• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : كَرَاهِيَةُ الْمَسْأَلَةِ لِلنَّاسِ

لوگوں سے سوال کرنا مکروہ ہے



(558) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ تَزَالُ الْمَسْأَلَةُ بِأَحَدِكُمْ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے ہمیشہ ایک آدمی مانگتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ سے ملے گا اور اس کے منہ پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہو گا۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(559) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ لَأَنْ يَغْدُوَ أَحَدُكُمْ فَيَحْطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَتَصَدَّقَ بِهِ وَ يَسْتَغْنِيَ بِهِ مِنَ النَّاسِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ رَجُلاً أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهُ ذَلِكَ فَإِنَّ الْيَدَ الْعُلْيَا أَفْضَلُ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى وَ ابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’ اگر کوئی صبح کو جا کر لکڑی کا ایک گٹھا اپنی پیٹھ پر لادے اور اس سے صدقہ دے اور اپنا کام بھی نکالے کہ لوگوں کا محتاج نہ ہو، یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے مانگتا پھرے کہ وہ دیں یا نہ دیں اور بلاشبہ اوپر کا (دینے والا) ہاتھ نیچے (لینے) والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے صدقہ ا س کو دے جس کا خرچ تیرے ذمہ ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِّنَ الْيَدِ السُّفْلَى

اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نچلے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے



(560) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ وَ هُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَ هُوَ يَذْكُرُ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ عَنِ الْمَسْأَلَةِ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى وَالْيَدُ الْعُلْيَا الْمُنْفِقَةُ وَالسُّفْلَى السَّائِلَةُ

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت) منبر پر صدقہ کا اور کسی سے سوال نہ کرنے کا ذکر کر رہے تھے:’’ اوپر کا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے کا ہاتھ مانگنے والا ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(561) عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَ مَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ وَ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَ لاَ يَشْبَعُ وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى

سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا، پھر فرمایا:’’ یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے۔ پس جس نے اس کو بغیر مانگے لیا یا دینے والے کی خوشی سے لیا (نہ کہ خود زبردستی تقاضا کر کے لیا) تو اس میں برکت ہوتی ہے اور جس نے اپنے نفس کو ذلیل کر کے (یعنی سوال کر کے یا چمٹ کر) لیا تو اس میں برکت نہیں ہوتی اور اس کا مال ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کھاتا تو ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے عمدہ ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : الْمِسْكِيْنُ الَّذِيْ لاَ يَجِدُ غِنًى وَ لاَ يَسْأَلُ النَّاسَ

(اصل) مسکین وہ ہے جو ضرورت کے مطابق نہیں پاتا اور لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتا



(562) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَيْسَ الْمِسْكِينُ بِهَذَا الطَّوَّافِ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ فَتَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ قَالُوا فَمَا الْمِسْكِينُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ الَّذِي لاَ يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ وَ لاَ يُفْطَنُ لَهُ فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ وَ لاَ يَسْأَلُ النَّاسَ شَيْئًا

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مسکین وہ نہیں ہے جو گھومتا رہتا ہے اور ایک دو لقمہ یا ایک دو کھجور لے کر لوٹ جاتا ہے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ علیھم اجمعین نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! پھر مسکین کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس کو اتنا خرچ نہیں ملتا جو اس کی ضرورت بشری کی کفایت کرتا ہو اور نہ لوگ اسے مسکین جانتے ہیں کہ اس کو صدقہ دیں اور نہ وہ لوگوں سے کچھ مانگتا ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ

امیر وہ نہیں جس کے پاس سامان زیادہ ہو



(563) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَ لَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ امیری سامان بہت ہونے سے نہیں ہے بلکہ امیری دل کی بے نیازی ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :كَرَاهِيَةُ الْحِرْصِ عَلَى الدُّنْيَا

دنیا کی حرص مکروہ ہے



(564) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَ تَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ابن آدم (انسان) تو بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس میں دو چیزیں جوان ہوتی رہتی ہیں۔ ایک (مال کی) حرص اور دوسری (لمبی) عمر کی حرص۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى وَادِياً ثَالِثًا

اگر ابن آدم کو دو میدان مال کے مل جائیں تو تیسرے کی ضرور خواہش کرے گا



(565) عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ قَالَ بَعَثَ أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى قُرَّائِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ ثَلاَثُ مِائَةِ رَجُلٍ قَدْ قَرَئُوا الْقُرْآنَ فَقَالَ أَنْتُمْ خِيَارُ أَهْلِ الْبَصْرَةِ وَقُرَّاؤُهُمْ فَاتْلُوهُ وَ لاَ يَطُولَنَّ عَلَيْكُمُ الأَمَدُ فَتَقْسُوَ قُلُوبُكُمْ كَمَا قَسَتْ قُلُوبُ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ وَ إِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ سُورَةً كُنَّا نُشَبِّهُهَا فِي الطُّولِ وَالشِّدَّةِ بِــ "بَرَائَ ةَ" فَأُنْسِيتُهَا غَيْرَ أَنِّي قَدْ حَفِظْتُ مِنْهَا لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لِابْتَغَى وَادِيًا ثَالِثًا وَ لاَ يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلاَّ التُّرَابُ وَ كُنَّا نَقْرَأُ سُورَةً كُنَّا نُشَبِّهُهَا بِإِحْدَى الْمُسَبِّحَاتِ فَأُنْسِيتُهَا غَيْرَ أَنِّي حَفِظْتُ مِنْهَا { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لاَ تَفْعَلُونَ } فَتُكْتَبُ شَهَادَةً فِي أَعْنَاقِكُمْ فَتُسْأَلُونَ عَنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ
سیدنا ابوالاسودنے کہا کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے قاریوں کو بلوایا تو تین سو قاری ان کے پاس آئے جو قرآن پڑھ چکے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تم بصرہ کے سب لوگوں سے بہتر ہو اور وہاں کے قاری ہو، پس قرآن پڑھتے رہو اور بہت مدت گزر جانے سے سست نہ ہو جاؤ کہ تمہارے دل سخت ہو جائیں جیسے تم سے پہلوں کے دل سخت ہو گئے اور ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جو طول میں اور سخت وعیدوں میں’’سورۂ براء ت‘‘ کے برابر تھی۔ پھر میں اسے بھلا دیا گیا مگر اتنی بات یاد رہی کہ اگر آدمی کے لیے مال کے دو میدان ہوتے ہیں تب بھی تیسرا ڈھونڈتا رہتا ہے اور آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا مگر مٹی سے… اور ہم ایک سورت اور پڑھتے تھے اور اس کو مسبحات میں سے ایک سورت کے برابر جانتے تھے، میں وہ بھی بھول گیا مگر اس میں سے یہ آیت یاد ہے کہ ’’اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔‘‘ (جو ایسی بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے تو) وہ تمہاری گردنوں میں لکھ دی جاتی ہے گواہی کے طور پر کہ اسکا تم سے قیامت کے دن سوال ہو گا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :مَا يَخْرُجُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا

دنیا کی زینت سے نکلنے کا بیان


(566) عَنْ أَبِى سَعِيدِ نِالْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ لاَ وَاللَّهِ مَا أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ إِلاَّ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ ؟ فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَاعَةً ثُمَّ قَالَ كَيْفَ قُلْتَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ الْخَيْرَ لاَ يَأْتِي إِلاَّ بِخَيْرٍ ثم قال أَوَ خَيْرٌ هُوَ ؟ إِنَّ كُلَّ مَا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ حَبَطًا أَوْ يُلِمُّ إِلاَّ آكِلَةَ الْخَضِرِ أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَلأَتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ ثَلَطَتْ أَوْ بَالَتْ ثُمَّ اجْتَرَّتْ فَعَادَتْ فَأَكَلَتْ فَمَنْ يَأْخُذْ مَالاً بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ وَ مَنْ يَأْخُذْ مَالاً بِغَيْرِ حَقِّهِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الَّذِي يَأْكُلُ وَ لاَ يَشْبَعُ

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لوگوں میں وعظ کیا اور فرمایا:’’ اے لوگو! اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے کسی اور چیز سے نہیں ڈرتا ہوں مگر اس سے جو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے دینا کی زینت نکالتا ہے۔‘‘ تو ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! کیا خیر کا نتیجہ شر بھی ہوتا ہے؟ (یعنی دنیا کی دولت اور حکومت کا ہو نا اور اسلام کی ترقی ہونا تو خیر ہے، اس کا نتیجہ برا کیونکر ہو گا؟) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چپ ہو رہے۔ پھر فرمایا: ’’تم نے کیا کہا؟‘‘ (پھر اس کے سوال کو پوچھ لیا کہ کہیں بھول نہ گیا ہو تو مطابقت جواب کی سوال کے ساتھ اس کی سمجھ میں نہ آئے) اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! کیا خیر کا نتیجہ شر بھی ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں خیر کا نتیجہ تو خیر ہی ہوتا ہے۔ کیا یہ خیر ہے؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ تھا کہ یہ تو امتحان اور آزمائش ہے اور امتحان اور آزمائش میں خیر کہاں ہوتی ہے۔ پھر مثال دے کر سمجھایا کہ) موسم بہار میں جو سبزہ اگتا ہے، وہ سبزہ جانور کو ہلاک کر دیتا ہے سوا ئے ان جانوروں کے جو صرف سبزہ (ضرورت کے مطابق) کھاتے ہیں۔ وہ اس قدر کھا لیتے ہیں یہاں تک کہ ان کی کوکھیں پھول جاتی ہیں۔ پھر دھوپ میں آ کر لید یا پیشاب کرتے ہیں، جگالی کرتے ہیں اور پھر جا کر چرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پس جو شخص تو مال حق کے ساتھ لیتا ہے، تو اس میں اس کے لیے برکت ڈال دی جاتی ہے اور جو شخص ناحق لے گا، اس کی مثال اس جانور کی مثال ہے جو کھاتا ہے اور سیرنہیں ہوتا (اور اپنی ہلاکت کا ساماں پیدا کر لیتا ہے)‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :إِبَاحَةُ الأَخْذِ لِمَنْ أُعْطِيَ مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ وَ لاَ إِشْرَافٍ

جس آدمی کو بغیر سوال اور لالچ کے مال ملے، تو لے لینے کا جواز



(567) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يُعْطِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَطَائَ فَيَقُولُ لَهُ عُمَرُ أَعْطِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ وَ مَا جَائَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَ أَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَ لاَ سَائِلٍ فَخُذْهُ وَ مَا لاَ فَلاَ تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ ۔ قَالَ سَالِمٌ فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لاَ يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا وَ لاَ يَرُدُّ شَيْئًا أُعْطِيَهُ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کچھ مال دیا کرتے تھے تو جناب عمر رضی اللہ عنہ عرض کرتے تھے کہ یا رسول اللہ!مجھ سے زیادہ احتیاج رکھنے والے کو عنایت کیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ مال لے لو اور خواہ اپنے پاس رکھو، خواہ صدقہ دے دو اور جو اس قسم کے مال سے تمہارے پاس آئے اور تم نے اس کی خواہش نہیں کی اور نہ سوال کیا ہو تو اس کو لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ ہو، اس کے پیچھے اپنے نفس کو مت لگاؤ۔‘‘ سالم نے کہا کہ اسی وجہ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کسی سے کچھ نہ مانگتے تھے اور اگر کوئی دیتا تھا تو رد نہ کرتے تھے۔
 
Top