• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : تَشْمِيْتُ الْعَاطِسِ إِذَا حَمِدَ اللَّهَ
چھینکنے والے کو جواب دینا ،جب وہ ’’الحمدللہ‘‘ کہے


(1914) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عَطَسَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلاَنِ فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا وَ لَمْ يُشَمِّتِ الآخَرَ فَقَالَ الَّذِي لَمْ يُشَمِّتْهُ عَطَسَ فُلاَنٌ فَشَمَّتَّهُ وَ عَطَسْتُ أَنَا فَلَمْ تُشَمِّتْنِي قَالَ إِنَّ هَذَا حَمِدَ اللَّهَ وَ إِنَّكَ لَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ


سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کو چھینک آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کو جواب دیا یعنی یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہا اور دوسرے کو جواب نہ دیا۔ جس کو جواب نہ دیا تھا،اس نے کہا کہ اس کو چھینک آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ،لیکن مجھے چھینک آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس نے (یعنی جس کا جواب دیا) ’’الحمدللہ‘‘ کہا تھا اور تو نے ’’الحمدللہ‘‘ نہ کہا (اس لیے جواب نہ دیا)۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1915) عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ أَنَّ أَبَاهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ ثُمَّ عَطَسَ أُخْرَى فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الرَّجُلُ مَزْكُومٌ


سیدنا ایاس بن سلمہ سے روایت ہے کہ ان کے والد (سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو چھینک آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یرحمک اللہ‘‘ پھر اسے(دوبارہ) چھینک آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو زکام ہو گیا ہے۔‘‘ (یعنی اگر کسی کو زکام سے چھینکیں آرہی ہوں تو اس کو کہاں تک ’’یَرْحَمُکَ اللّٰہُ ‘‘ کہیں گے) ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ التَّـوْبَۃِ وَ قَبُوْلِھَا وَسَعَۃِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَغَیْرُ ذٰلِکَ
توبہ، اس کی قبولیت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت


بَابٌ : فِيْ الأَمْرِ بِالْتَّوْبَةِ

توبہ کا حکم کرنے کے متعلق


(1916) عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ سَمِعْتُ الأَغَرَّ وَ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يُحَدِّثُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ فَإِنِّي أَتُوبُ فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِائَةَ مَرَّةٍ


سیدنا ابوبردہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا اغر رضی اللہ عنہ سے سنا اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ کی طرف توبہ کرو کیونکہ میں اللہ تعالیٰ سے ہر دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : الْحَضُّ عَلَى التَّوْبَةِ
توبہ کرنے پر شوق دلانا


(1917) عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ أَعُودُهُ وَ هُوَ مَرِيضٌ فَحَدَّثَنَا بِحَدِيثَيْنِ حَدِيثًا عَنْ نَفْسِهِ وَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ مِنْ رَجُلٍ فِي أَرْضٍ دَوِّيَّةٍ مَهْلَكَةٍ مَعَهُ رَاحِلَتُهُ عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَ شَرَابُهُ فَنَامَ فَاسْتَيْقَظَ وَ قَدْ ذَهَبَتْ فَطَلَبَهَا حَتَّى أَدْرَكَهُ الْعَطَشُ ثُمَّ قَالَ أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِيَ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ فَأَنَامُ حَتَّى أَمُوتَ فَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى سَاعِدِهِ لِيَمُوتَ فَاسْتَيْقَظَ وَ عِنْدَهُ رَاحِلَتُهُ وَ عَلَيْهَا زَادُهُ وَ طَعَامُهُ وَ شَرَابُهُ فَاللَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ مِنْ هَذَا بِرَاحِلَتِهِ وَ زَادِهِ

سیدنا حارث بن سوید کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ(بن مسعود) رضی اللہ عنہ بیمار تھے تو میں ان کی عیادت کو ان کے پاس گیا، تو انہوں نے مجھ سے دو حدیثیں بیان کیں، ایک اپنی طرف سے اور ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندہ کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے کوئی شخص اپنی سواری پر کہ جس پر اس کے کھانے پینے کی اشیاء بھی ہوں ، ایک ہلاکت خیز سنسان جنگل میں جائے (جہاں نہ سایہ ہو نہ پانی ہو) اور وہ (آرام کے لیے)سو جائے ۔ جب وہ جاگے تو اس کی سواری کہیں جا چکی ہو۔ پھر اس کو ڈھونڈے ،یہاں تک کہ اسے سخت پیاس لگ جائے ،پھر (مایوس ہو کر)کہے کہ میں لوٹ جاؤں جہاں تھا اور سوتے سوتے مر جاؤں (کیونکہ بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی )پھر اپنا سر اپنے بازو پر رکھے مرنے کے لیے لیٹ جائے۔ پھر جو جاگے تو اپنا اونٹ اپنے پاس پائے ،اوراس پر اس کا توشہ ہو کھانا بھی اور پانی بھی ۔سو اللہ تعالیٰ کو مومن بندے کی توبہ سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی اس شخص کو اپنے اونٹ اور توشہ کے ملنے سے ہوتی ہے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ الصِّدْقِ فِيْ التَّوْبَةِ، وَ قَوْلِهِ عَزَّ وَ جَلَّ {وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا}
سچی توبہ کا بیان اور اللہ تعالیٰ کے قول { وَ عَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا }کی تفسیر






(1918) عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ ثُمَّ غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم غَزْوَةَ تَبُوكَ وَ هُوَ يُرِيدُ الرُّومَ وَ نَصَارَى الْعَرَبِ بِالشَّامِ . قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ وَ كَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ . قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ إِلاَّ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ غَيْرَ أَنِّي قَدْ تَخَلَّفْتُ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ وَ لَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْهُ إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ الْمُسْلِمُونَ يُرِيدُونَ عِيرَ قُرَيْشٍ حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ وَ لَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِينَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الإِسْلامِ وَ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ وَ إِنْ كَانَتْ بَدْرٌ أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا وَ كَانَ مِنْ خَبَرِي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ أَنِّي لَمْ أَكُنْ قَطُّ أَقْوَى وَ لاَ أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ وَ اللَّهِ مَا جَمَعْتُ قَبْلَهَا رَاحِلَتَيْنِ قَطُّ حَتَّى جَمَعْتُهُمَا فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ . فَغَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي حَرٍّ شَدِيدٍ وَ اسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا وَ مَفَازًا وَ اسْتَقْبَلَ عَدُوًّا كَثِيرًا فَجَلاَ لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُمْ لِيَتَأَهَّبُوا أُهْبَةَ غَزْوِهِمْ فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِمُ الَّذِي يُرِيدُ وَ الْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَثِيرٌ وَ لاَ يَجْمَعُهُمْ كِتَابُ حَافِظٍ يُرِيدُ بِذَلِكَ الدِّيوَانَ قَالَ كَعْبٌ فَقَلَّ رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ يَظُنُّ أَنَّ ذَلِكَ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْيٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تِلْكَ الْغَزْوَةَ حِينَ طَابَتِ الثِّمَارُ وَ الظِّلالُ فَأَنَا إِلَيْهَا أَصْعَرُ فَتَجَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ الْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَ طَفِقْتُ أَغْدُو لِكَيْ أَتَجَهَّزَ مَعَهُمْ فَأَرْجِعُ وَ لَمْ أَقْضِ شَيْئًا وَ أَقُولُ فِي نَفْسِي أَنَا قَادِرٌ عَلَى ذَلِكَ إِذَا أَرَدْتُ فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ يَتَمَادَى بِي حَتَّى اسْتَمَرَّ بِالنَّاسِ الْجِدُّ فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم غَادِيًا وَ الْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَ لَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِي شَيْئًا ثُمَّ غَدَوْتُ فَرَجَعْتُ وَ لَمْ أَقْضِ شَيْئًا فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ يَتَمَادَى بِي حَتَّى أَسْرَعُوا وَ تَفَارَطَ الْغَزْوُ فَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ فَيَا لَيْتَنِي فَعَلْتُ ثُمَّ لَمْ يُقَدَّرْ ذَلِكَ لِي . فَطَفِقْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَحْزُنُنِي أَنِّي لاَ أَرَى لِي أُسْوَةً إِلاَّ رَجُلاً مَغْمُوصًا عَلَيْهِ فِي النِّفَاقِ أَوْ رَجُلاً مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ مِنَ الضُّعَفَائِ وَ لَمْ يَذْكُرْنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى بَلَغَ تَبُوكَ فَقَالَ وَ هُوَ جَالِسٌ فِي الْقَوْمِ بِتَبُوكَ مَا فَعَلَ كَعْبُ ابْنُ مَالِكٍ ؟ قَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! حَبَسَهُ بُرْدَاهُ وَ النَّظَرُ فِي عِطْفَيْهِ فَقَالَ لَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ بِئْسَ مَا قُلْتَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ إِلاَّ خَيْرًا فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فَبَيْنَمَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ رَأَى رَجُلاً مُبَيِّضًا يَزُولُ بِهِ السَّرَابُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كُنْ أَبَا خَيْثَمَةَ فَإِذَا هُوَ أَبُو خَيْثَمَةَ الأَنْصَارِيُّ وَ هُوَ الَّذِي تَصَدَّقَ بِصَاعِ التَّمْرِ حِينَ لَمَزَهُ الْمُنَافِقُونَ ۔ فَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ فَلَمَّا بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ تَوَجَّهَ قَافِلاً مِنْ تَبُوكَ حَضَرَنِي بَثِّي فَطَفِقْتُ أَتَذَكَّرُ الْكَذِبَ وَ أَقُولُ بِمَ أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا ؟ وَ أَسْتَعِينُ عَلَى ذَلِكَ كُلَّ ذِي رَأْيٍ مِنْ أَهْلِي فَلَمَّا قِيلَ لِي إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِّي الْبَاطِلُ حَتَّى عَرَفْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْهُ بِشَيْئٍ أَبَدًا فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ وَ صَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَادِمًا وَ كَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَائَهُ الْمُخَلَّفُونَ فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَ يَحْلِفُونَ لَهُ وَ كَانُوا بِضْعَةً وَ ثَمَانِينَ رَجُلاً فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلانِيَتَهُمْ وَ بَايَعَهُمْ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَ وَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ . حَتَّى جِئْتُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ ثُمَّ قَالَ تَعَالَ فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ لِي مَا خَلَّفَكَ ؟ أَلَمْ تَكُنْ قَدِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ ؟ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنِّي سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرٍ وَ لَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلاً وَ لَكِنِّي وَ اللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ تَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يُسْخِطَكَ عَلَيَّ وَ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ إِنِّي لأَرْجُو فِيهِ عُقْبَى اللَّهِ وَ اللَّهِ مَا كَانَ لِي عُذْرٌ وَ اللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَ لاَ أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ فَقُمْتُ . وَ ثَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ فَاتَّبَعُونِي فَقَالُوا لِي وَ اللَّهِ مَا عَلِمْنَاكَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا لَقَدْ عَجَزْتَ فِي أَنْ لاَ تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِمَا اعْتَذَرَ بِهِ إِلَيْهِ الْمُخَلَّفُونَ فَقَدْ كَانَ كَافِيَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَكَ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا زَالُوا يُؤَنِّبُونَنِي حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأُكَذِّبَ نَفْسِي قَالَ ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ هَلْ لَقِيَ هَذَا مَعِي مِنْ أَحَدٍ ؟ قَالُوا نَعَمْ لَقِيَهُ مَعَكَ رَجُلاَنِ قَالاَ مِثْلَ مَا قُلْتَ فَقِيلَ لَهُمَا مِثْلَ مَا قِيلَ لَكَ قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمَا ؟ قَالُوا مُرَارَةُ بْنُ الرَّبِيعَةَ الْعَامِرِيُّ وَ هِلاَلُ بْنُ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيُّ قَالَ فَذَكَرُوا لِي رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا فِيهِمَا أُسْوَةٌ قَالَ فَمَضَيْتُ حِينَ ذَكَرُوهُمَا لِي. قَالَ وَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلاَمِنَا أَيُّهَا الثَّلاَثَةُ مِنْ بَيْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ قَالَ فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ وَ قَالَ تَغَيَّرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ لِي فِي نَفْسِيَ الأَرْضُ فَمَا هِيَ بِالأَرْضِ الَّتِي أَعْرِفُ فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً فَأَمَّا صَاحِبَايَ فَاسْتَكَانَا وَ قَعَدَا فِي بُيُوتِهِمَا يَبْكِيَانِ وَ أَمَّا أَنَا فَكُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْمِ وَ أَجْلَدَهُمْ فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَشْهَدُ الصَّلاَةَ وَ أَطُوفُ فِي الأَسْوَاقِ وَ لاَ يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ وَ آتِي رَسُولَ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَ هُوَ فِي مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلاةِ فَأَقُولُ فِي نَفْسِي هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلاَمِ أَمْ لاَ ثُمَّ أُصَلِّي قَرِيبًا مِنْهُ وَ أُسَارِقُهُ النَّظَرَ فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلاَتِي نَظَرَ إِلَيَّ وَ إِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِّي . حَتَّى إِذَا طَالَ ذَلِكَ عَلَيَّ مِنْ جَفْوَةِ الْمُسْلِمِينَ مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَ هُوَ ابْنُ عَمِّي وَ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلاَمَ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَبَا قَتَادَةَ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَنَّ أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ ؟ قَالَ فَسَكَتَ فَعُدْتُ فَنَاشَدْتُهُ فَسَكَتَ فَعُدْتُ فَنَاشَدْتُهُ فَقَالَ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ فَفَاضَتْ عَيْنَايَ وَ تَوَلَّيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي فِي سُوقِ الْمَدِينَةِ إِذَا نَبَطِيٌّ مِنْ نَبَطِ أَهْلِ الشَّامِ مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ يَبِيعُهُ بِالْمَدِينَةِ يَقُولُ مَنْ يَدُلُّ عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ؟ قَالَ فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيرُونَ لَهُ إِلَيَّ حَتَّى جَائَنِي فَدَفَعَ إِلَيَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ وَ كُنْتُ كَاتِبًا فَقَرَأْتُهُ فَإِذَا فِيهِ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنَا أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ وَ لَمْ يَجْعَلْكَ اللَّهُ بِدَارِ هَوَانٍ وَ لاَ مَضْيَعَةٍ فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ قَالَ فَقُلْتُ حِينَ قَرَأْتُهَا وَ هَذِهِ أَيْضًا مِنَ الْبَلاَئِ فَتَيَامَمْتُ بِهَا التَّنُّورَ فَسَجَرْتُهَا بِهَا ۔ حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ مِنَ الْخَمْسِينَ وَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَأْتِينِي فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ قَالَ فَقُلْتُ أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ ؟ قَالَ لاَ بَلِ اعْتَزِلْهَا فَلا تَقْرَبَنَّهَا قَالَ فَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَيَّ بِمِثْلِ ذَلِكَ قَالَ فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِي هَذَا الأَمْرِ قَالَ فَجَائَتِ امْرَأَةُ هِلالِ بْنِ أُمَيَّةَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّ هِلالَ بْنَ أُمَيَّةَ شَيْخٌ ضَائِعٌ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ ؟ قَالَ لاَ وَ لَكِنْ لاَ يَقْرَبَنَّكِ فَقَالَتْ إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا بِهِ حَرَكَةٌ إِلَى شَيْئٍ وَ وَاللَّهِ مَا زَالَ يَبْكِي مُنْذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا. قَالَ فَقَالَ لِي بَعْضُ أَهْلِي لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي امْرَأَتِكَ فَقَدْ أَذِنَ لِامْرَأَةِ هِلاَلِ بْنِ أُمَيَّةَ أَنْ تَخْدُمَهُ ؟ قَالَ فَقُلْتُ لاَ أَسْتَأْذِنُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ مَا يُدْرِينِي مَاذَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ فِيهَا وَ أَنَا رَجُلٌ شَابٌّ قَالَ فَلَبِثْتُ بِذَلِكَ عَشْرَ لَيَالٍ فَكَمُلَ لَنَا خَمْسُونَ لَيْلَةً مِنْ حِينَ نُهِيَ عَنْ كَلاَمِنَا. قَالَ ثُمَّ صَلَّيْتُ صَلاَةَ الْفَجْرِ صَبَاحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الْحَالِ الَّتِي ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنَّا قَدْ ضَاقَتْ عَلَيَّ نَفْسِي وَ ضَاقَتْ عَلَيَّ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ أَوْفَي عَلَى سَلْعٍ يَقُولُ بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ أَبْشِرْ قَالَ فَخَرَرْتُ سَاجِدًا وَ عَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَائَ فَرَجٌ . قَالَ فَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم النَّاسَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلاَةَ الْفَجْرِ فَذَهَبَ النَّاسُ يُبَشِّرُونَنَا فَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَيَّ مُبَشِّرُونَ وَ رَكَضَ رَجُلٌ إِلَيَّ فَرَسًا وَ سَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ قِبَلِي وَ أَوْفَى الْجَبَلَ فَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ فَلَمَّا جَائَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي فَنَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ فَكَسَوْتُهُمَا إِيَّاهُ بِبِشَارَتِهِ وَ اللَّهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ وَ اسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ فَلَبِسْتُهُمَا فَانْطَلَقْتُ أَ تَأَمَّمُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَتَلَقَّانِي النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يُهَنِّئُونِي بِالتَّوْبَةِ وَ يَقُولُونَ لِتَهْنِكَ تَوْبَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ حَتَّى دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَ حَوْلَهُ النَّاسُ فَقَامَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَ هَنَّأَنِي وَ اللَّهِ مَا قَامَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرُهُ قَالَ فَكَانَ كَعْبٌ لاَ يَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ ۔ قَالَ كَعْبٌ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ وَ هُوَ يَبْرُقُ وَ جْهُهُ مِنَ السُّرُورِ وَ يَقُولُ أَبْشِرْ بِخَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنْذُ وَ لَدَتْكَ أُمُّكَ قَالَ فَقُلْتُ أَمِنْ عِنْدِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَمْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ؟ فَقَالَ لاَ بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ كَأَنَّ وَجْهَهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ قَالَ وَ كُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ قَالَ فَلَمَّا جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَ إِلَى رَسُولِهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ قَالَ فَقُلْتُ فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ . قَالَ وَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّ اللَّهَ إِنَّمَا أَنْجَانِي بِالصِّدْقِ وَ إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لاَ أُحَدِّثَ إِلاَّ صِدْقًا مَا بَقِيتُ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَبْلاَهُ اللَّهُ فِي صِدْقِ الْحَدِيثِ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى يَوْمِي هَذَا أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلاَنِي اللَّهُ بِهِ وَ اللَّهِ مَا تَعَمَّدْتُ كَذِبَةً مُنْذُ قُلْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم إِلَى يَوْمِي هَذَا وَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِيَ اللَّهُ فِيمَا بَقِيَ قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ { لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَ الْمُهَاجِرِينَ وَ الأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَئُوفٌ رَحِيمٌ وَ عَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ } حَتَّى بَلَغَ { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ } (التوبة: 117_ 119). قَالَ كَعْبٌ وَاللَّهِ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ نِعْمَةٍ قَطُّ بَعْدَ إِذْ هَدَانِيَ اللَّهُ لِلإِسْلاَمِ أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ لاَ أَكُونَ كَذَبْتُهُ فَأَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِلَّذِينَ كَذَبُوا حِينَ أَنْزَلَ الْوَحْيَ شَرَّ مَا قَالَ لِأَحَدٍ وَ قَالَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ {سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ فَاعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَائً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ } (التوبة: 95_ 96) ۔ قَالَ كَعْبٌ كُنَّا خُلِّفْنَا أَيُّهَا الثَّلاثَةُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِكَ الَّذِينَ قَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حِينَ حَلَفُوا لَهُ فَبَايَعَهُمْ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَ أَرْجَأَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمْرَنَا حَتَّى قَضَى اللَّه عزوجل فِيهِ فَبِذَلِكَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ { وَ عَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأرْضُ بِمَا رَحُبَتْ }(التوبة: 118) وَ لَيْسَ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مِمَّا خُلِّفْنَا تَخَلُّفَنَا عَنِ الْغَزْوِ وَ إِنَّمَا هُوَ تَخْلِيفُهُ إِيَّانَا وَ إِرْجَاؤُهُ أَمْرَنَا عَمَّنْ حَلَفَ لَهُ وَ اعْتَذَرَ إِلَيْهِ فَقَبِلَ مِنْهُ





ابن شہاب کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کا جہاد کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ روم اور شام کے عرب نصرانیوں کے خلاف جہاد کا تھا ۔ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے جو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر چلایا کرتے تھے ان کے بیٹوں میں سے جب سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نابینا ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ،وہ اپنا حال بیان کرتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک میں شامل ہونے سے پیچھے رہ گئے تھے۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں کسی جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں رہا سوائے غزوۂ تبوک کے البتہ بدر میں پیچھے رہ گیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر غصہ نہیں کیا جو پیچھے رہ گیا تھا اور بدر میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ قریش کا قافلہ لوٹنے کے لیے نکلے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ساتھ اچانک لڑا دیا (اور قافلہ نکل گیا) اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لیلۃ العقبہ میں بھی موجود تھا (لیلۃالعقبہ وہ رات ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے اسلام پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے پر بیعت لی تھی اور یہ بیعت جمرۃ العقبہ کے پاس جو منیٰ میں ہے دوبار ہوئی۔ پہلی بار میں بارہ انصاری تھے اور دوسری بار میں ستر انصاری تھے) اور میں نہیں چاہتا کہ اس رات کے بدلے میں جنگ بدر میں شریک ہوتا، اگرچہ جنگ بدر لوگوں میں اس رات سے زیادہ مشہورہے (یعنی لوگ اس کو افضل کہتے ہیں) اور غزوۂ تبوک میں میرا پیچھے رہ جانے کا قصہ یہ ہے کہ اس غزوہ کے وقت میں جتنا قوی اور خوشحال تھا، اس سے پہلے کبھی نہیں تھا ۔اللہ کی قسم! اس سے پہلے میرے پاس دو اونٹنیاں کبھی جمع نہیں ہوئیں تھیں اور اس لڑائی کے وقت میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لڑائی کے لیے سخت گرمی کے دنوں میں چلے اور سفر بھی لمبا تھا اور راہ میں جنگل تھے (دور دراز جن میں پانی کم ملتا اور ہلاکت کا خوف ہوتاہے) اور بہت سارے دشمنوں سے مقابلہ تھا ،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے صاف صاف فرما دیا : ’’ میں اس لڑائی کے لیے جا رہا ہوں۔‘‘ (حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ اور لڑائیوں میں اپنا ارادہ مصلحت کے تحت صاف صاف نہ فرماتے تھے تاکہ خبرمشہور نہ ہو) تاکہ وہ اپنی تیاری کر لیں۔ سو ان سے کہہ دیاکہ فلاں طرف جانا ہے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے مسلمان تھے اور کوئی رجسٹر نہ تھا جس میں ان کے نام لکھے جاسکتے۔ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بہت کم کوئی ایسا شخص ہو گا جو یہ گمان کر کے اس غزوہ سے غائب ہونے کا ارادہ کرے کہ اس کا معاملہ جب تک وحی نہ آئے گی ، مخفی رہے گا اور یہ جہاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کیا جب پھل پک گئے تھے اور سایہ خوب تھا اور مجھے ان چیزوں کا بہت شوق تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیاری کی اور مسلمانوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیاری کی۔ میں نے بھی صبح کو اس ارادہ سے نکلنا شروع کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ تیاری کروں، لیکن میں ہر روز لوٹ آتا اور کچھ فیصلہ نہ کر پاتا اور اپنے دل میں کہتا کہ میں جب چاہوں جا سکتا ہوں (کیونکہ سفر کا سامان میرے پاس موجود تھا)۔ میں یہی سوچتا رہا حتی کہ مسلمانوں نے سامان سفر تیار کر لیا اور لوگ برابر کوشش کرتے رہے اور ایک صبح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو ساتھ لے کر نکل پڑے اور میں نے کوئی تیاری نہ کی۔ پھر میں صبح کو نکلا اور لوٹ کر آ گیا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پایا۔ میرا یہی حال رہا ، یہاں تک کہ لوگوں نے جلدی کی اور سب مجاہدین آگے نکل گئے۔ اس وقت میں نے بھی کوچ کا قصد کیا کہ ان سے مل جاؤں،اے کاش! میں ایسا کرتا، لیکن میری تقدیر میں نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد جب میں باہر نکلتا تو مجھے رنج ہوتا، کیونکہ میں کوئی پیروی کے لائق نہ پاتا مگر ایسا شخص جس پر منافق ہونے کا گمان تھا یا معذور ضعیف اور ناتواں لوگوں میں سے۔ خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (راہ میں ) میری یاد کہیں نہ کی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے ،اس وقت فرمایا: ’’ کعب بن مالک کہاں گیا؟ ‘‘ بنی سلمہ میں سے ایک شخص بولا کہ یارسول اللہ! اس کو اس کی چادروں نے روک لیا تھا ، وہ اپنے دونوں کناروں کو دیکھتا ہے (یعنی اپنے لباس اور نفس میں مشغول اور مصروف ہے)۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا کہ تو نے بری بات کہی ،اللہ کی قسم! یا رسول اللہ ! ہم تو کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو اچھا سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر چپ ہو رہے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے آ رہا تھا اور (چلنے کی وجہ سے) ریت کو اڑا رہا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ ابوخیثمہ ہے۔‘‘ پھر وہ ابوخیثمہ رضی اللہ عنہ ہی تھا اور ابوخیثمہ رضی اللہ عنہ وہ شخص تھا جس نے ایک صاع کھجور صدقہ دی تھی اور منافقوں نے اس پر طعن کیا تھا۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ کی طرف لوٹ رہے ہیں ،تو میرا رنج بڑھ گیا۔ میں نے جھوٹ باتیں بنانا شروع کیں کہ کوئی بات ایسی کہوں جس سے کل(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچ جاؤں اور اس معاملہ کے لیے میں نے اپنے گھر میں سے ہر ایک عقلمند شخص سے مدد لینا شروع کی یعنی ان سے بھی صلاح لی ( کہ کیا بات بناؤں)۔ جب لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب آپہنچے تو اس وقت سارا جھوٹ کافور ہوگیا اور میں سمجھ گیا کہ اب میں کوئی جھوٹ بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات نہیں پا سکتا۔ آخر میں نے سچ بولنے کی نیت کر لی اور صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے ۔پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کر چکے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے، انہوں نے اپنے عذر بیان کرنے شروع کیے اور قسمیں کھانے لگے ۔ یہ لوگ اسی(۸۰) سے کچھ زیادہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ظاہر بات کو مان لیا اور ان سے بیعت کی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی اور ان کی نیت (یعنی دل کی بات کو) اللہ کے سپرد کر دیا ۔جب میں آیا پس میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے لیکن اس طرح جیسے کوئی غصہ کی حالت میں مسکراتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آؤ۔‘‘ میں چلتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو پیچھے کیوں رہ گیا؟ تو نے تو سواری بھی خرید لی تھی۔‘‘ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دنیاکے لوگوں میں سے کسی اور کے پاس بیٹھا ہوتا تو میں یہ خیال کرتا کہ کوئی عذر بیان کر کے اس کے غصہ سے نکل جاؤں گا اور مجھے ا للہ تعالیٰ نے زبان کی قوت دی ہے (یعنی میں عمدہ تقریر کر سکتا ہوں اور خوب بات بنا سکتا ہوں)، لیکن اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ اگر میں کوئی جھوٹ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خوش ہو جائیں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے اوپر غصہ کر دے گا (یعنی اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلائے گا کہ میرا عذر جھوٹ اور غلط تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو جائیں گے) اور اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ سچ کہوں گا تو بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا انجام بخیر کرے گا۔ اللہ کی قسم! !جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گیا اس وقت مجھے کوئی عذر نہ تھا ، اللہ کی قسم ! میں کبھی اتنا قوی اور اتنا مالدار نہ تھا جتنا اس وقت تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کعب نے سچ کہا ۔‘‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھا جا ،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں فیصلہ کردے۔‘‘ میں کھڑا ہو گیا اور بنی سلمہ کے چند لوگ دوڑ کر میرے پیچھے ہوئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے کہ تم نے اس سے پہلے کوئی قصور کیا ہو، پس تم عاجز کیوں ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا جس طرح اور پیچھے رہ جانے والوں نے عذر بیان کیے ؟ اور تیرا گناہ بخشوانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کافی ہوتا۔ اللہ کی قسم !وہ لوگ مجھے ملامت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر جاؤں اور اپنے آپ کو جھوٹا کروں (اور کوئی عذر بیان کروں)۔ پھر میں نے ان لوگوں سے کہا کہ کسی اور کا بھی ایسا حال ہوا ہے جو میرا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! دو شخص ایسے اور ہیں انہوں نے بھی وہی کہا جو تو نے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی فرمایا جو تجھ سے فرمایا۔ میں نے پوچھا کہ وہ دو شخص کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مرارہ بن ربیعہ اور ہلال بن امیہ واقفی۔ ان لوگوں نے ایسے دو شخصوں کے نام لیے جو نیک تھے ،بدر کی لڑائی میں موجود تھے اور پیروی کے قابل تھے۔ جب ان لوگوں نے ان دونوں کا نام لیا تو میں اپنے پہلے خیال پر قائم رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پیچھے رہ جانے والے ہم تینوں سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا تھا تو لوگوں نے ہم سے پرہیز شروع کیا اور ان کا حال ہمارے ساتھ بالکل بدل گیا، یہاں تک کہ زمین بھی گویا بدل گئی، وہ زمین ہی نہ رہی جس کو میں پہچانتا تھا۔ پچاس راتوں تک ہمارا یہی حال رہا۔ میرے دونوں ساتھی تو عاجز ہو گئے اور اپنے گھروں میں روتے ہوئے بیٹھ رہے، لیکن میں تو سب لوگوں میں نوجوان اور زور دار تھا، میں نکلا کرتا تھا اور نماز کے لیے بھی آتا اور بازاروں میں بھی پھرتا، لیکن کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو کر اپنی جگہ پر بیٹھے ہوتے تو آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا اور دل میں یہ کہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لبوں کو سلام کا جواب دینے کے لیے ہلایا یا نہیں ہلایا؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نماز پڑھتا اور چور نظر سے (آنکھ کے کونے سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ۔ سو جب میں نماز میں ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ پھیر لیتے ۔ حتی کہ جب مسلمانوں کی سختی مجھ پر لمبی ہوئی تو میں چلا اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پر چڑھا اور ابو قتادہ میرے چچازاد بھائی تھے اور سب لوگوں سے زیادہ مجھے ان سے محبت تھی ،ان کو سلام کیا تو اللہ کی قسم! انہوں نے سلام کا جواب تک نہ دیا (سبحان اللہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ایسے ہوتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے سامنے بھائی بیٹے کی پروا بھی نہیں کرتے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت نہ ہو تو ایمان کس کام کا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جب معلوم ہو جائے کہ صحیح ہے تو مجتہد اور مولویوں کا قول جو اس کے خلاف ہو دیوار پر مارنا چاہیے اور حدیث پر چلنا چاہیے)۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابو قتادہ! میں تمہیں اللہ کی قسم! دیتا ہوں کہ تم یہ نہیں جانتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں؟ وہ خاموش رہے۔ میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا، وہ پھر خاموش رہے۔ میں نے پھر تیسری بار قسم دی تو بولے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں (یہ بھی کعب سے نہیں بولے بلکہ خود اپنے میں بات کی)۔ آخر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور میں پیٹھ موڑ کر چلا اور دیوار پر چڑھا۔ میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ ملک شام کے کسانوں میں سے ایک کسان جو مدینہ میں اناج بیچنے کے لیے آیا کرتا تھا ،کہہ رہا تھا کہ کعب بن مالک کا گھر مجھے کون بتائے گا؟ لوگ اس کو بتانے کے لیے میری طرف اشارہ کرنے لگے ،یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھے غسان کے بادشاہ کا ایک خط دیا۔ میں چونکہ لکھ پڑھ سکتا تھا میں نے اس کو پڑھا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ’’ اما بعد! ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے صاحب (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر ناراض ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت کے گھر میں نہیں کیا، نہ اس جگہ جہاں تمہارا حق ضائع ہو، تو تم ہم سے مل جاؤ، ہم تمہاری خاطر داری کریں گے۔‘‘ میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے اور اس خط کو میں نے تنور میں جلا دیا ۔ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور وحی نہ آئی تو یکایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لانے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم کرتے ہیں کہ اپنی بیوی سے علیحدہ رہو۔ میں نے کہا کہ اس کو طلاق دیدوں یا کیا کروں؟ وہ بولا کہ نہیں طلاق مت دو، صرف الگ رہو اور اس سے صحبت مت کرو۔ میرے دونوں ساتھیوں (جو پیچھے رہ گئے تھے) کو بھی یہی پیغام ملا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے عزیزوں میں چلی جا اور وہیں رہ ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ دے۔ سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور عرض کی کہ یارسول اللہ ! ہلال بن امیہ ایک بوڑھا کمزور شخص ہے، اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم برا سمجھتے ہیں کہ اگر میں اس کی خدمت کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں خدمت کو برا نہیں سمجھتا لیکن وہ تجھ سے صحبت نہ کرے۔‘‘ وہ بولی کہ اللہ کی قسم! اس کو کسی کام کا خیال نہیں اور اللہ کی قسم! وہ اس دن سے اب تک رو رہا ہے۔ میرے گھر والوں نے کہا کہ کاش تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے پاس رہنے کی اجازت لے لو،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کو اس کی خدمت کرنے کی اجازت دے دی ہے؟ میں نے کہا کہ میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے لیے اجازت نہ لوں گا اور معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمائیںگے، اگر میں اپنی بیوی کے لیے اجازت لوں اور میں جوان آدمی ہوں۔ پھر میں دس راتیں اسی حال میں رہا ،یہاں تک اس تاریخ سے کہ پچاس راتیں پوری ہوئیں جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے سب لوگوں کو بات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ پھر پچاسویں رات کو صبح کے وقت میں نے اپنے ایک گھر کی چھت پر نماز پڑھی ، میں اسی حال میں بیٹھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارا حال بیان کیا کہ میرا جی تنگ ہو گیا اور زمین اپنی فراخی کے باوجود مجھ پر تنگ ہو گئی تھی۔ اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی، جو سلع (نامی) پہاڑ پر سے بلند آواز سے پکار رہا تھا کہ اے کعب بن مالک! خوش ہو جا۔ یہ سن کر میں سجدہ میں گرا اور میں جان گیا کہ اب کشادگی آگئی۔ پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ اﷲ نے ہماری توبہ کر لی ہے۔ لوگ ہمیں خوشخبری دینے کو چلے، میرے دونوں ساتھیوں کے پاس چند خوشخبری دینے والے گئے اور ایک شخص نے میرے پاس گھوڑا دوڑایا اور ایک دوڑنے والا اسلم قبیلہ سے میری طرف آیا اور اس کی آواز گھوڑے سے جلدی مجھ کو پہنچی۔ جب وہ شخص آیا جس کی خوشخبری کی آواز میں نے سنی تھی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتارے اور اس خوشخبری کے صلہ میں اس کو پہنا دئیے ۔اللہ کی قسم! اس وقت میرے پاس وہی دو کپڑے تھے۔ میں نے دو کپڑے عاریتاً لیے اور ان کو پہن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی نیت سے چلا۔ لوگ مجھ سے گروہ در گروہ ملتے جاتے تھے اور مجھے معافی کی مبارکباد دیتے جاتے تھے او رکہتے تھے کہ تمہارے لیے اﷲ تعالیٰ کی معافی کی قبولیت کی مبارک ہو،یہاں تک کہ میں مسجد میں پہنچا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابہ رضی اللہ عنھم تھے اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھتے ہی دوڑ کر آکر مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی۔اللہ کی قسم! مہاجرین میں سے ان کے سوا کوئی شخص کھڑا نہیں ہوا۔ تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس احسان کو نہیں بھولتے تھے۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک دمک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خوش ہو جا ، جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا آج کا دن تیرے لیے بہتر دن ہے۔‘‘ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ جل جلالہ کی طرف سے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چمک جاتاتھا گویا کہ چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم اس بات (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی) کو پہچان لیتے تھے۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! میں اپنی معافی کی خوشی میں اپنے مال کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صدقہ کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنا تھوڑا مال رکھ لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘ میں نے عرض کی کہ پھر میں اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیتا ہوں اور میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! آخر کار سچائی نے مجھے نجات دی اور میری توبہ میں یہ بھی داخل ہے کہ جب تک زندہ رہوں ہمیشہ سچ کہوں گا۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان پر سچ بولنے پر ایسا احسان کیا ہو جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا جیسا عمدہ طرح سے مجھ پر احسان کیا۔ اللہ کی قسم!جب سے یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہے اس وقت سے آج کے دن تک کوئی جھوٹ قصداً نہیں بولا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے جھوٹ سے بچائے گا۔ سیدنا کعب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، مہاجرین اور انصار کو معاف کیا جنہوں نے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مفلسی کے وقت ساتھ دیا۔‘‘ یہاں تک کہ فرمایا ’’وہ ان کے ساتھ مہربان ہے اور رحم والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان تین شخصوں کو بھی معاف کیا جو پیچھے چھوڑے گئے ،یہاں تک کہ زمین ان پر باوجود اپنی کشادگی کے تنگ ہو گئی اور ان کے نفس بھی تنگ ہو گئے اور سمجھے کہ اب اللہ تعالیٰ سے کوئی بچاؤ نہیں مگر اسی کی طرف، پھر اللہ نے ان کو معاف کیا تا کہ وہ توبہ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈور اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو۔‘‘(التوبہ:۱۱۷۔۱۱۹) ۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب سے مجھے اسلام کی ہدایت کی ہے،اس سے بڑھ کوئی احسان مجھ پر نہیں کیا جو میرے نزدیک اتنا بڑا ہو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ بول دیا اور جھوٹ نہیں بولا ،ورنہ تباہ ہوتا جیسے جھوٹے تباہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کی جب وحی اتاری تو ایسی برائی بیان کی کہ کسی (اور)کی نہ کی ہو گی۔ فرمایا: ’’جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو عنقریب وہ تمہارے سامنے اﷲ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے کوئی تعرض نہ کرو سو تم ان سے اعراض کر لو، بے شک وہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔یہ بدلا ہے ان کی کمائی کا ، وہ تم سے اس لیے قسمیں کھاتے ہیں کہ تم ان سے خوش بھی ہو جاؤ۔ پس اگر تم ان سے خوش ہو جاؤ تو بھی اللہ تعالیٰ ان بدکاروں سے خوش نہیں ہو گا۔‘‘ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم تینوں کا معاملہ ان لوگوں سے مؤخر کیا گیاجن کا عذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کر لیاتھا جب انہو ں نے قسم کھائی تو ان سے بیعت کی اور ان کے لیے استغفار کیا اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے ڈال رکھا (یعنی ہمارا مقدمہ، فیصلہ پیچھے رکھا) ،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا۔ اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’معاف کیا ان تینوں کو جو پیچھے ڈالے گئے تھے، یہاں تک کہ ان پر زمین اپنی کشادگی کے باجود تنگ ہو گئی۔‘‘ اور اس لفظ (یعنی خُلِّفُوْا) سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم جہاد سے پیچھے رہ گئے، بلکہ وہی مراد ہے ہمارے مقدمہ کا پیچھے رہنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھے ڈال رکھنا بہ نسبت ان لوگوں کے جنہوں نے قسم کھائی اور عذر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر کو قبول کر لیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : قَبُوْلُ التَّوْبَةِ مِمَّنْ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ
جس نے سو آدمی قتل کیے تھے ،اس کی توبہ قبول ہونے کے بارے میں




(1919) عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَ تِسْعِينَ نَفْسًا فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ فَأَتَاهُ فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَ تِسْعِينَ نَفْسًا فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ ؟ فَقَالَ لاَ فَقَتَلَهُ فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ ؟ فَقَالَ نَعَمْ وَ مَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ التَّوْبَةِ ؟ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَ كَذَا فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاعْبُدِ اللَّهَ مَعَهُمْ وَ لاَ تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْئٍ فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلاَئِكَةُ الرَّحْمَةِ وَ مَلائِكَةُ الْعَذَابِ فَقَالَتْ مَلاَئِكَةُ الرَّحْمَةِ جَائَ تَائِبًا مُقْبِلاً بِقَلْبِهِ إِلَى اللَّهِ وَ قَالَتْ مَلاَئِكَةُ الْعَذَابِ إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِي صُورَةِ آدَمِيٍّ فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ فَقَالَ قِيسُوا مَا بَيْنَ الأَرْضَيْنِ فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ فَقَاسُوا فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ فَقَبَضَتْهُ مَلاَئِكَةُ الرَّحْمَةِ قَالَ قَتَادَةُ فَقَالَ الْحَسَنُ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ لَمَّا أَتَاهُ الْمَوْتُ نَأَى بِصَدْرِهِ



سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص تھا،جس نے ننانوے قتل کیے تھے۔ اس نے پوچھا کہ زمین کے لوگوں میں سب سے زیادہ عالم کون ہے؟ لوگوں نے ایک راہب کے بار ے میں بتایا، وہ اس کے پاس گیا اور کہا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں ،کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ راہب نے کہا کہ نہیں!( تیری توبہ قبول نہ ہو گی) تو اس نے اس راہب کو بھی مار ڈالا اور سو قتل پورے کر لیے۔ پھر اس نے لوگوں سے پوچھا کہ زمین میں سب سے زیادہ عالم کون ہے؟ لوگوں نے ایک عالم کے بارے میں بتایا (تو وہ اس کے پاس گیا )اور پوچھا کہ اس نے سو قتل کیے ہیں، کیا اس کے لیے توبہ ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں !اور توبہ کرنے سے کونسی چیز مانع ہے؟ تو فلاں ملک میں جا اور وہاں کچھ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تو بھی جا کر ان کے ساتھ عبادت کر اور اپنے ملک میں مت جا کہ وہ برا ملک ہے۔ پھر وہ اس ملک کی طرف چلا، جب آدھا سفر طے کر لیا تو اس کو موت آگئی۔ اب عذاب کے فرشتوں اور رحمت کے فرشتوں میں جھگڑا ہوا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ توبہ کر کے صدق دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو کر آ رہا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا کہ اس نے کوئی نیکی نہیں کی۔ آخر ایک فرشتہ آدمی کی صورت بن کر آیا اور انہوں نے اس کو فیصلہ کرنے کے لیے مقررکیا ۔اس نے کہا کہ دونوں طرف کی زمین ناپو اور جس ملک کے قریب ہو، وہ وہیں کا ہے۔ سو انہوں نے زمین کو ناپا توانہوں نے اس زمین کو قریب پایا جس کا اس نے ارادہ کیا تھا، پس رحمت کے فرشتے اس کو لے گئے۔ سیدنا قتادہ نے کہا (راوی حدیث) حسن نے کہا کہ ہم سے یہ بھی بیان ہوا کہ جب وہ مرنے لگا تو اپنے سینہ کے بل بڑھا (تاکہ اس ملک سے نزدیک ہو جائے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَنْ تَابَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ
جس نے مغرب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے توبہ کی، اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا


(1920) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اس سے پہلے توبہ کر لے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو ،تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے گا۔‘‘ (سورج کے مغرب سے نکلنے کے بعد توبہ قبول نہ ہو گی۔ اسی طرح موت کے فرشتوں کو دیکھنے کے وقت توبہ قبول نہ ہو گی اور نہ اس کی وصیت نافذ ہو گی)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : قَبُوْلُ التَّوْبَةِ مِنْ مُسِيئِ اللَّيْلِ وَ النَّهَارِ
رات اوردن کے گنہگار کی توبہ کی قبولیت

(1921) عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيئُ النَّهَارِ وَ يَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيئُ اللَّيْلِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا

سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ عزوجل اپنا ہاتھ رات کو پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کر لے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کا گنہگار توبہ کرلے یہاں تک کہ آفتاب مغرب کی طرف سے نکلے(یعنی اس کے بعد توبہ نہیں)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ غُفْرَانِ الذُّنُوْبِ
گناہوں کے معاف کرنے کے بیان میں


(1922) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ وَ لَجَائَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم گناہ نہ کرو تو البتہ اللہ تعالیٰ تمہیں فنا کر دے گا اور ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو گناہ کریں گے اور پھر اس سے بخشش مانگیں گے ،پس اللہ تعالیٰ ان کو بخشے گا۔‘‘ (سبحان اللہ !مالک کے سامنے قصور کا اقرار کرنا اور معذرت کرنا اور توبہ کرنا اور معافی چاہنا کیسی عمدہ بات ہے اورمالک کو کیسے پسند ہے۔ کسی بزرگ نے کہا کہ وہ گناہ مبارک ہے جس کے بعد معافی اور وہ عبادت منحوس ہے جس سے غرور پیدا ہو)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ سَعَةِ رَحْمَةِ اللَّهِ تَعَالَى وَ أَنَّهَا تَغْلِبُ غَضَبَهُ
اللہ تعالیٰ کی رحمت فراخ ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے


(1923) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمَّا قَضَى اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابِهِ عَلَى نَفْسِهِ فَهُوَ مَوْضُوعٌ عِنْدَهُ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ مخلوقات کو بنا چکا تو اپنی کتاب میں لکھا اور وہ کتاب اس کے پاس رکھی ہے کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے۔ ‘‘
 
Top