• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ إِبْرَاهِيْمَ الْخَلِيْلِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ
سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام کی فضیلت میں


(1606) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ

سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے خیر البریہ ! یعنی مخلوق میں سے سب سے بہترین۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام ( کا مقام) ہے ۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اِخْتِنَانُ إِبْرَاهِيْمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ختنہ کرنا


(1607) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَ هُوَ ابْنُ ثَمَانِينَ سَنَةً بِالْقَدُومِ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بسولے سے ختنہ کیا اور اس وقت ان کی عمر اسی برس کی تھی۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : قَوْلُ إِبْرَاهِيْمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ { رَبِّ أَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى }
وَ ذِكْرُ لُوْطٍ وَ يُوْسفَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قول { رَبِّ أَرِنِيْ }الایۃ کے بارے میں اورسیدنا لوط اور یوسف علیہما السلام کا ذکر


(1608) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ { رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَ لَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي } (البقرة : ۰62) وَ يَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَ لَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ لَبْثِ يُوسُفَ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم ابراہیم علیہ السلام سے شک کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں،جب انہوں نے کہا کہ ’’اے میرے رب! مجھے دکھلا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کیا تجھے یقین نہیں ہے؟سیدنا ابراہیم علیہ السلام بولے کہ کیوں نہیں؟ مجھے یقین ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تشفی ہو جائے ‘‘(علم الیقین سے عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہو جائے‘‘) (البقرۃ:۲۶۰) اور اللہ تعالیٰ لوطعلیہ السلام پر رحم کرے، وہ مضبوط اور سخت چیز کی پناہ چاہتے تھے ۔(یعنی نبی تو اللہ سے مانگتا ہے جبکہ لوطعلیہ السلام مضبوط رکن کی خواہش کر رہے تھے) اور اگر میں قیدخانے میں اتنی مدت رہتا جتنی مدت سیدنا یوسف علیہ السلام رہے، تو فوراً بلانے والے کے ساتھ چلا آتا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ : فِيْ قَوْلِ إِبْرَاهِيْمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ { إِنِّيْ سَقِيْمٌ } وَ { بَلْ فَعَلَهُ كَبِيْرُهُمْ هَذا } وَ فِيْ سَارَةَ { هِيَ أُخْتِيْ }
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قول کہ ’’ میں بیمار ہوں‘‘ اور اس قول کہ ’’بلکہ اس کو ان کے بڑے نے کیا ہے‘‘ اور سارہ کے متعلق جو کہا کہ ’’یہ میری بہن ہے۔‘‘


(1609) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَطُّ إِلاَّ ثَلاَثَ كَذَبَاتٍ ثِنْتَيْنِ فِي ذَاتِ اللَّهِ قَوْلُهُ { إِنِّي سَقِيمٌ } (الصافات: 89) وَ قَوْلُهُ { بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا} (الأنبياء: 63) وَ وَاحِدَةٌ فِي شَأْنِ سَارَةَ فَإِنَّهُ قَدِمَ أَرْضَ جَبَّارٍ وَ مَعَهُ سَارَةُ وَ كَانَتْ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ فَقَالَ لَهَا إِنَّ هَذَا الْجَبَّارَ إِنْ يَعْلَمْ أَنَّكِ امْرَأَتِي يَغْلِبْنِي عَلَيْكِ فَإِنْ سَأَلَكِ فَأَخْبِرِيهِ أَنَّكِ أُخْتِي فَإِنَّكِ أُخْتِي فِي الإِسْلاَمِ فَإِنِّي لاَ أَعْلَمُ فِي الأَرْضِ مُسْلِمًا غَيْرِي وَ غَيْرَكِ فَلَمَّا دَخَلَ أَرْضَهُ رَآهَا بَعْضُ أَهْلِ الْجَبَّارِ أَتَاهُ فَقَالَ لَهُ لَقَدْ قَدِمَ أَرْضَكَ امْرَأَةٌ لاَ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تَكُونَ إِلاَّ لَكَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَأُتِيَ بِهَا فَقَامَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلَى الصَّلاَةِ فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ لَمْ يَتَمَالَكْ أَنْ بَسَطَ يَدَهُ إِلَيْهَا فَقُبِضَتْ يَدُهُ قَبْضَةً شَدِيدَةً فَقَالَ لَهَا ادْعِيَ اللَّهَ أَنْ يُطْلِقَ يَدِي وَ لاَ أَضُرُّكِ فَفَعَلَتْ فَعَادَ فَقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنَ الْقَبْضَةِ الأُولَى فَقَالَ لَهَا مِثْلَ ذَلِكَ فَفَعَلَتْ فَعَادَ فَقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنَ الْقَبْضَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ فَقَالَ ادْعِيَ اللَّهَ أَنْ يُطْلِقَ يَدِي فَلَكِ اللَّهَ أَنْ لاَ أَضُرَّكِ فَفَعَلَتْ وَ أُطْلِقَتْ يَدُهُ وَ دَعَا الَّذِي جَائَ بِهَا فَقَالَ لَهُ إِنَّكَ إِنَّمَا أَتَيْتَنِي بِشَيْطَانٍ وَ لَمْ تَأْتِنِي بِإِنْسَانٍ فَأَخْرِجْهَا مِنْ أَرْضِي وَ أَعْطِهَا هَاجَرَ قَالَ فَأَقْبَلَتْ تَمْشِي فَلَمَّا رَآهَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ انْصَرَفَ فَقَالَ لَهَا مَهْيَمْ ؟ قَالَتْ خَيْرًا كَفَّ اللَّهُ يَدَ الْفَاجِرِ وَ أَخْدَمَ خَادِمًا قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَتِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَائِ السَّمَائِ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، مگر تین دفعہ (بولا) (یہ اصطلاحاً جھوٹ کہے گئے ہیں حقیقت میں جھوٹ نہیں ہیں بلکہ توریہ کی ایک شکل ہے) ان میں سے دو جھوٹ اللہ کے لیے تھے ،ایک تو ان کا یہ قول کہ ’’ میں بیمار ہوں‘‘ اور دوسرا یہ کہ ان بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہو گا‘‘ تیسرا جھوٹ سیدہ سارہ [کے بارے میں تھا۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں پہنچے، ان کے ساتھ ان کی بیوی سیدہ سارہ[ بھی تھیں اور وہ بڑی خوبصورت تھیں ۔انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس ظالم بادشاہ کو اگر معلوم ہو گا کہ تو میری بیوی ہے تو مجھ سے چھین لے گا، اس لیے اگر وہ پوچھے تو یہ کہنا کہ میں اس شخص کی بہن ہوں اور تو اسلام کے رشتہ سے میری بہن ہے ۔(یہ بھی کوئی جھوٹ نہ تھا) اس لیے کہ ساری دنیا میں آج میرے اور تیرے سوا کوئی مسلمان معلوم نہیں ہوتا۔ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس کی قلم اور اس کے علاقہ سے گزر رہے تھے تو اس ظالم بادشاہ کے کارندوں نے اسے دیکھ لیا اور اپنے بادشاہ کے پاس گئے اور بیان کیا کہ تیرے ملک میں ایک ایسی عورت آئی ہے جو تیرے سوا کسی کے لائق نہیں ہے۔ اس نے سیدہ سارہ[ کو بلا بھیجا۔ وہ گئیں تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نماز کے لیے کھڑے ہوگئے (اللہ سے دعا کرنے لگے اس کے شر سے بچنے کے لیے)۔جب سیدہ سارہ[ اس ظالم کے پاس پہنچیں تو اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ ان کی طرف دراز کیا، لیکن فوراً اس کاہاتھ ساکت ہوگیا وہ بولا کہ تو اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے ، میں تجھے نہیں ستاؤں گا۔ انہوں نے دعا کی۔ اس مردود نے پھر ہاتھ دراز کیا۔ پھر پہلے سے بڑھ کرسخت ساکت ہوگیا۔ اس نے دعا کے لیے کہا تو انہوں نے دعا کی۔ پھر اس مردود نے دست درازی کی، پھر پہلی دونوں دفعہ سے بڑھ کر سخت ساکت ہو گیا۔ تب وہ بولا کہ اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے، اللہ کی قسم! اب میں تجھ کو نہ ستاؤں گا۔ سیدہ سارہ[ نے پھر دعا کی، اس کا ہاتھ کھل گیا۔ تب اس نے اس شخص کو بلایا جو سیدہ سارہ کو لے کر آیا تھا اور اس سے بولا کہ تو میرے پاس شیطان کو لے کر آیا، یہ انسان نہیں ہے، اس کو میرے ملک سے باہر نکال دے اور ایک لونڈی ہاجرہ اس کے حوالے کر دے۔ سیدہ سارہ ہاجرہ کو لے کر لوٹ آئیں۔جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا تو نماز و دعا سے فارغ ہوئے اور کہا کیا بنا ؟سارہ نے کہا بس کہ سب خیریت رہی، اللہ تعالیٰ نے اس بدکار کا ہاتھ مجھ سے روک دیا اور ایک لونڈی بھی دی۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر یہی لونڈی یعنی سیدہ ہاجرہ تمہاری ماں ہے اے بارش کے بچو!
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ ذِكْرِ مُوْسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ، وَ قَوْلِهِ تَعَالَى { فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوْا وَ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيْهًا }
سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے فرمان {فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا… }کے متعلق


(1610) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ رَجُلاً حَيِيًّا قَالَ فَكَانَ لاَ يُرَى مُتَجَرِّدًا قَالَ فَقَالَ بَنُو إِسْرَائِيلَ إِنَّهُ آدَرُ قَالَ فَاغْتَسَلَ عِنْدَ مُوَيْهٍ فَوَضَعَ ثَوْبَهُ عَلَى حَجَرٍ فَانْطَلَقَ الْحَجَرُ يَسْعَى وَاتَّبَعَهُ بِعَصَاهُ يَضْرِبُهُ ثَوْبِي حَجَرُ ثَوْبِي حَجَرُ حَتَّى وَقَفَ عَلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ نَزَلَتْ { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا } (الأحزاب: 69)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے حیا دار مرد تھے ، ان کو کبھی کسی نے ننگا نہیں دیکھا تھا۔ آخر بنی اسرائیل کہنے لگے کہ ان کو فتق (خصیے پھول جانا ) کی بیماری ہے۔ ایک بار انہوں نے کسی پانی کے مقام پر غسل کیا اور اپنا کپڑا پتھر پر رکھا، تو وہ بھاگتا ہوا چلا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام ا پنا عصا لیے اس کے پیچھے چلے، اس کو مارتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ یہاں تک کہ وہ پتھرجہاں بنی اسرائیل کے لوگ جمع تھے، وہاں جارکا اور اسی کے متعلق یہ آیت اتری کہ ’’اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ستایا (ان پر تہمت لگائی) پھر اللہ تعالیٰ نے ا ن کو اس بات سے پاک کیا جو لوگوںنے کہی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت والے تھے۔‘‘ (الاحزاب:۶۹)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ قِصَّةِ مُوْسَى مَعَ الْخَضِرِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ، خضر علیہ السلام کے ساتھ


(1611) عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلاَمُ ) صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ هُوَ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ قَامَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ ؟ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ قَالَ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ مُوسَى أَيْ رَبِّ كَيْفَ لِي بِهِ ؟ فَقِيلَ لَهُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ وَ هُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ فَحَمَلَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ وَانْطَلَقَ هُوَ وَ فَتَاهُ يَمْشِيَانِ حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَقَدَ مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلاَمُ ) وَ فَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ حَتَّى خَرَجَ مِنَ الْمِكْتَلِ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ قَالَ وَ أَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَائِ حَتَّى كَانَ مِثْلَ الطَّاقِ فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَ كَانَ لِمُوسَى وَ لفَتَاهُ عَجَبًا فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَ لَيْلَتِهِمَا وَ نَسِيَ صَاحِبُ مُوسَى أَنْ يُخْبِرَهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ لِفَتَاهُ { آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا} قَالَ وَ لَمْ يَنْصَبْ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ { قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَ مَا أَنْسَانِيهُ إِلاَّ الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَ اتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا } قَالَ مُوسَى { ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا } قَالَ يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَأَى رَجُلاً نَائِمًا مُسَجًّى عَلَيْهِ بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ أَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلاَمُ ؟ قَالَ أَنَا مُوسَى قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لاَ أَعْلَمُهُ وَ أَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لاَ تَعْلَمُهُ قَالَ لَهُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ { هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَ كَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَ لاَ أَعْصِي لَكَ أَمْرًا } قَالَ لَهُ الْخَضِرُ { فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلاَ تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا } قَالَ نَعَمْ فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ وَ مُوسَى يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا { لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَ لاَ تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا } ثُمَّ خَرَجَا مِنَ السَّفِينَةِ فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ إِذَا غُلاَمٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ فَقَالَ مُوسَى { أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَّكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا } قَالَ وَ هَذِهِ أَشَدُّ مِنَ الأُولَى { قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلاَ تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ } يَقُولُ مَائِلٌ قَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ هَكَذَا فَأَقَامَهُ قَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَ لَمْ يُطْعِمُونَا و { لَوْ شِئْتَ لاَتَّخِذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَ بَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا } قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْتُ أَنَّهُ كَانَ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا قَالَ وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَتِ الأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا قَالَ وَ جَائَ عُصْفُورٌ حَتَّى وَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا نَقَصَ عِلْمِي وَ عِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلاَّ مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنَ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَ كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقْرَأُ وَ كَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَ كَانَ يَقْرَأُ وَ أَمَّا الْغُلاَمُ فَكَانَ كَافِرًا

سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیںکہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، وہ اور ہیں اور جو موسیٰ علیہ السلام خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے، وہ اور ہیں انہوں نے کہاکہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے۔ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کوخطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، ان سے پوچھا گیا کہ سب لوگوں میں زیادہ علم کس کو ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہے (یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئی) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر اس وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے ملاپ پر میرا ایک بندہ ہے، وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی کہ اے پروردگار! میں اس سے کیسے ملوں؟ حکم ہواکہ ایک مچھلی زنبیل (ٹوکرے) میں رکھ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے، وہیں وہ بندہ ملے گا۔ یہ سن کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھی یوشع بن نون علیہ السلام کو ساتھ لے کر چلے اور انہوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ دونوں چلتے چلتے صخرہ (ایک مقام ہے) کے پاس پہنچے تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی سو گئے۔ مچھلی تڑپی، یہاں تک کہ زنبیل سے نکل کر دریا میں جا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہنا اس پر سے روک دیا، یہاں تک کہ پانی کھڑا ہو کر طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کے لیے خشک راستہ بن گیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے تعجب ہوا ۔ پھر دونوں چلے دن بھر اور رات بھر اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی مچھلی کا حال ان سے کہنا بھول گئے۔ جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہاکہ ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں اور تھکاوٹ اسی وقت ہوئی جب اس جگہ سے آگے بڑھے جہاں جانے کا حکم ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم (مقام) صخرہ پر اترے تو میں مچھلی بھول گیا اور شیطان نے مجھے بھلایا اور تعجب ہے کہ اس مچھلی نے دریا میں جانے کی راہ لی۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم تو اسی مقام کو ڈھونڈھتے تھے، پھر دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے یہاں تک کہ صخرہ پر پہنچے ۔وہاں ایک شخص کو کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک میں سلام کہاں سے آیا ہے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں ۔انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ سیدنا موسیٰعلیہ السلام نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے وہ علم دیا ہے جو میں نہیں جانتا اور مجھے وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہاکہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اس لیے کہ مجھے وہ علم سکھلاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہاکہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے اور تم سے اس بات پر کیسے صبر ہو سکے گا جس کو تم نہیں جانتے ہو۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہاکہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ اچھا پس میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تومجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ بہت اچھا اور خضر علیہ السلام اور سیدناموسیٰ علیہ السلام دونوں سمندر کے کنارے کنارے چلے جا رہیتھے کہ ایک کشتی سامنے سے نکلی، دونوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہ میں بٹھا لو، انہوں نے سیدنا خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر کرایہ چڑھا لیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ ا لسلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہ میں بغیر کرایہ کے چڑھایا اور تم نے ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ کشتی والوں کو ڈبو دو، یہ تم نے بڑا بھاری کام کیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نہیں کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ بھول چوک پر مت پکڑو اور مجھ پر تنگی مت کرو۔ پھر دونوں کشتی سے باہر نکلے اور سمندر کے کنارے چلے جا رہے تھے کہ ایک لڑکا ملا جو دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اکھیڑ لیا اور مار ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم نے ایک بے گناہ کو ناحق مار ڈالا، یہ تو بہت برا کام کیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نہ کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ ہر گز صبر نہ کر سکو گے؟ اور یہ کام پہلے کام سے بھی زیادہ سخت تھا۔ سیدناموسیٰ علیہ السلام نے کہاکہ اب میں تم سے کسی بات پر اعتراض کروں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا،بے شک تمہارا اعتراض بجا ہوگا۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں میں پہنچے، گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کیا، پھر ایک دیوار ملی جو گرنے کے قریب تھی اور جھک گئی تھی، سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان گاؤں والوں سے ہم نے کھانا مانگا اور انہوں نے انکار کیا اور کھانا نہ کھلایا (ایسے لوگوں کا کام مفت کرنا کیا ضروری تھا؟) اگر تم چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ بس، اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، اب میں تم سے ان باتوں کا مطلب کہے دیتا ہوں جن پر تم سے صبر نہ ہو سکا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے، میری خواہش ہے کہ کاش وہ صبر کرتے اور ہ میں ان کی اور باتیں معلوم ہوتیں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلی بات سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بھولے سے کی۔ پھر ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھی اور اس نے سمندر میں چونچ ڈالی، سیدنا خضر علیہ السلام نے کہاکہ میں نے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا ہی علم سیکھا ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں سے پانی کم کیا ہے۔‘‘ سیدنا سعید بن جبیر نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما اس طرح پڑھتے تھے کہ ’’ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ثابت کشتی کو ناحق جبر سے چھین لیتا تھا اور پڑھتے تھے کہ وہ لڑکا کافر تھا۔‘‘(آخری دونوں جملوں سے مراد یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیات تو اس طرح نہیں ہیں لیکن ابن عباس رضی اللہ عنھما گویا بطور تفسیر اس طرح پڑھتے تھے)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ قَوْلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم { لاَ تُفَضِّلُوْا بَيْنَ أَنْبِيَاء اللَّهِ تَعَالَى}
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان { لاَ تُفَضِّلُوْا بَيْنَ…} الایۃ کے متعلق


(1612) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا يَهُودِيٌّ يَعْرِضُ سِلْعَةً لَهُ أُعْطِيَ بِهَا شَيْئًا كَرِهَهُ أَوْ لَمْ يَرْضَهُ شَكَّ عَبْدُ الْعَزِيزِ قَالَ لاَ وَ الَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ عَلَى الْبَشَرِ قَالَ فَسَمِعَهُ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَلَطَمَ وَجْهَهُ قَالَ تَقُولُ وَ الَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ عَلَى الْبَشَرِ وَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَيْنَ أَظْهُرِنَا ؟ قَالَ فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ ! إِنَّ لِي ذِمَّةً وَ عَهْدًا وَ قَالَ فُلاَنٌ لَطَمَ وَجْهِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ ؟ قَالَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلاَمُ ) عَلَى الْبَشَرِ وَ أَنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا قَالَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى عُرِفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ لاَ تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَائِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَيَصْعَقُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَ مَنْ فِي الأَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَائَ اللَّهُ قَالَ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ بُعِثَ أَوْ فِي أَوَّلِ مَنْ بُعِثَ فَإِذَا مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلاَمُ ) آخِذٌ بِالْعَرْشِ فَلاَ أَدْرِي أَحُوسِبَ بِصَعْقَتِهِ يَوْمَ الطُّورِ أَوْ بُعِثَ قَبْلِي وَ لاَ أَقُولُ إِنَّ أَحَدًا أَفْضَلُ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى (عَلَيْهِ السَّلاَمُ )

سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی کچھ مال بیچ رہا تھا ،اس کو قیمت دی گئی تو وہ راضی نہ ہوا یا اس نے برا جانا تو بولا کہ نہیں قسم اس کی جس نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو لوگوں میں سے سب سے اعلیٰ چنا۔ یہ لفظ ایک انصاری نے سنا تو اس کے منہ پر طمانچہ مارا اور کہا کہ تو کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو لوگوں میں سے چنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں میں موجود ہیں؟ وہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی کہ یا ابا القاسم ! میں ذمی ہوں اور امان میں ہوں اور مجھے فلاں شخص نے طمانچہ مارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا کہ تو نے اس شخص کو کیوں طمانچہ مارا؟ وہ بولا کہ یا رسول اللہ! اس نے کہا کہ قسم اس کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام لوگوں پر چن لیا ! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں میں تشریف رکھتے ہیں۔ (اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رتبہ زیادہ ہے، اس لیے میں نے اس کو مارا) ۔یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے ،یہاں تک کہ غصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر معلوم ہونے لگا، پھر فرمایا: ’’ایک پیغمبر کو دوسرے پیغمبر پر فضیلت مت دو (اس طرح سے کہ دوسرے پیغمبر کی شان گھٹے) کیونکہ قیامت کے دن جب صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب بے ہوش ہو جائیں گے مگر جن کو اللہ تعالیٰ چاہے گا (وہ بیہوش نہ ہوں گے) پھر دوسری بار پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے میں اٹھوں گااور کیا دیکھوں گا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام عرش تھامے ہوئے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ طور پہاڑ پر جو ان کو بے ہوشی ہوئی تھی وہ اس کا بدلا ہے ( کہ وہ اس بار بے ہوش نہ ہوں گے) یا مجھ سے پہلے ہوشیار ہو جائیں گے اور میں یوں نہیں کہتا کہ کوئی پیغمبر سیدنا یونس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ وَفَاةِ مُوْسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق


(1613) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم جَائَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ لَهُ أَجِبْ رَبَّكَ قَالَ فَلَطَمَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ عَيْنَ مَلَكِ الْمَوْتِ فَفَقَأَهَا قَالَ فَرَجَعَ الْمَلَكُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فَقَالَ إِنَّكَ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَكَ لاَ يُرِيدُ الْمَوْتَ وَ قَدْ فَقَأَ عَيْنِي قَالَ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ عَيْنَهُ وَ قَالَ ارْجِعْ إِلَى عَبْدِي فَقُلِ الْحَيَاةَ تُرِيدُ ؟ فَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْحَيَاةَ فَضَعْ يَدَكَ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَمَا تَوَارَتْ يَدُكَ مِنْ شَعْرَةٍ فَإِنَّكَ تَعِيشُ بِهَا سَنَةً قَالَ ثُمَّ مَهْ قَالَ ثُمَّ تَمُوتُ قَالَ فَالآنَ مِنْ قَرِيبٍ رَبِّ أَمِتْنِي مِنَ الأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاللَّهِ لَوْ أَنِّي عِنْدَهُ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ عِنْدَ الْكَثِيبِ الأَحْمَرِ


سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’موت کے فرشتے (عزرائیل علیہ السلام ) سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور عرض کی کہ اے موسیٰ ! اپنے پروردگارکی پکار پر لبیک کہو(یعنی موت کا وقت ہے) تو سیدنا موسیٰعلیہ السلام نے ان کی آنکھ پر ایک طمانچہ مارا ،جس سے ان کی آنکھ پھوٹ گئی۔ وہ لوٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس گئے اور عرض کی کہ اے مالک! تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا کہ وہ مرنا نہیں چاہتا، اس نے میری آنکھ پھوڑ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پھر درست کر دی اور فرمایا: ’’پھر میرے بندے کے پاس جا اور کہہ کہ اگر تو زندہ رہنا چاہتا ہے تو اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھ اور جتنے بالوں کو تیرا ہاتھ ڈھانپ لے گا اتنے برس تو اور زندہ رہے گا۔ سیدنا موسیٰعلیہ السلام نے عرض کی کہ اے پروردگار! اس کے بعد کیا ہو گا؟ فرمایا: ’’اس کے بعد پھر مرنا ہو گا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی کہ پھر تو ابھی مرنا بہتر ہے۔ اے میرے مالک! مجھے مقدس زمین سے ایک پتھر کی مار کے فاصلہ پر موت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! اگر میں وہاں ہوتا تو میں تمہیں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قبر بتا دیتا جو کہ راستہ کے ایک جانب سرخ ریت کے ٹیلے کے پاس ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ قَوْلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم <مَرَرْتُ عَلَى مُوْسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ
يُصَلِّيْ فِيْ قَبْرِهِ>
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان {مَرَرْتُ عَلَى مُوْسَى …} کے متعلق


(1614) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَتَيْتُ وَ فِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْكَثِيبِ الأَحْمَرِ وَ هُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس رات معراج کی رات میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو ان کو سرخ ٹیلے کے پاس دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ ذِكْرِ يُوْسُفَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ
سیدنا یوسف علیہ السلام کے متعلق


(1615) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ؟ قَالَ أَتْقَاهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ قَالَ فَيُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ نَبِيِّ اللَّهِ بْنِ خَلِيلِ اللَّهِ قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ قَالَ فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي؟ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الإِسْلاَمِ إِذَا فَقُهُوا

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یارسول اللہ! لوگوں میں سب سے بزرگی والا کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں پوچھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو سب میں بزرگ سیدنا یوسف علیہ السلام ہیں، اللہ کے نبی بن نبی بن نبی بن خلیل اللہ o ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیںپوچھتے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم عرب قبیلوں کے بارے پوچھتے ہو؟ تو عرب کے بہتر وہ لوگ ہیں جو زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے اور اسلام کے زمانے میں بھی بہتر ہیں، جب وہ دین میں سمجھ حاصل کریں۔‘‘
 
Top