• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : قَوْلُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ تَأْتِيْ مِائَةُ سَنَةٍ وَ عَلَى الأَرْضِ نَفْسٌ
مَنْفُوْسَةٌ مِمَّنْ هُوَ عَلَيْهَا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ جو چیز آج زمین پر سانس والی موجود ہے وہ سوسال تک ختم ہو جائے گی


(1745) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ صَلاَةَ الْعِشَائِ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَقَالَ أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ ؟ فَإِنَّ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لاَ يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ قَالَ ابْنُ عُمَرَ فَوَهَلَ النَّاسُ فِي مَقَالَةِ رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم تِلْكَ فِيمَا يَتَحَدَّثُونَ مِنْ هَذِهِ الأَحَادِيثِ عَنْ مِائَةِ سَنَةٍ وَ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ يَنْخَرِمَ ذَلِكَ الْقَرْنُ


سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی ۔جب سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے ا ور فرمایا: ’’تم نے اپنی اس رات کو دیکھا؟ اب سے سو برس کے آخر پر زمین والوں میں سے کوئی نہ رہے گا۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے کہا کہ لوگ جو ’’سوسال تک‘‘ والی احادیث بیان کرتے ہیں ، اس میں انہیں مغالطہ لگا ہے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: ’’آج جو لوگ موجود ہیں ان میں سے کوئی نہ رہے گا یعنی یہ صدی پوری ہو جائے گی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ : النَّهْيُ عَنْ سَبِّ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ فَضْلُهُمْ عَلَى مَنْ بَعْدَهُمْ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو گالی دینے کی ممانعت اور بعد والوں پر ان کی فضیلت


(1746) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَ لاَ نَصِيفَهُ


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے اصحاب کو برا مت کہو ،میرے اصحاب کو برا مت کہو۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرے تو ان کے مد (سیر بھر) یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : ذِكْرُ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ مِنَ التَّابِعِيْنَ وَ فَضْلُهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
اویس قرنی (مخضرم ) کا ذکر اور ان کی فضیلت کا بیان

(1747) عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ وَ لَهُ وَالِدَةٌ وَ كَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَمُرُوهُ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : ’’تابعین میں ایک بہترین شخص ہے جس کو اویس کہتے ہیں ،اس کی ایک ماں ہے (یعنی اس کے رشتہ داروں میں سے صرف ماں زندہ ہو گی)اور اس کو ایک سفیدی ہو گی ۔تم اس سے کہنا کہ تمہارے لیے دعا کرے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1748) عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا أَتَى عَلَيْهِ أَمْدَادُ أَهْلِ الْيَمَنِ سَأَلَهُمْ أَ فِيكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى أُوَيْسٍ فَقَالَ أَنْتَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَكَانَ بِكَ بَرَصٌ فَبَرَأْتَ مِنْهُ إِلاَّ مَوْضِعَ دِرْهَمٍ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ لَكَ وَالِدَةٌ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلاَّ مَوْضِعَ دِرْهَمٍ لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ فَاسْتَغْفِرْ لِي فَاسْتَغْفَرَ لَهُ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ أَيْنَ تُرِيدُ ؟ قَالَ الْكُوفَةَ قَالَ أَلاَ أَكْتُبُ لَكَ إِلَى عَامِلِهَا ؟ قَالَ أَكُونُ فِي غَبْرَائِ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ قَالَ فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ حَجَّ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ فَوَافَقَ عُمَرَ فَسَأَلَهُ عَنْ أُوَيْسٍ قَالَ تَرَكْتُهُ رَثَّ الْبَيْتِ قَلِيلَ الْمَتَاعِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلاَّ مَوْضِعَ دِرْهَمٍ لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ فَأَتَى أُوَيْسًا فَقَالَ اسْتَغْفِرْ لِي قَالَ أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ فَاسْتَغْفِرْ لِي قَالَ اسْتَغْفِرْ لِي قَالَ أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ فَاسْتَغْفِرْ لِي قَالَ لَقِيتَ عُمَرَ ؟ قَالَ نَعَمْ فَاسْتَغْفَرَ لَهُ فَفَطِنَ لَهُ النَّاسُ فَانْطَلَقَ عَلَى وَجْهِهِ قَالَ أُسَيْرٌ وَ كَسَوْتُهُ بُرْدَةً فَكَانَ كُلَّمَا رَاهُ إِنْسَانٌ قَالَ مِنْ أَيْنَ لَأُوَيْسٍ هَذِهِ الْبُرْدَةُ ؟

سیدنا اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمن سے مدد کے لوگ آتے (یعنی وہ لوگ جو ہر ملک سے ا سلام کے لشکر کی مدد کے لیے جہاد کرنے کو آتے ہیں) تو وہ ان سے پوچھتے کہ تم میں اویس بن عامر بھی کوئی شخص ہے؟ یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود اویس کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارا نام اویس بن عامر ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم مراد قبیلہ کی شاخ قرن سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم برابر باقی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:’’ تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ آئے گا، وہ قبیلہ مراد سے ہے جو قرن کی شاخ ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگردرہم کے بقدرباقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لیے دعا کرانا۔‘‘ پس تم میرے لیے دعا کرو۔ اویس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے بخشش کی دعا کی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ کوفہ میں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں کوفہ کے حاکم کے نام ایک خط لکھ دوں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے خاکساروں میں رہنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ جب دوسرا سال آیا تو ایک شخص نے کوفہ کے رئیسوں میں سے حج کیا۔ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اویس کا حال پوچھا تو وہ بولا کہ میں نے اویس کو اس حال میں چھوڑا کہ ان کے گھر میں اسباب کم تھا اور (خرچ سے) تنگ تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’اویس بن عامر تمہارے پاس یمن والوں کے امدادی لشکر کے ساتھ آئے گا، وہ مراد قبیلہ کی شاخ قرن میں سے ہے، اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا صرف درہم کے بقدر جگہ باقی ہے ،اس کی ایک ماں ہے جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہے۔ اگر وہ اللہ پر قسم! کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے کہ وہ تیرے لیے دعا کرے تو اس سے دعا کرانا۔‘‘ وہ شخص یہ سن کر اویس کے پاس آیا او رکہنے لگا کہ میرے لیے دعا کرو۔ اویس نے کہا کہ تو ابھی نیک سفر کر کے آ رہا ہے (یعنی حج سے) میرے لیے دعا کر۔ پھر وہ شخص بولا کہ میرے لیے دعا کر۔ اویس نے یہی جواب دیا پھر پوچھا کہ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا؟ وہ شخص بولا کہ ہاں ملا۔ اویس نے اس کے لیے دعا کی۔ اس وقت لوگ اویس کا درجہ سمجھے۔ وہ وہاں سے سیدھے چلے۔ اسیر نے کہا کہ میں نے ان کو ان کا لباس ایک چادر پہنائی جب کوئی آدمی ان کو دیکھتا تو کہتا کہ اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آئی ہے؟
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ ذِكْرِ مِصْرَ وَ أَهْلِهَا
مصر اور اہل مصر کے بارے میں

(1749) عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّكُمْ سَتَفْتَحُونَ مِصْرَ وَ هِيَ أَرْضٌ يُسَمَّى فِيهَا الْقِيرَاطُ فَإِذَا فَتَحْتُمُوهَا فَأَحْسِنُوا إِلَى أَهْلِهَا فَإِنَّ لَهُمْ ذِمَّةً وَ رَحِمًا أَوْ قَالَ ذِمَّةً وَ صِهْرًا فَإِذَا رَأَيْتَ رَجُلَيْنِ يَخْتَصِمَانِ فِيهَا فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ فَاخْرُجْ مِنْهَا قَالَ فَرَأَيْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَحْبِيلَ بْنِ حَسَنَةَ وَ أَخَاهُ رَبِيعَةَ يَخْتَصِمَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ فَخَرَجْتُ مِنْهَا


سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ملک مصر کو فتح کرو گے جہاں قیراط کا رواج ہو گا (قیراط درہم اور دینار کا ایک ٹکڑا ہے او رمصر میں اس کا بہت رواج تھا) ۔وہاں کے لوگوں سے بھلائی کرنا کیونکہ ان کا ذمہ تم پر ہے اور ان کا تم سے ناتا بھی ہے (اس لیے کہ سیدہ ہاجرہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ مصر کی تھیں ا ور وہ عرب کی ماں ہیں) یا یہ فرمایا: ’’ان کا تم پر حق ہے اور ان سے دامادی کا رشتہ بھی ہے۔ (اور وہ رشتہ یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم علیہ اسلام کی والدہ ماریہ مصر کی تھیں)۔ پس جب تم دو اشخاص کو وہاں ایک اینٹ کی جگہ پر لڑتے ہوئے دیکھو تو وہاں سے نکل آنا۔‘‘ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ عبدالرحمن بن شرحبیل بن حسنہ اور ان کے بھائی ربیعہ ایک اینٹ کی جگہ پر لڑ رہے تھے تو میں وہاں سے نکل آیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَا ذُكِرَ فِيْ عُمَانَ
عمان کے بارے میں جو آیا ہیـ


(1750) عَنْ أَبِيْ بَرْزَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلاً إِلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَائِ الْعَرَبِ فَسَبُّوهُ وَ ضَرَبُوهُ فَجَائَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَوْ أَنَّ أَهْلَ عُمَانَ أَتَيْتَ مَا سَبُّوكَ وَ لاَ ضَرَبُوكَ

سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو عرب کے کسی قبیلہ کی طرف بھیجا (وہاں کے)لوگوں نے اس کو برا کہا اور مارا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور یہ حال بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو عمان والوں کے پاس جاتا تو وہ تجھے برا نہ کہتے نہ مارتے (کیونکہ وہاں کے لوگ اچھے ہیں)۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَا ذُكِرَ فِيْ فَارِسَ
فارس (ایران) کے بارے میں جو بیان ہوا


(1751) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْجُمُعَةِ فَلَمَّا قَرَأَ { وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ } (الجمعة : 3) قَالَ رَجُلٌ مَنْ هَؤُلآئِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَلَمْ يُرَاجِعْهُ النَّبِيُّصلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى سَأَلَهُ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا قَالَ وَ فِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَوَضَعَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلآئِ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیںکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے کہ سورۃ جمعہ نازل ہوئی۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ ’’پاک ہے وہ اللہ جس نے عرب کی طرف پیغمبر بھیجا اور اوروں کی طرف بھی جو ابھی عرب سے نہیں ملے‘‘ (الجمعۃ:۳) ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ لوگ کون ہیں جو عرب کے سوا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب نہ دیا یہاں تک کہ اس نے ایک ،دو یا تین بار پوچھا تو اس وقت ہم لوگوں میں سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک ان پر رکھا اور فرمایا: ’’اگر ایمان ثریا (ستارے) پر ہوتا تو بھی ان کی قوم میں سے کچھ لوگ اس تک پہنچ جاتے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلنَّاسُ كَإِبِلٍ مِائَةٍ لاَ تَجِدُ فِيْهَا رَاحِلَةً
آدمیوں کی مثال ان سو اونٹوں کی طرح ہے جن میں سواری کے لائق کوئی بھی نہ ہو


(1752) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَجِدُونَ النَّاسَ كَإِبِلٍ مِائَةٍ لاَ يَجِدُ الرَّجُلُ فِيهَا رَاحِلَةً

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم لوگوں کو ایسا پاتے ہو جیسے سو اونٹ کہ ان اونٹوں میں ایک بھی (چالاک عمدہ )سواری کے قابل نہیں ملتا۔‘‘ (اسی طرح عمدہ، مہذب، عاقل، نیک، نیک بخت، خوش اخلاق یا صالح پرہیزگار یا موحد دیندار سو آدمیوں میں ایک آدمی بھی نہیں نظرآتا)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَا ذُكِرَ فِيْ كَذَّابِ ثَقِيْفَ وَ مُبِيْرِهَا
بنو ثقیف میں سے جس جھوٹے اور ہلاکو کا ذکر کیا گیا ہے


(1753) عَنْ أَبِي نَوْفَلٍ رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى عَقَبَةِ الْمَدِينَةِ قَالَ فَجَعَلَتْ قُرَيْشٌ تَمُرُّ عَلَيْهِ وَ النَّاسُ حَتَّى مَرَّ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا وَصُولاً لِلرَّحِمِ أَمَا وَ اللَّهِ لَأُمَّةٌ أَنْتَ أَشَرُّهَا لَأُمَّةٌ خَيْرٌ ثُمَّ نَفَذَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَبَلَغَ الْحَجَّاجَ مَوْقِفُ عَبْدِ اللَّهِ وَ قَوْلُهُ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأُنْزِلَ عَنْ جِذْعِهِ فَأُلْقِيَ فِي قُبُورِ الْيَهُودِ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُمِّهِ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَأَبَتْ أَنْ تَأْتِيَهُ فَأَعَادَ عَلَيْهَا الرَّسُولَ لَتَأْتِيَنِّي أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكِ مَنْ يَسْحَبُكِ بِقُرُونِكِ قَالَ فَأَبَتْ وَ قَالَتْ وَ اللَّهِ لاَ آتِيكَ حَتَّى تَبْعَثَ إِلَيَّ مَنْ يَسْحَبُنِي بِقُرُونِي قَالَ فَقَالَ أَرُونِي سِبْتَيَّ فَأَخَذَ نَعْلَيْهِ ثُمَّ انْطَلَقَ يَتَوَذَّفُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَ كَيْفَ رَأَيْتِنِي صَنَعْتُ بِعَدُوِّ اللَّهِ ؟ قَالَتْ رَأَيْتُكَ أَفْسَدْتَ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ وَ أَفْسَدَ عَلَيْكَ آخِرَتَكَ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَقُولُ لَهُ يَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَيْنِ أَنَا وَ اللَّهِ ذَاتُ النِّطَاقَيْنِ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكُنْتُ أَرْفَعُ بِهِ طَعَامَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ طَعَامَ أَبِي بَكْرٍ مِنَ الدَّوَابِّ وَ أَمَّا الآخَرُ فَنِطَاقُ الْمَرْأَةِ الَّتِي لاَ تَسْتَغْنِي عَنْهُ أَمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَدَّثَنَا أَنَّ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابًا وَ مُبِيرًا فَأَمَّا الْكَذَّابُ فَرَأَيْنَاهُ وَ أَمَّا الْمُبِيرُ فَلاَ إِخَالُكَ إِلاَّ إِيَّاهُ قَالَ فَقَامَ عَنْهَا وَ لَمْ يُرَاجِعْهَا


ابو نوفل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو مدینہ کی گھاٹی پر دیکھا (یعنی مکہ کا وہ ناکہ جو مدینہ کی راہ میں ہے) کہتے ہیں کہ قریش کے لوگ ان پر سے گزرتے تھے اور دوسرے لوگ بھی (ان کو حجاج نے سولی دیکر اسی پر رہنے دیا تھا)، یہاں تک کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بھی ان پر سے گزرے۔ وہاں کھڑے ہوئے اور کہاکہ السلام علیکم یا ابوخبیب! (ابوخبیب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی کنیت ہے اور ابوبکر اور ابوبکیر بھی ان کی کنیت ہے) اسلام علیکم یا ابوخبیب! السلام علیکم یا ابوخبیب! (اس سے معلوم ہوا کہ میت کو تین بار سلام کرنا مستحب ہے) اللہ کی قسم! میں تو تمہیں اس سے منع کرتا تھا، اللہ کی قسم! میں تو تمہیں اس سے منع کرتا تھا، اللہ کی قسم! میں تو تمہیں اس سے منع کرتا تھا۔ (یعنی خلافت اور حکومت اختیار کرنے سے) اللہ کی قسم! جہاں تک میں جانتا ہوں تم روزہ رکھنے والے اور رات کو عبادت کرنے والے اورناتے کو جوڑنے والے تھے۔ اللہ کی قسم! وہ گروہ جس کے تم برے ہو وہ عمدہ گروہ ہے (یہ انہوں نے برعکس کہا بطریق طنز کے یعنی برا گروہ ہے اور ایک روایت میں صاف ہے کہ وہ برا گروہ ہے) پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما وہاں سے چلے گئے ۔
پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے وہاں ٹھہرنے اور بات کرنے کی خبر حجاج تک پہنچی تو اس نے ان کو سولی پر سے اتروا لیا اور یہود کے قبرستان میں ڈلوا دیا۔ (اور حجاج یہ نہ سمجھا کہ اس سے کیا ہوتا ہے۔انسان کہیں بھی گرے لیکن اس کے اعمال اچھے ہونا ضروری ہیں) ۔پھر حجاج نے ان کی والدہ سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنھما کو بلا بھیجا تو انہوں نے حجاج کے پاس آنے سے انکار کردیا۔ حجاج نے پھر بلا بھیجا اور کہا کہ تم آتی ہو تو آؤ ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہارا چونڈا پکڑ کر گھسیٹ کر لائے گا۔ انہوں نے پھر بھی آنے سے انکار کیا اور کہاکہ اللہ کی قسم! میں تیرے پاس نہ آؤں گی جب تک تو میرے پاس اس کو نہ بھیجے جو میرے بال کھینچتا ہوا مجھے تیرے پاس لے جائے۔آخر حجاج نے کہاکہ میری جوتیاں لاؤ اور جوتے پہن کر اکڑتا ہوا چلا، یہاں تک کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا کے پاس پہنچا اور کہا کہ تم نے دیکھا کہ اللہ کی قسم! میں نے اللہ تعالیٰ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا؟ سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ تو نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی دنیا بگاڑ دی اور اس نے تیری آخرت بگاڑ دی میں نے سنا ہے کہ تو عبداللہ بن زبیر کو کہتا تھا کہ دو کمربند والی کا بیٹا ہے۔ بے شک اللہ کی قسم! میں دوکمربند والی ہوں۔ ایک کمربند میں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کاکھانا اٹھاتی تھی کہ جانور اس کو کھا نہ لیں اور دوسرا کمربند وہ تھا جو عورت کو درکار ہے (سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے اپنے کمربند کو پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے کر لیے تھے ایک سے تو کمربند باندھتی تھیں اور دوسرے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے دسترخوان بنایا تھا تو یہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا کی فضیلت تھی جس کو حجاج عیب سمجھتا تھا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو ذلیل کرنے کے لیے دو کمر بند والی کا بیٹا کہتا تھا)۔ تو خبردار رہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا تھا کہ ثقیف میں ایک جھوٹا پیدا ہو گا اور ایک ہلاکو ۔تو جھوٹے کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ہلاکو میں تیرے سوا کسی کو نہیں سمجھتی۔ یہ سن کر حجاج کھڑا ہوا اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا کو کچھ جواب نہ دیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَۃِ
نیکی اور حسن سلوک کے مسائل


بَابٌ : فِيْ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ وَ أَيُّهُمَا أَحَقُّ بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ

والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بیان میں اور ان میں زیادہ حق کس کا ہے؟


(1754) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي ؟ قَالَ أُمُّكَ ۔ قَالَ ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ ثُمَّ أُمُّكَ ۔ قَالَ ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ ثُمَّ أُمُّكَ ۔ قَالَ ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ ثُمَّ أَبُوكَ


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! سب لوگوں میں کس کا حق مجھ پر سلوک کرنے کے لیے زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیری ماں کا۔‘‘ وہ بولا کہ پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیری ماں۔‘‘ وہ بولا کہ پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیری ماں ۔‘‘ وہ بولا کہ پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر تیرا باپ۔‘‘

وضاحت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کو مقدم کیا ،اس لیے کہ ماں بچہ کے ساتھ بہت محنت کرتی ہے ۔حمل نو مہینے ، پھر جننا پھر دودھ پلانا ، پھر پالنا ،بیماری دکھ میں خبر لینا۔ حارث محاسبی نے کہاکہ علماء نے اجماع کیا ہے کہ ماں نیک سلوک کرنے میں باپ پر مقدم ہے اور بعضوں نے دونوں کو برابر کہا ہے اور درست بات یہ ہے کہ ماں کا درجہ پہلا ہے۔
 
Top