کتاب کا نام ہونا چاہیے تھا "دو عذابوں کی حقیقت" لگتا ہے دامانوی صاحب خود ہی کتاب لکھ کر اسے خود ہی سمجھتےاور پڑھتے ہیں ......
یعنی ١ عذاب دیا جا رہا ہے روح کو "جہنّم میں " اور ٢ عذاب دیا جا رہا ہے جسم کو "قبر میں " .... روح کو جہنّم میں بھی عذاب دیا جا رہا ہے اور پھر اسکی روح کو قبر میں جسم کی طرف بھی لوٹایا جا رہا ہے .... قرآن تو کہتا ہے کے
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ﴿٩٩﴾ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٠٠﴾
(کافروں کی یہی حالت رہتی ہے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آکھڑی ہوتی ہے تو (تب) کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار! مجھے (ایک بار) اسی دنیا میں واپس بھیج دے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ (99) تاکہ میں نیک عمل کر سکوں (ارشاد ہوگا) ہرگز نہیں! یہ محض ایک (فضول) بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے (مرنے کے) بعد برزخ کا زمانہ ہے ان کے (دوبارہ) اٹھائے جانے تک۔ (100)
روح الله کے پاس پوھنچنے کے بعد واپسی کا مطالبہ کرتی ہے تو جواب ملتا ہے کے نہیں، اب ان سب مرنے والوں کے پیچھے ایک برزخ (آڑ) حایل ہے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے مرنے کے بعد عذاب روح کو دیا جا رہا ہےیا جسم کو؟ ......... اوپرآپ نے لکھا کے "عذاب جہنّم کا تعلق روح کے ساتھ اور عذاب قبر کا تعلق میّت کے ساتھ ہوتا ہے .... اسکے بعد نیچے لکھا کے "موت کے بعد سے قیامت کے دن تک جو عذاب الله کے نافرمان بندوں کو دیا جائے گا اسی کا نام عذاب قبر ہے" ....... یہاں تو آپ نےسرے سے عذاب جہنّم کا ذکر ہی نہیں کیا؟ وی صاحب نے اوپر بیان کردہ سوره انعام کی آیت کو اٹھا کر عذاب قبر پر چسپاں کر دیا اور اسے نام دیا "عذاب قبر کا تذکرہ قرآن مجید میں" ..... یہ تو حالت سکرات کی آیت ہے اسے کیسے آپنے اٹھا کر عذاب قبر پر چسپاں کر دیا مرنے والے کو ابھی قبر بھی نہیں ملی تو بغیر قبر کے عذاب قبر کیسے شروع ہو گیا؟ اور آپنے خود ہے لکھا ہے کے "عذاب قبر کا تعلق میّت کے ساتھ ہوتا ہے" ........
تو یہ لیجئے ایک اور جہالت دیکھئے دامانوی صاحب کی
دیکھئے خود ہے قبول کیا کے "اگر روح جسم میں واپس آ جائے تو پھر یہ عذاب زندہ کو نہیں بلکے مردہ کو ہوا" اور اسکے ساتھ ہی اپنی ہی کہی ہوئی بات کا رد کرتے ہیں کے "البتہ سوال و جواب کے لئے میّت کی طرف روح کو کچھ دیرکے لئے لوٹایا جاتا ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے"
استثنائی حالت که کر گویا جان ہی چھوٹ گئی .... میّت کی طرف روح کو کچھ دیرکے لئے لوٹایا جاتا ہےیہ ایک استثنائی حالت، میّت دفن کر کے جانے والے ساتھیوں کی جوتیوں کی آواز سنتی ہےیہ ایک استثنائی حالت، دامانوی صاحب جب سب کچھ ہی استثنائی حالت ہے تو پھر قاعدہ کلیہ کیا ہے ؟ آپ نے خود ہی تو لکھا کے "اگر روح جسم میں واپس آ جائے تو پھر یہ عذاب زندہ کو نہیں بلکے مردہ کو ہوا" پھر آپ نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے یہ که دیا کے "البتہ سوال و جواب کے لئے میّت کی طرف روح کو کچھ دیرکے لئے لوٹایا جاتا ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے" دامانوی صاحب قرآن کے بیان کے ہوے قانون سے ہٹ کر صرف وہی بات استثنائی ہو گی جس کا ذکر قرآن و صحیح حدیث میں موجود ہو یہ نہیں الله نے تو قرآن میں ایک قانون بیان کر دیا اب کوئی اسکے خلاف عقیدہ بنا لے اور اس عقیدے کو "استثنیٰ" کا نام دے ڈالے جیسا کے آپ نے کیا
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1295
علی بن عبداللہ ، یعقوب بن ابراہیم، ابراہیم، صالح، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں میں جھانکا (جہاں بدر کے مقتول مشرکین) پڑے تھے آپ نے فرمایا کیا تم نے ٹھیک ٹھیک اس چیز کو پا لیا جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟ آپ سے کہا گیا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو پکارتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو لیکن وہ جواب نہیں دیتے ہیں۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1296
عبداللہ بن محمد، سفیان، ہشام بن عمرو، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اب جان لیں گے کہ جو میں کہتا تھا وہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم مردوں کو نہیں سنا سکتے
اب بتاے ان دونوں حدیثوں میں کیا فرق ہے ؟ اگر مردہ سنتا ہوتا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نہ که دیتی کے مردہ سنتا ہے بلکے انہوں نے تو وضاحت فرما دی کےسننے سے مراد علم (جاننا) ہے۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1220
عبداللہ بن یوسف، مالک، عبداللہ بن ابی بکر، ابوبکر، عمرۃ بنت عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں عمرہ نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت کے پاس سے گزرے۔ اس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ تو آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور یہ (عورت) اپنی قبر میں عذاب دی جا رہی ہے۔
یہ یہودی عورت تو ابھی قبر میں بھی دفن نہیں کی گئ تو اب اس نے کس کی جوتیوں کی آواز سنی ہو گی ؟ اور اسکو عذاب بھی دیا جا رہا ہے جب کے اسکا جسم تو مردہ حالت میں لوگوں کے سامنے ہے ، اب بتاے کیا یہ استثنیٰ ہے ؟ قاعدہ کلیہ ہے ؟ یا پھ غیب ہے ؟
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1307
ابوالولید، شعبہ، عدی بن ثابت، براء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابراہیم وفات پا گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ان کے لئے ايک دودھ پلانے والی ہے
اب بتاے قبر جنّت میں ہے یا جنّت قبر میں ؟