ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
بَابٌ : فِيْ شَهَادَةِ أَرْكَانِ الْعَبْدِ يَومَ الْقِيَامةِ بِعَمَلِهِ
قیامت کے دن انسان کے اعمال کے متعلق اس کے اعضاء کی گواہی
(1933) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَضَحِكَ فَقَالَ هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ أَضْحَكُ ؟ قَالَ قُلْنَا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ يَقُولُ يَا رَبِّ ! أَلَمْ تُجِرْنِي مِنَ الظُّلْمِ ؟ قَالَ يَقُولُ بَلَى قَالَ فَيَقُولُ فَإِنِّي لاَ أُجِيزُ عَلَى نَفْسِي إِلاَّ شَاهِدًا مِنِّي قَالَ فَيَقُولُ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيدًا وَ بِالْكِرَامِ الْكَاتِبِينَ شُهُودًا قَالَ فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ فَيُقَالُ لِأَرْكَانِهِ انْطِقِي قَالَ فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ قَالَ ثُمَّ يُخَلَّى بَيْنَهُ وَ بَيْنَ الْكَلاَمِ قَالَ فَيَقُولُ بُعْدًا لَكُنَّ وَ سُحْقًا فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جانتے ہو کہ میں کیوں مسکرا رہا ہوں؟‘‘ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :’’ میں بندے کی اس گفتگو کی وجہ سے مسکرایا ہوں، جو وہ اپنے مالک سے کرے گا۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے مالک! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا ہے؟ (یعنی تو نے وعدہ کیا ہے کہ ظلم نہ کروں گا)۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ ہاں! ہم ظلم نہیں کرتے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :’’ پھر بندہ کہے گا کہ میں کسی کی گواہی کو اپنے اوپر سوائے اپنی ذات کے جائز نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا! تیری ہی ذات کی گواہی تجھ پر آج کے دن کفایت کرتی ہے اور کراماً کاتبین کی گواہی۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر بندہ کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء(ہاتھ پاؤں )کو حکم ہو گا کہ بولو۔ تو اس کے سارے اعمال بول کر گواہی دیں گے۔ پھر بندہ کو بات کرنے کی اجازت دی جائے گی تو بندہ اپنے اعضاء (ہاتھ پاؤں )سے کہے گا کہ چلو دور ہو جاؤ، تم پر اللہ کی مار، میں تو تمہارے لیے جھگڑا کرتا تھا (یعنی تمہارا ہی دوزخ سے بچانا مجھے منظور تھا۔ پس تم آپ ہی گناہ کا قرار کر چکے، اب دوزخ میں جاؤ)۔‘‘
قیامت کے دن انسان کے اعمال کے متعلق اس کے اعضاء کی گواہی
(1933) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَضَحِكَ فَقَالَ هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ أَضْحَكُ ؟ قَالَ قُلْنَا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ يَقُولُ يَا رَبِّ ! أَلَمْ تُجِرْنِي مِنَ الظُّلْمِ ؟ قَالَ يَقُولُ بَلَى قَالَ فَيَقُولُ فَإِنِّي لاَ أُجِيزُ عَلَى نَفْسِي إِلاَّ شَاهِدًا مِنِّي قَالَ فَيَقُولُ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيدًا وَ بِالْكِرَامِ الْكَاتِبِينَ شُهُودًا قَالَ فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ فَيُقَالُ لِأَرْكَانِهِ انْطِقِي قَالَ فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ قَالَ ثُمَّ يُخَلَّى بَيْنَهُ وَ بَيْنَ الْكَلاَمِ قَالَ فَيَقُولُ بُعْدًا لَكُنَّ وَ سُحْقًا فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جانتے ہو کہ میں کیوں مسکرا رہا ہوں؟‘‘ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :’’ میں بندے کی اس گفتگو کی وجہ سے مسکرایا ہوں، جو وہ اپنے مالک سے کرے گا۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے مالک! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا ہے؟ (یعنی تو نے وعدہ کیا ہے کہ ظلم نہ کروں گا)۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ ہاں! ہم ظلم نہیں کرتے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :’’ پھر بندہ کہے گا کہ میں کسی کی گواہی کو اپنے اوپر سوائے اپنی ذات کے جائز نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا! تیری ہی ذات کی گواہی تجھ پر آج کے دن کفایت کرتی ہے اور کراماً کاتبین کی گواہی۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر بندہ کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء(ہاتھ پاؤں )کو حکم ہو گا کہ بولو۔ تو اس کے سارے اعمال بول کر گواہی دیں گے۔ پھر بندہ کو بات کرنے کی اجازت دی جائے گی تو بندہ اپنے اعضاء (ہاتھ پاؤں )سے کہے گا کہ چلو دور ہو جاؤ، تم پر اللہ کی مار، میں تو تمہارے لیے جھگڑا کرتا تھا (یعنی تمہارا ہی دوزخ سے بچانا مجھے منظور تھا۔ پس تم آپ ہی گناہ کا قرار کر چکے، اب دوزخ میں جاؤ)۔‘‘