• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ الصَّبْرِ عَلَى الْمُصِيْبَةِ عِنْدَ أَوَّلِ الصَّدْمَةِ

شروع صدمہ میں مصیبت پر صبر کرنے کا بیان



(459) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَتَى عَلَى امْرَأَةٍ تَبْكِي عَلَى صَبِيٍّ لَهَا فَقَالَ لَهَا اتَّقِي اللَّهَ وَ اصْبِرِي فَقَالَتْ وَ مَا تُبَالِي بِمُصِيبَتِي ؟ فَلَمَّا ذَهَبَ قِيلَ لَهَا إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخَذَهَا مِثْلُ الْمَوْتِ فَأَتَتْ بَابَهُ فَلَمْ تَجِدْ عَلَى بَابِهِ بَوَّابِينَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ أَعْرِفْكَ فَقَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ أَوْ قَالَ عِنْدَ أَوَّلِ الصَّدْمَةِ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے (فوت شدہ) بچے پر رو رہی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔‘‘ تو وہ عورت کہنے لگی کہ تمہیں میری مصیبت کا کیا اندازہ ہے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو عورت سے کہا گیا کہ بے شک وہ (کہنے والے) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ تو اسے موت کے برابر (صدمے) نے آ لیا۔ چنانچہ وہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر آئی تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر دربان نہ پائے۔ کہنے لگی اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بے شک صبر تو صدمے کی ابتداء کے وقت ہوتا ہے۔‘‘ (راوی کو شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عِنْدَ اوََّلِ صَدْمَۃٍ کا لفظ بولا یا عِنْدَ اوََّلِ الصَّدْمَۃٍ کے الفاظ استعمال کیے)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : ثَوَابُ مَنْ يَمُوْتُ لَهُ الْوَلَدُ فَيَحْتَسِبُهُ

اولاد کے مرنے پر ثواب کی نیت سے صبر کرنے پر اجر و ثواب



(460) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لِنِسْوَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ لاَ يَمُوتُ لِإِحْدَاكُنَّ ثَلاَثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ فَتَحْتَسِبَهُ إِلاَّ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ أَوِ اثْنَيْنِ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَوِ اثْنَيْنِ وَ بِإِسْنَادٍ آخَرَ عَنْهُ مَرْفُوْعًا : لاَ يَمُوتُ لِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ثَلاَثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ فَتَمَسَّهُ النَّارُ إِلاَّ تَحِلَّةَ الْقَسَمِ



سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا:’’ تم میں سے جس کے تین لڑکے مر جائیں اور وہ (عورت) اللہ کی رضامندی کے لییصبر کرے، تو جنت میں جائے گی۔‘‘ ایک عورت بولی کہ یارسول اللہ! اگر دو بچے مریں تو؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ دو ہی سہی۔‘‘ ایک دوسری سند سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس مسلمان کے تین بچے مر جائیں اس کو جہنم کی آگ نہ لگے گی مگر قسم اتارنے کے لیے۔‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو دوزخ پر سے نہ گزرے‘‘ اس وجہ سے اس کا گزر بھی دوزخ پر سے ہو گا لیکن اور کسی طرح کا عذاب نہ ہو گا لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان کی وفات پر صبر کرے)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَا يُقَالُ عِنْدَ الْمُصِيْبَةِ

مصیبت کے وقت کیا کہا جائے؟



(461) عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ فَيَقُولُ ("إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ" اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَ أَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا ) إِلاَّ آجَرَهُ اللَّهُ فِي مُصِيبَتِهِ وَ أَخْلَفَ لَهُ خَيْرًا مِنْهَا قَالَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ
كَمَا أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْلَفَ اللَّهُ لِي خَيْرًا مِنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم


ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب کسی بندے کو تکلیف پہنچے اور وہ یہ دعا پڑھے ’’یقینا ہم بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور یقینا ہم (بھی) اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ مجھے میری اس مصیبت میں اجر دے اور اس کے بعد مجھے (ضائع شدہ چیز سے) بہتر چیز عطا فرما۔‘‘ (اس دعا کے پڑھتے رہنے سے) اللہ تعالیٰ اس کو اس مصیبت کا ثواب دیتا ہے اور (ضائع شدہ چیز سے) بہتر چیز بھی عطا فرماتا ہے۔‘‘ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ جب (میرے پہلا خاوند سیدنا) ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہو گیا تو میں نے (مذکورہ دعا) پڑھی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا، تو (اس دعا کی برکت سے) اللہ تعالیٰ نے مجھے (پہلے خاوند) سے اچھے خاوند (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) عطا فرما دیے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : الْبُكَائُ عَلَى الْمَيِّتِ

میت پر رونے کے بیان میں



(462) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ اشْتَكَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ شَكْوَى لَهُ فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَعُودُهُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ وَجَدَهُ فِي غَشِيَّةٍ فَقَالَ أَقَدْ قَضَى ؟ قَالُوا لاَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا رَأَى الْقَوْمُ بُكَائَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَكَوْا فَقَالَ أَلآ تَسْمَعُونَ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ وَ لاَ بِحُزْنِ الْقَلْبِ وَ لَكِنْ يُعَذِّبُ بِهَذَا وَ أَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ أَوْ يَرْحَمُ

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کو آئے اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف ، سعد اور عبداللہ رضی اللہ علیھم اجمعین ان کے ساتھ تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو انہیں بے ہوش پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا انتقال ہو گیا ہے؟ لوگوں نے عرض کی کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے۔ لوگوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے دیکھا تو سب رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ سنتے ہو! اللہ تعالیٰ آنکھوں کے آنسوؤں پر اور دل کے غم پر عذاب نہیں کرتا ، وہ تو اس (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کیا) کی بنا پر عذاب کرتا ہے یا رحمت کرتا ہے۔‘‘ (یعنی جب کلمۂ خیر منہ سے نکالے تو رحم کرتا ہے او رجب کلمہ شر نکالے تو عذاب کرتا ہے)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلتَّشْدِيْدُ فِي النِّيَاحَةِ

نوحہ کرنے پر سخت وعید



(463) عَنْ أَبِيْ مَالِكِ نِالأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لاَ يَتْرُكُونَهُنَّ الْفَخْرُ فِي الأَحْسَابِ وَالطَّعْنُ فِي الأَنْسَابِ وَالْاسْتِسْقَائُ بِالنُّجُومِ وَالنِّيَاحَةُ وَ قَالَ النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ عَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَ دِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ

سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں جاہلیت (یعنی زمانۂ کفر) کی چار چیزیں ہیں کہ لوگ ان کو نہ چھوڑیں گے۔ ایک اپنے حسب پر فخر کرنا ، دوسرا ایک دوسرے کے نسب پر طعن کرنا، تیسرے تاروں سے بارش کی امید رکھنا اور چوتھے یہ کہ بین کر کے رونا اور بین کرنے والی اگر اپنے مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس پرگندھک اور خارش (لگانے) والی قمیض ہوگی۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُوْدَ وَ شَقَّ الْجُيُوْبَ

جو شخص (صدمے کی وجہ سے) منہ پر تھپیڑے مارے اور گریبان چاک کرے وہ ہم میں سے نہیں




(464) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ أَوْ شَقَّ الْجُيُوبَ أَوْ دَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ
وَ فِيْ لَفْظٍ : وَ شَقَّ وَ دَعَا بِغَيْرِ أَلِفٍ


سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو رخساروں کو پیٹے اور گریبانوں کو پھاڑے یا جاہلیت (کفر) کے زمانے کی باتیں کرے۔‘‘ ایک اور روایت میں (أَوْ)جگہ (وَ) کا لفظ ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَائِ الْحَيِّ

زندہ کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے



(465) عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَضِىَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ وَ ذُكِرَ لَهَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَائِ الْحَيِّ فَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ وَ لَكِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا فَقَالَ إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَ إِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا

سیدہ عمرہ بنت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوںنے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے سنا اور ان کے سامنے اس بات کا ذکر ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ مردے پر زندہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے تو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ اللہ ابوعبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو بخشے، انہوںنے جھوٹ نہیں کہامگر بھول ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت پر گزرے کہ لوگ اس پر رو رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ تو اس پر روتے ہیں حالانکہ اس کو قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ ‘‘

وضاحت: کسی مردے پر رونے والے کی وجہ سے اسے اس وقت عذاب ہو گا جب وہ اپنے گھروالوں کو منع کرنے والا نہ ہو۔ اگر وہ منع کیا کرتا تھا اور اس کے باوجود اس کے مرنے پر وہ اس پر بین کرتے ہیں اس میں اسے عذاب نہیں ہوگا( واﷲ اعلم) (محمود الحسن اسد)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَا جَائَ فِيْ مُسْتَرِيْحٍ وَ مُسْتَرَاحٍ مِنْهُ

آرام پانے والے اور جس سے لوگوں کو آرام ملے، اس بارے میں جو کچھ وارد ہوا ہے اس کا بیان



(466) عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مُرَّ عَلَيْهِ بِجَنَازَةٍ فَقَالَ مُسْتَرِيحٌ وَ مُسْتَرَاحٌ مِنْهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْمُسْتَرِيحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ ؟ فَقَالَ : الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ وَالْبِلاَدُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ

سیدناابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ نے فرمایا: ’’خود آرام پانے والا ہے اور اس کے جانے سے اور لوگوں نے آرام پایا۔ لوگوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! یہ خود آرام پانے والا ہے اور لوگوں کو اس سے آرام ہو گا، کا مطلب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مومن دنیا کی تکلیفوں سے آرام پاتا ہے (یعنی موت کے وقت) اور بد آدمی کے جانے سے لوگ، شہر، درخت اور جانور آرام پاتے ہیں ۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ غَسْلِ الْمَيِّتِ

میت کو غسل دینے کا بیان



(467) عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا مَاتَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلاَثًا أَوْ خَمْسًا وَاجْعَلْنَ فِي الْخَامِسَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا غَسَلْتُنَّهَا فَأَعْلِمْنَنِي قَالَتْ فَأَعْلَمْنَاهُ فَأَعْطَانَا حِقْوَهُ وَ قَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنھا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا:’’ اس کو طاق مرتبہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دو۔ اور پانچویں بار کافور یا (فرمایا:’’) تھوڑا سا کافور ڈال دو۔ پس جب تم اسے غسل دے چکو تو مجھے خبر کرنا۔ کہتی ہیں کہ پس ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر دی اور کہا کہ اسے کفن کا سب سے نیچے والا کپڑا بنادو۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ كَفَنِ الْمَيِّتِ

میت کے کفن کا بیان



(468) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُفِّنَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي ثَلاَثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ سَحُولِيَّةٍ مِنْ كُرْسُفٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَ لاَ عِمَامَةٌ أَمَّا الْحُلَّةُ فَإِنَّمَا شُبِّهَ عَلَى النَّاسِ فِيهَا أَنَّهَا اشْتُرِيَتْ لَهُ لِيُكَفَّنَ فِيهَا فَتُرِكَتِ الْحُلَّةُ وَ كُفِّنَ فِي ثَلاَثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ سَحُولِيَّةٍ فَأَخَذَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لِأَحْبِسَنَّهَا حَتَّى أُكَفِّنَ فِيهَا نَفْسِي ثُمَّ قَالَ لَوْ رَضِيَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ لَكَفَّنَهُ فِيهَا فَبَاعَهَا وَ تَصَدَّقَ بِثَمَنِهَا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحول کی بنی ہوئی تین سفید روئی کی بنی ہوئی چادروں میں کفن دیا گیا۔ ان میں نہ کرتا تھا، نہ عمامہ اور حلہ کا لوگوں کو شبہ ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خریدا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں کفن دیا جائے، پھر نہ دیا گیا اور تین چادروں میں دیا گیا جو سفید سحول کی بنی ہوئی تھیں اور حلہ کو عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما نے لیا اور کہا کہ میں اسے رکھ چھوڑوںگااور میں اپنا کفن اسی سے کروں گا۔ پھر کہا کہ اگر اللہ کو یہ پسند ہوتا تو اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کام آتا سو اس کو بیچ ڈالا اور اس کی قیمت خیرات کر دی۔
 
Top