• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(856) عَنْ مَسْرُوقٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَا أُبَالِي خَيَّرْتُ امْرَأَتِي وَاحِدَةً أَوْ مِائَةً أَوْ أَلْفًا بَعْدَ أَنْ تَخْتَارَنِي وَ لَقَدْ سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَتْ قَدْ خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَ فَكَانَ طَلاَقًا ؟

مسروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے کچھ خوف نہیں اگر میں اختیار دوں اپنی بیوی کو ایک بار یا سو بار یا ہزار بار جب وہ مجھے پسند کرچکی ہے اور میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تھا تو کیا یہ طلاق ہو گئی؟ (یعنی نہیں ہوئی)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ قَوْلِهِ تَعَالَى: { وَ إِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ}
اللہ تعالیٰ کے فرمان {وَ إِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ }کے متعلق


(857) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَكَثْتُ سَنَةً وَ أَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعَ فَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ تِلْكَ حَفْصَةُ وَ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ قَالَ فَلاَ تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَسَلْنِي عَنْهُ فَإِنْ كُنْتُ أَعْلَمُهُ أَخْبَرْتُكَ قَالَ وَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاللَّهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَائِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ وَ قَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَأْتَمِرُهُ إِذْ قَالَتْ لِي امْرَأَتِي لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَ كَذَا فَقُلْتُ لَهَا وَ مَا لَكِ أَنْتِ وَ لِمَا هَاهُنَا وَ مَا تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ ؟ فَقَالَتْ لِي عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ وَ إِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَآخُذُ رِدَائِي ثُمَّ أَخْرُجُ مَكَانِي حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى حَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقُلْتُ لَهَا يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ ؟ فَقَالَتْ حَفْصَةُ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ فَقُلْتُ تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَ غَضَبَ رَسُولِهِ يَا بُنَيَّةُ لاَ تَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي قَدْ أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا وَ حُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِيَّاهَا ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَكَلَّمْتُهَا فَقَالَتْ لِي أُمُّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْئٍ حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ ؟ قَالَ فَأَخَذَتْنِي أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَ كَانَ لِي صَاحِبٌ مِنَ الأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ وَ إِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ وَ نَحْنُ حِينَئِذٍ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا فَقَدِ امْتَلأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَأَتَى صَاحِبِي الأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ وَ قَالَ افْتَحِ افْتَحْ فَقُلْتُ جَائَ الْغَسَّانِيُّ فَقَالَ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَزْوَاجَهُ فَقُلْتُ رَغِمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ثُمَّ آخُذُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يُرْتَقَى إِلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَ غُلاَمٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ فَقُلْتُ هَذَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأُذِنَ لِي قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ إِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَ بَيْنَهُ شَيْئٌ وَ تَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ وَ إِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَصْبُورًا وَ عِنْدَ رَأْسِهِ أُهُبًا مُعَلَّقَةً فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَبَكَيْتُ فَقَالَ مَا يُبْكِيكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّ كِسْرَى وَ قَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ وَ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمَا الدُّنْيَا وَ لَكَ الآخِرَةُ

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ میں ایک سال تک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھنے کا ارادہ کرتا رہا لیکن ان کے رعب کی وجہ سے نہ پوچھ سکا، یہاں تک کہ وہ حج کو نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ نکلا۔ پھر واپسی میں تھے کہ (سیدنا عمر) ایک بار پیلو کے درختوں کی طرف کسی حاجت کو جھکے اور میں ان کے لیے ٹھہرا رہا، یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو میں ان کے ساتھ چلا اور میں نے کہا کہ اے امیر المومنین! وہ دونوں عورتیں کون ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی ازواج میں سے زور ڈالا۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم! میں آپ سے اس بارے میں ایک سال سے پوچھنا چاہتا تھا اور آپ کی ہیبت سے نہ پوچھ سکا تھا تو انہوں نے کہا کہ نہیں ایسامت کرو جو بات تمہیں خیال آئے کہ مجھے معلوم ہے اس کو تم مجھ سے دریافت کر لو ،میں اگر جانتا ہوں تو تمہیں بتا دوں گا۔ کہتے ہیں پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! ہم پہلے جاہلیت میں گرفتار تھے اور عورتوں کو کچھ اہمیت نہ دیتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے ان کے ادائے حقوق میں اتارا جو کہ اتارا اور ان کے لیے باری مقرر کی جو مقرر کی (یعنی ان کے حقوق مقرر کر دیے)۔ چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ میں کسی کام میں مشورہ کر رہا تھاکہ میری بیوی نے کہا کہ تم اس طرح کرتے تو خوب ہوتا، تو میں نے اس سے کہا کہ تجھے میرے کام میں کیا دخل؟ جس کا میں ارادہ کرتا ہوں تجھے اس سے کیا سروکار؟ تو اس نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تعجب ہے تم تو چاہتے ہو کہ کوئی تمہیں جواب ہی نہ دے حالانکہ تمہاری صاحبزادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ رہتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں اپنی چادر لے کر گھر سے نکلا اور حفصہ ( رضی اللہ عنہا ) پر داخل ہوا اور اس سے کہا کہ اے میری پیاری بیٹی! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ میں رہتے ہیں؟ تو حفصہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو ان کو جواب دیتی ہوں۔ پس میں نے اس سے کہا کہ تو جان لے میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے ڈراتا ہوں۔ اے میری بیٹی! تم اس بیوی کے دھوکے میں مت رہو جو اپنے حسن پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ناز کرتی ہیں (یعنی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا )۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس قرابت کے سبب جو مجھے ان کے ساتھ تھی پر داخل ہوا اور میں نے ان سے بات کی۔ ام اسلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تم پر تعجب ہے کہ تم ہر چیز میں دخل دیتے ہو یہاں تک کہ تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دو؟ اور مجھے ان کی اس بات سے بہت صدمہ پہنچا، جس نے مجھے اس نصیحت سے باز رکھا جو میں کرنا چاہتا تھا اور میں ان کے پاس سے چلا آیا اور انصار میں سے میرا ایک دوست تھا کہ جب میں غائب ہوتا تو وہ مجھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس اور احادیث کی) خبر دیتا اور جب وہ غائب ہوتا تو میں اس کو خبر دیتا تھا اور ہم ان دنوں غسان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کا خوف رکھتے تھے اور ہم میں چرچا تھا کہ وہ ہماری طرف آنے کاارادہ رکھتاہے اور ہمارے سینے اس کے خیال سے بھرے ہوئے تھے۔ اس دوران میرے دوست نے آ کر دروازہ بجایا اور کہا کہ کھولو کھولو! میں نے کہا کہ کیا غسانی آ گئے؟ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ پریشانی کی ایک بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات سے جدا ہو گئے ہیں۔ پس میں نے کہا کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی ناک میں خاک آلود ہو۔ پھر میں نے اپنے کپڑے لیے اور نکلا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالاخانے میں تھے کہ اس کے اوپر کھجور کی ایک جڑ سے چڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام اس سیڑھی کے سرے پر تھا۔ پس میں نے کہا کہ یہ عمر ہے اور میرے لیے اجازت دی گئی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے یہ سب قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا اور جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات پر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر تھے کہ ان کے اور چٹائی کے بیچ میں اور کوئی بچھونا نہ تھا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کا چھلکا بھرا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں کی طرف سلم کے کچھ پتے ڈھیر تھے (جس سے چمڑے کو رنگتے ہیں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر چٹائی کا اثر اور نشان دیکھا تو رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عمر! تمہیں کس بات نے رلا دیا؟‘‘ میں نے کہ کہ اے اللہ کے رسول ! بے شک کسریٰ اور قیصر عیش میں ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا تم راضی نہیں ہو کہ ان کے لیے دنیا ہو اور تمہارے لیے آخرت۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ العِدَّۃِ
عدت کے مسائل


بَابٌ :فِي الْحَامِلِ تَضَعُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا
حاملہ عورت اپنے خاوند کی وفات کے (تھوڑے عرصے) کے بعد بچہ جنے (تو اس کی عدت کا بیان

)

(858) عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ أَبَاهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ يَأْمُرُهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الأَسْلَمِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَيَسْأَلُهَا عَنْ حَدِيثِهَا وَ عَمَّا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حِينَ اسْتَفْتَتْهُ فَكَتَبَ عُمَرُ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى عَبْدُ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُخْبِرُهُ أَنَّ سُبَيْعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ هُوَ فِي بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَ كَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَ هِيَ حَامِلٌ فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ فَقَالَ لَهَا مَا لِي أَرَاكِ مُتَجَمِّلَةً ؟ لَعَلَّكِ تَرْجِينَ النِّكَاحَ ؟ إِنَّكِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْرٌ قَالَتْ سُبَيْعَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَلَمَّا قَالَ لِي ذَلِكَ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ فَأَفْتَانِي بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي وَ أَمَرَنِي بِالتَّزَوُّجِ إِنْ بَدَا لِي قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَلاَ أَرَى بَأْسًا أَنْ تَتَزَوَّجَ حِينَ وَضَعَتْ وَ إِنْ كَانَتْ فِي دَمِهَا غَيْرَ أَنَّه لاَ يَقْرَبُهَا زَوْجُهَا حَتَّى تَطْهُرَ

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم الزہری کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائیں اور ان سے ان کی حدیث کے متعلق پوچھیں کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ طلب کیا تھا؟ تو عمر بن عبداللہ نے ان کو لکھا کہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے ان کو یہ خبر دی ہے کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں جو قبیلہ بنی عامر بن لؤی سے تھے اور غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے اور حجۃ الوداع میں انہوں نے وفات پائی تو اس وقت یہ حاملہ تھیں پھران کی وفات کے کچھ ہی دیر بعد وضع حمل (یعنی ولادت)ہو گیا۔ جب اپنے نفاس سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے منگنی کا پیغام دینے والوں کے لیے بناؤ سنگار کیا۔ ابوالسنابل جو قبیلہ بنی عبد الدار سے تعلق رکھتے تھے، ان کے پاس آئے اور کہا کہ کیا سبب ہے کہ میں تمہیں سنگار کیے ہوئے دیکھتا ہوں؟ شاید تم نکاح کا ارادہ رکھتی ہو؟ اور اللہ کی قسم !تم نکاح نہیں کر سکتیں جب تک تم پر چار مہینے اور دس دن نہ گزر جائیں۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب انہوں نے مجھ سے یوں کہا تو میں اپنی چادر اوڑھ کر شام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فتویٰ دیا :’’ میری عدت اسی وقت پوری ہو چکی تھی جب میں نے وضع حمل کیا ۔‘‘ اور اگر میں چاہوں تو مجھے نکاح کی اجازت ہے۔ ابن شہاب نے کہا کہ میں اس میں بھی کچھ مضائقہ نہیں جانتا کہ کوئی عورت بعد وضع کے اسی وقت نکاح کرے اگرچہ وہ ابھی خون نفاس میں ہو مگر اتنی بات ضرور ہے کہ اس کا شوہر اس سے صحبت نہ کرے جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جائے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ :فِي الْمُطَلَّقَةِ تَخْرُجُ لِجِدَادِ نَخْلِهَا
مطلقہ عورت اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کے لیے (باہر) جا سکتی ہے


(859) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ طُلِّقَتْ خَالَتِي فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ بَلَى فَجُدِّي نَخْلَكِ فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہوگئی اور انہوں نے چاہا کہ اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لیں تو ایک شخص نے ان کے باہر نکلنے پر انہیں جھڑکا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کیوں نہیں! تم جاؤ اور اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لو، اس لیے کہ شاید تم اس میں سے صدقہ دو (تو اوروں کا بھلا ہو) یا اور کوئی نیکی کرو (کہ تمہارا بھلا ہو)۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :فِيْ خُرُوْجِ الْمُطَلَّقَةِ مِنْ بَيْتِهَا إِذَا خَافَتْ عَلَى نَفْسِهَا
مطلقہ عورت اپنے اوپر کسی ڈر کی وجہ سے اپنے گھر سے جا سکتی ہے


(860) عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! زَوْجِي طَلَّقَنِي ثَلاَثًا وَ أَخَافُ أَنْ يُقْتَحَمَ عَلَيَّ قَالَ فَأَمَرَهَا فَتَحَوَّلَتْ

سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ یارسول اللہ ! میرے شوہر نے مجھے تین طلاق دیدی ہیں اور مجھے اپنے ساتھ سختی اور بدمزاجی کا خوف ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا :’’ وہ کسی اور گھر میں چلی جائیں۔‘‘ (راوی نے کہا کہ) وہ دوسری جگہ چلی گئیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(861) عَنْ أَبِيْ سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلاَثِ تَطْلِيقَاتٍ فَزَعَمَتْ أَنَّهَا جَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَسْتَفْتِيهِ فِي خُرُوجِهَا مِنْ بَيْتِهَا فَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الأَعْمَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَبَى مَرْوَانُ أَنْ يُصَدِّقَهُ فِي خُرُوجِ الْمُطَلَّقَةِ مِنْ بَيْتِهَا وَ قَالَ عُرْوَةُ إِنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا

ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے اس کو خبر دی کہ وہ ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اور ابو عمرو نے انہیں تین طلاقوں میں سے تیسری بھی دے دی۔ پھر وہ گمان کرتی تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تھی اور اس گھر سے نکلنے کے بارے میں فتویٰ پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس منتقل ہونے کا حکم دیا تھا۔ مروان نے اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کیا کہ مطلقہ عورت (خاوند کے) گھر سے نکل سکتی ہے اور عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بات کا انکار کر دیا۔ (کہ مطلقہ عورت اپنے خاوند کے گھر سے باہر نہ نکلے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :فِيْ تَزْوِيْجِ الْمَطَلَّقَةِ بَعْدَ عِدَّتِهَا
مطلقہ عورت عدت کے بعد شادی کر سکتی ہے


(862) عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلاَثًا فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سُكْنَى وَ لاَ نَفَقَةً قَالَتْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي فَآذَنْتُهُ فَخَطَبَهَا مُعَاوِيَةُ وَ أَبُو جَهْمٍ وَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ تَرِبٌ لاَ مَالَ لَهُ وَ أَمَّا أَبُو جَهْمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَرَجُلٌ ضَرَّابٌ لِلنِّسَائِ وَ لَكِنْ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَتْ بِيَدِهَا هَكَذَا أُسَامَةُ ! أُسَامَةُ ! رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم طَاعَةُ اللَّهِ وَ طَاعَةُ رَسُولِهِ خَيْرٌ لَكِ قَالَتْ فَتَزَوَّجْتُهُ فَاغْتُبِطْتُ

سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اسے گھر دلوایا اورنہ خرچ۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب تمہاری عدت پوری ہو جائے تو مجھے خبر دینا۔‘‘ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی اور انہیں سیدنا معاویہ، ابوجہم اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنھم نے (شادی کے لیے) پیغام بھیجا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ معاویہ رضی اللہ عنہ تو مفلس ہے کہ اس کے پاس مال نہیں اور ابوجہم رضی اللہ عنہ عورتوں کو بہت مارنے والا ہے مگر اسامہ رضی اللہ عنہ پس اس(یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا )نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیاکہ اسامہ! اسامہ! رضی اللہ عنہ (یعنی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری تجھے بہتر ہے۔‘‘ پھر میں نے ان سے نکاح کر لیا اور عورتیں (ہماری شادی کی کامیابی پر) مجھ پر رشک کرنے لگیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :فِيْ الإِحْدَادِ فِيْ الْعِدَّةِ عَلَى الْمَيِّتِ وَ تَرْكِ الْكُحْلِ
میت پر عدت کے دوران سوگ کرنے اور (آنکھوں میں) سرمہ نہ لگانے کابیان


(863) عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ هَذِهِ الأَحَادِيثَ الثَّلاَثَةَ : قَالَ قَالَتْ زَيْنَبُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَدَعَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ أَوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

قَالَتْ زَيْنَبُ ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

قَالَتْ زَيْنَبُ سَمِعْتُ أُمِّي أُمَّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ جَائَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَ قَدِ اشْتَكَتْ عَيْنُهَا أَفَنَكْحُلُهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا كُلَّ ذَلِكَ يَقُولُ لاَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْرٌ وَ قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعَرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ قَالَ حُمَيْدٌ قُلْتُ لِزَيْنَبَ وَ مَا تَرْمِي بِالْبَعَرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ فَقَالَتْ زَيْنَبُ كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا وَ لَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا وَ لَمْ تَمَسَّ طِيبًا وَ لاَ شَيْئًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَيْرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْئٍ إِلاَّ مَاتَ ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعَرَةً فَتَرْمِي بِهَا ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَائَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ

حمید بن نافع زینب بنت ابی سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے انہیں (حمید کو) ان تین احادیث کی خبر دی۔ کہتے ہیں کہ زینب نے کہا کہ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے باپ ابوسفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو میں ان کے پاس گئی۔ امّ المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگوائی جو زرد خلوق تھی (ایک قسم کی مرکب خوشبو ہے) یا کوئی اور خوشبو تھی اور ایک لڑکی کو (اپنے ہاتھوں سے) لگائی اور پھر ہاتھ اپنے گالوں پر پھیر لیے اور کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیںتھی مگر (یہ صرف عام عورتوں کی تعلیم کے لیے تھا) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر فرما رہے تھے :’’ اس شخص کو حلال نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو کہ وہ کسی مرنے والے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے مگر یہ کہ عورت اپنے شوہر کے لیے چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔‘‘
زینب نے کہا کہ پھر میں زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جب ان کے بھائی فوت ہوئے تو انہوں نے بھی خوشبو منگوائی اور لگائی، پھر کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں تھی مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر فرما رہے تھے :’’جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو اس کو یہ درست نہیں ہے کہ کسی مرنے والے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اس عورت کے جس کا خاوند مر جائے کہ وہ چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔ ‘‘

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اپنی ماں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سنا ،وہ کہتی تھیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ یارسول اللہ ! میری بیٹی کا خاوند فوت ہو گیا ہے اور اس کی آنکھیں دکھتی ہیں تو کیا اس کے سرمہ لگاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں۔‘‘ پھر اس عورت نے دو یا تین بار پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار فرمایا:’’ نہیں۔‘‘ پھر فرمایا:’’ اب تو عدت کے چار مہینے اور دس دن ہی ہیں، جاہلیت میں تو عورت پورے ایک برس بعد مینگنی پھینکتی تھی۔ ‘‘

(راوی حدیث) حمید کہتے ہیں کہ میں نے زینب رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ سال بعد مینگنی پھینکتی تھی؟ تو زینب رضی اللہ عنہا نے کہا کہ (جاہلیت کے زمانے میں) جب عورت کا خاوند فوت ہو جاتا تو وہ ایک گھونسلے میں گھس جاتی(یعنی چھوٹے سے اور بدصورت گھر میں) برے سے برا کپڑا پہنتی نہ خوشبو لگاتی نہ کچھ اور، یہاں تک کہ ایک سال گزر جاتا۔ پھر ایک جانور اس کے پاس لاتے گدھا یا بکری یا چڑیا جس سے وہ اپنی عدت توڑتی۔ (اس جانور کو اپنی کھال پر رگڑتی یا اپنا ہاتھ اس پر پھیرتی) ایسا بہت کم ہوتا کہ وہ جانور زندہ رہتا (اکثر مر جاتا کچھ شیطان کااثر ہو گا یا اس کے بدن پر میلی کچیلی ایک گھونسلے میں رہنے سے زہر دار مادہ چڑھ جاتا ہو گا جو جانور پر اثر کرتا ہو گا) پھر وہ باہر نکلتی اور ایک مینگنی اس کو دیتے، اس کو پھینک کر پھر جو چاہتی خوشبو وغیرہ لگاتی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :تَرْكُ الطِّيْبِ وَالصِّبَاغِ لِلْمَرْأَةِ الْحَادِّ
عدت گزارنے والی عورت کو خوشبو اور رنگین کپڑا استعمال نہیں کرنا چاہیے


(864) عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ تُحِدُّ امْرَأَةٌ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَ عَشْرًا وَ لاَ تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلاَّ ثَوْبَ عَصْبٍ وَ لاَ تَكْتَحِلُ وَ لاَ تَمَسُّ طِيبًا إِلاَّ إِذَا طَهُرَتْ نُبْذَةً مِنْ قُسْطٍ أَوْ أَظْفَارٍ

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہیں کر سکتی، البتہ بیوی اپنے خاوند پر چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی۔ اور (اس عدت کی مدت میں) رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے مگر ’’عصب‘‘ کا کپڑا اور سرمہ نہ لگائے اور خوشبو کو ہاتھ تک نہ لگائے مگر جب (حیض سے) پاک ہو تو ایک پھایا قسط یا اظفار (ایک قسم کی خوشبو ) کا استعمال کر سکتی ہے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ اللِّعَانِ
لعان کے مسائل


بَابٌ :فِي الَّذِيْ يَجِدُ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً
اس آدمی کے متعلق جو اپنی عورت کے پاس (غیر) مرد کو پائے


(865) عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدِ نِالسَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلاَنِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَائَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَهُ أَ رَأَيْتَ يَا عَاصِمُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَوْ أَنَّ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً أَ يَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ فَسَلْ لِي عَنْ ذَلِكَ يَا عَاصِمُ ! رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَسَائِلَ وَ عَابَهَا حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَائَهُ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ يَا عَاصِمُ ! مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ عَاصِمٌ لِعُوَيْمِرٍلَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا قَالَ عُوَيْمِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاللَّهِ لاَ أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَسَطَ النَّاسِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً أَ يَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ ؟ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ نَزَلَ فِيكَ وَ فِي صَاحِبَتِكَ فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا قَالَ سَهْلٌ فَتَلاَعَنَا وَ أَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ عُوَيْمِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَكَانَتْ سُنَّةَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ
سیدنا سہل بن سعد ساعد ی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ ، عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے عاصم! بھلا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے تو کیا اس کو مار ڈالے؟ (اگر وہ مار ڈالے)تو پھر تم (اس مرد) کو (قصاص میں) مار ڈالو گے؟ یا وہ کیا کرے؟ یہ مسئلہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے سوالوں کو ناپسند کیا اور ان کی برائی بیان کی۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ ان پر شاق گزرا۔ جب وہ اپنے گھر لوٹ کر آئے تو عویمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے عویمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو میرے پاس اچھی چیز نہیں لایا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (تیرے لیے یہ) مسئلہ پوچھنا ناگوار گزرا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو باز نہ آؤں گا جب تک یہ مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھوں گا۔ پھر عویمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تمام لوگوں (کی موجودگی) میں آئے اور عرض کی یارسول اللہ! آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس غیر مرد کو دیکھے تو (کیا) اس کو مار ڈالے؟ پھر آپ اس (مرد) کو (قصاص میں) مار ڈالیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تیرے اور تیری بیوی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو چکا ہے، تو جا اور اپنی بیوی کو لے آ۔‘‘ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اور میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا۔ جب وہ فارغ ہوئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ! اگر میں اب اس عورت کو رکھوں تو میں جھوٹا ہوں۔ پھر سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے قبل ہی تین طلاق دے دیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ پھر لعان کرنے والوں کا یہی طریقہ ٹھہر گیا۔
 
Top