• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : عَدَدُ غَزَوَاتِ رَسُوْلِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کی تعداد


(1193) عَنْ أَبِي إِسْحَقَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ خَرَجَ يَسْتَسْقِي بِالنَّاسِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ اسْتَسْقَى قَالَ فَلَقِيتُ يَوْمَئِذٍ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ قَالَ لَيْسَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ غَيْرُ رَجُلٍ أَوْ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ رَجُلٌ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ كَمْ غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قَالَ تِسْعَ عَشْرَةَ فَقُلْتُ كَمْ غَزَوْتَ أَنْتَ مَعَهُ ؟قَالَ سَبْعَ عَشْرَةَ غَزْوَةً قَالَ فَقُلْتُ فَمَا أَوَّلُ غَزْوَةٍ غَزَاهَا ؟ قَالَ ذَاتُ الْعُسَيْرِ أَوِ الْعُشَيْرِ

سیدنا ابواسحق سے روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید نماز استسقاء کے لیے نکلے اور لوگوں کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں، پھر پانی کے لیے دعا مانگی۔ کہتے ہیں کہ اس دن میں سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ملا اور میرے اور ان کے درمیان صرف ایک شخص تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے غزوات لڑے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ انیس(۱۹)۔ میں نے پوچھا کہ آپ کتنے غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے؟ انہوں نے کہا کہ سترہ(۱۷) میں ۔ میں نے کہا کہ پہلا جہاد کون سا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ذات العسیر یا ذات العشیر (جو ایک مقام کا نام ہے۔ سیرت ابن ہشام میں اس کو غزوۃ العشیرہ لکھاہے ،اس میں لڑائی نہ ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشیرہ تک جاکر مدینہ کو پلٹ آئے یہ واقعہ۲ ھ میں ہوا اور ابن ہشام نے کہا کہ سب سے پہلے غزوہ ودان ہوا ۔ مدینہ میں آنے کے ایک سال کے آخر پر، اس میں بھی لڑائی نہیں ہوئی)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1193)عَنْ بُرَيْدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تِسْعَ عَشْرَةَ غَزْوَةً قَاتَلَ فِي ثَمَانٍ مِنْهُنَّ

سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس (۱۹)غزوات کیے اور ان میں سے آٹھ میں لڑے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ الإِمَارَۃِ
حکومت کے بیان میں


بَابٌ : اَلْخُلَفَائُ مِنْ قُرَيْشٍ

خلیفہ قریش سے ہونا چاہیے


(1194) عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ يَزَالُ هَذَا الأَمْرُ فِي قُرَيْشٍ مَا بَقِيَ مِنَ النَّاسِ اثْنَانِ

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ کام یعنی خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی یہاں تک کہ دنیا میں دو ہی آدمی رہ جائیں۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1195) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَيْشٍ فِي هَذَا الشَّأْنِ مُسْلِمُهُمْ تَبَعٌ لِمُسْلِمِهِمْ وَ كَافِرُهُمْ تَبَعٌ لِكَافِرِهِمْ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ حکومت میں تمام لوگ قریش کے تابع ہیں اور مسلمان لوگ مسلمان قریش کے تابع ہیں اور کافر لوگ کافر قریش کے تابع ہیں (یعنی حکومت اور سرداری کے زیادہ اہل ہیں)۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1196) عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَتَبْتُ إِلَى جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَعَ غُلامِي نَافِعٍ أَنْ أَخْبِرْنِي بِشَيْئٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَكَتَبَ إِلَيَّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَ جُمُعَةٍ عَشِيَّةَ رُجِمَ الأَسْلَمِيُّ يَقُولُ لاَ يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ أَوْ يَكُونَ عَلَيْكُمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ وَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ عُصَيْبَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَفْتَتِحُونَ الْبَيْتَ الأَبْيَضَ بَيْتَ كِسْرَى أَوْ آلِ كِسْرَى وَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ فَاحْذَرُوهُمْ وَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِذَا أَعْطَى اللَّهُ أَحَدَكُمْ خَيْرًا فَلْيَبْدَأْ بِنَفْسِهِ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ وَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ أَنَا الْفَرَطُ عَلَى الْحَوْضِ

سیدناعامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے غلام نافع کو یہ لکھ کر سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ مجھ سے وہ بات بیان کرو جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ کہتے ہیں انہوں نے جواب میں لکھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، اس جمعہ کی شام جس دن ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ سنگسار کیے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’ یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو یا تم پر بارہ خلیفہ ہوں اور وہ سب قریشی ہوں گے۔‘‘ (شاید یہ واقعہ بھی قیامت کے قریب ہو گا کہ ایک ہی وقت میں مسلمانوں کے بارہ خلیفہ بارہ ٹکڑیوں پر ہوں گے) اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:’’ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کسریٰ کے سفید محل کو فتح کرے گی ۔‘‘(یہ معجزہ تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایسا ہی ہوا) اور میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:’’ قیامت سے پہلے جھوٹے پیداہوں گے ،ان سے بچنا ۔‘‘اور میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:’’ جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کو دولت دے تو پہلے اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے۔‘‘ (ان کو آرام سے رکھے پھر فقیروں کو دے) اور میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:’’ میں حوض کوثر پر تمہارا انتظار کرنے والا ہوں ۔‘‘(یعنی تمہارے پانی پلانے کے لیے وہاں بندوبست کروں گااور تمہارے آنے کا منتظر رہوں گا)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلْإِسْتِخْلاَفُ وَ تَرْكُهُ
اپنے پیچھے خلیفہ مقرر کرنے اور نہ کرنے کا بیان


(1197) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَتْ أَعَلِمْتَ أَنَّ أَبَاكَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ قَالَ قُلْتُ مَا كَانَ لِيَفْعَلَ قَالَتْ إِنَّهُ فَاعِلٌ قَالَ فَحَلَفْتُ أَنِّي أُكَلِّمُهُ فِي ذَلِكَ فَسَكَتُّ حَتَّى غَدَوْتُ وَ لَمْ أُكَلِّمْهُ قَالَ فَكُنْتُ كَأَنَّمَا أَحْمِلُ بِيَمِينِي جَبَلاً حَتَّى رَجَعْتُ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَسَأَلَنِي عَنْ حَالِ النَّاسِ وَ أَنَا أُخْبِرُهُ قَالَ ثُمَّ قُلْتُ لَهُ إِنِّي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ مَقَالَةً فَآلَيْتُ أَنْ أَقُولَهَا لَكَ زَعَمُوا أَنَّكَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ وَ إِنَّهُ لَوْ كَانَ لَكَ رَاعِي إِبِلٍ أَوْ رَاعِي غَنَمٍ ثُمَّ جَائَكَ وَ تَرَكَهَا رَأَيْتَ أَنْ قَدْ ضَيَّعَ فَرِعَايَةُ النَّاسِ أَشَدُّ قَالَ فَوَافَقَهُ قَوْلِي فَوَضَعَ رَأْسَهُ سَاعَةً ثُمَّ رَفَعَهُ إِلَيَّ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَحْفَظُ دِينَهُ وَ إِنِّي لَئِنْ لاَ أَسْتَخْلِفْ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمْ يَسْتَخْلِفْ وَ إِنْ أَسْتَخْلِفْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدِ اسْتَخْلَفَ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلاَّ أَنْ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَعْدِلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَحَدًا وَ أَنَّهُ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ میں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنھا کے پاس گیا اور انہوں نے کہاکہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے والد کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کریں گے؟ میں نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ میں نے قسم کھائی کہ میں ان سے اس کا ذکر کروںگا۔ پھر چپ رہا، دوسرے دن صبح کو بھی میں ان سے نہیں کہہ سکا لیکن میرا حال ایسا تھا جیسے کوئی پہاڑ کو ہاتھ میں لیے ہو (قسم کا بوجھ تھا)۔ آخر میں لوٹ کر ان کے پاس گیا۔ وہ لوگوں کا حال پوچھنے لگے تو میں بیان کرتا رہا، پھر میں نے کہا کہ میں نے لوگوں سے ایک بات سنی ہے اور پھرقسم کھا لی کہ آپ سے ضرور اس کا ذکر کروں گا، وہ سمجھتے ہیں کہ آپ کسی کو خلیفہ نہیں کریں گے۔ اگر آپ کا اونٹوں کا یا بکریوں کا کوئی چرانے والا ہو، پھر وہ آپ کے پاس ان اونٹوں اور بکریوں کو چھوڑ کر چلا آئے تو آپ یہ سمجھیں گے کہ وہ جانور برباد ہو گئے، اس صورت میں آدمیوں کا خیال تو اور بھی ضروری ہے۔ میرے اس کہنے سے ان کو خیال ہوا اور ایک گھڑی تک وہ سر جھکائے رہے (فکر کیا کیے) پھر سر اٹھایا اور کہا کہ اللہ جل جلالہٗ اپنے دین کی حفاظت کرے گا اور میں اگر خلیفہ مقرر نہ کروں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا اور اگر خلیفہ مقرر کروں تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ مقرر کیا ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر اللہ کی قسم! جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو میں سمجھ گیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کسی کو نہیں کرنے والے اور وہ خلیفہ مقرر نہیں کریں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلأَمْرُ بِالْوَفَائِ بِبَيْعَةِ الْخُلَفَائِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ
جس سے پہلے بیعت کی اس کی بیعت پوری کرنے کا حکم


(1198) عَنْ أَبِي حَازِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَمْسَ سِنِينَ فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَائُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَ إِنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي وَ سَتَكُونُ خُلَفَائُ تَكْثُرُ۔ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ وَ أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ

ابوحازم کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس پانچ سال بیٹھتا رہا اور میں نے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے :’’بنی اسرائیل کی سیاست پیغمبر کیا کرتے تھے۔ جب ایک پیغمبر فوت ہوتا تو دوسرا پیغمبر اس کی جگہ ہو جاتا اور شان یہ ہے کہ میرے بعد تو کوئی پیغمبر نہیں ہے بلکہ خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے۔‘‘ لوگوںنے عرض کی کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہ میں کیاحکم کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس سے پہلے بیعت کر لو، اسی کی بیعت پوری کرو اور ان کا حق ادا کرو اور اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا اس کے متعلق جو اس نے ان کو دیا ہے۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
(3) عَن سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَائَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ وَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَا عَمِّ قُلْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَ يُعِيدُ لَهُ تِلْكَ الْمَقَالَةَ حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ أَبَى أَنْ يَقُولَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَمَا وَاللَّهِ لأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَ لَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ } (التوبة :113) وَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ { إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَ لَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَائُ وَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ}(القصص :56)
سعید بن مسیب (جو مشہور تابعین میں سے ہیں)اپنے والد (سیدنا مسیب بن حزن بن عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی رضی اللہ عنہ، جو کہ صحابی ہیں) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ جب ابو طالب بن عبدالمطلب (رسول اللہ ﷺ کے حقیقی چچا اور مربی) مرنے لگے تو رسول اللہﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابو جہل (عمرو بن ہشام) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھے دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اے چچا ! تم ایک کلمہ لا الٰہ الا للہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا تمہارے لیے (یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابو طالب موحد تھے اور ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہیے۔انھوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا)۔‘‘ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابو طالب! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟ اور رسول اللہ ﷺ برابر یہی بات ان سے کہتے رہے (یعنی کلمہ توحید پڑھنے کے لیے اور ادھر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے) یہاں تک کہ ابو طالب نے آخری بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے دعا کروں گا (بخشش کی) جب تک کہ منع نہ کیا جاؤں۔‘‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ’’پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔‘‘ (التوبۃ: ۱۱۳) اور اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہ ﷺ سے فرمایا:’’آپ (ﷺ) جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے۔‘‘(القصص:۵۶)​
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پیارے بھائی جان!
اگر اس طرح فاؤنٹ سیٹ کر دیا جائے تو مزید خوبصورت لگے گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1199) عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزِلاً فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَائَهُ وَ مِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ وَ مِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ إِذْ نَادَى مُنَا دِ ي رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّلاةَ جَامِعَةً فَاجْتَمَعْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلاَّ كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَ يُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَ إِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا وَ سَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلاَئٌ وَ أُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا وَ تَجِيئُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَ تَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ وَ تَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَ يُدْخَلَ الْجَنَّةَ فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَ هُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ وَ مَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَ ثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ إِنِ اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَائَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الآخَرِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقُلْتُ لَهُ أَنْشُدُكَ اللَّهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فَأَهْوَى إِلَى أُذُنَيْهِ وَ قَلْبِهِ بِيَدَيْهِ وَ قَالَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَ وَعَاهُ قَلْبِي فَقُلْتُ لَهُ هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَ نَقْتُلَ أَنْفُسَنَا وَاللَّهُ يَقُولُ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَ لاَ تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} (النساء: 29) قَالَ فَسَكَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ

سیدنا عبدلرحمن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور وہاں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص y کعبہ کے سایہ میں بیٹھے تھے اور لوگ ان کے پاس جمع تھے۔ میں بھی جا کر بیٹھ گیا،تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ایک جگہ اترے تو کوئی اپنا خیمہ درست کرنے لگا، کوئی تیر مارنے لگا، کوئی اپنے جانوروں میں تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پکارنے والے نے نماز کے لیے پکار دی۔ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس پر اپنی امت کو وہ بہتر بات بتانا لازم نہ ہو جو اس کو معلوم ہو اور جو بری بات وہ جانتا ہو اس سے ڈرانا (لازم نہ ہو) اور تمہاری یہ امت، اس کے پہلے حصہ میں سلامتی ہے اور اخیر حصہ میں آزمائش ہے اور وہ باتیں ہیں جو تمہیں بری لگیںگی اور ایسے فتنے آئیںگے کہ ایک فتنہ دوسرے کو ہلکا اور پتلا کر دے گا (یعنی بعد کا فتنہ پہلے سے ایسا بڑھ کر ہو گا کہ پہلا فتنہ اس کے سامنے کچھ حقیقت نہ رکھے گا) اور ایک فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا کہ اس میں میری تباہی ہے۔ پھر وہ جاتا رہے گا اور دوسرا آئے گا تومومن کہے گا کہ اس میں میری تباہی ہے۔پھر جو کوئی چاہے کہ جہنم سے بچے اور جنت میں جائے تو اس کو چاہیے کہ اس کی موت اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر یقین کی حالت میں آئے اور لوگوں سے وہ سلوک کرے جو وہ چاہتا ہو کہ لوگ اس سے کریں اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے اور اس کو اپنا ہاتھ دیدے اور دل سے اس کی فرمانبرداری کی نیت کرے، تو اس کی اطاعت کرے اگر طاقت ہو۔ اب اگر دوسرا امام اس سے لڑنے کو آئے تو (اس کو منع کرو، اگر لڑائی کے بغیر نہ مانے تو) اس کی گردن مار دو۔ یہ سن کر میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے اپنے دونوں کانوں اور دل کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا ہے۔ میں نے کہا کہ تمہارے چچا کے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ ہ میں ایک دوسرے کے مال ناحق کھانے کے لیے اور اپنی جانوں کو تباہ کرنے کے لیے حکم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والو! اپنے مال ناحق مت کھاؤ مگر رضامندی سے سوداگری کر کے اور اپنی جانوں کو مت مارو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے۔‘‘ (النساء: ۲۹)۔ یہ سن کر عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما تھوڑی دیر چپ رہے، پھر کہا کہ اس کام میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرو جو اللہ کے حکم کے موافق ہو اور جو کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہو اس میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا کہنا نہ مانو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : إِذَا بُويِعَ لِخَلِيْفَتَيْنِ
جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے، تو کیا حکم ہے؟


(1200) عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ فَاقْتُلُوا الآخَرَ مِنْهُمَا

سیدناابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب دو خلیفوں سے بیعت کی جائے، تو جس سے آخر میں بیعت ہوئی ہو اس کو مار ڈالو(اس لیے کہ اس کی خلافت پہلے خلیفہ کے ہوتے ہوئے باطل ہے)۔ ‘‘
 
Top