• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ أَبِيْ مُوْسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان

(1706) عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ هُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَيْنَ مَكَّةَ وَ الْمَدِينَةِ وَ مَعَهُ بِلاَلٌ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ أَلآ تُنْجِزُ لِي يَا مُحَمَّدُ ! مَا وَ عَدْتَنِي ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَبْشِرْ فَقَالَ لَهُ الْأَعْرَابِيُّ أَكْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ أَبْشِرْ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى أَبِي مُوسَى وَ بِلاَلٍ كَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ فَقَالَ إِنَّ هَذَا قَدْ رَدَّ الْبُشْرَى فَاقْبَلاَ أَنْتُمَا فَقَالاَ قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِقَدَحٍ فِيهِ مَائٌ فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَ وَجْهَهُ فِيهِ وَ مَجَّ فِيهِ ثُمَّ قَالَ اشْرَبَا مِنْهُ وَ أَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَ نُحُورِكُمَا وَ أَبْشِرَا فَأَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَلاَ مَا أَمَرَهُمَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَنَادَتْهُمَا أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَائِ السِّتْرِ أَفْضِلاَ لِأُمِّكُمَا مِمَّا فِي إِنَائِكُمَا فَأَفْضَلاَ لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً

سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکہ اور مدینہ کے درمیان (مقام) جعرانہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ تھے ۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا کہ یارسول اللہ! کیا آپ میرے ساتھ اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خوش ہو جا۔ ‘‘ وہ بولا کہ آپ نے مجھے بہت دفعہ یہ فرمایا ہے کہ خوش ہو جا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوموسیٰ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنھما کی طرف غصے کی حالت میں متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اس نے خوشخبر ی کو رد کیا اور تم قبول کرو۔ ‘‘ دونوں نے کہا کہ یا رسول اﷲ! ہم نے قبول کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھوئے اور اس میں تھوکا۔ پھر دونوں سے کہا :’’ اس پانی کو پی لو اور اپنے منہ اور سینے پر ڈالو اور خوش ہو جاؤ۔‘‘ ان دونوںنے پیالہ لے کر ایسا ہی کیا۔ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے ان کو پردہ کی آڑ سے آواز دی کہ برتن میں سے اپنی ماں کے لیے بھی کچھ پانی بچالاؤ۔ پس ان دونوں نے اس برتن میں کچھ پانی ان کے لیے بچا دیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ أَبِيْ مُوْسَى وَ أَبِيْ عَامِرٍ الأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
سیدنا ابوموسیٰ اور ابوعامر اشعری رضی اللہ عنھما کی فضیلت کا بیان


(1707) عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ حُنَيْنٍ بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَى جَيْشٍ إِلَى أَوْطَاسٍ فَلَقِيَ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ فَقُتِلَ دُرَيْدُ بْنُ الصُّمَّةِ وَ هَزَمَ اللَّهُ أَصْحَابَهُ فَقَالَ أَبُو مُوسَى وَ بَعَثَنِي مَعَ أَبِي عَامِرٍ قَالَ فَرُمِيَ أَبُو عَامِرٍ فِي رُكْبَتِهِ رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي جُشَمٍ بِسَهْمٍ فَأَثْبَتَهُ فِي رُكْبَتِهِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا عَمِّ ! مَنْ رَمَاكَ ؟ فَأَشَارَ أَبُو عَامِرٍ إِلَى أَبِي مُوسَى فَقَالَ إِنَّ ذَاكَ قَاتِلِي تَرَاهُ ذَلِكَ الَّذِي رَمَانِي قَالَ أَبُو مُوسَى فَقَصَدْتُ لَهُ فَاعْتَمَدْتُهُ فَلَحِقْتُهُ فَلَمَّا رَآنِي وَلَّى عَنِّي ذَاهِبًا فَاتَّبَعْتُهُ وَ جَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ أَلآ تَسْتَحْيِ؟ أَلَسْتَ عَرَبِيًّا ؟ أَلآ تَثْبُتُ ؟ فَكَفَّ فَالْتَقَيْتُ أَنَا وَ هُوَ فَاخْتَلَفْنَا أَنَا وَ هُوَ ضَرْبَتَيْنِ فَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ فَقَتَلْتُهُ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى أَبِي عَامِرٍ فَقُلْتُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ قَتَلَ صَاحِبَكَ قَالَ فَانْزِعْ هَذَا السَّهْمَ فَنَزَعْتُهُ فَنَزَا مِنْهُ الْمَائُ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي ! انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلاَمَ وَ قُلْ لَهُ يَقُولُ لَكَ أَبُو عَامِرٍ اسْتَغْفِرْ لِي قَالَ وَ اسْتَعْمَلَنِي أَبُو عَامِرٍ عَلَى النَّاسِ وَ مَكَثَ يَسِيرًا ثُمَّ إِنَّهُ مَاتَ فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَ هُوَ فِي بَيْتٍ عَلَى سَرِيرٍ مُرْمَلٍ وَ عَلَيْهِ فِرَاشٌ وَ قَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِيرِ بِظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ جَنْبَيْهِ فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا وَ خَبَرِ أَبِي عَامِرٍ وَ قُلْتُ لَهُ قَالَ قُلْ لَهُ يَسْتَغْفِرْ لِي فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِمَائٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ أَوْ مِنَ النَّاسِ فَقُلْتُ وَ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَاسْتَغْفِرْ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ وَ أَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلاً كَرِيمًا قَالَ أَبُو بُرْدَةَ إِحَدَاهُمَا لِأَبِي عَامِرٍ وَ الأُخْرَى لِأَبِي مُوسَى


سیدنا ابوبردہ اپنے والد سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کو لشکر دے کر اوطاس کی طرف بھیجا تو ان کا مقابلہ درید بن الصمہ سے ہوا پس درید بن الصمہ قتل کردیا گیا اور اس کے ساتھیوں کو اﷲ نے شکست سے ہمکنار کردیا۔سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا تھا ۔پھر بنی جشم کے ایک شخص کا ایک تیر سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کو گھٹنے میں لگا اور وہ ان کے گھٹنے میں جم گیا۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ اے چچا! تمہیں یہ تیر کس نے مارا؟ انہوں نے کہا کہ وہ شخص میرا قاتل ہے ، اس نے مجھے تیر ماراہے۔ سیدناابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اس شخص کا پیچھا کیا اور اس سے جا ملا۔اس نے جب مجھے دیکھا تو پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ میں اس کے پیچھے ہوا اور میں نے کہنا شروع کیا کہ کیا تجھے شرم نہیں آتی؟ کیا تو عرب نہیں ہے؟ کیا توٹھہرتا نہیںہے؟پس وہ رک گیا۔ پھر میرا اوراس کا مقابلہ ہوا، اس نے بھی وار کیا اور میں نے بھی وار کیا ،آخر میں نے اس کو تلوار سے مار ڈالا۔ پھر لوٹ کر ابوعامر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اورکہا کہ اللہ نے تمہارے قاتل کوقتل کردیا۔ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب یہ تیر نکال لے۔ میں نے اس کو نکالا تو تیر کی جگہ سے پانی نکلا (خون نہ نکلا ،شاید وہ تیر زہر آلود تھا)۔ ابوعامر نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر میری طرف سے سلام کہنا اور یہ کہنا کہ ابوعامر کی بخشش کی دعا کیجیے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے مجھے لوگوں کا امیر بنا دیا اور وہ تھوڑی دیر زندہ رہے ،پھر فوت ہو گئے۔ جب میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کوٹھڑی میں بان کے ا یک پلنگ پر کہ جس پر بچھونا تھا (صحیح روایت یہ ہے کہ بچھونا نہ تھا) اور بان کا نشان آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ اور پہلوؤں پر بن گیاتھا، میں نے کہا کہ ابوعامر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی تھی کہ میرے لیے دعا کیجیے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگواکر وضو کیا ،پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ’’ اے اللہ! عبیدابو عامر کو بخش دے۔‘‘ (عبید بن سلیم ان کا نام تھا) یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! ابوعامر کو قیامت کے دن بہت سے لوگوں کا سردار کرنا۔‘‘ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میرے لیے بھی بخشش کی دعا فرمایے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ بھی بخش دے اور قیامت کے دن اس کو عزت کے مکان میں داخل کر۔‘‘ ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک دعا ابوعامر کے لیے کی اور ایک دعا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے لیے کی رضی اللہ عنھما ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ أَبِيْ هُرَيْرَةَ الدَّوْسِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابوہریرہ دوسی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1708) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الإِسْلاَمِ وَ هِيَ مُشْرِكَةٌ فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا أَكْرَهُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَنَا أَبْكِي قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنِّي كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الإِسْلاَمِ فَتَأْبَى عَلَيَّ فَدَعَوْتُهَا الْيَوْمَ فَأَسْمَعَتْنِي فِيكَ مَا أَكْرَهُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَهْدِيَ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اللَّهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ نَبِيِّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا جِئْتُ فَصِرْتُ إِلَى الْبَابِ فَإِذَا هُوَ مُجَافٌ فَسَمِعَتْ أُمِّي خَشْفَ قَدَمَيَّ فَقَالَتْ مَكَانَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ! وَ سَمِعْتُ خَضْخَضَةَ الْمَائِ قَالَ فَاغْتَسَلَتْ وَ لَبِسَتْ دِرْعَهَا وَ عَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا فَفَتَحَتِ الْبَابَ ثُمَّ قَالَتْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ! أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَتَيْتُهُ وَ أَنَا أَبْكِي مِنَ الْفَرَحِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ قَدِ اسْتَجَابَ اللَّهُ دَعْوَتَكَ وَ هَدَى أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَ أَثْنَى عَلَيْهِ وَ قَالَ خَيْرًا قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَ أُمِّي إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ وَ يُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اللَّهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ وَ أُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ وَ حَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْمُؤْمِنِينَ فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَ لاَ يَرَانِي إِلاَّ أَحَبَّنِي

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا اور وہ مشرکہ تھی۔ ایک دن میں نے اس کو مسلمان ہونے کو کہا تو اس نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ بات کہی جو مجھے ناگوار گزری۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتا ہوا آیا او رعرض کی کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا وہ نہ مانتی تھی، آج اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں مجھے وہ بات کہی جو مجھے ناگوار ہے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دیدے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے۔‘‘ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے خوش ہو کر نکلا، جب گھر آیا اور دروازہ پر پہنچا تو وہ بند تھا۔ میری ماں نے میرے پاؤں کی آواز سنی تو کیا کہ ذرا ٹھہرا رہ۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی۔ غرض میری ماں نے غسل کیا اور اپنا قمیص پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی، پھر دروازہ کھولا اور کہا کہ اے ابوہریرہ! میں گواہی دیتی ہوںکہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خوشی سے روتا ہوا آیا اور عرض کی کہ یارسول اللہ! خوش ہو جائیے اللہ تعالیٰ نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کی اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت کی اور بہتر بات کہی۔ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! اللہ عزوجل سے دعا کیجیے کہ میری اورمیری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دے اور ان کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! اپنے بندوں کی یعنی ابوہریرہ اور ان کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے۔‘‘ پھر کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے مجھے سنا ہو یا دیکھا ہو مگر اس نے مجھ سے محبت رکھی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1709) عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَلآ يُعْجِبُكَ أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ جَائَ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِ حُجْرَتِي يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يُسْمِعُنِي ذَلِكَ وَ كُنْتُ أُسَبِّحُ فَقَامَ قَبْلَ أَنْ أَقْضِيَ سُبْحَتِي وَ لَوْ أَدْرَكْتُهُ لَرَدَدْتُ عَلَيْهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمْ يَكُنْ يَسْرُدُ الْحَدِيثَ كَسَرْدِكُمْ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَ قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ يَقُولُونَ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَدْ أَكْثَرَ وَ اللَّهُ الْمَوْعِدُ وَ يَقُولُونَ مَا بَالُ الْمُهَاجِرِينَ وَ الأَنْصَارِ لاَ يَتَحَدَّثُونَ مِثْلَ أَحَادِيثِهِ ؟ وَ سَأُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ إِنَّ إِخْوَانِي مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمْ عَمَلُ أَرَضِيهِمْ وَ إِمَّا إِخْوَانِي مِنَ الْمُهَاجِرِينَ فَكَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ وَ كُنْتُ أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى مِلْئِ بَطْنِي فَأَشْهَدُ إِذَا غَابُوا وَ أَحْفَظُ إِذَا نَسُوا وَ لَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمًا أَيُّكُمْ يَبْسُطُ ثَوْبَهُ فَيَأْخُذُ مِنْ حَدِيثِي هَذَا ثُمَّ يَجْمَعُهُ إِلَى صَدْرِهِ فَإِنَّهُ لَمْ يَنْسَ شَيْئًا سَمِعَهُ ؟ فَبَسَطْتُ بُرْدَةً عَلَيَّ حَتَّى فَرَغَ مِنْ حَدِيثِهِ ثُمَّ جَمَعْتُهَا إِلَى صَدْرِي فَمَا نَسِيتُ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ شَيْئًا حَدَّثَنِي بِهِ وَ لَوْلاَ آيَتَانِ أَنْزَلَهُمَا اللَّهُ فِي كِتَابِهِ مَا حَدَّثْتُ شَيْئًا أَبَدًا { إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَ الْهُدَى ......} إِلَى آخِرِ الآيَتَيْنِ

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ تم ابوہریرہ پر تعجب نہیں کرتے ؟ وہ آئے اور میرے حجرے کے ایک طرف بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرنے لگے۔ میں سن رہی تھی لیکن میں نفل پڑھ رہی تھی اور وہ میرے فارغ ہونے سے پہلے چل دیے ۔ا گر میں ان کو پاتی تو ان کا رد کرتی ،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح سے جلدی جلدی باتیں نہیں کرتے تھے جیسے تم کرتے ہو۔
ابن شہاب نے ابن مسیب سے کہا کہ بے شک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ نے بہت حدیثیں بیان کیں اور اللہ تعالیٰ جانچنے والا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار ابوہریرہ کی طرح حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے ۔عنقریب میں تم سے اس کا سبب بیان کرتا ہوں۔ میرے انصاری بھائی جو تھے وہ اپنی زمین کی خدمت میں مشغول رہتے اور جو مہاجرین تھے، وہ بازار کے معاملوں میں اور میں اپنا پیٹ بھر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتا پس میں حاضر رہتا اور وہ غائب رہتے اور میں یاد رکھتا اور وہ بھول جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: ’’تم میں سے کو ن اپنا کپڑا بچھاتاہے اور میری حدیث سن کراس کو اپنے سینے سے لگائے تو جو بات سنے گا وہ بھولے گا نہیں؟ میں نے اپنی چادر بچھا دی یہاں تک کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث سے فارغ ہوئے۔ پھر میں نے اس چادر کو سینے سے لگا لیا۔ اس دن سے میں کسی بات کو جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی، نہیں بھولا اور اگر یہ دو آیتیں نہ ہوتیں جو کہ قرآن مجید میں اتری ہیں تو میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کرتا کہ ’’جو لوگ چھپاتے ہیں جوہم نے نشانیاں اتاریں اور ہدایت کی باتیں، تو ا ن پر لعنت ہے ……‘‘ آخر تک۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ أَبِيْ دُجَانَةَ سِمَاكِ بْنِ خَرَشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابودجانہ سماک بن خرشہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1710) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَخَذَ سَيْفًا يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ مَنْ يَأْخُذُ مِنِّي هَذَا ؟ فَبَسَطُوا أَيْدِيَهُمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ يَقُولُ أَنَا أَنَا قَالَ فَمَنْ يَأْخُذُهُ بِحَقِّهِ ؟ قَالَ فَأَحْجَمَ الْقَوْمُ فَقَالَ سِمَاكُ بْنُ خَرَشَةَ أَبُو دُجَانَةَ أَنَا آخُذُهُ بِحَقِّهِ قَالَ فَأَخَذَهُ فَفَلَقَ بِهِ هَامَ الْمُشْرِكِينَ

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن تلوار پکڑی اور فرمایا: ’’یہ مجھ سے کون لیتا ہے؟‘‘ لوگوں نے ہاتھ پھیلائے اور ہر ایک کہتا تھا کہ میں لوں گا میں لوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کا حق کون ادا کرے گا؟‘ یہ سنتے ہی لوگ پیچھے ہٹے (کیونکہ احد کے دن کافروں کا غلبہ تھا) سیدنا سماک بن خرشہ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کا حق ادا کروں گا پھر انہوں نے اس کو لے لیا اور مشرکوں کے سر اس تلوار سے کاٹے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ أَبِيْ سُفْيَانَ صَخْرِ بْنِ حَرْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابوسفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1711) عَنْ أَبِيْ زُمَيْلٍ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ الْمُسْلِمُونَ لاَ يَنْظُرُونَ إِلَى أَبِي سُفْيَانَ وَ لاَ يُقَاعِدُونَهُ فَقَالَ لِلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يَا نَبِيَّ اللَّهِ ! ثَلاَثٌ أَعْطِنِيهِنَّ قَالَ نَعَمْ قَالَ عِنْدِي أَحْسَنُ نِسَائِ الْعَرَبِ وَ أَجْمَلُهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ أُزَوِّجُكَهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ وَ مُعَاوِيَةُ تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بَيْنَ يَدَيْكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَ تُؤَمِّرُنِي حَتَّى أُقَاتِلَ الْكُفَّارَ كَمَا كُنْتُ أُقَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ وَ لَوْلاَ أَنَّهُ طَلَبَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم مَا أَعْطَاهُ ذَلِكَ لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُسْأَلُ شَيْئًا إِلاَّ قَالَ نَعَمْ

ابوزمیل کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے بیان کیا اور کہا کہ مسلمان ابوسفیان کی طرف دھیان نہ کرتے تھے اور نہ ان کے ساتھ بیٹھتے تھے (کیونکہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کئی مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑا تھا اور اسلام قبول کرنے سے پہلے مسلمانوں کا سخت دشمن تھا)۔ایک بار وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا کہ اے نبی اللہ! تین باتیں مجھے عطا فرمایے۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھا۔‘‘ ابوسفیان نے کہا کہ میرے پاس وہ عورت ہے کہ تمام عربوں میں حسین اور خوبصورت ہے، ام حبیبہ میری بیٹی، میں اس کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اچھا۔‘‘ دوسری یہ کہ میرے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب (وحی) بنایے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھا۔‘‘ تیسرے مجھ کو کافروں سے لڑنے کا حکم دیجیے (جیسے اسلام سے پہلے) مسلمانوں سے لڑتا تھا، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھا۔‘‘ ابو زمیل نے کہا کہ اگر وہ ان باتوں کا سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ دیتے ،اس لیے کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی) کہ جب آپ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاں ہی کرتے تھے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ جُلَيْبِيْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1712) عَنْ أَبِي بَرْزَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ فِي مَغْزًى لَهُ فَأَفَائَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ ؟ قَالُوا نَعَمْ فُلاَنًا وَ فُلاَنًا وَ فُلاَنًا ۔ ثُمَّ قَالَ هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ ؟ قَالُوا نَعَمْ فُلاَنًا وَ فُلاَنًا وَ فُلاَنًا ثُمَّ قَالَ هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ ؟ قَالُوا لاَ ۔ قَالَ لَكِنِّي أَفْقِدُ جُلَيْبِيبًا فَاطْلُبُوهُ فَطُلِبَ فِي الْقَتْلَى فَوَجَدُوهُ إِلَى جَنْبِ سَبْعَةٍ قَدْ قَتَلَهُمْ ثُمَّ قَتَلُوهُ فَأَتَى النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ قَتَلَ سَبْعَةً ثُمَّ قَتَلُوهُ هَذَا مِنِّي وَ أَنَا مِنْهُ هَذَا مِنِّي وَ أَنَا مِنْهُ قَالَ فَوَضَعَهُ عَلَى سَاعِدَيْهِ لَيْسَ لَهُ إِلاَّ سَاعِدَا النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَحُفِرَ لَهُ وَ وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَ لَمْ يَذْكُرْ غَسْلاً

سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک جہاد میں تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (فتح کے ساتھ)مالا مال کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی غائب تو نہیں ہے؟ ‘‘ لوگوں نے عرض کی کہ ہاں ! فلاں فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :’’کوئی اور تو غائب نہیں ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ فلاں فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اور تو کوئی غائب نہیں ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کی کہ کوئی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں جلیبیب رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھتا۔‘‘ لوگوں نے ان کو مردوں میں ڈھونڈا تو ان کی لاش سات لاشوں کے پاس پائی گئی جن کو سیدنا جلیبیب نے مارا تھا، وہ سات کو مار کر مارے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور وہاں کھڑے ہوکرفرمایا: ’’اس نے سات آدمیوں کو مارا، اس کے بعد خود مارا گیا۔ یہ میرا ہے، یہ مجھ سے اور میں اس سے ہوں (یعنی میں اور وہ ایک ہیں)۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر رکھا اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ہی اس کی چارپائی تھے ۔اس کے بعد گڑھا کھدوایا اور قبر میں رکھ دیا اور راوی نے غسل کا بیان نہیں کیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَضْلِ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان


(1713) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَرَّ بِحَسَّانَ وَ هُوَ يُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ فَلَحَظَ إِلَيْهِ فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أُنْشِدُ وَ فِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ أَجِبْ عَنِّي اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ؟ قَالَ اللَّهُمَّ نَعَمْ


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے اور وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے (معلوم ہوا کہ اشعار جو اسلام کی تعریف اور کافروں کی برائی یا جہاد کی ترغیب میں ہو مسجد میں پڑھنا درست ہے) ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف (غصہ سے) دیکھا۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو مسجد میں (اس وقت بھی) شعر پڑھتا تھا جب تم سے بہتر شخص (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) موجود تھے۔ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اورکہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’ اے حسان! میری طرف سے جواب دے، اے اللہ ! اس کی روح القدس (جبریل علیہ السلام ) سے مدد کر۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں میں نے سنا ہے یااللہ ! تو جانتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1714) عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ لِحَسَّانَ ابْنِ ثَابِتٍ اهْجُهُمْ أَوْ هَاجِهِمْ وَ جِبْرِيلُ مَعَكَ

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرماتے تھے :’’ ( کافروں کی) ہجو کر اور جبرئیل تیرے ساتھ ہیں۔‘‘ (کسی کی برائی بیان کرنے کو ہجو کہتے ہیں)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1715) عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَ عِنْدَهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ يُنْشِدُهَا شِعْرًا يُشَبِّبُ بِأَبْيَاتٍ لَهُ فَقَالَ:
حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَ تُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ لَكِنَّكَ لَسْتَ كَذَلِكَ قَالَ مَسْرُوقٌ فَقُلْتُ لَهَا لِمَ تَأْذَنِينَ لَهُ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَ قَدْ قَالَ اللَّهُ { وَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ } (النور: 11)؟ فَقَالَتْ فَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَى ؟ فَقَالَتْ إِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ أَوْ يُهَاجِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم


مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس گیا تو ان کے پاس سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بیٹھے اپنی غزل میں سے ایک شعر سنا رہے تھے جو چند بیتوں کی انہوں نے کہی تھی۔ وہ شعر یہ ہے کہ: ’’پاک ہیں اور عقل والی ان پہ کچھ تہمت نہیں ۔ صبح کو اٹھتی ہیں بھوکی غافلوں کے گوشت سے‘‘ (یعنی کسی کی غیبت نہیں کرتیں کیونکہ غیبت کرنا گویا اس کا گوشت کھانا ہے)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ لیکن تو ایسا نہیں ہے (یعنی تو لوگوں کی غیبت کرتا ہے)۔ مسروق نے کہا کہ میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے کہا کہ آپ حسان رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس کیوں آنے دیتی ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں فرمایا ہے کہ ’’وہ شخص جس نے ان میں سے بڑی بات (ـیعنی ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پر تہمت لگانے) کا بیڑا اٹھایا اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔ (حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شریک تھے جنہوں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا پر تہمت لگائی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حد ماری) ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ اس سے زیادہ عذاب کیا ہو گا کہ وہ نابینا ہے اورکہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کی جواب دہی کرتا تھا یا ہجو کرتا تھا۔(اس لیے اس کو اپنے پاس آنے کی اجازت دیتی ہوں) ۔

 
Top