• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1636) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيِّ بْنِ سَلُولَ جَائَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَأَلَهُ أَنْ يُعْطِيَهُ قَمِيصَهُ أَنْ يُكَفِّنَ فِيهِ أَبَاهُ فَأَعْطَاهُ ثُمَّ سَأَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ ؟ فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَ تُصَلِّي عَلَيْهِ وَ قَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ فَقَالَ { اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً } (التوبة: 80) وَ سَأَزِيدُ عَلَى سَبْعِينَ قَالَ إِنَّهُ مُنَافِقٌ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ { وَ لاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَ لاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ } (التوبة: 84)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مشہور منافق مرا تو اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کرتا میرے باپ کے کفن کے لیے دے دیجیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا۔ پھر اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز جنازہ پڑھا دیجیے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز پڑھنے کو کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا تھاما اور فرمایا: ’’یارسول اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ ’’تو ان کے لیے دعا کرے ، یا نہ کرے اگر ستر بار بھی دعا کرے گا تو بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشے گا‘‘ (التوبہ: 80) تو میں ستر بار سے زیادہ دعا کروں گا۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بے شک وہ منافق تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔ تب یہ آیت اتری کہ ’’مت نماز پڑھ کسی منافق پر جو مر جائے اور مت کھڑا ہو اس کی قبر پر۔‘‘ (التوبہ:۸۴)۔ (تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند فرمایا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1637) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِي كَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ أَوْ سَاقَيْهِ فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَذِنَ لَهُ وَ هُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَذِنَ لَهُ وَ هُوَ كَذَلِكَ فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ سَوَّى ثِيَابَهُ قَالَ مُحَمَّدٌ وَ لاَ أَقُولُ ذَلِكَ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمْ تَهَشَّ لَهُ وَ لَمْ تُبَالِهِ ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمْ تَهَشَّ لَهُ وَ لَمْ تُبَالِهِ ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجَلَسْتَ وَ سَوَّيْتَ ثِيَابَكَ ۔ فَقَالَ أَلاَ أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلاَئِكَةُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے ،رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے کہ اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں اجازت دی اور باتیں کرتے ر ہے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو انہیں بھی اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور کپڑے برابر کر لیے ۔ پھر وہ آئے اور باتیں کیں۔ (راوی محمد کہتا ہے کہ میں نہیں کہتا کہ تینوں کا آنا ایک ہی دن میں ہوا) جب وہ چلے گئے تو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اوراپنے کپڑے درست کر لیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں اس شخص سے شرم نہ کروں جس سے فرشتے شرم کرتے ہیں؟ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604


(1638) عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَخْبَرَنِيْ أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ تَوَضَّأَ فِي بَيْتِهِ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ لَأَلْزَمَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ لَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَوْمِي هَذَا قَالَ فَجَائَ الْمَسْجِدَ فَسَأَلَ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوا خَرَجَ وَجَّهَ هَاهُنَا قَالَ فَخَرَجْتُ عَلَى أَثَرِهِ أَسْأَلُ عَنْهُ حَتَّى دَخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ قَالَ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ وَ بَابُهَا مِنْ جَرِيدٍ حَتَّى قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَاجَتَهُ وَ تَوَضَّأَ فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ جَلَسَ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ وَ تَوَسَّطَ قُفَّهَا وَ كَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَ دَلاَّهُمَا فِي الْبِئْرِ قَالَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ فَقُلْتُ لأَكُونَنَّ بَوَّابَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْيَوْمَ فَجَائَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ؟ فَدَفَعَ الْبَابَ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ عَلَى رِسْلِكَ قَالَ ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ فَقَالَ ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ فَأَقْبَلْتُ حَتَّى قُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ ادْخُلْ وَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ قَالَ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَعَهُ فِي الْقُفِّ وَ دَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ كَمَا صَنَعَ النَّبِيُّصلی اللہ علیہ وسلم وَ كَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ وَ قَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأُ وَ يَلْحَقُنِي فَقُلْتُ إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلاَنٍ يُرِيدُ أَخَاهُ خَيْرًا يَأْتِ بِهِ فَإِذَا إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا ؟ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ عَلَى رِسْلِكَ ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَ قُلْتُ هَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ فَقَالَ ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَجِئْتُ عُمَرَ فَقُلْتُ أَذِنَ وَ يُبَشِّرُكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالْجَنَّةِ قَالَ فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي الْقُفِّ عَنْ يَسَارِهِ وَ دَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ فَقُلْتُ إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلاَنٍ خَيْرًا يَعْنِي أَخَاهُ يَأْتِ بِهِ فَجَائَ إِنْسَانٌ فَحَرَّكَ الْبَابَ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقُلْتُ عَلَى رِسْلِكَ قَالَ وَجِئْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ مَعَ بَلْوَى تُصِيبُهُ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ ادْخُلْ وَ يُبَشِّرُكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالْجَنَّةِ مَعَ بَلْوَى تُصِيبُكَ قَالَ فَدَخَلَ فَوَجَدَ الْقُفَّ قَدْ مُلِئَ فَجَلَسَ وِجَاهَهُمْ مِنَ الشِّقِّ الآخَرِ قَالَ شَرِيكٌ فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُمْ

سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر باہر نکلے۔ سیدنا ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ آج میں دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہوں گا۔ کہتے ہیں کہ پھر میں مسجد میں آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ باہر اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان پر چلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگوں سے پوچھتا جاتا تھا۔ چلتے چلتے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام اریس پر باغ میں گئے ہیں۔ میں دروازے کے قریب بیٹھ گیا جو کھجور کی ڈالیوں کا بنا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کر چکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اریس کے کنویں کی منڈیر پر بیٹھے ہیں اور دونوں پنڈلیاں کھول کر کنویں میں لٹکا دی ہیں۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور پھر لوٹ کردروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ میں نے (دل میں ) کہاکہ میں آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چوکیدار رہوں گا۔ اتنے میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور دروازے کو دھکیلا میں نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر ہوں۔ میں نے کہا ذرا ٹھہرو۔ پھر میں گیا اور کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کو آنے دو اور جنت کی خوشخبری دو۔ میں آیا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اندر داخل ہو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف اسی منڈیر پر دونوں پاؤں لٹکا کر پنڈلیاں کھول کر جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے، بیٹھ گئے۔ میں لوٹ آیا اور پھر بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی (عامر) کو گھر میں وضو کرتے چھوڑ آیا تھا، میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو فلاں (یعنی) میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو اس کو یہاں لے آئے گا۔ اتنے میں (کیا دیکھتا ہوں کہ) کوئی دروازہ ہلانے لگاہے۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ جواب آیا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا ٹھہر جائیں۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا،سلام کیا اور کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: ’’انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری بھی دو۔‘‘ پس میں گیا اور کہا کہ اندر داخل ہواور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف اسی منڈیر پر بیٹھ گئے اور دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا دیے۔ پھر میں لوٹ آیا اور (دروازے پر) بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ اگر اللہ کو فلاں آدمی (عامر) کی بھلائی منظور ہے تو اس کو بھی لے آئے گا۔ اتنے میں ایک اور آدمی نے دروازہ ہلایا۔ میں نے کہا کہ کون ہے؟ جواب دیا کہ عثمان بن عفان۔ میں نے کہاکہ ٹھہر جائیں۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری دو مگر وہ ایک مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔ میں آیا اور ان سے کہا کہ داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے مگر ایک بلا کے ساتھ جو تم پر آئے گی۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور دیکھا کہ منڈیر کا ایک حصہ بھر گیا ہے، پس وہ دوسرے کنارے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے کہا کہ سعید بن مسیب نے کہا کہ میں نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ان کی قبریں بھی اسی طرح ہوں گی۔ (ویساہی ہوا کہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کو اس حجرہ میں جگہ نہ ملی، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بقیع میں دفن ہوئے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1639) عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَائِ وَ الصِّبْيَانِ ؟ فَقَالَ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى غَيْرَ أَنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي

(فاتح ایران) سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پرسیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (مدینہ میں ) خلیفہ بنایا ،تو انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰعلیہ السلام کے پاس ہارون علیہ السلام کا تھا ،لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1640) عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ لأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ رَجُلاً يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوكُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا قَالَ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كُلُّهُمْ يَرْجُونَ أَنْ يُعْطَاهَا فَقَالَ أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ؟ فَقَالُوا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ قَالَ فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي عَيْنَيْهِ وَ دَعَا لَهُ فَبَرَأَ حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ فَقَالَ عَلِيٌّ يَارَسُولَ اللَّهِ! أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا ؟ فَقَالَ انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلاَمِ وَ أَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ فَوَاللَّهِ لأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلاً وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا: ’’ میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرتے ہوں گے۔‘‘ پھر رات بھر لوگ ذکر کرتے رہے کہ دیکھیں یہ شان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کو دیتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آئے اور ہر ایک یہ امید لیے ہوئے تھا کہ یہ جھنڈا مجھے ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟‘‘ لوگوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! ان کی آنکھیں دکھتی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا اور ان کی آنکھوں میں لعاب لگایا اور ان کے لیے دعا کی تو وہ بالکل اچھے ہو گئے گویا ان کو کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا دیا پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میں ان سے لڑوں گا یہا ںتک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آہستہ چلتا جا، یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترے، پھر ان کو اسلام کی طرف بلا اور ان کو بتا جو اللہ کا حق ان پر واجب ہے۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت دے دے تو وہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1641) عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا قَالَ فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ ؟ فَقَالَ سَهْلٌ مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَ إِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا فَقَالَ لَهُ أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ ؟ قَالَ جَائَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ ؟ فَقَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ شَيْئٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم لِإِنْسَانٍ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ ؟ فَجَائَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ فَجَائَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَ يَقُولُ قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا ‍ سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا ۔سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔(نعوذ باﷲ!) سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابو تراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :’’تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟‘‘ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ ناراض ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: ’’دیکھو وہ کہاں ہیں؟‘‘ وہ آیا اور بولا کہ یارسول اللہ! وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی جھاڑنا شروع کی اور فرمانے لگے :’’ اے ابو تراب! اٹھ۔ اے ابوتراب ! اٹھ۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان

(1642) عَنْ أَبِي عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمْ يَبْقَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي بَعْضِ تِلْكَ الأَيَّامِ الَّتِي قَاتَلَ فِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم غَيْرُ طَلْحَةَ وَ سَعْدٍ (عَنْ حَدِيثِهِمَا)

ابوعثمان کہتے ہیں کہ ان دنوں میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کافروں سے) لڑتے تھے ،بعض دن کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ رہا سوائے سیدنا طلحہ اور سیدنا سعد رضی اللہ عنھما کے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1643) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ نَدَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم النَّاسَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ ثُمَّ نَدَبَهُمْ فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ ثُمَّ نَدَبَهُمْ فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ فَقَالَ النَّبِيُّصلی اللہ علیہ وسلم لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيٌّ وَ حَوَارِيِّ الزُّبَيْرُ

محمد بن منکدر سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے دن لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ حاضر اور مستعد ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ہی نے جوا بدیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ہی نے جواب دیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر پیغمبر کا ایک خاص ساتھی ہوتا ہے اور میرا خاص ساتھی زبیر رضی اللہ عنہ ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1644) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنْتُ أَنَا وَ عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَوْمَ الْخَنْدَقِ مَعَ النِّسْوَةِ فِي أُطُمِ حَسَّانَ فَكَانَ يُطَأْطِئُ لِي مَرَّةً فَأَنْظُرُ وَ أُطَأْطِئُ لَهُ مَرَّةً فَيَنْظُرُ فَكُنْتُ أَعْرِفُ أَبِي إِذَا مَرَّ عَلَى فَرَسِهِ فِي السِّلاَحِ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ قَالَ وَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي فَقَالَ وَ رَأَيْتَنِي يَا بُنَيَّ ؟ قُلْتُ نَعَمْ ۔ قَالَ أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَئِذٍ أَبَوَيْهِ فَقَالَ فِدَاكَ أَبِي وَ أُمِّي

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ میں اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنھما خندق کے دن عورتوں کے ساتھ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قلعہ میں تھے تو کبھی وہ میرے لیے جھک جاتا اور میں دیکھتا اور کبھی میں اس کے لیے جھک جاتا اور وہ دیکھتا۔ میں نے اپنے باپ کو اس وقت پہچان لیا جب وہ گھوڑے پر ہتھیار باندھے ہوئے بنی قریظہ کی طرف نکلے۔ پھر میں نے اپنے والد سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تم نے مجھے دیکھا تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے ماں باپ کو جمع کر دیا اور فرمایا: ’’تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1645) عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَتْ لِي عَائِشَةُ أَبَوَاكَ وَ اللَّهِ مِنَ {الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَ الرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ } وَ فِيْ رِوَايَةٍ: تَعْنِي أَبَابَكْرٍ وَ الزُّبَيْرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

سیدناعروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ اللہ کی قسم! تمہارے دونوں باپ (یعنی زبیر اور ابوبکر رضی اللہ عنھما ) ان لوگوں میں سے تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے یعنی ’’جن لوگوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی اﷲ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہی۔(سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عروہ کے نانا تھے۔ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ باپ تھے لیکن نانا کو بھی باپ کہتے ہیں)۔ اور ایک روایت میں ہے ’’یعنی ابوبکر اور زبیر رضی اللہ عنھما ۔‘‘
 
Top