• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ شَهَادَةِ أَرْكَانِ الْعَبْدِ يَومَ الْقِيَامةِ بِعَمَلِهِ
قیامت کے دن انسان کے اعمال کے متعلق اس کے اعضاء کی گواہی

(1933) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَضَحِكَ فَقَالَ هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ أَضْحَكُ ؟ قَالَ قُلْنَا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ يَقُولُ يَا رَبِّ ! أَلَمْ تُجِرْنِي مِنَ الظُّلْمِ ؟ قَالَ يَقُولُ بَلَى قَالَ فَيَقُولُ فَإِنِّي لاَ أُجِيزُ عَلَى نَفْسِي إِلاَّ شَاهِدًا مِنِّي قَالَ فَيَقُولُ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيدًا وَ بِالْكِرَامِ الْكَاتِبِينَ شُهُودًا قَالَ فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ فَيُقَالُ لِأَرْكَانِهِ انْطِقِي قَالَ فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ قَالَ ثُمَّ يُخَلَّى بَيْنَهُ وَ بَيْنَ الْكَلاَمِ قَالَ فَيَقُولُ بُعْدًا لَكُنَّ وَ سُحْقًا فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ


سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جانتے ہو کہ میں کیوں مسکرا رہا ہوں؟‘‘ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :’’ میں بندے کی اس گفتگو کی وجہ سے مسکرایا ہوں، جو وہ اپنے مالک سے کرے گا۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے مالک! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا ہے؟ (یعنی تو نے وعدہ کیا ہے کہ ظلم نہ کروں گا)۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ ہاں! ہم ظلم نہیں کرتے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :’’ پھر بندہ کہے گا کہ میں کسی کی گواہی کو اپنے اوپر سوائے اپنی ذات کے جائز نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا! تیری ہی ذات کی گواہی تجھ پر آج کے دن کفایت کرتی ہے اور کراماً کاتبین کی گواہی۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر بندہ کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء(ہاتھ پاؤں )کو حکم ہو گا کہ بولو۔ تو اس کے سارے اعمال بول کر گواہی دیں گے۔ پھر بندہ کو بات کرنے کی اجازت دی جائے گی تو بندہ اپنے اعضاء (ہاتھ پاؤں )سے کہے گا کہ چلو دور ہو جاؤ، تم پر اللہ کی مار، میں تو تمہارے لیے جھگڑا کرتا تھا (یعنی تمہارا ہی دوزخ سے بچانا مجھے منظور تھا۔ پس تم آپ ہی گناہ کا قرار کر چکے، اب دوزخ میں جاؤ)۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ خَشْيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَ شِدَّةِ الْخَوْفِ مِنْ عِقَابِهِ
اللہ تعالیٰ سے کی خشیت اور اس کے عذاب سے سخت خوف رکھنے کے متعلق


(1934) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ قَالَ رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ حَسَنَةً قَطُّ لِأَهْلِهِ إِذَا مَاتَ فَحَرِّقُوهُ ثُمَّ اذْرُوا نِصْفَهُ فِي الْبَرِّ وَ نِصْفَهُ فِي الْبَحْرِ فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ لَيُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا لاَ يُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ فَلَمَّا مَاتَ الرَّجُلُ فَعَلُوا مَا أَمَرَهُمْ فَأَمَرَ اللَّهُ الْبَرَّ فَجَمَعَ مَا فِيهِ وَ أَمَرَ الْبَحْرَ فَجَمَعَ مَا فِيهِ ثُمَّ قَالَ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا ؟ قَالَ مِنْ خَشْيَتِكَ يَا رَبِّ وَ أَنْتَ أَعْلَمُ فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک شخص نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، جب وہ مرنے لگا تو اپنے لوگوں سے بولا کہ مجھے (مرنے کے بعد)جلا کر راکھ کر دینا ، پھر آدھی راکھ جنگل میں اڑا دینا اور آدھی سمندر میں ۔ اللہ کی قسم! اگر ا للہ مجھے پائے گا تو ایسا عذاب کرے گا کہ کہ ویسا عذاب دنیا میں کسی کو نہیں کرے گا۔ جب وہ شخص مر گیا تو لوگوں نے ایسا ہی کیا ۔اللہ تعالیٰ نے جنگل کو حکم دیا تو اس نے سب راکھ اکٹھی کر دی۔ پھر سمندر کو حکم دیا تو اس نے بھی اکٹھی کر دی پھر اللہ نے اس شخص سے فرمایا: ’’تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا کہ اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْمَنْ أَذْنَبَ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ رَبَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ
اس آدمی کے متعلق ،جس نے گناہ کیا اور پھر اپنے رب سے بخشش مانگی

(1935) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِيمَا يَحْكِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّوَجَلَّ قَالَ أَذْنَبَ عَبْدٌ ذَنْبًا فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى عَبْدِي أَذْنَبَ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ اعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ قَالَ عَبْدُ الأَعْلَى لاَ أَدْرِي أَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ اعْمَلْ مَا شِئْتَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے روایت کی کہ ایک بندہ گناہ کر بیٹھا تو کہا کہ اے اللہ! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے نے گناہ کیا، پھر اس نے جان لیاکہ اس کا ایک مالک ہے ،جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے۔ پھر اس نے گناہ کیا اور کہا کہ اے میرے مالک! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندہ نے ایک گناہ کیا اور اس نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے ،جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے۔ پھر اس نے گناہ کیا اور کہا کہ اے میرے پالنے والے! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے نے گناہ کیا اور اس نے یہ جان لیا کہ اس کا ایک اللہ ہے ،جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے۔ اے بندے! اب تو جو چاہے عمل کر ، میں نے تجھے بخش دیا۔‘‘ (راوئ حدیث) عبدالاعلیٰ نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ یہ ’’ اب جو چاہے عمل کر‘‘ تیسری بار فرمایا یا چوتھی بار فرمایا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْمَنْ أَصَابَ ذَنْبًا ثُمَّ تَوَضَّأَ وَ صَلَّى الْمَكْتُوْبَةَ
اس آدمی کے متعلق ،جس نے گناہ کیا پھر وضو کیا اور فرض نماز پڑھی


(1936) عَنْ أَبِيْ أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي الْمَسْجِدِ وَ نَحْنُ قُعُودٌ مَعَهُ إِذْ جَائَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ أَعَادَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ فَسَكَتَ عَنْهُ وَ أُقِيمَتِ الصَّلاةُ فَلَمَّا انْصَرَفَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَبُو أُمَامَةَ فَاتَّبَعَ الرَّجُلُ رَسُولَ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم حِينَ انْصَرَفَ وَ اتَّبَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْظُرُ مَا يَرُدُّ عَلَى الرَّجُلِ فَلَحِقَ الرَّجُلُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ قَالَ أَبُو أُمَامَةَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَرَأَيْتَ حِينَ خَرَجْتَ مِنْ بَيْتِكَ أَلَيْسَ قَدْ تَوَضَّأْتَ فَأَحْسَنْتَ الْوُضُوئَ ؟ قَالَ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ ثُمَّ شَهِدْتَ الصَّلاةَ مَعَنَا؟فَقَالَ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ حَدَّكَ أَوْ قَالَ ذَنْبَكَ


سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے اور ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے، اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں حد کے کام کو پہنچا ہوں مجھے حد لگایے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر چپ ہو رہے۔ اس نے پھر کہا کہ یارسول اللہ ! میں نے حد کا کام کیاہے تو مجھے حد لگایے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے۔ اتنے میں نماز کھڑی ہوئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر چلے تو وہ شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے یہ دیکھنے کو چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کو کیا جوا ب دیتے ہیں۔ پھر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور عرض کی کہ یارسول اللہ ! میں نے حد کا کام کیا ہے، مجھے حد لگایے۔ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس وقت تو اپنے گھر سے نکلا تھا، تو نے اچھی طرح سے وضو نہیں کیا؟ وہ بولا کہ کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی؟ وہ بولا ہاں ،یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ نے تیری حد کو یا تیرے گناہ کو بخش دیا۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : يُجْعَلُ لِكُلِّ مُسْلِمٍ فِدَائٌ مِّنَ النَّارِ مِنَ الْكُفَّارِ
مسلم کے بدلے ایک کافر بطور فدیہ جہنم میں ڈالا جائے گا

(1937) عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ دَفَعَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى كُلِّ مُسْلِمٍ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا فَيَقُولُ هَذَا فِكَاكُكَ مِنَ النَّارِ

سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ ہر ایک مسلمان کو ایک یہودی یا نصرانی دے گا اور فرمائے گا کہ یہ تیرا جہنم سے چھٹکارا ہے ۔ ‘‘


وضاحت: اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض مومن ایسے ہوں گے جن کے بہت زیادہ گناہ ہوں گے اور اﷲ تعالیٰ انھیں معاف کرنا چاہے گا تو پھر ان کے گناہ یہود و نصاریٰ پر ان کے شرک کرنے کی وجہ سے ڈال دیے جائیں گے اور مومنوں کو گناہوں سے چھٹکارا مل جائے گا ان کے شرک نہ کرنے کی وجہ سے اور پھر یہ گناہ حقیقت میں ہوں گے بھی وہی جن کو دنیا پر جاری کرنے والے بھی یہود و نصاریٰ ہی تھے۔ آج ان کے گناہ انھیں کے سر پر لاد دیے گئے ۔ واﷲ اعلم(محمود الحسن اسد)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ الْمُنَافِقِیْنَ
منافقین کے متعلق بیان


بَابٌ : فِيْ قَوْلِهِ تَعَالَى: { إِذَا جَائَكَ الْمُنَافِقُوْنَ .....} إِلَى قَوْلِهِ { حَتَّى يَنْفَضُّوْا }

اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’(اے محمد!) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو ……یہاں تک کہ یہ (خودبخود) بھاگ جائیں‘‘ کی تفسیر


(1938) عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فِي سَفَرٍ أَصَابَ النَّاسَ فِيهِ شِدَّةٌ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ لِأَصْحَابِهِ { لاَ تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ } (المنافقون: 7) قَالَ زُهَيْرٌ وَ هِيَ قِرَائَةُ مَنْ خَفَضَ حَوْلَهُ وَ قَالَ { لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ } (المنافقون: 8) قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّصلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْبَرْتُهُ بِذَلِكَ فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ فَسَأَلَهُ فَاجْتَهَدَ يَمِينَهُ مَا فَعَلَ فَقَالَ كَذَبَ زَيْدٌ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِمَّا قَالُوهُ شِدَّةٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقِي { إِذَا جَائَكَ الْمُنَافِقُونَ } (المنافقون : 1) قَالَ ثُمَّ دَعَاهُمُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم لِيَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَ فَلَوَّوْا رُئُوسَهُمْ وَ قَوْله { كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ } (المنافقون : 4) وَ قَالَ كَانُوا رِجَالاً أَجْمَلَ شَيْئٍ

سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے ،جس میں لوگوں کو (کھانے اور پینے کی) بہت تکلیف ہوئی۔ عبداللہ بن ابی (منافق) نے اپنے ساتھی(منافقوں)سے کہا کہ ’’تم ان لوگوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ،کچھ مت دو ،یہاں تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ نکلیں۔‘‘ زہیر نے کہا کہ یہ اس شخص کی قراء ت ہے جس نے مِنْ حَوْلِہ پڑھا ہے (اور یہی قراء ت مشہور ہے اور قراء ت شاذ مَنْ حَوْلَہ ہے، یعنی یہاں تک کہ بھاگ جائیں وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ہیں) اور عبداللہ بن ابی منافق نے کہا کہ’’ اگر ہم مدینہ کو لوٹیں گے تو البتہ عزت والا (یعنی مردود نے اپنے آ پ کو عزت والا قرار دیا) ذلت والے کو نکال دے گا‘‘ (یعنی مردود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذلت والا قرار دیا)۔ میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کے پاس کہلا بھیجا اور اس سے پوچھا، تو اس نے قسم کھائی کہ میں نے ایسا نہیں کہا اور بولا کہ زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ بولاہے۔ اس بات سے میرے دل کو بہت رنج ہوا، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے سچا کیا اور سورئہ { اِذَا جَآئَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ} اتری۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعائے مغفرت کے لیے بلایا،لیکن انہوں نے اپنے سر موڑ لیے (یعنی نہ آئے) اور اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فرمایا ہے ’’ گویا وہ لکڑیاں ہیں دیوار سے ٹکائی ہوئیں۔‘‘ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ لوگ ظاہر میں خوب اور اچھے معلوم ہوتے تھے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ إِعْرَاضِ الْمُنَافِقِيْنَ عَنِ اسْتِغْفَارِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم
منافقین کے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بخشش کی دعا کرانے سے اعراض کرنے کے متعلق


(1939) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ يَصْعَدُ الثَّنِيَّةَ ثَنِيَّةَ الْمُرَارِ فَإِنَّهُ يُحَطُّ عَنْهُ مَا حُطَّ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ صَعِدَهَا خَيْلُنَا خَيْلُ بَنِي الْخَزْرَجِ ثُمَّ تَتَامَّ النَّاسُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ كُلُّكُمْ مَغْفُورٌ لَهُ إِلاَّ صَاحِبَ الْجَمَلِ الأَحْمَرِ فَأَتَيْنَاهُ فَقُلْنَا لَهُ تَعَالَ يَسْتَغْفِرْ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ وَ اللَّهِ لِأَنْ أَجِدَ ضَالَّتِي
أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي صَاحِبُكُمْ قَالَ وَ كَانَ رَجُلٌ يَنْشُدُ ضَالَّةً لَهُ


سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کون شخص مرار کی گھاٹی پر چڑھے گا تاکہ اس کے گناہ ایسے معاف ہو جائیں جیسے بنی اسرائیل کے معاف ہو گئے تھے۔‘‘ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سب سے پہلے اس گھاٹی پر ہمارے گھوڑے چڑھے یعنی قبیلہ خزرج کے لوگوں کے، پھر لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کی بخشش ہو گئی مگر لال اونٹ والے کی نہیں۔‘‘ ہم اس شخص کے پاس گئے اور ہم نے کہا کہ چل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ وہ بولا کہ اللہ کی قسم! میں اپنی گمشدہ چیز پاؤں تو مجھے تمہارے صاحب کی دعا سے زیادہ پسند ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ شخص اپنی گمشدہ چیز ڈھونڈ رہا تھا (وہ منافق تھا جبھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی بخشش نہیں ہوئی ۔‘‘ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا وہ شخص ویسا ہی نکلا)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ الْمُنَافِقِیْنَ
منافقین کے متعلق بیان


بَابٌ : فِيْ قَوْلِهِ تَعَالَى: { إِذَا جَائَكَ الْمُنَافِقُوْنَ .....} إِلَى قَوْلِهِ { حَتَّى يَنْفَضُّوْا }
اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’(اے محمد!) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو ……یہاں تک کہ یہ (خودبخود) بھاگ جائیں‘‘ کی تفسیر


(1938) عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فِي سَفَرٍ أَصَابَ النَّاسَ فِيهِ شِدَّةٌ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ لِأَصْحَابِهِ { لاَ تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ } (المنافقون: 7) قَالَ زُهَيْرٌ وَ هِيَ قِرَائَةُ مَنْ خَفَضَ حَوْلَهُ وَ قَالَ { لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ } (المنافقون: 8) قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّصلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْبَرْتُهُ بِذَلِكَ فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ فَسَأَلَهُ فَاجْتَهَدَ يَمِينَهُ مَا فَعَلَ فَقَالَ كَذَبَ زَيْدٌ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِمَّا قَالُوهُ شِدَّةٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقِي { إِذَا جَائَكَ الْمُنَافِقُونَ } (المنافقون : 1) قَالَ ثُمَّ دَعَاهُمُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم لِيَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَ فَلَوَّوْا رُئُوسَهُمْ وَ قَوْله { كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ } (المنافقون : 4) وَ قَالَ كَانُوا رِجَالاً أَجْمَلَ شَيْئٍ


سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے ،جس میں لوگوں کو (کھانے اور پینے کی) بہت تکلیف ہوئی۔ عبداللہ بن ابی (منافق) نے اپنے ساتھی(منافقوں)سے کہا کہ ’’تم ان لوگوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ،کچھ مت دو ،یہاں تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ نکلیں۔‘‘ زہیر نے کہا کہ یہ اس شخص کی قراء ت ہے جس نے مِنْ حَوْلِہ پڑھا ہے (اور یہی قراء ت مشہور ہے اور قراء ت شاذ مَنْ حَوْلَہ ہے، یعنی یہاں تک کہ بھاگ جائیں وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ہیں) اور عبداللہ بن ابی منافق نے کہا کہ’’ اگر ہم مدینہ کو لوٹیں گے تو البتہ عزت والا (یعنی مردود نے اپنے آ پ کو عزت والا قرار دیا) ذلت والے کو نکال دے گا‘‘ (یعنی مردود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذلت والا قرار دیا)۔ میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کے پاس کہلا بھیجا اور اس سے پوچھا، تو اس نے قسم کھائی کہ میں نے ایسا نہیں کہا اور بولا کہ زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ بولاہے۔ اس بات سے میرے دل کو بہت رنج ہوا، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے سچا کیا اور سورئہ { اِذَا جَآئَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ} اتری۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعائے مغفرت کے لیے بلایا،لیکن انہوں نے اپنے سر موڑ لیے (یعنی نہ آئے) اور اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فرمایا ہے ’’ گویا وہ لکڑیاں ہیں دیوار سے ٹکائی ہوئیں۔‘‘ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ لوگ ظاہر میں خوب اور اچھے معلوم ہوتے تھے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ إِعْرَاضِ الْمُنَافِقِيْنَ عَنِ اسْتِغْفَارِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم
منافقین کے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بخشش کی دعا کرانے سے اعراض کرنے کے متعلق


(1939) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ يَصْعَدُ الثَّنِيَّةَ ثَنِيَّةَ الْمُرَارِ فَإِنَّهُ يُحَطُّ عَنْهُ مَا حُطَّ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ صَعِدَهَا خَيْلُنَا خَيْلُ بَنِي الْخَزْرَجِ ثُمَّ تَتَامَّ النَّاسُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ كُلُّكُمْ مَغْفُورٌ لَهُ إِلاَّ صَاحِبَ الْجَمَلِ الأَحْمَرِ فَأَتَيْنَاهُ فَقُلْنَا لَهُ تَعَالَ يَسْتَغْفِرْ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ وَ اللَّهِ لِأَنْ أَجِدَ ضَالَّتِي
أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي صَاحِبُكُمْ قَالَ وَ كَانَ رَجُلٌ يَنْشُدُ ضَالَّةً لَهُ

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کون شخص مرار کی گھاٹی پر چڑھے گا تاکہ اس کے گناہ ایسے معاف ہو جائیں جیسے بنی اسرائیل کے معاف ہو گئے تھے۔‘‘ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سب سے پہلے اس گھاٹی پر ہمارے گھوڑے چڑھے یعنی قبیلہ خزرج کے لوگوں کے، پھر لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کی بخشش ہو گئی مگر لال اونٹ والے کی نہیں۔‘‘ ہم اس شخص کے پاس گئے اور ہم نے کہا کہ چل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ وہ بولا کہ اللہ کی قسم! میں اپنی گمشدہ چیز پاؤں تو مجھے تمہارے صاحب کی دعا سے زیادہ پسند ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ شخص اپنی گمشدہ چیز ڈھونڈ رہا تھا (وہ منافق تھا جبھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی بخشش نہیں ہوئی ۔‘‘ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا وہ شخص ویسا ہی نکلا)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ ذِكْرِ الْمُنَافِقِيْنَ وَ عَلاَمَتِهِمْ
منافقوں کے ذکر اور ان کی نشانیوں کے بار ے میں


(1940) عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ قُلْتُ لِعَمَّارٍ أَرَأَيْتَ قِتَالَكُمْ أَ رَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ فَإِنَّ الرَّأْيَ يُخْطِئُ وَ يُصِيبُ أَوْ عَهْدًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فَقَالَ مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً وَ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِنَّ فِي أُمَّتِي قَالَ شُعْبَةُ وَ أَحْسِبُهُ قَالَ حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ وَ قَالَ غُنْدَرٌ أُرَاهُ قَالَ فِي أُمَّتِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا لاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَ لاَ يَجِدُونَ رِيحَهَا حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ سِرَاجٌ مِنَ النَّارِ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ حَتَّى يَنْجُمَ مِنْ صُدُورِهِمْ

قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنھما سے پوچھا (اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنھما جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرف تھے) کہ تم نے جو لڑائی (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے) کی،یہ تمہاری رائے ہے یا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کچھ فرمایا تھا؟ اگر رائے ہے تو رائے تو درست بھی ہوتی ہے اور غلط بھی۔ تو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی ایسی بات نہیں فرمائی جو عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو ،لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میرے اصحاب میں بارہ منافق ہیں ان میں سے آٹھ جنت میں نہ جائیں گے نہ اس کی خوشبو سونگھیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں گھسے (یعنی ان کا جنت میں جانا محال ہے) اور ان میں سے آٹھ کو بڑا پھوڑا تمام کر ڈالے گا یعنی ایک آگ کا چراغ ان کے کندھوں میں پیدا ہو گا ، ان کی چھاتیاں توڑ کے نکل آئے گا (یعنی اس میں آگ ہو گی جیسے چراغ رکھ دیا۔ اللہ بچائے)۔
 
Top