(1605) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِيَدِي فَقَالَ خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ وَ خَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الأَحَدِ وَ خَلَقَ الشَّجَرَ يَوْمَ الاثْنَيْنِ وَ خَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثَّلاَثَائِ وَ خَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الأَرْبِعَائِ وَ بَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ وَ خَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فِي آخِرِ الْخَلْقِ فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ،پھر فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا (یعنی زمین کو) اور اتوار کے دن اس میں پہاڑوں کو پیدا کیا اورپیر کے دن درختوں کو پیدا کیا اور کام کاج کی چیزیں (جیسے لوہا وغیرہ) منگل کو پیدا کیں اور بدھ کے دن نور کو پیدا کیا اور جمعرات کے دن زمین میں جانور پھیلائے اور سیدنا آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد بنایا ، سب سے آخر مخلوقات میں اور جمعہ کی سب سے آخر ساعات میں عصر سے لے کر رات تک آدم علیہ السلام پیدا ہوئے۔‘‘
 
Top