• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1666) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا خَرَجَ أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ فَطَارَتِ الْقُرْعَةُ عَلَى عَائِشَةَ وَ حَفْصَةَ فَخَرَجَتَا مَعَهُ جَمِيعًا وَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا كَانَ بِاللَّيْلِ سَارَ مَعَ عَائِشَةَ يَتَحَدَّثُ مَعَهَا فَقَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ أَلآ تَرْكَبِينَ اللَّيْلَةَ بَعِيرِي وَ أَرْكَبُ بَعِيرَكِ فَتَنْظُرِينَ وَ أَنْظُرُ قَالَتْ بَلَى فَرَكِبَتْ عَائِشَةُ عَلَى بَعِيرِ حَفْصَةَ وَ رَكِبَتْ حَفْصَةُ عَلَى بَعِيرِ عَائِشَةَ فَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى جَمَلِ عَائِشَةَ وَ عَلَيْهِ حَفْصَةُ فَسَلَّمَ ثُمَّ سَارَ مَعَهَا حَتَّى نَزَلُوا فَافْتَقَدَتْهُ عَائِشَةُ فَغَارَتْ فَلَمَّا نَزَلُوا جَعَلَتْ تَجْعَلُ رِجْلَهَا بَيْنَ الإِذْخِرِ وَ تَقُولُ يَا رَبِّ ! سَلِّطْ عَلَيَّ عَقْرَبًا أَوْ حَيَّةً تَلْدَغُنِي ، رَسُولُكَ وَ لاَ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقُولَ لَهُ شَيْئًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کو جاتے تو اپنی ازواج پر قرعہ ڈالتے۔ ایک بار قرعہ مجھ پر اور ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنھا پر آیا اور ہم دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو سفر کرتے تو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ ساتھ ان سے باتیں کرتے ہوئے چلتے ۔ حفصہ رضی اللہ عنھا نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے کہا کہ آج رات تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر سوار ہوتی ہوں ،تم دیکھو گی جو تم نہیں دیکھتی تھیں اور میں دیکھوں گی جو میں نہیں دیکھتی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ ٹھیک ہے، تو وہ حفصہ رضی اللہ عنھا کے اونٹ پر سوار ہوئیں اور حفصہ رضی اللہ عنھا ان کے اونٹ پر۔ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کے اونٹ کی طرف آئے، جس پر حفصہ رضی اللہ عنھا سوارتھیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور ان ہی کے ساتھ ساتھ چلے ،یہاں تک کہ منزل پر اترے۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (رات بھر) نہ پایا تو انہیں غیرت آئی۔ جب وہ اتریں تو اپنے پاؤں اذخر (گھاس) میں ڈالتیں اور کہتیں کہ اے اللہ! مجھ پر بچھو یا سانپ مسلط کر جو مجھے ڈس لے۔ وہ تو تیرے رسول ہیں، میں انھیں کچھ نہیں کہہ سکتی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1667) عَنْ أَبِيْ مُوْسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيْرٌ وَ لَمْ تَكْمُلْ مِنَ النِّسَائِ غَيْرُ مَرَيَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ، وَ آسِيَةَ امْرَأَةِ فِرْعَوْنَ، وَ إِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَائِ كَفَضْلِ الثَّرِيْدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ

سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مردوں میں بہت لوگ کامل ہوئے، لیکن عورتوں میں کوئی کامل نہیں ہوئی سوائے مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنھما کے اور عائشہ رضی اللہ عنھا کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1668) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَا عَائِشُ ! هَذَا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلاَمَ قَالَتْ فَقُلْتُ وَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ قَالَتْ وَ هُوَ يَرَى مَا لاَ أَرَى


ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائش! یہ جبرئیل علیہ السلام ہیں تمہیں سلام کہتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’ وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ چیزیں دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھتی تھی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : منه، وَ ذِكْرُ حَدِيْثِ أُمِّ زَرْعٍ
اسی سے متعلق اور ام زرع کی حدیث کے بیان میں


(1669) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ جَلَسَ إِحْدَى عَشْرَةَ امْرَأَةً فَتَعَاهَدْنَ وَ تَعَاقَدْنَ أَنْ لاَ يَكْتُمْنَ مِنْ أَخْبَارِ أَزْوَاجِهِنَّ شَيْئًا قَالَتِ الأُولَى زَوْجِي لَحْمُ جَمَلٍ غَثٌّ عَلَى رَأْسِ جَبَلٍ وَعْرٍ لاَ سَهْلٌ فَيُرْتَقَى وَ لاَ سَمِينٌ فَيُنْتَقَيَ قَالَتِ الثَّانِيَةُ زَوْجِي لاَ أَبُثُّ خَبَرَهُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ لاَ أَذَرَهُ إِنْ أَذْكُرْهُ أَذْكُرْ عُجَرَهُ وَ بُجَرَهُ قَالَتِ الثَّالِثَةُ زَوْجِي الْعَشَنَّقُ إِنْ أَنْطِقْ أُطَلَّقْ وَ إِنْ أَسْكُتْ أُعَلَّقْ قَالَتِ الرَّابِعَةُ زَوْجِي كَلَيْلِ تِهَامَةَ لاَ حَرٌّ وَ لاَ قُرٌّ وَ لاَ مَخَافَةَ وَ لاَ سَآمَةَ قَالَتِ الْخَامِسَةُ زَوْجِي إِنْ دَخَلَ فَهِدَ وَ إِنْ خَرَجَ أَسِدَ وَ لاَ يَسْأَلُ عَمَّا عَهِدَ قَالَتِ السَّادِسَةُ زَوْجِي إِنْ أَكَلَ لَفَّ وَ إِنْ شَرِبَ اشْتَفَّ وَ إِنِ اضْطَجَعَ الْتَفَّ وَ لاَ يُولِجُ الْكَفَّ لِيَعْلَمَ الْبَثَّ قَالَتِ السَّابِعَةُ زَوْجِي غَيَايَائُ أَوْ عَيَايَائُ طَبَاقَائُ كُلُّ دَائٍ لَهُ دَائٌ شَجَّكِ أَوْ فَلَّكِ أَوْ جَمَعَ كُلًّا لَكِ قَالَتِ الثَّامِنَةُ زَوْجِي الرِّيحُ رِيحُ زَرْنَبٍ وَ الْمَسُّ مَسُّ أَرْنَبٍ قَالَتِ التَّاسِعَةُ زَوْجِي رَفِيعُ الْعِمَادِ طَوِيلُ النِّجَادِ عَظِيمُ الرَّمَادِ قَرِيبُ الْبَيْتِ مِنَ النَّادِ قَالَتِ الْعَاشِرَةُ زَوْجِي مَالِكٌ وَ مَا مَالِكٌ ؟ مَالِكٌ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ لَهُ إِبِلٌ كَثِيرَاتُ الْمَبَارِكِ قَلِيلاَتُ الْمَسَارِحِ إِذَا سَمِعْنَ صَوْتَ الْمِزْهَرِ أَيْقَنَّ أَنَّهُنَّ هَوَالِكُ قَالَتِ الْحَادِيَةَ عَشْرَةَ زَوْجِي أَبُو زَرْعٍ فَمَا أَبُو زَرْعٍ ؟ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنَيَّ وَ مَلَأَ مِنْ شَحْمٍ عَضُدَيَّ وَ بَجَّحَنِي فَبَجَحَتْ إِلَيَّ نَفْسِي وَجَدَنِي فِي أَهْلِ غُنَيْمَةٍ بِشِقٍّ فَجَعَلَنِي فِي أَهْلِ صَهِيلٍ وَ أَطِيطٍ وَ دَائِسٍ وَ مُنَقٍّ فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلاَ أُقَبَّحُ وَ أَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ وَ أَشْرَبُ فَأَتَقَنَّحُ أُمُّ أَبِي زَرْعٍ فَمَا أُمُّ أَبِي زَرْعٍ ؟ عُكُومُهَا رَدَاحٌ وَ بَيْتُهَا فَسَاحٌ ابْنُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا ابْنُ أَبِي زَرْعٍ؟ مَضْجَعُهُ كَمَسَلِّ شَطْبَةٍ وَ تُشْبِعُهُ ذِرَاعُ الْجَفْرَةِ بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ ؟ طَوْعُ أَبِيهَا وَ طَوْعُ أُمِّهَا وَ مِلْئُ كِسَائِهَا وَ غَيْظُ جَارَتِهَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ؟ لاَ تَبُثُّ حَدِيثَنَا تَبْثِيثًا وَ لاَ تُنَقِّثُ مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا وَ لاَ تَمْلأُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا قَالَتْ خَرَجَ أَبُو زَرْعٍ وَ الأَوْطَابُ تُمْخَضُ فَلَقِيَ امْرَأَةً مَعَهَا وَلَدَانِ لَهَا كَالْفَهْدَيْنِ يَلْعَبَانِ مِنْ تَحْتِ خَصْرِهَا بِرُمَّانَتَيْنِ فَطَلَّقَنِي وَ نَكَحَهَا فَنَكَحْتُ بَعْدَهُ رَجُلاً سَرِيًّا رَكِبَ شَرِيًّا وَ أَخَذَ خَطِّيًّا وَ أَرَاحَ عَلَيَّ نَعَمًا ثَرِيًّا وَ أَعْطَانِي مِنْ كُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا وَ قَالَ كُلِي أُمَّ زَرْعٍ وَ مِيرِي أَهْلَكِ فَلَوْ جَمَعْتُ كُلَّ شَيْئٍ أَعْطَانِيهِ مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِيَةِ أَبِي زَرْعٍ قَالَتْ عَائِشَةُ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كُنْتُ لَكِ كَأَبِي زَرْعٍ لِأُمِّ زَرْعٍ


ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ گیارہ عورتیں بیٹھیں اور ان سب نے یہ اقرار کیا، عہد کیا کہ اپنے اپنے خاوندوں کی کوئی بات نہ چھپائیں گی۔ پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند گویا دبلے اونٹ کا گوشت ہے، جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو۔ نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔ دوسری عورت نے کہا کہ میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی ، میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کر سکوں گی کیونکہ اس میں ظاہری و باطنی عیوب… بہت زیادہ ہیں۔ (اور بعض نے یہ معنی کیے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں گی تو اس کو چھوڑ دوں گی۔یعنی وہ خفا ہو کر مجھے طلاق دے گا اور اس کو چھوڑ نا پڑے گا)۔ تیسری عورت نے کہا کہ میرا خاوند لمبے قد والا اوراحمق ہے اگر میں اس کی برائی بیان کروں تو مجھے طلاق دیدے گا اور جو چپ رہوں تو اس طرح معلق رہوں گی (یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی)۔چوتھی نے کہا کہ میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ (حجاز اور مکہ) کی رات۔ نہ گرم ہے نہ سرد ہے (یعنی معتدل المزاج ہے) نہ ڈر ہے نہ رنج ہے (یہ اس کی تعریف کی یعنی اس کے اخلاق عمدہ ہیں اور وہ میری صحبت سے ملول نہیں ہوتا ہے)۔ پانچویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا ہے (یعنی آتے ہی سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا) اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر ہے اور جو مال اسباب گھر میں چھوڑ جاتا ہے اس کے متعلق نہیں پوچھتا۔ چھٹی عورت نے کہا کہ میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب ختم کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑتا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ درد پہچانے (یہ بھی ہجو ہے کہ بیل کی طرح کھانے پینے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ،عورت کی خبر تک نہیں لیتا)۔ ساتویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند نامرد ہے یا شریر نہایت احمق ہے کہ کلام کرنا نہیں جانتا ، دنیا بھر کے سارے عیب اس میں موجود ہیں۔ ایسا ظالم ہے کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے۔ آٹھویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند بو میں زرنب ہے (زرنب ایک خوشبودار گھاس ہے) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش (یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں)۔ نویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند اونچے محل والا،لمبے پرتلے والا (یعنی قد آور) اوربڑی راکھ والا (یعنی سخی) ہے (اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے تو راکھ بہت نکلتی ہے) اس کا گھر قوم کے مل بیٹھ کر مشورہ کرنے کی جگہ (ڈیرہ وغیرہ)سے نزدیک ہے (یعنی سردار صائب الرائے ہے)۔ دسویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام مالک ہے اور مالک کیا خوب ہے ۔مالک میری اس تعریف سے افضل ہے۔ اس کے اونٹوں کے بہت سے شترخانے ہیں جبکہ چراگاہیں کم ہیں (یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ بہت ذبح ہوا کرتے ہیں، اس سبب سے شترخانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں) ۔جب اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا، اس سبب سے باجے کی آواز سن کر اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا تھا)۔ گیارھویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام ابوزرع ،ہے سو واہ ! کیا خوب ابوزرع ہے۔ اس نے زیور سے میرے دونوں کان جھلائے اور چربی سے میرے دونوں بازو بھرے (یعنی مجھے موٹا کیا اور بہت خوش کیا)، سو میری جان بہت چین میں رہی، مجھے اس نے بھیڑ بکری والوں میں پایا جو پہاڑ کے کنارے رہتے تھے، پس اس نے مجھے گھوڑے،اونٹ ،کھیت اور خرمن (غلہ کا وہ ڈھیر جس سے بھوسا الگ نہ کیا گیا ہو ) کا مالک کر دیا (یعنی میں غریب اور محتاج تھی، اس نے مجھے باعزت اور مالدار کر دیا) ۔ میں اس کے پاس کوئی بات کرتی ہوں تو مجھے برا نہیں کہا جاتا۔ سوتی ہوں تو فجر کر دیتی ہوں (یعنی کچھ کام نہیں کرنا پڑتا) اور پیتی ہوں تو سیراب ہو جاتی ہوں۔ اور ابوزرع کی ماں، پس ابوزرع کی ماں بھی کیا خوب ہے۔ اس کی بڑی بڑی گٹھڑیاں اور کشادہ گھرہیں۔ ابوزرع کا بیٹا، پس ابو زرع کا بیٹا بھی کیا خوب ہے۔ اس کی خوابگاہ جیسے تلوار کا میان (یعنی نازنین بدن ہے)۔ اس کو حلوان کا ہاتھ آسودہ (سیر) کر دیتا ہے (یعنی کم خور ہے)۔ ابوزرع کی بیٹی، پس ابوزرع کی بیٹی بھی کیا خوب ہے۔ اپنے والدین کی تابعدار اور اپنے لباس کو بھرنے والی (یعنی موٹی ہے) اور اپنی سوتن کے لیے باعث حسد (یعنی اپنے خاوند کی پیاری ہے، اس لیے اس کی سوتن اس سے جلتی ہے) اور ابوزرع کی لونڈی ،ابوزرع کی لونڈی بھی کیا خوب ہے۔ ہماری بات مشہور نہیں کرتی (یعنی ہمارا راز کسی پر ظاہر نہیں کرتی) اور ہمارا کھانا اٹھا کر نہیں لے جاتی اور ہمارا گھر کچرے سے آلودہ نہیں رکھتی۔ ابوزرع باہر نکلا جب کہ مشکوں میں دودھ (گھی نکالنے کے لیے) بلویا جا رہاتھا۔ پس وہ ایک عورت سے ملا ،جس کے ساتھ اس کے دو لڑکے تھے جیسے دو چیتے اس کی گود میں دو اناروں سے کھیلتے ہوں۔ پس ابوزرع نے مجھے طلاق دی اور اس عورت سے نکاح کر لیا ۔ پھر میں نے اس کے بعد ایک سردار مرد سے نکاح کیا جو ایک بہترین گھڑ سوار اور نیزہ باز ہے۔ اس نے مجھے چوپائے جانور بہت زیادہ دیے اور اس نے مجھے ہر ایک مویشی سے جوڑا جوڑا دیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اے ام زرع! خودبھی کھا او ر اپنے گھر والوں کو بھی کھلا۔ پس اگر میں وہ چیزیں جمع کروں جو مجھے دوسرے شوہر نے دیں، تو وہ ابوزرع کے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ پہنچیں (یعنی دوسرے خاوند کا احسان پہلے خاوند کے احسان سے نہایت کم ہے)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’ میں تیرے لیے ایساہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لیے تھا(لیکن نہ تجھے طلاق دی ہے اور نہ دوں گا)۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ خَدِيْجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ ،رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , زَوْجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا کی فضیلت کابیان


(1670) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْكُوفَةِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ خَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ وَ أَشَارَ وَكِيعٌ إِلَى السَّمَائِ وَالأَرْضِ

سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کوفہ میں سنا ،وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’(زمین وآسمان کے اندر) جتنی عورتیں ہیں سب میں مریم بنت عمران([) افضل ہیں اور (آسمان اور زمین کے اندر )جتنی عورتیں ہیں سب میں خدیجہ بنت خویلد ( رضی اللہ عنھا ) افضل ہیں۔ ابوکریب نے کہاکہ وکیع نے آسمانوں اور زمین کی طرف اشارہ کیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1671) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْكَ مَعَهَا إِنَائٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلاَمَ مِنْ رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ وَ مِنِّي وَ بَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لاَ صَخَبَ فِيهِ وَ لاَ نَصَبَ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یارسول اللہ! یہ خدیجہ ایک برتن لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آرہی ہیں ، اس میں سالن ہے یا کھانا ہے یا شربت ہے۔ پھر جب وہ آئیں تو آپ ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام کہیے اور میری طرف سے بھی اور ان کو ایک گھر کی خوشخبری دیجیے جو جنت میں خولدار موتی کا بنا ہوا ہے ، جس میں کوئی شور ہے اور نہ کوئی تکلیف ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1672) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ مَا غِرْتُ عَلَى نِسَائِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم إِلاَّ عَلَى خَدِيجَةَ وَ إِنِّي لَمْ أُدْرِكْهَا قَالَتْ وَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا ذَبَحَ الشَّاةَ فَيَقُولُ أَرْسِلُوا بِهَا إِلَى أَصْدِقَائِ خَدِيجَةَ قَالَتْ فَأَغْضَبْتُهُ يَوْمًا فَقُلْتُ خَدِيجَةَ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنِّي قَدْ رُزِقْتُ حُبَّهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے کسی پر رشک نہیں کیا، البتہ خدیجہ رضی اللہ عنھا پر کیا حالانکہ میں نے ان کونہیں پایا (دیکھا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بکری ذبح کرتے تو فرماتے :’’اس کا گوشت خدیجہ کی سہیلیوں کو بھیجو۔‘‘ ایک دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کیا اور کہا کہ خدیجہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے (دل میں ) اس کی محبت ڈال دی گئی ہے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1673) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمْ يَتَزَوَّجِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى خَدِيجَةَ حَتَّى مَاتَتْ
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیحہ رضی اللہ عنھا پر دوسرا نکاح نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئیں۔

(1674) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتِ اسْتَأْذَنَتْ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أُخْتُ خَدِيجَةَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَعَرَفَ اسْتِئْذَانَ خَدِيجَةَ فَارْتَاحَ لِذَلِكَ فَقَالَ اللَّهُمَّ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ فَغِرْتُ فَقُلْتُ وَ مَا تَذْكُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ حَمْرَائِ الشِّدْقَيْنِ هَلَكَتْ فِي الدَّهْرِ فَأَبْدَلَكَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا ؟

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ خدیحہ رضی اللہ عنھا کی بہن ہالہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ رضی اللہ عنھا کا اجازت مانگنا یاد آگیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا: ’’یا اللہ ! ہالہ بنت خویلد۔‘‘ مجھے رشک آیا تو میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یاد کرتے ہیں قریش کی بوڑھیوں میں سے سرخ مسوڑھوں والی ایک بڑھیا کو (یعنی انتہا کی بڑھیا جس کے ایک دانت بھی نہ رہا ہو، صرف سرخی ہی سرخی ہو، دانت کی سفیدی بالکل نہ ہو)جو مدت گزری فوت ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بہتر عورت دی (جوان باکرہ )۔(جیسے میں ہوں۔‘‘ قاضی نے کہا کہ عورتوں کو ایسا رشک معاف ہے کیونکہ یہ ان کی طبعی عادت ہے اور اسی واسطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنھا کو ایسا کہنے سے منع نہیں کیا اور میرے نزدیک اس کی وجہ یہ تھی کہ عائشہ رضی اللہ عنھا کمسن تھیں اور اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر خفا نہ ہوئے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ زَيْنَبَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
ام المومنین زینب رضی اللہ عنھا کی فضیلت کا بیان

(1675) عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَسْرَعُكُنَّ لَحَاقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا قَالَتْ فَكُنَّ يَتَطَاوَلْنَ أَيَّتُهُنَّ أَطْوَلُ يَدًا قَالَتْ فَكَانَتْ أَطْوَلَنَا يَدًا زَيْنَبُ لِأَنَّهَا كَانَتْ تَعْمَلُ بِيَدِهَا وَ تَصَدَّقُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی ازواج سے) فرمایا: ’’تم میں سے سب سے پہلے مجھ سے ملے گی جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔‘‘ پس سب ازاوج مطہرات نے اپنے اپنے ہاتھ ناپے تاکہ معلوم ہو کہ کس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے کہاکہ ہم سب میں سیدہ زینب رضی اللہ عنھا کے ہاتھ زیادہ لمبے تھے ، اس لیے کہ وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرتیں اور صدقہ دیتیں تھیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی فضیلت کا بیان


(1676) عَنْ أَبِيْ عُثْمَانَ عَنْ سَلْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لاَ تَكُونَنَّ إِنِ اسْتَطَعْتَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ السُّوقَ وَ لاَ آخِرَ مَنْ يَخْرُجُ مِنْهَا فَإِنَّهَا مَعْرَكَةُ الشَّيْطَانِ وَ بِهَا يَنْصِبُ رَايَتَهُ قَالَ وَ أُنْبِئْتُ أَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَتَى نَبِيَّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ عِنْدَهُ أُمُّ سَلَمَةَ قَالَ فَجَعَلَ يَتَحَدَّثُ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِأُمِّ سَلَمَةَ مَنْ هَذَا أَوْ كَمَا قَالَ ؟ قَالَتْ هَذَا دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ قَالَ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ ايْمُ اللَّهِ مَا حَسِبْتُهُ إِلاَّ إِيَّاهُ حَتَّى سَمِعْتُ خُطْبَةَ نَبِيِّ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم يُخْبِرُ خَبَرَنَا أَوْ كَمَا قَالَ قَالَ فَقُلْتُ لِأَبِي عُثْمَانَ مِمَّنْ سَمِعْتَ هَذَا ؟ قَالَ مِنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ

ابوعثمان سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا اگر ہو سکے تو سب سے پہلے بازار میں مت جا اور نہ سب کے بعد وہاں سے نکل ،کیونکہ بازار شیطان کا میدان جنگ ہے اور وہیں وہ اپنا جھنڈا گاڑتا ہے۔ انہوں نے کہا مجھے خبردی گئی کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا تھیں۔جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنے لگے ،پھر کھڑے ہوئے (یعنی چلے گئے)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا :’’ یہ کون شخص تھے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ دحیہ کلبی تھے۔ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم تو انہیں دحیہ کلبی ہی سمجھے، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خبر بیان کرتے تھے۔ میں (راوئ حدیث) نے کہا کہ میں نے ابوعثمان سے پوچھا کہ یہ حدیث آپ نے کس سے سنی؟ تو انہوں نے فرمایا: ’’سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے۔
 
Top