ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ وَ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَيْسٍ وَ أَهْلِ سَفِيْنَتِهِمْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
سیدنا جعفر بن ابی طالب ،اسماء بنت عمیس اور ان کی کشتی والوںکی فضیلت کا بیان
(1687) عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ بَلَغَنَا مَخْرَجُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ نَحْنُ بِالْيَمَنِ فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا وَ أَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمَا أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ وَ الآخَرُ أَبُو رُهْمٍ إِمَّا قَالَ بِضْعًا وَ إِمَّا قَالَ ثَلاَثَةً وَ خَمْسِينَ أَوِ اثْنَيْنِ وَ خَمْسِينَ رَجُلاً مِنْ قَوْمِي قَالَ فَرَكِبْنَا سَفِينَةً فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ أَصْحَابَهُ عِنْدَهُ فَقَالَ جَعْفَرٌ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعَثَنَا هَاهُنَا وَ أَمَرَنَا بِالإِقَامَةِ فَأَقِيمُوا مَعَنَا فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا قَالَ فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ فَأَسْهَمَ لَنَا أَوْ قَالَ أَعْطَانَا مِنْهَا وَ مَا قَسَمَ لِأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا إِلاَّ لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ إِلاَّ لِأَصْحَابِ سَفِينَتِنَا مَعَ جَعْفَرٍ وَ أَصْحَابِهِ قَسَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ قَالَ فَكَانَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ يَقُولُونَ لَنَا يَعْنِي لِأَهْلِ السَّفِينَةِ نَحْنُ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ قَالَ فَدَخَلَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَيْسٍ ، وَ هِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا ، عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم زَائِرَةً وَ قَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ فَدَخَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى حَفْصَةَ وَ أَسْمَائُ عِنْدَهَا فَقَالَ عُمَرُ حِينَ رَأَى أَسْمَائَ مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَيْسٍ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْحَبَشِيَّةُ هَذِهِ ؟ الْبَحْرِيَّةُ هَذِهِ؟ فَقَالَتْ أَسْمَائُ نَعَمْ فَقَالَ عُمَرُ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم مِنْكُمْ فَغَضِبَتْ وَ قَالَتْ كَلِمَةً كَذَبْتَ يَا عُمَرُ ! كَلاَّ وَ اللَّهِ كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ وَ يَعِظُ جَاهِلَكُمْ وَ كُنَّا فِي دَارِ أَوْ فِي أَرْضِ الْبُعَدَائِ وَ الْبُغَضَائِ فِي الْحَبَشَةِ وَ ذَلِكَ فِي اللَّهِ وَ فِي رَسُولِهِ وَ ايْمُ اللَّهِ لاَ أَطْعَمُ طَعَامًا وَ لاَ أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ نَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَ نُخَافُ وَ سَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَسْأَلُهُ وَ وَ اللَّهِ لاَ أَكْذِبُ وَ لاَ أَزِيغُ وَ لاَ أَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ قَالَ فَلَمَّا جَائَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ! إِنَّ عُمَرَ قَالَ كَذَا وَ كَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ وَ لَهُ وَ لِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ وَ لَكُمْ أَنْتُمْ أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ قَالَتْ فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى وَ أَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونَنِي أَرْسَالاً يَسْأَلُونَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ مَا مِنَ الدُّنْيَا شَيْئٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَ لاَ أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَبُو بُرْدَةَ فَقَالَتْ أَسْمَائُ فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى وَ إِنَّهُ لَيَسْتَعِيدُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنِّي
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم یمن میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے نکلنے کی خبر پہنچی۔ پس ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور میرے دو بھائی ایک ابو بردہ اور دوسرے ابو رہم تھے، میں ان سے چھوٹا تھا اور ترپن یا باون یا کہا کہ پچاس سے کچھ اوپر آدمی میری قوم میں سے ہمارے ساتھ آئے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سب جہاز میں سوار ہوئے ، اتفاق سے یہ جہاز ہمیں حبشہ میں نجاشی بادشاہ کے پاس لے گیا ۔وہاں ہمیں سیدنا جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ملے۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم کیا ہے ،پس تم بھی ہمارے ساتھ ٹھہرو۔ پس ہم نے ان کے پاس قیام کیا، پھر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے اور ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کر چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے مال غنیمت سے ہمارا حصہ نکالا اور خیبر کی لڑائی سے جو شخص غائب تھا، اس کو حصہ نہ ملا سوائے ہماری کشتی والوں کے اور بعض لوگ ہمیں (یعنی اہل سفینہ سے) کہنے لگے کہ ہجرت میں ہم لوگ تم پر سبقت لے گئے ہیں ۔ اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا جو ہمارے ساتھ آئی تھیں، ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنھا سے ملنے گئیں اور انہوں نے بھی نجاشی کے ملک میں مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی ( کہ اس دوران ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا ان کے پاس موجود تھیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء رضی اللہ عنھا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنھا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہیں ۔تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفرکر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنھا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ’’اے عمر! اللہ کی قسم! ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا، تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پراس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوںگی اور اللہ کی قسم! نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے عرض کی کہ یا نبی اللہ ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے، کیونکہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں(ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔‘‘ سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ درگروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے اور دنیا میں کوئی چیز ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے نہ زیادہ خوشی کی تھی اور نہ اتنی بڑی تھی۔ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو (خوشی کے لیے ) بار بار سننا چاہتے تھے۔
سیدنا جعفر بن ابی طالب ،اسماء بنت عمیس اور ان کی کشتی والوںکی فضیلت کا بیان
(1687) عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ بَلَغَنَا مَخْرَجُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ نَحْنُ بِالْيَمَنِ فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا وَ أَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمَا أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ وَ الآخَرُ أَبُو رُهْمٍ إِمَّا قَالَ بِضْعًا وَ إِمَّا قَالَ ثَلاَثَةً وَ خَمْسِينَ أَوِ اثْنَيْنِ وَ خَمْسِينَ رَجُلاً مِنْ قَوْمِي قَالَ فَرَكِبْنَا سَفِينَةً فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ أَصْحَابَهُ عِنْدَهُ فَقَالَ جَعْفَرٌ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعَثَنَا هَاهُنَا وَ أَمَرَنَا بِالإِقَامَةِ فَأَقِيمُوا مَعَنَا فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا قَالَ فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ فَأَسْهَمَ لَنَا أَوْ قَالَ أَعْطَانَا مِنْهَا وَ مَا قَسَمَ لِأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا إِلاَّ لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ إِلاَّ لِأَصْحَابِ سَفِينَتِنَا مَعَ جَعْفَرٍ وَ أَصْحَابِهِ قَسَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ قَالَ فَكَانَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ يَقُولُونَ لَنَا يَعْنِي لِأَهْلِ السَّفِينَةِ نَحْنُ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ قَالَ فَدَخَلَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَيْسٍ ، وَ هِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا ، عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم زَائِرَةً وَ قَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ فَدَخَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى حَفْصَةَ وَ أَسْمَائُ عِنْدَهَا فَقَالَ عُمَرُ حِينَ رَأَى أَسْمَائَ مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَيْسٍ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْحَبَشِيَّةُ هَذِهِ ؟ الْبَحْرِيَّةُ هَذِهِ؟ فَقَالَتْ أَسْمَائُ نَعَمْ فَقَالَ عُمَرُ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم مِنْكُمْ فَغَضِبَتْ وَ قَالَتْ كَلِمَةً كَذَبْتَ يَا عُمَرُ ! كَلاَّ وَ اللَّهِ كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ وَ يَعِظُ جَاهِلَكُمْ وَ كُنَّا فِي دَارِ أَوْ فِي أَرْضِ الْبُعَدَائِ وَ الْبُغَضَائِ فِي الْحَبَشَةِ وَ ذَلِكَ فِي اللَّهِ وَ فِي رَسُولِهِ وَ ايْمُ اللَّهِ لاَ أَطْعَمُ طَعَامًا وَ لاَ أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ نَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَ نُخَافُ وَ سَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَسْأَلُهُ وَ وَ اللَّهِ لاَ أَكْذِبُ وَ لاَ أَزِيغُ وَ لاَ أَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ قَالَ فَلَمَّا جَائَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ! إِنَّ عُمَرَ قَالَ كَذَا وَ كَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ وَ لَهُ وَ لِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ وَ لَكُمْ أَنْتُمْ أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ قَالَتْ فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى وَ أَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونَنِي أَرْسَالاً يَسْأَلُونَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ مَا مِنَ الدُّنْيَا شَيْئٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَ لاَ أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَبُو بُرْدَةَ فَقَالَتْ أَسْمَائُ فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى وَ إِنَّهُ لَيَسْتَعِيدُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنِّي
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم یمن میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے نکلنے کی خبر پہنچی۔ پس ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور میرے دو بھائی ایک ابو بردہ اور دوسرے ابو رہم تھے، میں ان سے چھوٹا تھا اور ترپن یا باون یا کہا کہ پچاس سے کچھ اوپر آدمی میری قوم میں سے ہمارے ساتھ آئے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سب جہاز میں سوار ہوئے ، اتفاق سے یہ جہاز ہمیں حبشہ میں نجاشی بادشاہ کے پاس لے گیا ۔وہاں ہمیں سیدنا جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ملے۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم کیا ہے ،پس تم بھی ہمارے ساتھ ٹھہرو۔ پس ہم نے ان کے پاس قیام کیا، پھر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے اور ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کر چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے مال غنیمت سے ہمارا حصہ نکالا اور خیبر کی لڑائی سے جو شخص غائب تھا، اس کو حصہ نہ ملا سوائے ہماری کشتی والوں کے اور بعض لوگ ہمیں (یعنی اہل سفینہ سے) کہنے لگے کہ ہجرت میں ہم لوگ تم پر سبقت لے گئے ہیں ۔ اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا جو ہمارے ساتھ آئی تھیں، ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنھا سے ملنے گئیں اور انہوں نے بھی نجاشی کے ملک میں مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی ( کہ اس دوران ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا ان کے پاس موجود تھیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء رضی اللہ عنھا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنھا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہیں ۔تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفرکر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنھا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ’’اے عمر! اللہ کی قسم! ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا، تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پراس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوںگی اور اللہ کی قسم! نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے عرض کی کہ یا نبی اللہ ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے، کیونکہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں(ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔‘‘ سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ درگروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے اور دنیا میں کوئی چیز ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے نہ زیادہ خوشی کی تھی اور نہ اتنی بڑی تھی۔ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو (خوشی کے لیے ) بار بار سننا چاہتے تھے۔