• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :مَنْ تَحِلُّ لَهُ الْمَسْأَلَةُ

کس کے لیے سوال کرنا حلال ہے



(568) عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلاَلِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَسْأَلُهُ فِيهَا فَقَالَ أَقِمْ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا قَالَ ثُمَّ قَالَ يَا قَبِيصَةُ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لاَ تَحِلُّ إِلاَّ لِأَحَدِ ثَلاَثَةٍ رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ وَ رَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَا حَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ وَ رَجُلٍ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُومَ ثَلاَثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ لَقَدْ أَصَابَتْ فُلاَنًا فَاقَةٌ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ فَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتًا يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا

سیدنا قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک بڑی رقم کا قرضدار ہو گیا (یعنی دو قبیلوں کی اصلاح وغیرہ کے لیے یا کسی اور امر خیر کے واسطے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم ٹھہرو کہ ہمارے پاس صدقات کا مال آئے گا تو ہم اس میں سے تمہیں کچھ دینے کا حکم دیں گے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے قبیصہ! سوال حلال نہیں مگر تین شخصوں کو۔ ایک تو وہ جو قرضدار ہو جائے (کسی امر خیر میں) تو اس کو سوال حلال ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو اتنا مال مل جائے کہ اس کی گزران درست ہو جائے، پھر سوال سے باز رہے۔ دوسرے وہ شخص کہ اس کے مال میں آفت پہنچی ہو کہ اس کا مال ضائع ہو گیا ہو تو اس کو سوال حلال ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کو اتنی رقم مل جائے کہ اس کی گزران درست ہو جائے۔ (یا لفظ ’’سِدَادًا ‘‘ فرمایا) تیسرا وہ شخص کہ اس کو فاقہ پہنچا ہو اور اس کی قوم کے تین عقلمند شخص گواہی دیں کہ بیشک اس کو فاقہ پہنچا ہے تو اس کو بھی سوال جائز ہے جب تک کہ اپنی گزران درست ہونے کے موافق نہ پائے اورسوائے ان لوگوں کے اے قبیصہ! سوال حرام ہے (اور ان کے سوا جو سوال کرنے والا ہے) وہ حرام کھاتا ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :إِعْطَاء مَنْ يَسْأَلُ بِغِلْظَةٍ

جو شخص سختی سے مانگے، اسے دینے کا بیان



(569) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ عَلَيْهِ رِدَائٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الْحَاشِيَةِ فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَبَذَهُ بِرِدَائِهِ جَبْذَةً شَدِيدَةً نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عُنُقِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَدْ أَثَّرَتْ بِهَا حَاشِيَةُ الرِّدَائِ مِنْ شِدَّةِ جَبْذَتِهِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَضَحِكَ ثُمَّ أَمَرَلَهُ بِعَطَاء

سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا جا رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نجران (نامی شہر) کی چادر اوڑھی ہوئی تھی جس کا کنارہ موٹا تھا۔ اچانک ایک بدوی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر سمیت اس زور سے کھینچا یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن کے موہرے پر چادر (کے کھینچنے) کا نشان دیکھا۔ پھر کہا کہ اے محمد! میرے لیے اس مال میں سے کچھ دینے کا حکم کرو جو اللہ کا دیا آپ کے پاس ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور ہنسے اور اس کو کچھ دینے کا حکم کیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(570) عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَقْبِيَةً وَ لَمْ يُعْطِ مَخْرَمَةَ شَيْئًا فَقَالَ مَخْرَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا بُنَيَّ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ قَالَ ادْخُلْ فَادْعُهُ لِي قَالَ فَدَعَوْتُهُ لَهُ فَخَرَجَ إِلَيْهِ وَ عَلَيْهِ قَبَائٌ مِنْهَا فَقَالَ خَبَأْتُ هَذَا لَكَ قَالَ فَنَظَرَ إِلَيْهِ فَقَالَ رَضِيَ مَخْرَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادریں تقسیم کیں اور سیدنا مخرمہ رضی اللہ عنہ کو کوئی نہ دی۔ تب سیدنا مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے میرے بیٹے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک میرے ساتھ چلو۔ پس میں ان کے ساتھ گیا اور انہوں نے کہا کہ تم گھر میں جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلاؤ۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور ان (چادروں) میں سے ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے اور فرمایا:’’ یہ میں نے تمہارے واسطے رکھ چھوڑی تھی۔‘‘ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخرمہ کو دیکھا اور فرمایا :’’’مخرمہ خوش ہو گئے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ الصِّیَامِ

روزہ کے مسائل



بَابٌ :فَضْلُ الصِّيَامِ

روزے کی فضیلت



(571) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلاَّ الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَ أَنَا أَجْزِي بِهِ وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ فَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلاَ يَرْفُثْ يَوْمَئِذٍ وَ لاَ يَسْخَبْ فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ وَ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ بِفِطْرِهِ وَ إِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’بنی آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلا دوں گا اور روزہ (گناہوں سے) سپر (ڈھال) ہے۔ پھر جب کسی کا روزہ ہو تو اس دن گالیاں نہ بکے اور آواز بلند نہ کرے پھر اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑنے کو آئے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور قسم ہے اس ذات کی !جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ بے شک روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے اور روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک تو وہ اپنے افطار سے خوش ہوتا ہے اور دوسرا وہ اس وقت خوش ہو گا جب وہ اپنے روزے کے سبب اپنے پروردگار سے ملے گا۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :فِيْ فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ

ماہ رمضان کی فضیلت



(572) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِذَا جَائَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَ غُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ وَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں کس (کر باندھ) دیے جاتے ہیں۔ ‘‘

بَابٌ :لاَ تَقَدَّمُوْا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَ لاَ يَوْمَيْنِ

ماہ رمضان سے پہلے ایک دو روزے (پیشگی کے) نہ رکھو


(573) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ تَقَدَّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَ لاَ يَوْمَيْنِ إِلاَّ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ رمضان سے پیشگی ایک یا دو روزے مت رکھو سوائے اس شخص کے جو ہمیشہ ایک (مقررہ) دن میں روزہ رکھا کرتا تھا اور وہی دن آ گیا تو وہ اپنے مقررہ دن میں روزہ رکھ لے۔‘‘ (مثلاً جمعرات اور پیرکو روزہ رکھتا تھا اور انتیس اورتیس تاریخ میں شعبان کے وہی دن آگئے تو وہ روزہ رکھ لے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :الصَّوْمُ لِرُؤْيَةِ الْهِلاَلِ

روزہ چاند دیکھنے پر ہے



(574) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْهِلاَلَ فَقَالَ إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا وَ إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلاَثِينَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’ جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو۔ اور جب تم اس کو دیکھو تب ہی افطار کرو۔ (یعنی روزے ختم کرو) پھر اگر بادل آجائیں تو تیس روزے پورے رکھ لو (اس کے بعد عید کرو)۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :الشَّهْرُ تِسْعٌ وَّ عِشْرُوْنَ

مہینہ انتیس (۲۹) کا بھی ہوتا ہے



(575) عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم حَلَفَ أَنْ لاَ يَدْخُلَ عَلَى بَعْضِ أَهْلِهِ شَهْرًا فَلَمَّا مَضَى تِسْعَةٌ وَ عِشْرُونَ يَوْمًا غَدَا عَلَيْهِمْ أَوْ رَاحَ فَقِيلَ لَهُ حَلَفْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ لاَ تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا قَالَ إِنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعَةً وَ عِشْرِينَ يَوْمًا
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی کہ وہ اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہ جائیں گے(لیکن )جب انتیس (29) دن گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح یا شام کے وقت اپنی بیویوں کے پاس گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاگیا کہ اے اللہ کے نبی! آپ نے تو قسم اٹھائی تھی کہ آپ ہم پر ایک مہینہ تک داخل نہ ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مہینہ انتیس دنوں کا بھی ہوتا ہے۔ ‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(576) عَنِ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ لاَ نَكْتُبُ وَ لاَ نَحْسُبُ ، الشَّهْرُ هَكَذَا وَ هَكَذَا وَ هَكَذَا وَ عَقَدَ الإِبْهَامَ فِي الثَّالِثَةِ وَالشَّهْرُ هَكَذَا وَ هَكَذَا وَ هَكَذَا يَعْنِي تَمَامَ ثَلاَثِينَ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہم لوگ امی (ان پڑھ) ہیں، نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینا تو ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے اور تیسری بار انگوٹھا بند کر لیا اور مہینا ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے۔ یعنی تیس دن پورے ہوتے ہیں۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :إِنَّ اللَّهَ مَدَّهُ (أَيْ: مَدَّ الْهِلاَلَ لِرُؤْيَتِهِ)

بیشک اللہ نے اسے لمبا کر دیا ہے (یعنی چاند کو دیکھنے کے لیے لمبا کر دیا ہے)



(577) عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا لِلْعُمْرَةِ فَلَمَّا نَزَلْنَا بِبَطْنِ نَخْلَةَ قَالَ تَرَائَيْنَا الْهِلاَلَ فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ هُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَ قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ هُوَ ابْنُ لَيْلَتَيْنِ قَالَ فَلَقِينَا ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقُلْنَا إِنَّا رَأَيْنَا الْهِلاَلَ فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ هُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَ قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ هُوَ ابْنُ لَيْلَتَيْنِ فَقَالَ أَيَّ لَيْلَةٍ رَأَيْتُمُوهُ قَالَ فَقُلْنَا لَيْلَةَ كَذَا وَ كَذَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِنَّ اللَّهَ مَدَّهُ لِلرُّؤْيَةِ فَهُوَ لِلَيْلَةٍ رَأَيْتُمُوهُ

سیدنا ابوالبختری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمرہ کو نکلے اور جب (مقام) نخلہ کے درمیان میں پہنچے تو سب نے چاند دیکھنا شروع کر دیا اور بعضوں نے دیکھ کر کہا کہ یہ تین رات کا چاند ہے (یعنی بڑا ہونے کی وجہ سے) اور بعضوں نے کہا کہ دو رات کا ہے۔ پھر ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما ملے اور ان سے ذکر کیا کہ ہم نے چاند کو دیکھا اور کسی نے کہا کہ تین رات کا ہے اور کسی نے کہا دو رات کا ہے۔ تب ابن عباس رضی اللہ عنھما نے پوچھا کہ تم نے کونسی رات میں دیکھا؟ تو ہم نے کہا کہ فلاں فلاں رات میں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :’’اللہ تعالیٰ نے اس کو دیکھنے کے لیے بڑھا دیا، وہ اسی رات کا تھا جس رات تم نے دیکھا۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ

ہر شہر (ملک) کے لیے ان لوگوں کی رؤیت ہے


(578) عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالشَّامِ قَالَ فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَ أَنَا بِالشَّامِ فَرَأَيْتُ الْهِلاَلَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلاَلَ فَقَالَ مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلاَلَ ؟ فَقُلْتُ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ أَنْتَ رَأَيْتَهُ ؟ فَقُلْتُ نَعَمْ وَ رَآهُ النَّاسُ وَ صَامُوا وَ صَامَ مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلاَ نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلاَثِينَ أَوْ نَرَاهُ فَقُلْتُ أَوَ لاَ تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ صِيَامِهِ ؟ فَقَالَ لاَ هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ شَكَّ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى فِي نَكْتَفِي أَوْ تَكْتَفِي

کریب کہتے ہیں کہ سیدہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنھا نے انہیں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس (ملک) شام بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ میں شام گیا اور ان کا کام کر دیا اور میں نے جمعہ (یعنی پنجشنبہ کی شام) کی شب کو رمضان کا چاند دیکھا۔ پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آیا اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے مجھ سے پوچھا اور چاند کا ذکر کیا کہ تم نے کب دیکھا؟ میں نے کہا کہ جمعہ کی شب کو۔ انہوں نے کہا کہ تم نے خود دیکھا؟ میں نے کہا ہاں اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اور لوگوں نے بھی، تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا کہ ہم نے تو ہفتہ کی شب کو دیکھا اور ہم پورے تیس روزے رکھیں گے یا چاند دیکھ لیں گے۔ تو میں نے کہا کہ آپ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا (چاند) دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں جانتے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حکم کیا ہے۔ اور یحییٰ بن یحییٰ کو شک ہے کہ حدیث میں ’’نکتفی‘‘ کا لفظ ہے یا ’’تکتفی‘‘ کا۔
 
Top