• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَا الدُّنْيَا فِيْ الآخِرَةِ إِلاَّ مِثْلُ مَا تَجْعَلُ الإِصْبَعُ فِيْ الْيَمِّ
دنیا (کی اہمیت)آخرت کے مقابلہ میں اتنی ہی ہے جیسے انگلی دریا میں ڈبوئی جائے


(2082) عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ أَخِي بَنِي فِهْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ اللَّهِ مَا الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ وَ أَشَارَ يَحْيَى بِالسَّبَّابَةِ فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَ يَرْجِعُ


سیدنا مستورد اخی بنی فہر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! دنیا آخرت کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی یہ انگلی دریا میں ڈالے (اور یحییٰ نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا) ،پھر دیکھے کہ کتنی تری دریا میں سے لاتا ہے۔‘‘ (تو جتنا پانی انگلی میں لگا رہتا ہے وہ گویا دنیا ہے اور وہ دریا آخرت ہے۔ یہ نسبت دنیا کو آخرت سے ہے اور چونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت دائمی باقی ہے ، اس لیے اس سے بھی کم ہے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِي الْإِبْتِلاَئِ بِالدُّنْيَا وَ كَيْفَ يَعْمَلُ فِيْهَا
دنیا (کے مال) کے ذریعہ آزمائش کے متعلق اور (انسان) کیسے عمل کرے؟


(2083) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ إِنَّ ثَلاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ وَ أَقْرَعَ وَ أَعْمَى فَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا فَأَتَى الأَبْرَصَ فَقَالَ أَيُّ شَيْئٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ لَوْنٌ حَسَنٌ وَ جِلْدٌ حَسَنٌ وَ يَذْهَبُ عَنِّي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِيَ النَّاسُ قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ وَ أُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَ جِلْدًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ الإِبِلُ أَوْ قَالَ الْبَقَرُ شَكَّ إِسْحَقُ إِلاَّ أَنَّ الأَبْرَصَ أَوِ الأَقْرَعَ قَالَ أَحَدُهُمَا الإِبِلُ وَ قَالَ الآخَرُ الْبَقَرُ قَالَ فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَائَ فَقَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا قَالَ فَأَتَى الأَقْرَعَ فَقَالَ أَيُّ شَيْئٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ شَعَرٌ حَسَنٌ وَ يَذْهَبُ عَنِّي هَذَا الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ وَ أُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا ۔ قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ الْبَقَرُ فَأُعْطِيَ بَقَرَةً حَامِلاً فَقَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا ۔ قَالَ فَأَتَى الأَعْمَى فَقَالَ أَيُّ شَيْئٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ أَنْ يَرُدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرَ بِهِ النَّاسَ قَالَ فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ الْغَنَمُ فَأُعْطِيَ شَاةً وَالِدًا فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا قَالَ فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنَ الإِبِلِ وَ لِهَذَا وَادٍ مِنَ الْبَقَرِ وَ لِهَذَا وَادٍ مِنَ الْغَنَمِ قَالَ ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَ هَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ قَدِ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلاَ بَلاَغَ لِيَ الْيَوْمَ إِلاَّ بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ وَالْمَالَ بَعِيرًا أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي فَقَالَ الْحُقُوقُ كَثِيرَةٌ فَقَالَ لَهُ كَأَنِّي أَعْرِفُكَ أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللَّهُ ؟ فَقَالَ إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ قَالَ وَ أَتَى الأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا وَ رَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَى هَذَا ۔ فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ قَالَ وَ أَتَى الأَعْمَى فِي صُورَتِهِ وَ هَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَ ابْنُ سَبِيلٍ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي ۔ فَلاَ بَلاغَ لِيَ الْيَوْمَ إِلاَّ بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَخُذْ مَا شِئْتَ وَ دَعْ مَا شِئْتَ فَوَاللَّهِ لاَ أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ شَيْئًا أَخَذْتَهُ لِلَّهِ فَقَالَ أَمْسِكْ مَالَكَ فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رُضِيَ عَنْكَ وَ سُخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے، ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجااورتیسرا اندھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا ،پس وہ سفید داغ (برص) والے کے پاس آیا اوراس نے کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پیاری ہے؟ اس نے کہا کہ اچھا رنگ ،اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دور ہو جائے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا، پس اس کی بدصورتی دورہوگئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اونٹ یا گائے۔ (راوئ حدیث اسحاق بن عبداللہ کو شک ہے کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے لیکن سفید داغ (برص) والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے) ۔ پس اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت دے ۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اورکہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔پھر اس نے اس پر ہاتھ پھیراتو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کونسا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ گائے۔ پس اس کو گابھن گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے مال میں برکت دے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ تجھے کونسی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ میں روشنی کر دے تو میں اس سے لوگوں کو دیکھوں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کو اللہ نے روشنی دے دی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کونسا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہاکہ بھیڑ بکری تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر ان دونوں(اونٹنی اور گائے) اور اس (بکری)نے بچے دیے۔پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کی جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مدت کے بعد وہی فرشتہ سفیدداغ والے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا اورکہا کہ میں محتاج آدمی ہوں ،سفر میں میرے تمام اسباب کٹ گئے (یعنی تدبیریں جاتی رہیں او رمال اور اسباب نہ رہا)، پس آج میرے لیے اللہ کی مدد کے سوا اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں ہے، میں تجھ سے اس کے نام پر جس نے تجھے ستھرا رنگ اور ستھری کھال دی اور مال اونٹ دیے، ایک اونٹ مانگتا ہوں ،جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ مجھ پر لوگوں کے بہت حق ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے زیادہ مال نہیں جو تجھے دوں) ۔پھر فرشتہ نے کہا کہ البتہ میں تجھے پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا کہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے، پھر اللہ نے اپنے فضل سے تجھے یہ مال دیا؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے نقل ہو کر آیاہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو پہلے تھا۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی اپنی اسی صورت اور شکل میں آیا اور اس سے ویسا ہی کہا جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا اور اس نے بھی وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر فرشتہ اندھے کے پاس اس کی پہلی شکل و صورت میں گیا اورکہا کہ میں محتاج آدمی ہوں،مسافر ہوں اور میرے سفر میں میرے سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں، پس مجھے آج منزل پر اللہ کی مدد اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر پہنچنا مشکل ہے۔ پس میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر ایک بکری مانگتا ہوں جس نے تجھے آنکھ دی تاکہ وہ میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ بے شک میں اندھا تھا تو اللہ نے مجھے آنکھ دی، تو ان بکریوں میں سے جتنی چاہو لے جاؤ اور جتنی چاہو چھوڑ جاؤ ، اللہ کی قسم !آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا ، میں تجھے مشکل میں نہ ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا) پس فرشتے نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو،تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ پس تجھ سے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناخوش ہوا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ قِلَّةِ الدُّنْيَا، وَ الْصَّبْرِ عَنْهَا وَ أَكْلِ وَ رَقِ الشَّجَرِ
دنیا (کے مال) کی کمی ،اس پر صبر کرنے اور درختوں کے پتے کھانے کے متعلق


(2084) عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَ اللَّهِ إِنِّي لَأَوَّلُ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ لَقَدْ كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم مَا لَنَا طَعَامٌ نَأْكُلُهُ إِلاَّ وَرَقُ الْحُبْلَةِ وَ هَذَا السَّمُرُ حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ تُعَزِّرُنِي عَلَى الدِّينِ لَقَدْ خِبْتُ إِذًا وَ ضَلَّ عَمَلِي

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا مگر حبلہ کے پتوں کے اور ببول کے (یہ دونوں جنگلی درخت ہیں) ،یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی ایسا پاخانہ کرتا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے ۔پھر آج بنو اسد کے لوگ (یعنی سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی ا ولاد) مجھے دین کے لیے تنبیہ کرتے ہیں یا سزا دینا چاہتے ہیں ،ایسا ہو تو میں بالکل خسارے میں پڑا اور میری محنت ضائع ہو گئی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(2085) عَنْ خَالِدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْعَدَوِيِّ قَالَ خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَ أَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ آذَنَتْ بِصُرْمٍ وَ وَلَّتْ حَذَّائَ وَ لَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلاَّ صُبَابَةٌ كَصُبَابَةِ الإِنَائِ يَتَصَابُّهَا صَاحِبُهَا وَ إِنَّكُمْ مُنْتَقِلُونَ مِنْهَا إِلَى دَارٍ لاَ زَوَالَ لَهَا فَانْتَقِلُوا بِخَيْرِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ فَإِنَّهُ قَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ الْحَجَرَ يُلْقَى مِنْ شَفَةِ جَهَنَّمَ فَيَهْوِي فِيهَا سَبْعِينَ عَامًا لاَ يُدْرِكُ لَهَا قَعْرًا وَ وَاللَّهِ لَتُمْلأَنَّ أَفَعَجِبْتُمْ ؟ وَ لَقَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ مَا بَيْنَ مِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ مَسِيرَةُ أَرْبَعِينَ سَنَةً وَ لَيَأْتِيَنَّ عَلَيْهَا يَوْمٌ وَ هُوَ كَظِيظٌ مِنَ الزِّحَامِ وَ لَقَدْ رَأَيْتُنِي سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم مَا لَنَا طَعَامٌ إِلاَّ وَرَقُ الشَّجَرِ حَتَّى قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا فَالْتَقَطْتُ بُرْدَةً فَشَقَقْتُهَا بَيْنِي وَ بَيْنَ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ فَاتَّزَرْتُ بِنِصْفِهَا وَاتَّزَرَ سَعْدٌ بِنِصْفِهَا فَمَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ مِنَّا أَحَدٌ إِلاَّ أَصْبَحَ أَمِيرًا عَلَى مِصْرٍ مِنَ الأَمْصَارِ وَ إِنِّي أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ فِي نَفْسِي عَظِيمًا وَ عِنْدَ اللَّهِ صَغِيرًا وَ إِنَّهَا لَمْ تَكُنْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلاَّ تَنَاسَخَتْ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَاقِبَتِهَا مُلْكًا فَسَتَخْبُرُونَ وَ تُجَرِّبُونَ الأُمَرَائَ بَعْدَنَا

سیدنا خالد بن عمیر عدوی کہتے ہیں کہ (امیر بصرہ) عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد کہا کہ معلوم ہو کہ دنیا نے ختم ہونے کی خبر دی اور دنیا میں سے کچھ باقی نہ رہا مگر جیسے برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے جس کو اس کا صاحب پیتاہے اور تم دنیا سے ایسے گھر کو جانے والے ہو جس کو زوال نہیں ،پس اپنی زندگی میں نیک عمل کر کے جاؤ، اس لیے کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ پتھر جہنم کے اوپر کے کنارے سے ڈالا جائے گا اور ستر برس تک اس میں اترتا جائے گا اور اس کی تہہ کو نہ پہنچے گا۔ اللہ کی قسم! جہنم بھری جائے گی۔ کیا تم تعجب کرتے ہو؟ اور ہم سے بیان کیا گیا کہ جنت کے دروازے کی ایک طرف سے لے کر دوسری طرف کنارے تک چالیس برس کی راہ ہے اورایک دن ایسا آئے گا کہ دروازہ لوگوں کے ہجوم سے بھرا ہوا ہو گا اور میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ میں سات شخصوں میں سے ساتواں شخص تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا درخت کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا، یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں (بوجہ پتوں کی حرارت اور سختی کے) میں نے ایک چادر لی اور اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کیے ،ایک ٹکڑے کا میں نے تہبند بنایا اور دوسرے ٹکڑے کا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ نے۔ اب آج کے روز کوئی ہم میں سے ایسا نہیں ہے کہ کسی شہر کا حاکم نہ ہو اور میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھوں، لیکن اللہ کے نزدیک چھوٹا ہوں اور بے شک کسی پیغمبر کی نبوت (دنیا میں ) ہمیشہ نہیں رہی بلکہ نبوت کا اثر (تھوڑی مدت میں ) جاتا رہا ،یہاں تک کہ اس کا آخری انجام یہ ہوا کہ وہ سلطنت ہو گئی پس عنقریب تم ہمارے بعد آنے والے امراء کو دیکھو گے اور تجربہ کرو گے ان امیروں کا جو ہمارے بعد آئیں گے (کہ ان میں دین کی باتیں جو نبوت کا اثر ہے، نہ رہیں گی اور وہ بالکل دنیادار ہو جائیں گے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : يَرْجِعُ عَنِ الْمَيِّتِ أَهْلُهُ وَ مَالُهُ وَ يَبْقَى عَمَلُهُ
میت (کے پاس) سے اس کے اہل و عیال اور مال واپس آجاتے ہیں اور اس کا عمل اس
کے پاس رہ جاتا ہے


(2086) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلاَثَةٌ فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَ يَبْقَى وَاحِدٌ يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَ مَالُهُ وَ عَمَلُهُ فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَ مَالُهُ وَ يَبْقَى عَمَلُهُ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مردے کے ساتھ تین چیزیں (قبرستان میں ) جاتی ہیں پھر دو لوٹ آتی ہیں اور ایک رہ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کے گھر والے ، مال اور عمل جاتے ہیں،سو گھر والے اور مال تو لوٹ آتے ہیں اور عمل اس کے ساتھ رہ جاتا ہے۔‘‘ (پس عمل پوری رفاقت کرتا ہے اسی کے لیے انسان کو کوشش کرنی چاہیے۔مال و اولاد یہ سب جینے تک کے ساتھی ہیں مرنے کے بعد کچھ کام کے نہیں اور ان میں دل لگانا بے عقلی ہے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : انْظُرُوْا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ
اس کی طرف دیکھو جو تم سے (دنیاوی مال و اسباب میں ) کم ہو


(2087) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ لاَ تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لاَ تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ ( قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ عَلَيْكُمْ )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شخص کو دیکھو جو تم سے (مال و دولت میں اور حسن و جمال میں اور بال بچوں میں )کم ہے اور اس کو مت دیکھو جو (ان چیزوں میں ) تم سے زیادہ ہے۔ اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو اپنے اوپر حقیر نہ سمجھو گے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ
اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند کرتا ہے جو پرہیزگار، دولت مند اور ایک تنہائی میں عباد کرنے والا ہو


(2088) عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي إِبِلِهِ فَجَائَهُ ابْنُهُ عُمَرُ فَلَمَّا رَآهُ سَعْدٌ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا الرَّاكِبِ فَنَزَلَ فَقَالَ لَهُ أَنَزَلْتَ فِي إِبِلِكَ وَ غَنَمِكَ وَ تَرَكْتَ النَّاسَ يَتَنَازَعُونَ الْمُلْكَ بَيْنَهُمْ؟ فَضَرَبَ سَعْدٌ فِي صَدْرِهِ فَقَالَ اسْكُتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ

سیدنا عامر بن سعد کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں (کے باڑے) میں تھے کہ ان کا بیٹا عمر آیا (یہ عمر بن سعد وہی ہے جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے لڑا اور جس نے دنیا کیلئے اپنی آخرت برباد کی) جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اس کو دیکھا تو کہا کہ میں اس سوار کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر وہ اترا اور بولا کہ تم اپنے اونٹوں اور بکریوں میں ٹھہرے ہوئے ہو اور لوگوں کو چھوڑ دیا، وہ سلطنت کے لیے لڑ رہے ہیں؟ (یعنی خلافت اور حکومت کے لیے) سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اس کے سینہ پر مارا اور کہا کہ چپ رہ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’ اللہ اس بندے کو دوست رکھتا ہے جو پرہیز گار ہے، مالدار ہے اور ایک کونے میں چھپا بیٹھا ہے۔‘‘ (یعنی فساد اور فتنے کے وقت اور دنیا کے لیے اپنا ایمان نہیں بگاڑتا۔ افسوس ہے کہ عمر بن سعد نے اپنے باپ کی نصیحت کو فراموش کیا اور دنیا کی طمع میں آخرت گنوائی۔ نووی نے کہا کہ مالدار سے مراد یہ ہے کہ اس کا دل غنی ہو اور قاضی عیاض نے کہا کہ مالدار سے ظاہری معنی مراد ہیں)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَنْ أَشْرَكَ فِيْ عَمَلِهِ غَيْرَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ
جس نے اپنے عمل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو شریک کر لیا


(2089) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَائِ عَنِ الشِّرْكِ مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَ شِرْكَهُ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اور شریکوں کی نسبت شرک سے بہت زیادہ بے پروا ہوں۔جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو بھی ملایا اور ساجھی کیا تو میں اس کو اور اس کے ساجھی کے کام کو چھوڑ دیتا ہوں (یعنی جو عبادت اور عمل دکھاوے اور شہرت کے واسطے ہووہ اللہ کے نزدیک مقبول نہیں مردود ہے۔ اللہ اسی عبادت اور عمل کو قبول کرتا ہے جو اللہ ہی کے لیے خالص ہو، دوسرے کا اس میں کچھ حصہ نہ ہو)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ : مَنْ سَمَّعَ وَ رَائَى بِعَمَلِهِ
جو (اپنا نیک عمل لوگوں کو) سنوائے اور اپنے عمل میں ریاکاری کرے


(2090) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ وَ مَنْ رَائَى رَائَى اللَّهُ بِهِ

سیدناابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص لوگوں کو سنانے کے لیے نیک کام کرے گا، اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کی ذلت لوگوں کو سنائے گا اور جو شخص ریا کاری کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کو دکھلائے گا۔‘‘ (یعنی صرف ثواب دکھلائے گا مگر ملے گا کچھ نہیں تاکہ صرف حسرت ہی حسرت ہو یا اس کا حشر لوگوں کو دکھائے گا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلْمُتَكَلِّمُ بِالْكَلِمَةِ يَهْوِي بِهَا فِي النَّارِ
ایک کلمہ (کفر) کہہ دینا ،جہنم میں اتر جانے کا سبب بن جاتا ہے


(2091) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مَا يَتَبَيَّنُ مَا فِيهَا يَهْوِي بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندہ ایسی بات کہہ بیٹھتا ہے جس کی برائی کا اسے اندازہ نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے آگ میں اتنا اتر جاتا ہے جیسے مشرق سے مغرب تک۔‘‘ (جیسے کسی مسلمان کی شکایت یا مخبری حاکم وقت کے سامنے یا تہمت یا گالی یا کفر کا کلمہ یا رسول اللہ ! یا قرآن یا شریعت کے ساتھ مذاق، پس انسان کو چاہیے کہ زبان کو قابو میں رکھے اور بغیر ضرورت بات نہ کرے)۔
 
Top