• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ طَلْحَةَ وَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنھما کی فضیلت کا بیان


(1646) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ عَلَى جَبَلِ حِرَائٍ فَتَحَرَّكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اسْكُنْ حِرَائُ فَمَا عَلَيْكَ إِلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ وَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَبُو بَكْرٍ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ وَ عَلِيٌّ وَ طَلْحَةُ وَ الزُّبَيْرُ وَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِي اللَّه عَنْهمْ

سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پہاڑ پر تھے ۔اس (پہاڑ) کا پتھر ہلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تھم جا اے حراء! تیرے اوپر نہیں ہے مگر نبی یا صدیق یا شہید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر اور عمر اور علی اور عثمان اور طلحہ اور زبیر تھے اور (نبی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے ا ور صدیق سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور باقی سب شہید ہوئے ظلم سے مارے گئے۔ یہاں تک کہ سیدنا طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنھما بھی)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ سَعْدِ ابْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1647) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَهِرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَقْدَمَهُ الْمَدِينَةَ لَيْلَةً فَقَالَ لَيْتَ رَجُلاً صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِي يَحْرُسُنِيَ اللَّيْلَةَ قَالَتْ فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ سَمِعْنَا خَشْخَشَةَ سِلاَحٍ فَقَالَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ( رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ) فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا جَائَ بِكَ ؟ قَالَ وَقَعَ فِي نَفْسِي خَوْفٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَجِئْتُ أَحْرُسُهُ فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ نَامَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ ایک رات (کسی جنگ سے واپس آتے ہوئے) مدینہ کے راستہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور نیند اچاٹ ہو گئی ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کاش! میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ اتنے میں ہ میں ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کون ہے؟‘‘ آواز آئی کہ یا رسول ا للہ ! سعد بن ابی وقاص ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم کیوں آئے؟‘‘ وہ بولے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے دل میں ڈر محسوس ہوا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے کو آیا ہوں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی اور پھر سو رہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1648) عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم جَمَعَ لَهُ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ أَحْرَقَ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَ أُمِّي قَالَ فَنَزَعْتُ لَهُ بِسَهْمٍ لَيْسَ فِيهِ نَصْلٌ فَأَصَبْتُ جَنْبَهُ فَسَقَطَ فَانْكَشَفَتْ عَوْرَتُهُ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى نَوَاجِذِهِ

سیدنا عامر بن سعد اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن اپنے والدین کو ان کے لیے جمع کیا ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مشرکوں میں سے ایک شخص تھا جس نے بہت سے مسلمانوں کو جلا دیا تھا (یعنی بہت سے مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے سعد!تیر چلاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘ میں نے اس کے لیے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور وہ (مشرک) گر گیا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر ہنسے، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک کو دیکھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1649) عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ نَزَلَتْ فِيهِ آيَاتٌ مِنَ الْقُرْآنِ قَالَ حَلَفَتْ أُمُّ سَعْدٍ أَنْ لاَ تُكَلِّمَهُ أَبَدًا حَتَّى يَكْفُرَ بِدِينِهِ وَ لاَ تَأْكُلَ وَ لاَ تَشْرَبَ قَالَتْ زَعَمْتَ أَنَّ اللَّهَ وَصَاكَ بِوَالِدَيْكَ فَأَنَا أُمُّكَ وَ أَنَا آمُرُكَ بِهَذَا قَالَ مَكَثَتْ ثَلاَثًا حَتَّى غُشِيَ عَلَيْهَا مِنَ الْجَهْدِ فَقَامَ ابْنٌ لَهَا يُقَالُ لَهُ عُمَارَةُ فَسَقَاهَا فَجَعَلَتْ تَدْعُو عَلَى سَعْدٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْقُرْآنِ هَذِهِ الآيَةَ { وَ وَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا } (العنكبوت : 8) { وَ إِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا }(لقمان:15) قَالَ وَ أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم غَنِيمَةً عَظِيمَةً فَإِذَا فِيهَا سَيْفٌ فَأَخَذْتُهُ فَأَتَيْتُ بِهِ الرَّسُولَ صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْتُ نَفِّلْنِي هَذَا السَّيْفَ فَأَنَا مَنْ قَدْ عَلِمْتَ حَالَهُ فَقَالَ رُدُّهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى إِذَا أَرَدْتُ أَنْ أُلْقِيَهُ فِي الْقَبَضِ لاَمَتْنِي نَفْسِي فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ أَعْطِنِيهِ قَالَ فَشَدَّ لِي صَوْتَهُ رُدُّهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ { يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ} (الانفال:1) قَالَ وَ مَرِضْتُ فَأَرْسَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَتَانِي فَقُلْتُ دَعْنِي أَقْسِمْ مَالِي حَيْثُ شِئْتُ قَالَ فَأَبَى قُلْتُ فَالنِّصْفَ ؟ قَالَ فَأَبَى قُلْتُ فَالثُّلُثَ ؟ قَالَ فَسَكَتَ فَكَانَ بَعْدُ الثُّلُثُ جَائِزًا قَالَ وَ أَتَيْتُ عَلَى نَفَرٍ مِنَ الأَنْصَارِ وَ الْمُهَاجِرِينَ فَقَالُوا تَعَالَ نُطْعِمْكَ وَ نَسْقِكَ خَمْرًا وَ ذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ الْخَمْرُ قَالَ فَأَتَيْتُهُمْ فِي حَشٍّ وَ الْحَشُّ الْبُسْتَانُ فَإِذَا رَأْسُ جَزُورٍ مَشْوِيٌّ عِنْدَهُمْ وَ زِقٌّ مِنْ خَمْرٍ قَالَ فَأَكَلْتُ وَ شَرِبْتُ مَعَهُمْ قَالَ فَذَكَرْتُ الأَنْصَارَ وَ الْمُهَاجِرِينَ عِنْدَهُمْ فَقُلْتُ الْمُهَاجِرُونَ خَيْرٌ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ فَأَخَذَ رَجُلٌ أَحَدَ لَحْيَيِ الرَّأْسِ فَضَرَبَنِي بِهِ فَجَرَحَ بِأَنْفِي فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْبَرْتُهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِيَّ يَعْنِي نَفْسَهُ شَأْنَ الْخَمْرِ { إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَيْسِرُ وَ الأَنْصَابُ وَ الأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ } (المائدة: 90)


مصعب بن سعد اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن کی کئی آیتیں اتریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ ان سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (یعنی اسلام کو) نہ چھوڑیں گے اور نہ کھائے گی نہ پیے گی۔ وہ کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے ماں باپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اورتجھے اس بات کا حکم کرتی ہوں۔ پھر تین دن تک یوںہی رہی کچھ کھایا نہ پیا، یہاں تک کہ اس کو غش آگیا۔ آخر اس کا ایک بیٹا جس کا نام عمارہ تھا، کھڑا ہوا اور اس کو پانی پلایا۔پس وہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے لیے بددعا کرنے لگی تو اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں یہ آیات اتاریںکہ ’’اور ہم نے آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا۔‘‘(العنکبوت:۸) لیکن اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کا شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی بات مت مان (یعنی شرک مت کر) اور ان کے ساتھ دنیا میں دستور کے موافق رہ۔‘‘ (لقمان:۱۵) ۔ اور ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا اور اس میں ایک تلوار بھی تھی، وہ میں نے لے لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لا کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ تلوار مجھے انعام دے دیجیے جبکہمیرا حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔‘‘ میں گیا اور میں نے قصد کیا کہ پھر اس کو مال غنیمت کے ڈھیر میں ڈال دوں، لیکن میرے دل نے مجھے ملامت کی اور میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹا اور عرض کی کہ یہ تلوار مجھے دے دیجیے ۔توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے فرمایا :’’ اس کو اسی جگہ رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔‘‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ’’وہ تجھ سے مال غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔‘‘(الانفال:۱) سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بیمار ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے کہا کہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اپنا مال جس کو چاہوں بانٹ دوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ مانے۔ میں نے کہا کہ اچھا آدھا مال بانٹ دوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ مانے۔ میں نے کہاکہ اچھا تہائی مال بانٹ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے۔ پھر یہی حکم ہواکہ تہائی مال بانٹنا درست ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک بار میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس گیا، تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم تمہیں کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیںگے اور اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔ میں ان کے ساتھ ایک باغ میں گیا، وہاں ایک اونٹ کے سر کا گوشت بھونا گیا تھا اور شراب کی ایک مشک رکھی تھی، میں نے ان کے ساتھ گوشت کھایا اور شراب پی۔ وہاں مہاجرین اور انصار کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ مہاجرین انصار سے بہتر ہیں۔ ایک شخص نے جبڑے کی ایک ہڈی لی اور مجھے مارا۔ میرے ناک پرزخم لگا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے یہ آیت اتاری کہ ’’شراب ،جوا،تھان اور پانسے یہ سب نجاست ہیں اور شیطان کے کام ہیں۔‘‘ (المائدہ: ۹۰)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1650) عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم سِتَّةَ نَفَرٍ فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ لِلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم اطْرُدْ هَؤُلآئِ لاَ يَجْتَرِئُونَ عَلَيْنَا قَالَ وَ كُنْتُ أَنَا وَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَ رَجُلٌ مِنْ هُذَيْلٍ وَ بِلاَلٌ وَ رَجُلاَنِ لَسْتُ أُسَمِّيهِمَا فَوَقَعَ فِي نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَقَعَ فَحَدَّثَ نَفْسَهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ { وَ لاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَ الْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ } (الأنعام: 52)

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مشرکوں نے کہا کہ آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہانک دیجیے ،یہ ہم پر جرأت نہ کریںگے ۔ان لوگوں میں میں تھا، ابن مسعود تھے اور ایک شخص ہذیل کاتھا اور بلال اور دو شخص اور تھے جن کا نام میں نہیں لیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو اللہ نے چاہا ،وہ آیا ۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل ہی دل میں باتیں کیں ،تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ’’مت بھگا ان لوگوں کو جو اپنے رب کو صبح اور شام کو پکارتے ہیں اور اس کی رضامندی چاہتے ہیں۔‘‘ (الانعام: ۵۲)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ أَبِي عُبَيْدَةَ ابْنِ الْجَرَّاحِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان

(1651) عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَائَ أَهْلُ نَجْرَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! ابْعَثْ لَنَا رَجُلاً أَمِينًا فَقَالَ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكُمْ رَجُلاً أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ حَقَّ أَمِينٍ قَالَ فَاسْتَشْرَفَ لَهَا النَّاسُ قَالَ فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ ابْنَ الْجَرَّاحِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجران کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! ہمارے پاس ایک امانتدار شخص کو بھیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں ضرور تمہارے پاس ایک امانتدار شخص کو بھیجتا ہوں بے شک وہ امانتدار ہے، بے شک وہ امانتدار ہے۔‘‘ راوی نے کہا کہ لوگ منتظر رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کو بھیجتے ہیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (امین الامۃ)سیدنا ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنھما کی فضیلت کا بیان


(1652) عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَقَدْ قُدْتُ بِنَبِيِّ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ بَغْلَتَهُ الشَّهْبَائَ حَتَّى أَدْخَلْتُهُمْ حُجْرَةَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم هَذَا قُدَّامَهُ وَ هَذَا خَلْفَهُ

سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سفید خچر کو کھینچا ،جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنھما سوار تھے، یہاں تک کہ ان کو حجرۂ نبوی تک لے گیا۔ یہ ایک صاحبزادے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے تھے اور ایک پیچھے تھے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1653) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي طَائِفَةٍ مِنَ النَّهَارِ لاَ يُكَلِّمُنِي وَ لاَ أُكَلِّمُهُ حَتَّى جَائَ سُوقَ بَنِي قَيْنُقَاعَ ثُمَّ انْصَرَفَ حَتَّى أَتَى خِبَائَ فَاطِمَةَ فَقَالَ أَ ثَمَّ لُكَعُ ؟ أَ ثَمَّ لُكَعُ ؟ يَعْنِي حَسَنًا فَظَنَنَّا أَنَّهُ إِنَّمَا تَحْبِسُهُ أُمُّهُ لِأَنْ تُغَسِّلَهُ وَ تُلْبِسَهُ سِخَابًا فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَائَ يَسْعَى حَتَّى اعْتَنَقَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَ أَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن کو ایک وقت میں نکلا ، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بات کرتے تھے اور نہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتا تھا (یعنی خاموش چلے جا رہے تھے) ،یہاں تک کہ بنی قینقاع کے بازار میں پہنچے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا کے گھر پر آئے اور پوچھا کہ بچہ ہے ؟بچہ ہے؟ یعنی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا پوچھ رہے تھے۔ ہم سمجھے کہ ان کی ماں نے ان کو روک رکھا ہے، نہلانے دھلانے اور خوشبو کا ہار پہنانے کے لیے،لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آئے اور دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں توبھی اس سے محبت رکھ اور اس شخص سے محبت کر جو اس سے محبت کرے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِنْتِ رَسُوْلِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا بیان


(1654) عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ وَ عِنْدَهُ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا سَمِعَتْ بِذَلِكَ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَتَتِ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ لَهُ إِنَّ قَوْمَكَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّكَ لاَ تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ وَ هَذَا عَلِيٌّ نَاكِحًا ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ قَالَ الْمِسْوَرُ فَقَامَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَنْكَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ فَحَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي وَ إِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ مُضْغَةٌ مِنِّي وَ إِنَّمَا أَكْرَهُ أَنْ يَفْتِنُوهَا وَ إِنَّهَا وَ اللَّهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ وَ بِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَبَدًا قَالَ فَتَرَكَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْخِطْبَةَ

سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو (نکاح کا) پیام دیا حالانکہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا تھیں۔ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا نے یہ خبر سنی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ا پنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں ہوتے اور یہ علی( رضی اللہ عنہ ) ہیں جو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سنا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادتین پڑھنے کے بعدفرمایا: ’’امابعد! میں نے اپنی لڑکی (سیدہ زینب رضی اللہ عنھا ) کا نکاح ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کیا، اس نے جو بات مجھ سے کہی وہ سچ کہی ا ور فاطمہ بنت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے گوشت کا ٹکڑا ہے اور مجھے برا لگتا ہے کہ لوگ اس کو آزمائش میں ڈالیں (یعنی جب علی دوسرا نکاح کریں گے تو شاید فاطمہ رضی اللہ عنھا رشک کی وجہ سے کوئی بات اپنے خاوندکے خلاف کہہ بیٹھیں یا ان کی نافرمانی کریں اور گنہگار ہوں) اور اللہ کی قسم! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی لڑکی دونوں ایک مرد کے پاس جمع نہ ہوں گی۔‘‘ یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیام نکاح چھوڑ دیا۔ (یعنی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ ختم کر دیا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1655) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كُنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم عِنْدَهُ لَمْ يُغَادِرْ مِنْهُنَّ وَاحِدَةً فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَمْشِي مَا تُخْطِئُ مِشْيَتُهَا مِنْ مِشْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم شَيْئًا فَلَمَّا رَآهَا رَحَّبَ بِهَا فَقَالَ مَرْحَبًا بِابْنَتِي ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ سَارَّهَا فَبَكَتْ بُكَائً شَدِيدًا فَلَمَّا رَأَى جَزَعَهَا سَارَّهَا الثَّانِيَةَ فَضَحِكَتْ فَقُلْتُ لَهَا خَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ بَيْنِ نِسَائِهِ بِالسِّرَارِ ثُمَّ أَنْتِ تَبْكِينَ فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَأَلْتُهَا مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قَالَتْ مَا كُنْتُ أُفْشِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سِرَّهُ قَالَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قُلْتُ عَزَمْتُ عَلَيْكِ بِمَا لِي عَلَيْكِ مِنَ الْحَقِّ لَمَا حَدَّثْتِنِي مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ أَمَّا الآنَ فَنَعَمْ أَمَّا حِينَ سَارَّنِي فِي الْمَرَّةِ الأُولَى فَأَخْبَرَنِي أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ وَ إِنَّهُ عَارَضَهُ الآنَ مَرَّتَيْنِ وَ إِنِّي لاَ أُرَى الأَجَلَ إِلاَّ قَدِ اقْتَرَبَ فَاتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي فَإِنَّهُ نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ قَالَتْ فَبَكَيْتُ بُكَائِي الَّذِي رَأَيْتِ فَلَمَّا رَأَى جَزَعِي سَارَّنِي الثَّانِيَةَ فَقَالَ يَا فَاطِمَةُ ! أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَائِ الْمُؤْمِنِينَ أَوْ سَيِّدَةَ نِسَائِ هَذِهِ الأُمَّةِ ؟ قَالَتْ فَضَحِكْتُ ضَحِكِي الَّذِي رَأَيْتِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی حالت میں )، کوئی بیوی ایسی نہ تھی جو پاس نہ ہوکہ اتنے میں سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا آئیں اور وہ بالکل اسی طرح چلتی تھیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں دیکھا تو خوش آمدیدکہا اور فرمایا: ’’مرحبامیری بیٹی۔‘‘ پھر ان کو اپنے دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا اور ان کے کان میں آہستہ سے کچھ فرمایا تو وہ بہت روئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ حال دیکھا تو دوبارہ ان کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنس دیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تم سے راز کی باتیں کیں، پھر تم روتی ہو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی نہیں ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے ان کو قسم دی اس حق کی جو میرا ان پر تھا اور کہا کہ مجھ سے بیان کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے فرمایا تھا، تو انہوں نے کہا کہ اب البتہ میں بیان کروں گی۔ پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کان میں یہ فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام ہر سال ایک بار یا دو بار مجھ سے قرآن کا دور کرتے تھے اور اس سال انہوں نے دوبار دور کیا اور میں خیال کرتا ہوں کہ میرا (دنیا سے جانے کا) وقت قریب آ گیا ہے،پس اللہ سے ڈرتی رہ اور صبر کر، میں تیرا بہت اچھا منتظر ہوں۔‘‘ یہ سن کر میں رونے لگی جیسے تم نے میرا رونا دیکھا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا رونا دیکھا تو دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا: ’’اے فاطمہ! تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ تو مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو؟ ‘‘یہ سن کر میں ہنسی جیسے کہ تم نے دیکھا تھا۔
 
Top