• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1696) عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَذَكَرْنَا حَدِيثًا عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ إِنَّ ذَلِكَ الرَّجُلَ لاَ أَزَالُ أُحِبُّهُ بَعْدَ شَيْئٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُهُ سَمِعْتُهُ يَقُولُ اقْرَئُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ مِنِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ( فَبَدَأَ بِهِ ) وَ مِنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَ مِنْ سَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ وَ مِنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ( رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ )

مسروق کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما کے پاس تھے کہ ہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس سے میں (اس وقت سے) محبت کرتا ہوں جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’ تم قرآن چار آدمیوں سے سیکھو، ایک ام عبد کے بیٹے (یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود )سے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی سے شروع کیا ) اور ابی بن کعب سے اور سالم مولیٰ ابی حذیفہ سے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنھم سے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو بِنْ حَرامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1697) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أُصِيبَ أَبِي يَوْمَ أُحُدٍ فَجَعَلْتُ أَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ وَ أَبْكِي وَ جَعَلُوا يَنْهَوْنَنِي وَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ يَنْهَانِي قَالَ وَ جَعَلَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ عَمْرٍو تَبْكِيهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَبْكِيهِ أَوْ لاَ تَبْكِيهِ مَا زَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رَفَعْتُمُوهُ

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ میرا باپ احد کے دن شہید ہوا تو میں اس کے منہ سے کپڑا اٹھاتا تھا اور روتا تھا، لوگ مجھے منع کرنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہیں کرتے تھے اور عمرو کی بیٹی فاطمہ (یعنی میری پھوپھی) وہ بھی اس پر رو رہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو روئے یا نہ روئے ،تمہارے اسے اٹھانے تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کیے ہوئے تھے ۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1698) عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ لِحَيٍّ يَمْشِي إِنَّهُ فِي الْجَنَّةِ إِلاَّ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ


سیدنا عامر بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والدسے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی زندہ شخص کے لیے جو چلتا پھرتا ہو،یہ نہیں سنا کہ وہ جنتی ہے مگر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے لیے ۔(یہ ان کی اپنی معلومات ہیں ورنہ بہت سے صحابہ کرام کو جنت کی خوشخبری ملی ہے مثلاً عشرہ مبشرہ وغیرہ)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1699) عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا فِي حَلْقَةٍ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ قَالَ وَ فِيهَا شَيْخٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ قَالَ فَجَعَلَ يُحَدِّثُهُمْ حَدِيثًا حَسَنًا قَالَ فَلَمَّا قَامَ قَالَ الْقَوْمُ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا قَالَ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَأَتْبَعَنَّهُ فَلَأَعْلَمَنَّ مَكَانَ بَيْتِهِ قَالَ فَتَبِعْتُهُ فَانْطَلَقَ حَتَّى كَادَ أَنْ يَخْرُجَ مِنَ الْمَدِينَةِ ثُمَّ دَخَلَ مَنْزِلَهُ قَالَ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لِي فَقَالَ مَا حَاجَتُكَ يَا ابْنَ أَخِي ! ؟ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ سَمِعْتُ الْقَوْمَ يَقُولُونَ لَكَ لَمَّا قُمْتَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا فَأَعْجَبَنِي أَنْ أَكُونَ مَعَكَ قَالَ اللَّهُ أَعْلَمُ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ وَ سَأُحَدِّثُكَ مِمَّ قَالُوا ذَاكَ إِنِّنِي بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ أَتَانِي رَجُلٌ فَقَالَ لِي قُمْ فَأَخَذَ بِيَدِي فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ قَالَ فَإِذَا أَنَا بِجَوَادَّ عَنْ شِمَالِي قَالَ فَأَخَذْتُ لِآخُذَ فِيهَا فَقَالَ لِي لاَ تَأْخُذْ فِيهَا فَإِنَّهَا طُرُقُ أَصْحَابِ الشِّمَالِ قَالَ فَإِذَا جَوَادُّ مَنْهَجٌ عَلَى يَمِينِي فَقَالَ لِي خُذْ هَاهُنَا فَأَتَى بِي جَبَلاً فَقَالَ لِيَ اصْعَدْ قَالَ فَجَعَلْتُ إِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَصْعَدَ خَرَرْتُ عَلَى اسْتِي قَالَ حَتَّى فَعَلْتُ ذَلِكَ مِرَارًا قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّى أَتَى بِي عَمُودًا رَأْسُهُ فِي السَّمَائِ وَ أَسْفَلُهُ فِي الأَرْضِ فِي أَعْلاَهُ حَلْقَةٌ فَقَالَ لِيَ اصْعَدْ فَوْقَ هَذَا قَالَ قُلْتُ كَيْفَ أَصْعَدُ هَذَا وَ رَأْسُهُ فِي السَّمَائِ ؟ قَالَ فَأَخَذَ بِيَدِي فَزَجَلَ بِي قَالَ فَإِذَا أَنَا مُتَعَلِّقٌ بِالْحَلْقَةِ قَالَ ثُمَّ ضَرَبَ الْعَمُودَ فَخَرَّ قَالَ وَ بَقِيتُ مُتَعَلِّقًا بِالْحَلْقَةِ حَتَّى أَصْبَحْتُ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَصَصْتُهَا عَلَيْهِ فَقَالَ أَمَّا الطُّرُقُ الَّتِي رَأَيْتَ عَنْ يَسَارِكَ فَهِيَ طُرُقُ أَصْحَابِ الشِّمَالِ قَالَ وَ أَمَّا الطُّرُقُ الَّتِي رَأَيْتَ عَنْ يَمِينِكَ فَهِيَ طُرُقُ أَصْحَابِ الْيَمِينِ وَ أَمَّا الْجَبَلُ فَهُوَ مَنْزِلُ الشُّهَدَائِ وَ لَنْ تَنَالَهُ وَ أَمَّا الْعَمُودُ فَهُوَ عَمُودُ الإِسْلاَمِ وَ أَمَّا الْعُرْوَةُ فَهِيَ عُرْوَةُ الإِسْلاَمِ وَ لَنْ تَزَالَ مُتَمَسِّكًا بِهَا حَتَّى تَمُوتَ

خرشہ بن حر کہتے ہیں کہ میں مدینہ کی مسجد میں ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک خوبصورت بزرگ شخص بھی وہاں تھا، معلوم ہوا کہ وہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ لوگوں سے اچھی اچھی باتیں کر رہے تھے، جب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا معلوم ہو، وہ اس کو دیکھے۔ میں نے (اپنے دل میں ) کہا کہ اللہ کی قسم! میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کا گھر دیکھوں گا۔ پھر میں ان کے پیچھے ہوا، وہ چلے، یہاں تک کہ قریب تھا کہ وہ شہر سے باہر نکل جائیں، پھر وہ اپنے مکان میں داخل ہوئے تو میں نے بھی اندر آنے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے اجازت دی، پھر پوچھاکہ اے میرے بھتیجے! تجھے کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ جب آپ کھڑے ہوئے تو میں نے لوگوں کو کہتے سناکہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا لگے ،وہ ان کو دیکھے تو مجھے آپ کے ساتھ رہنا اچھا معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جنت والوں کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور میں تجھ سے لوگوں کے یہ کہنے کی وجہ بیان کرتا ہوں، میں ایک دفعہ سو رہا تھا کہ خواب میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کھڑا ہو، پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا، میں اس کے ساتھ چلا، مجھے بائیں طرف کچھ راستے دکھلائی دیے تو میں نے ان پر چلنا چاہا تو وہ بولا کہ ادھر مت جا، یہ بائیں طرف والوں (یعنی کافروں) کی راہیں ہیں۔ پھر دائیں طرف کی ھ راستے دکھلائی دیے کچھ راستے دکھلائی دیے تو وہ شخص بولا کہ ان راہوں پر چل۔پس وہ مجھے ایک پہاڑ کے پاس لے آیا اور بولا کہ اس پر چڑھ۔ میں نے اوپر چڑھنا چاہاتو پیٹھ کے بل گرگیا ۔کئی بار میں نے چڑھنے کا قصد کیا لیکن ہر بار گرجاتا ۔ پھر وہ مجھے لے چلا، یہاں تک کہ ایک ستون کے پاس آئی جس کی چوٹی آسمان میں تھی اور تہ زمین میں ، اس کے اوپر ایک حلقہ تھا۔ مجھ سے اس شخص نے کہا کہ اس ستون کے اوپر چڑھ جا۔ میں نے کہا کہ میں اس پر کیسے چڑھوں کہ اس کا سرا تو آسمان میں ہے۔ آخر اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اچھال دیا اور میں نے دیکھا کہ میں اس حلقہ کو پکڑے ہوئے لٹک رہا ہوں۔ پھر اس شخص نے ستون کو مارا تو وہ گر پڑا اور میں صبح تک اسی حلقہ میں لٹکتا رہا (اس وجہ سے کہ اترنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا) کہتے ہیں پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر اپنا خواب بیان کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو راہیں تو نے بائیں طرف دیکھیں، وہ بائیں طرف والوں کی راہیں ہیں اور جو راہیں دائیں طرف دیکھیں، وہ دائیں طرف والوں کی راہیں ہیں اوروہ پہاڑ شہیدوں کا مقام ہے ،تو وہاں تک نہ پہنچ سکے گا اور ستون، وہ اسلام کا ستون ہے اور حلقہ، اسلام کا حلقہ ہے اور تو مرتے دم تک اسلام پر قائم رہے گا۔ (اور جب اسلام پر خاتمہ ہو تو جنت کا یقین ہے، اس وجہ سے لوگ مجھے جنتی کہتے ہیں)۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1700) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ جَنَازَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ اهْتَزَّ لَهَا عَرْشُ الرَّحْمَنِ


سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اس وقت سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ سامنے رکھا تھا : ان کے واسطے پروردگار کا عرش جھوم گیا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1701) عَنِ الْبَرَائِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حُلَّةُ حَرِيرٍ فَجَعَلَ أَصْحَابُهُ يَمَسُّونَهَا وَ يَعْجَبُونَ مِنْ لِينِهَا فَقَالَ أَتَعْجَبُونَ مِنْ لِينِ هَذِهِ ؟ لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْهَا وَ أَلْيَنُ

سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ریشمی جوڑا تحفہ آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اس کو چھونے لگے اور اس کی نرمی سے تعجب کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم اس کی نرمی سے تعجب کرتے ہو؟ البتہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے رومال جنت میں اس سے بہتر اور اس سے زیادہ نرم ہیں۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضَائِلِ أَبِيْ طَلْحَةَ الأَنْصَارِيِّ وَ امْرَأَتِهِ أُمِّ سُلَيْمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
سیدنا ابوطلحہ انصاری اور ان کی زوجہ ام سلیم رضی اللہ عنھما کی فضیلت کابیان


(1702) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَاتَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ مِنْ أُمِّ سُلَيْمٍ فَقَالَتْ لِأَهْلِهَا لاَ تُحَدِّثُوا أَبَا طَلْحَةَ بِابْنِهِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا أُحَدِّثُهُ قَالَ فَجَائَ فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ عَشَائً فَأَكَلَ وَ شَرِبَ فَقَالَ ثُمَّ تَصَنَّعَتْ لَهُ أَحْسَنَ مَا كَانَ تَصَنَّعُ قَبْلَ ذَلِكَ فَوَقَعَ بِهَا فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّهُ قَدْ شَبِعَ وَ أَصَابَ مِنْهَا قَالَتْ يَا أَبَا طَلْحَةَ ! أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ قَوْمًا أَعَارُوا عَارِيَتَهُمْ أَهْلَ بَيْتٍ فَطَلَبُوا عَارِيَتَهُمْ أَلَهُمْ أَنْ يَمْنَعُوهُمْ ؟ قَالَ لاَ قَالَتْ فَاحْتَسِبِ ابْنَكَ قَالَ فَغَضِبَ وَ قَالَ تَرَكْتِنِي حَتَّى تَلَطَّخْتُ ثُمَّ أَخْبَرْتِنِي بِابْنِي ! فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْبَرَهُ بِمَا كَانَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَارَكَ اللَّهُ لَكُمَا فِي غَابِرِ لَيْلَتِكُمَا قَالَ فَحَمَلَتْ قَالَ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي سَفَرٍ وَ هِيَ مَعَهُ وَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا أَتَى الْمَدِينَةَ مِنْ سَفَرٍ لاَ يَطْرُقُهَا طُرُوقًا فَدَنَوْا مِنَ الْمَدِينَةِ فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ فَاحْتَبَسَ عَلَيْهَا أَبُو طَلْحَةَ وَ انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ يَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ إِنَّكَ لَتَعْلَمُ يَا رَبِّ ! إِنَّهُ يُعْجِبُنِي أَنْ أَخْرُجَ مَعَ رَسُولِكَ إِذَا خَرَجَ وَ أَدْخُلَ مَعَهُ إِذَا دَخَلَ وَ قَدِ احْتَبَسْتُ بِمَا تَرَى قَالَ تَقُولُ أُمُّ سُلَيْمٍ يَا أَبَا طَلْحَةَ ! مَا أَجِدُ الَّذِي كُنْتُ أَجِدُ انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا قَالَ وَ ضَرَبَهَا الْمَخَاضُ حِينَ قَدِمَا فَوَلَدَتْ غُلاَمًا فَقَالَتْ لِي أُمِّي يَا أَنَسُ لاَ يُرْضِعُهُ أَحَدٌ حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا أَصْبَحَ احْتَمَلْتُهُ فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَصَادَفْتُهُ وَ مَعَهُ مِيسَمٌ فَلَمَّا رَآنِي قَالَ لَعَلَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتْ قُلْتُ نَعَمْ فَوَضَعَ الْمِيسَمَ قَالَ وَ جِئْتُ بِهِ فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ وَ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِعَجْوَةٍ مِنْ عَجْوَةِ الْمَدِينَةِ فَلاَكَهَا فِي فِيهِ حَتَّى ذَابَتْ ثُمَّ قَذَفَهَا فِي فِي الصَّبِيِّ فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُهَا قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم انْظُرُوا إِلَى حُبِّ الأَنْصَارِ التَّمْرَ قَالَ فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَ سَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا جو سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنھا کے بطن سے تھا، فوت ہوگیا تو ام سلیم رضی اللہ عنھا نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں خود نہ کہوں ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی خبر نہ کرنا ۔آخر سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آئے تو سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنھا شام کا کھانا سامنے لائیں ۔انہوں نے کھایا اور پیا ، پھر ام سلیم رضی اللہ عنھا نے ان کے لیے اچھی طرح بناؤ سنگھار کیا جیسے اس سے پہلے کرتی تھیں، یہاں تک کہ انہوں نے ان سے جماع کیا ۔جب ام سلیم رضی اللہ عنھا نے دیکھا کہ وہ سیر ہو چکے اور ان کے ساتھ صحبت بھی کر چکے ہیں تو اس وقت انہوں نے کہا کہ اے ابوطلحہ! اگر کچھ لوگ اپنی چیز کسی گھر والوں کو مانگے پر دیں ،پھر اپنی چیز مانگیں تو کیا گھر والے اس کو روک سکتے ہیں؟ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں روک سکتے۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے کہا کہ اپنے بیٹے کے عوض اﷲ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو (کیونکہ بیٹا تو فوت ہو چکا تھا) یہ سن کر ابوطلحہ غصے ہوئے اور کہنے لگے کہ تم نے مجھے چھوڑے رکھا یہاں تک کہ میں تمہارے ساتھ آلودہ ہوا ( یعنی جماع کیا) ، تو اب مجھے بیٹے کے متعلق خبر دے رہی ہو! وہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہاری گزری ہوئی رات میں تمہیں برکت دے۔‘‘ام سلیم رضی اللہ عنھا حاملہ ہو گئیں ۔کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے اور ام سلیم رضی اللہ عنھا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے مدینہ میں تشریف لاتے تو رات کو مدینہ میں داخل نہ ہوتے۔جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم کو درد زہ شروع ہوا اور ابوطلحہ ان کے پاس ٹھہرے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔ ابوطلحہ کہتے ہیں کہ اے پروردگار! تو جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ جب تیرا رسول نکلے توساتھ میں بھی نکلوں اور جب مدینہ میں واپس داخل ہو تو میں بھی ساتھ داخل ہوں،لیکن تو جانتا ہے میں جس وجہ سے رک گیا ہوں۔ ام سلیم نے کہا کہ اے ابوطلحہ! اب میرے ویسا درد نہیں ہے جیسے پہلے تھا تو چلو۔ ہم چلے، جب دونوں مدینہ میں آئے تو پھر ام سلیم کو درد شروع ہوا ، انہوں نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔میری ماں نے کہا کہ اے انس! اس کو کوئی اس وقت تک دودھ نہ پلائے جب تک تو صبح کو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ لے جائے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بچہ کو اٹھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا۔ میں ان کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اونٹوں کے داغنے کا آلہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا: ’’شاید ام سلیم نے لڑکے کو جنم دیا ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ ہاں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ آلہ ہاتھ مبارک سے رکھ دیا اور میں نے بچہ کو لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بٹھا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی عجوہ کھجور منگوائی اور اپنے منہ مبارک میں چبائی ،جب وہ گھل گئی تو بچہ کے منہ میں ڈال دی، بچہ اس کو چوسنے لگا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیکھو ! انصار کو کھجور سے کیسی محبت ہے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1703) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم أَرْبَعَةٌ كُلُّهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَ أَبُو زَيْدٍ ( رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ) قَالَ قَتَادَةُ قُلْتُ لِأَنَسٍ مَنْ أَبُو زَيْدٍ ؟ قَالَ أَحَدُ عُمُومَتِي

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چار آدمیوں نے قرآن کو جمع کیااور وہ چاروں انصاری تھے،سیدنا معاذ بن جبل ،ابی بن کعب ،زید بن ثابت اور ابوزید رضی اللہ عنھم ۔ قتادہ نے کہا کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ابوزید کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے چچاؤں میں سے ایک تھے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ : فِيْ فَضْلِ أَبِيْ ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1704) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ وَ كَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ فَخَرَجْتُ أَنَا وَ أَخِي أُنَيْسٌ وَ أُمُّنَا فَنَزَلْنَا عَلَى خَالٍ لَنَا فَأَكْرَمَنَا خَالُنَا وَ أَحْسَنَ إِلَيْنَا فَحَسَدَنَا قَوْمُهُ فَقَالُوا إِنَّكَ إِذَا خَرَجْتَ عَنْ أَهْلِكَ خَالَفَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ فَجَائَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْنَا الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقُلْتُ أَمَّا مَا مَضَى مِنْ مَعْرُوفِكَ فَقَدْ كَدَّرْتَهُ وَ لاَ جِمَاعَ لَكَ فِيمَا بَعْدُ فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا وَ تَغَطَّى خَالُنَا ثَوْبَهُ فَجَعَلَ يَبْكِي فَانْطَلَقْنَا حَتَّى نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَكَّةَ فَنَافَرَ أُنَيْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا وَ عَنْ مِثْلِهَا فَأَتَيَا الْكَاهِنَ فَخَيَّرَ أُنَيْسًا فَأَتَانَا أُنَيْسٌ بِصِرْمَتِنَا وَ مِثْلِهَا مَعَهَا قَالَ وَ قَدْ صَلَّيْتُ يَا ابْنَ أَخِي ! قَبْلَ أَنْ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِثَلاَثِ سِنِينَ قُلْتُ لِمَنْ ؟ قَالَ لِلَّهِ قُلْتُ فَأَيْنَ تَوَجَّهُ ؟ قَالَ أَتَوَجَّهُ حَيْثُ يُوَجِّهُنِي رَبِّي عَزَّوَجَلَّ أُصَلِّي عِشَائً حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ كَأَنِّي خِفَائٌ حَتَّى تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ فَقَالَ أُنَيْسٌ إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَكَّةَ فَاكْفِنِي فَانْطَلَقَ أُنَيْسٌ حَتَّى أَتَى مَكَّةَ فَرَاثَ عَلَيَّ ثُمَّ جَائَ فَقُلْتُ مَا صَنَعْتَ قَالَ لَقِيتُ رَجُلاً بِمَكَّةَ عَلَى دِينِكَ يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ قُلْتُ فَمَا يَقُولُ النَّاسُ ؟ قَالَ يَقُولُونَ شَاعِرٌ كَاهِنٌ سَاحِرٌ وَ كَانَ أُنَيْسٌ أَحَدَ الشُّعَرَائِ قَالَ أُنَيْسٌ لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ فَمَا هُوَ بِقَوْلِهِمْ وَ لَقَدْ وَ ضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَى أَقْرَائِ الشِّعْرِ فَمَا يَلْتَئِمُ عَلَى لِسَانِ أَحَدٍ بَعْدِي أَنَّهُ شِعْرٌ وَاللَّهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ وَ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ قَالَ قُلْتُ فَاكْفِنِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ قَالَ فَأَتَيْتُ مَكَّةَ فَتَضَعَّفْتُ رَجُلاً مِنْهُمْ فَقُلْتُ أَيْنَ هَذَا الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ ؟ فَأَشَارَ إِلَيَّ فَقَالَ الصَّابِئَ فَمَالَ عَلَيَّ أَهْلُ الْوَادِي بِكُلِّ مَدَرَةٍ وَ عَظْمٍ حَتَّى خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ قَالَ فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ كَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ قَالَ فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ فَغَسَلْتُ عَنِّي الدِّمَائَ وَ شَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا وَ لَقَدْ لَبِثْتُ يَا ابْنَ أَخِي ! ثَلاَثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَ يَوْمٍ مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلاَّ مَائُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي وَ مَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِي سَخْفَةَ جُوعٍ قَالَ فَبَيْنَا أَهْلِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَائَ إِضْحِيَانٍ إِذْ ضُرِبَ عَلَى أَسْمِخَتِهِمْ فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ أَحَدٌ وَ امْرَأَتَانِ مِنْهُمْ تَدْعُوَانِ إِسَافًا وَ نَائِلَةَ قَالَ فَأَتَتَا عَلَيَّ فِي طَوَافِهِمَا فَقُلْتُ أَنْكِحَا أَحَدَهُمَا الْأُخْرَى قَالَ فَمَا تَنَاهَتَا عَنْ قَوْلِهِمَا قَالَ فَأَتَتَا عَلَيَّ فَقُلْتُ هَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ غَيْرَ أَنِّي لاَ أَكْنِي فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلاَنِ وَ تَقُولاَنِ لَوْ كَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا قَالَ فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَبُو بَكْرٍ وَ هُمَا هَابِطَانِ قَالَ مَا لَكُمَا ؟ قَالَتَا الصَّابِئُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَ أَسْتَارِهَا قَالَ مَا قَالَ لَكُمَا ؟ قَالَتَا إِنَّهُ قَالَ لَنَا كَلِمَةً تَمْلأُ الْفَمَ وَ جَائَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ وَ طَافَ بِالْبَيْتِ هُوَ وَ صَاحِبُهُ ثُمَّ صَلَّى فَلَمَّا قَضَى صَلاَتَهُ قَالَ أَبُو ذَرٍّ فَكُنْتُ أَنَا أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الإِسْلاَمِ قَالَ فَقُلْتُ السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَقَالَ وَ عَلَيْكَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ قُلْتُ مِنْ غِفَارٍ قَالَ فَأَهْوَى بِيَدِهِ فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي كَرِهَ أَنِ انْتَمَيْتُ إِلَى غِفَارٍ فَذَهَبْتُ آخُذُ بِيَدِهِ فَقَدَعَنِي صَاحِبُهُ وَ كَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ مَتَى كُنْتَ هَاهُنَا ؟ قَالَ قُلْتُ قَدْ كُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلاَثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَ يَوْمٍ قَالَ فَمَنْ كَانَ يُطْعِمُكَ ؟ قَالَ قُلْتُ مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلاَّ مَائُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي وَ مَا أَجِدُ عَلَى كَبِدِي سَخْفَةَ جُوعٍ قَالَ إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! ائْذَنْ لِي فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَبُو بَكْرٍ وَ انْطَلَقْتُ مَعَهُمَا فَفَتَحَ أَبُو بَكْرٍ بَابًا فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيبِ الطَّائِفِ وَ كَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَكَلْتُهُ بِهَا ثُمَّ غَبَرْتُ مَا غَبَرْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ إِنَّهُ قَدْ وُجِّهَتْ لِي أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ لاَ أُرَاهَا إِلاَّ يَثْرِبَ فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِكَ وَ يَأْجُرَكَ فِيهِمْ ؟ فَأَتَيْتُ أُنَيْسًا فَقَالَ مَا صَنَعْتَ ؟ قُلْتُ صَنَعْتُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَ صَدَّقْتُ قَالَ مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكَ فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَ صَدَّقْتُ فَأَتَيْنَا أُمَّنَا فَقَالَتْ مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكُمَا فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَ صَدَّقْتُ فَاحْتَمَلْنَا حَتَّى أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ وَ كَانَ يَؤُمُّهُمْ أَيْمَائُ بْنُ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ وَ كَانَ سَيِّدَهُمْ وَ قَالَ نِصْفُهُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَدِينَةَ أَسْلَمْنَا فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَدِينَةَ فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمُ الْبَاقِي وَ جَائَتْ أَسْلَمُ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِخْوَتُنَا نُسْلِمُ عَلَى الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ فَأَسْلَمُوا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا وَ أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ


سیدنا عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم اپنی قوم غفار میں سے نکلے جوحرام مہینوں کو بھی حلال سمجھتے تھے۔ میں ، میرا بھائی انیس او ر ہماری ماں ہم تینوں نکلے ، پس ہم اپنے ایک ماموں کے پاس آئے۔اس نے ہماری خاطر کی اور ہمارے ساتھ نیکی کی تو اس کی قوم نے ہم سے حسد کیا اور (ہمارے ماموں سے) کہنے لگے کہ جب تو اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو انیس تیری بی بی کے ساتھ زنا کرتا ہے۔ وہ ہمارے پاس آیا اور اس نے یہ بات (حماقت سے) مشہور کر دی۔ میں نے کہا کہ تو نے ہمارے ساتھ جو احسان کیا تھا وہ بھی خراب ہو گیا ہے ،اب ہم تیرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادا ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کردیا۔ ہم چلے، یہاں تک کہ مکہ کے سامنے اترے۔ انیس نے ہمارے اونٹوں کے ساتھ اتنے ہی اور اونٹوں کی شرط لگائی۔ پھر دونوں کاہن کے پاس گئے ۔کاہن نے انیس کو کہا کہ یہ بہتر ہے ۔پس انیس ہمارے پاس سارے اونٹ اور اتنے ہی اور اونٹ لایا ۔ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے تین برس پہلے سے نماز پڑھی ہے۔ میں نے کہا کہ کس کے لیے پڑھتے تھے؟ سیدناا بوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ۔ میں نے کہا کہ کدھر منہ کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ادھر منہ کرتا تھا جدھر اللہ تعالیٰ میرا منہ کر دیتا تھا ، میں رات کے آخر میں عشاء کی نماز پڑھتا اور سوج طلوع ہونے تک کمبل کی طرح رہتا تھا۔ انیس نے کہا کہ مجھے مکہ میں کام ہے ،تم یہاں رہو میں جاتا ہوں۔ وہ گیا اور اس نے آنے میں دیر کی۔ پھر آیا تو میں نے کہا کہ تو نے کیا کیا؟ وہ بولا کہ میں مکہ میں ایک شخص سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے۔ میں نے کہا کہ لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ لوگ اس کو شاعر، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں۔ اور انیس خود بھی شاعر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیںہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں پر رکھا تووہ کسی کی زبان پر میرے بعد شعر کی طرح نہ جڑے گا ۔ اللہ کی قسم! وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا کہ تم یہاں رہو میں اس شخص کو جا کر دیکھتا ہوں۔ پھر میں مکہ میں آیا تو میں نے ایک ناتواں شخص کومکہ والوں میں سے چھانٹا (اس لیے کہ طاقت ور شخص شاید مجھے کوئی تکلیف پہنچائے) اور اس سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی (بے دین) کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ صابی ہے (اس لیے تو صابی کا پوچھتا ہے) یہ سن کر تمام وادی والوں نے ڈھیلے اور ہڈیاں لے کر مجھ پر حملہ کر دیا ،یہاں تک کہ میں بے ہوش ہو کر گرپڑا۔ جب میں ہوش میں آکر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گویا میں لال بت ہوں (ـیعنی سر سے پیر تک خون سے لال ہوں۔) پھر میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے سب خون دھویا اور زمزم کا پانی پیا۔پس اے میرے بھتیجے! میں وہاں تیس راتیں یا تیس دن رہا اور میرے پاس سوائے زمزم کے پانی کے کوئی کھانا نہ تھا (جب بھوک لگتی تو میں اسی کو پیتا) ۔پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی بٹیں (موٹاپے سے) جھک گئیں اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی۔ ایک بار مکہ والے چاندنی رات میں سو گئے اور اس وقت بیت اللہ کا طواف کوئی نہ کر رہا تھا، صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں (اساف اورنائلہ مکہ میں دو بت تھے ،اساف مرد تھا اور نائلہ عورت تھی اور کفارکا یہ اعتقاد تھا کہ ان دونوںنے وہاں زنا کیا تھا، اس وجہ سے مسخ ہو کر بت ہو گئے تھے)، وہ طواف کرتی کرتی میرے سامنے آئیں۔ میں نے کہا کہ ایک کانکاح دوسرے سے کر دو (یعنی اساف کا نائلہ سے) ۔یہ سن کر بھی وہ اپنی بات سے باز نہ آئیںتو جب دوبارہ میرے قریب آئیں تو میں نے صاف کہہ دیا کہ ان کے فلاں میں لکڑی (یعنی یہ فحش اساف اور نائلہ کی پرستش کی وجہ سے) اور میں نے کنایہ نہ کیا (یعنی کنایہ و اشارہ میں میں نے گالی نہیں دی بلکہ ان مردود عورتوں کو غصہ دلانے کے لیے اساف اور نائلہ کو کھلم کھلی گالی دی جو اللہ تعالیٰ کے گھر میں اللہ کو چھوڑ کر اساف اورنائلہ کو پکارتی تھیں) یہ سن کر وہ دونوں عورتیں چیختی چلاتی اور یہ کہتی ہوئی چل پڑیں کہ کاش ! اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی ہوتا (جو اس شخص کو بے ادبی کی سزا دیتا)۔ راستہ میں ان عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے اور وہ پہاڑ سے اتر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں سے پوچھا :’’کیا ہوا؟‘‘ وہ بولیں کہ ایک صابی آیا ہے جو کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :’’ اس صابی نے کیا کہا؟‘‘ وہ بولیں کہ اس نے ایسی بات کہی جس سے منہ بھر جاتا ہے (یعنی اس کو زبان سے نہیں نکال سکتیں)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، یہاں تک حجر اسود کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھی کے ساتھ طواف کیا اور نماز پڑھی۔ جب نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سب سے پہلی میں نے ہی سلام کی سنت ادا کی اور کہاکہ السلام علیکم یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وعلیک ورحمۃ اللہ۔‘‘ پھر پوچھا :’’تو کون ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ غفار کا ایک شخص ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں (جیسے کوئی ذکر کرتا ہے)۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنا برا معلوم ہوا کہ میں (قبیلہ) غفار میں سے ہوں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنے کو لپکا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے جومجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال جانتے تھے، مجھے روکا ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا: ’’تو یہاں کب آیا؟‘‘ میں نے عرض کی میں یہاں تیس رات اور دن سے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تجھے کھانا کون کھلاتا ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ کھانا وغیرہ کچھ نہیں سوائے زمزم کے پانی کے، پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑ گئے اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زمزم کا پانی برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی ہے ا ور کھانے کی طرح پیٹ بھر دیتا ہے۔‘‘ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ! آج کی رات اس کو کھلانے کی اجازت مجھے دیجیے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تو میں بھی ان دونوں کے ساتھ چل دیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک دروازہ کھولا اور اس میں سے طائف کی سوکھی ہوئی کشمش نکالیں۔ یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا۔ پھر میں رہا، جب تک کہ رہا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے ایک کھجور والی زمین دکھلائی گئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ زمین یثرب کے سوا کوئی اور نہیں ہے (یثرب مدینہ کا نام تھا) ،کیاتو میری طرف سے اپنی قوم کو دین کی دعوت دے گا، شاید اللہ تعالیٰ ان کو تیری وجہ سے نفع دے اور تجھے ثواب دے؟‘‘ میں انیس کے پاس آیا تو اس نے پوچھا کہ تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ میں اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔ وہ بولا کہ تمہارے دین سے مجھے بھی نفرت نہیں ہے ، میں بھی اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔ پھر ہم دونوں اپنی ماںکے پاس آئے وہ بولی کہ مجھے بھی تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں ہے ، میں بھی اسلام لائی اور میں نے تصدیق کی۔ پھر ہم نے اونٹوں پر اسباب لادا، یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے۔ آدھی قوم تو مسلمان ہو گئی اور ان کا امام ایماء بن رحضہ غفاری تھا ،وہ ان کا سردار بھی تھا اور آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوں گے، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اور آدھی قوم جو باقی تھی وہ بھی مسلمان ہو گئی اور (قبیلہ) اسلم کے لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ! ہم بھی اپنے غفاری بھائیوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان ہوگئے، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’غفار (قبیلہ)کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم (قبیلہ) کو اللہ تعالیٰ نے (قتل اور قید سے) بچا دیا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1705) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّصلی اللہ علیہ وسلم بِمَكَّةَ قَالَ لِأَخِيهِ انيْس ارْكَبْ وَ سِرْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَائِ فَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ ائْتِنِي فَانْطَلَقَ الْآخَرُ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ وَ سَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ فَقَالَ رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلاَقِ وَ يَقُوْلُ كَلاَمًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ فَقَالَ مَا شَفَيْتَنِي فِيمَا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ وَ حَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَائٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ لاَ يَعْرِفُهُ وَ كَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ يَعْنِي اللَّيْلَ فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْئٍ حَتَّى أَصْبَحَ ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَ زَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ فِيْهِ وَ لاَ يَرَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى أَمْسَى فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ مَا آنَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ وَ لاَ يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْئٍ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ فَأَقَامَهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَعَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَلاَ تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ هَذَا الْبَلَدَ؟ قَالَ إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَ مِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي فَعَلْتُ فَفَعَلَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ فَإِنَّهُ حَقٌّ وَ هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتَّبِعْنِي فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَائَ فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتَّبِعْنِي حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ دَخَلَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ وَ أَسْلَمَ مَكَانَهُ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي فَقَالَ وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَ ثَارَ الْقَوْمُ اِلَيْهِ فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ وَ أَتَى الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدُالْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَالَ وَيْلَكُمْ ! أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ وَ أَنَّ طَرِيقَ تُجَّارِكُمْ إِلَى الشَّامِ عَلَيْهِمْ ؟ فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ بِمِثْلِهَا وَ ثَارُوا إِلَيْهِ فَضَرَبُوهُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ الْعَبَّاسُ فَأَنْقَذَهُ

سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ جب سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں معبوث ہونے کی خبرپہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ سوار ہو کر اس وادی کو جا اور اس شخص کو دیکھ کر آ جو کہتا ہے مجھے آسمان سے خبر آتی ہے، ان کی بات سن پھر میرے پاس آ۔ وہ روانہ ہوا ، یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا، پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر گیا اور کہا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا، وہ اچھی خصلتوں کا حکم کرتا ہے اور ایک ایسا کلام سناتا ہے جو شعر نہیں ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے ا س سے تسلی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے خود زاد راہ لیا اور پانی کی ایک مشک لی، یہاں تک کہ مکہ میں آئے اور مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے اور انہوں نے پوچھنا بھی مناسب نہ جانا، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور وہ لیٹ رہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھا اور پہچانا کہ کوئی مسافر ہے، جب ابو ذر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان کے ساتھ چل دیے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہیں کی یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پھر وہ اپنا توشہ اور مشک مسجد میں اٹھا لائے اور سارا دن وہاں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام تک نہ دیکھا۔ پھر وہ اپنے سونے کی جگہ چلے گئے۔ وہاں سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ گزرے اور کہا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیاکہ اس شخص کو اپنا ٹھکانا معلوم ہو۔ پھر ان کو کھڑا کیا اور ساتھ لے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہ کی پھر تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے ساتھ لیا اور کہا کہ تم مجھ سے وہ بات کیوں نہیں کہتے جس کے لیے تم اس شہر میں آئے ہو؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے عہد اور وعدہ کرتے ہو کہ راہ بتلاؤ گے تو میں بتاتا ہوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تو انہوں نے بتایا۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ شخص سچے ہیں اور وہ بے شک اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تم صبح کو میرے ساتھ چلنا، اگر میں کوئی خوف کی بات دیکھوں گا جس میں تمہاری جان کا ڈر ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا جیسے کوئی پانی بہاتا ہے (یعنی پیشاب کا بہانہ کروں گا) اور اگر چلتا جاؤں تو تم بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آنا، جہاں میں داخل ہو جاؤں وہاں تم بھی داخل ہو جانا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور ان کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ پہنچے۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اسی جگہ مسلمان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی قوم کے پاس جا اور ان کو دین کی خبردے یہاں تک کہ میرا حکم تجھے پہنچے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں تو یہ بات (یعنی دین قبول کرنے کی) مکہ والوں کو پکار کر سنادوں گا۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ یہاں سے نکلے کر اور مسجد میں آئے اور بلند آواز سے کہا کہ ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں‘‘ ۔(یہ اعلان کرنا ہی تھا کہ) لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کو مارتے مارتے زمین پر لٹا دیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ پر جھکے اور لوگوں سے کہا کہ تمہای خرابی ہو، تم نہیں جانتے کہ یہ شخص (قوم) غفار کا ہے او رتمہارا سوداگری کا راستہ شام کی طرف (قوم) غفار کے ملک پر سے ہے (تووہ تمہاری تجارت بند کر دیں گے) پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں سے چھڑا لیا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے دوسرے دن پھر ویسا ہی کیا اور لوگ نے آپ پر حملہ کیا اور مارا اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے آپ کو چھڑا لیا۔
 
Top