• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامات قيامت شيخ عريفى كى كتاب نهاية العالم سے ماخوذ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
115-جہجاہ نامی ایک شخص کا ظاہر ہونا:


آخری زمانے میں کچھ ایسے شخص ظاہر ہوں گے جن کا لوگوں میں بہت اثر و رسوخ اور چرچا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے بعض کے نام اور بعض کے اوصاف بھی بتلائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی کہ ایسے افراد میں ایک کا نام جہجاہ ہوگا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَذْهَبُ الْأَيَّامُ وَاللَّيَالِي حَتّٰی يَمْلِکَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ الْجَهْجَاهُ

"دن رات کا سلسلہ اس وقت تک ختم نہ ہوگا جب تک ایک آزاد کردہ غلام کے ہاتھ میں اقتدار نہ آجائے جس کا نام جہجاہ ہوگا۔"

صحیح مسلم، الفتن، حدیث:7290(2911)

اور ایک نسخے میں اس کا نام "جہجل" بھی مذکور ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں: "جہجاہ" کے معنی اصل میں "صیّاح" یعنی زور سے پکارنے والے ہیں۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
116-117-118
درندے، جمادات، کوڑے اور جوتے کے تسمے کا گفتگو کرنا، آدمی کی ران کا اسے گھر والوں کی خبریں بتانا:


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ علامات قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ جنگلی درندے اور وحشی جانور انسانوں سے گفتگو کریں گے۔ کوڑے کی ایک جانب کلام کرے گی۔ جوتے کا تسمہ باتیں کرے گا اور آدمی کی ران بولے گی۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا أَبُونَضْرَةَ الْعَبْدِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُكَلِّمَ السِّبَاعُ الإِنْسَ، وَحَتَّى تُكَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ، وَشِرَاكُ نَعْلِهِ وَتُخْبِرَهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ مِنْ بَعْدِهِ".

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ درندے انسانوں سے گفتگونہ کرنے لگیں، آدمی سے اس کے کوڑے کا ایک سرا گفتگو نہ کرنے لگے ، اس کے جوتے کا تسمہ بات نہ کرلے اوراس کی ران اس کا م کی خبر نہ دینے لگے جو اسکے گھر والوں نے اس کی غیرحاضری میں انجام دیا ہے''۔

جامع الترمذی، الفتن، بَاب مَا جَاءَ فِي كَلاَمِ السِّبَاعِ،حدیث:2181
(صحیح)

"حَتَّى تُكَلِّمَ السِّبَاعُ" یعنی وحشی جانور جیسا کہ شیر، بھیڑیا اور ہر چیر پھاڑ کرنے والا جانور۔

"الإِنْسَ"سے عام انسان مراد ہے خواہ وہ مومن ہو یا کافر۔
"عَذَبَةُ سَوْطِهِ" یعنی کوڑے کا ایک کنارہ اور "السوط" اس کوڑے کو کہتے ہیں جس سے مجرموں کو سزا دی جاتی ہے۔

"شِرَاكُ نَعْلِهِ" یعنی جوتے کے تسموں میں سے ایک تسمہ جس سے جوتا باندھا جاتا ہے۔

ان میں سے دو علامتیں یعنی آدمی سے اس کے کوڑے کے پھندے کا باتیں کرنا اور اس کی ران کا اس کے گھر والوں کے حالات بتانا ایسی علامتیں ہیں جو ابھی ظاہر نہیں ہوئیں۔ واللہ اعلم۔ لیکن ایسا ضرور ہوگا کیونکہ اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب تعالیٰ کی طرف سے دی ہے۔

بعض محققین نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کوڑے کے سرے، جوتے کے تسمے اور انسانی ران کے کلام کرنے سے مراد دراصل ہمارے دور کے جدید ذرائع مواصلات۔ مثلاً: موبائل فون اور ایس ایم ایس وغیرہ کے ذریعے پیغامات ہیں جو خفیہ آوازوں کو بھی پہنچا دیتے ہیں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ علامات اپنے ظاہری معنی کے مطابق واقع ہوں گی اور وہ اس طرح کہ کوڑا، تسمہ اور ران حقیقی طور پر کلام کریں گے۔ واللہ اعلم۔

درندوں کا کلام کرنا عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں واقع ہوچکا ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي حُسَيْنٍ، حَدَّثَنِي شَهْرٌ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ حَدَّثَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " بَيْنَا أَعْرَابِيٌّ فِي بَعْضِ نَوَاحِي الْمَدِينَةِ فِي غَنَمٍ لَهُ عَدَا عَلَيْهِ الذِّئْبُ، فَأَخَذَ شَاةً مِنْ غَنَمِهِ، فَأَدْرَكَهُ الْأَعْرَابِيُّ، فَاسْتَنْقَذَهَا مِنْهُ وَهَجْهَجَهُ، فَعَانَدَهُ الذِّئْبُ يَمْشِي، ثُمَّ أَقْعَى مُسْتَذْفِرًا بِذَنَبِهِ يُخَاطِبُهُ، فَقَالَ: أَخَذْتَ رِزْقًا رَزَقَنِيهِ اللهُ، قَالَ: وَاعَجَبًا مِنْ ذِئْبٍ مُقْعٍ مُسْتَذْفِرٍ بِذَنَبِهِ، يُخَاطِبُنِي فَقَالَ: وَاللهِ إِنَّكَ لَتَتْرُكُ أَعْجَبَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: وَمَا أَعْجَبُ مِنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النخلات بَيْنَ الْحَرَّتَيْنِ يُحَدِّثُ النَّاسَ عَنْ نَبَإِ مَا قَدْ سَبَقَ، وَمَا يَكُونُ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَ: فَنَعَقَ الْأَعْرَابِيُّ بِغَنَمِهِ حَتَّى أَلْجَأَهَا إِلَى بَعْضِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ مَشَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ضَرَبَ عَلَيْهِ بَابَهُ، فَلَمَّا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَيْنَ الْأَعْرَابِيُّ صَاحِبُ الْغَنَمِ؟ " فَقَامَ الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَدِّثِ النَّاسَ بِمَا سَمِعْتَ وَمَا رَأَيْتَ "، فَحَدَّثَ الْأَعْرَابِيُّ النَّاسَ بِمَا رَأَى مِنَ الذِّئْبِ وَسَمِعَ مِنْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: " صَدَقَ، آيَاتٌتَكُونُقَبْلَ السَّاعَةِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ أَحَدُكُمْ مِنْ أَهْلِهِ، فَتُخْبِرَهُ نَعْلُهُ أَوْ سَوْطُهُ أَوْ عَصَاهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ "


سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ایک بار مدینہ کے نواحی علاقے میں ایک بدو اپنی بکریا ں چرا رہا تھا کہ اچانک ایک بھیڑیا اس کے ریوڑ پر حملہ آور ہوا اور اس نے اس کی ایک بکری چرا لی۔ اعرابی نے بھیڑیے کا پیچھا کیا اور اس سے بکری چھڑا لی اور اسے ڈانٹا، بھیڑیے نے اس پر مزاحمت کی اور اپنی دم کھڑی کرکے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ اعرابی کو مخاطب کرتے ہوئے بھیڑیا یوں گویا ہوا: تم نے اللہ کا عطا کردہ رزق مجھ سے چھین لیا؟ اعرابی نے کہا: کتنی عجیب بات ہے! بھیڑیا دم کھڑی کرکے مجھ سے مخاطب ہورہا ہے۔ یہ سن کر بھیڑیے نے کہا: اللہ کی قسم! تم اس سے زیادہ عجیب بات کا مشاہدہ کرو گے۔ اعرابی نے پوچھا: اس سے زیادہ عجیب بات کیا ہے؟
بھیڑیا کہنے لگا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے دو باغوں میں دو پتھریلی زمینوں کے درمیان لوگوں کو گزرے ہوئے زمانے کی باتیں بتا رہے ہیں اور آنے والے حالات کے بارے میں بھی مطلع کررہے ہیں۔ یہ سنتے ہی اعرابی نے اپنی بکریوں کو آواز دی اور انہیں مدینہ کے پاس لے آیا۔ پھر انہیں چھوڑ کرنبی کریً صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا اور اس نے آپ کے دروازے پر دستک دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے توفرمایا: بکریوں والا اعرابی کہا ہے؟ اعرابی اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو کچھ تم نے سنا اور دیکھا ہے وہ لوگوں کو بتاؤ۔"
اعرابی نے بھیڑیے والا پورا واقعہ اور اس کی گفتگو سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آگاہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا:
"اعرابی نے سچ کہا، کچھ علامات ایسی ہیں جو قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گی، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک یہ حالت نہ ہوجائے کہ تمہارا ایک شخص اپنے گھر سے نکلے گا تو اس کا جوتا، کوڑا یا لاٹھی اسے بتائے گا کہ تمہارے جانے کے بعد تمہارے گھر والے کیا کچھ کرتے رہے تھے۔"

مسند احمد:11841
البدایۃ النھایۃ:6-144

إسناده ضعيف لضعف شهر: وهو ابن حوشب، وبقية رجاله ثقات رجال الشيخين. أبو اليمان: هو الحكم بن نافع الحمصي، وشعيب: هو ابن أبي حمزة، وعبد الله بن أبي حسين: هو عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي حسين القرشي

قال ابن كثير عَلَى شَرْطِ أَهْلِ السُّنَنِ وَلَمْ يُخْرِجُوهُ

اسی طرح گائے کا کلام کرنا بھی واقع ہوچکا ہے:

أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "بَيْنَمَا رَاعٍ فِي غَنَمِهِ عَدَا عَلَيْهِ الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً فَطَلَبَهُ الرَّاعِي فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الذِّئْبُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لَيْسَ لَهَا رَاعٍ غَيْرِي،‏‏‏‏ وَبَيْنَمَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً قَدْ حَمَلَ عَلَيْهَا فَالْتَفَتَتْ إِلَيْهِ فَكَلَّمَتْهُ،‏‏‏‏ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنِّي لَمْ أُخْلَقْ لِهَذَا وَلَكِنِّي خُلِقْتُ لِلْحَرْثِ"، قَالَ:‏‏‏‏ النَّاسُ سُبْحَانَ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فَإِنِّي أُومِنُ بِذَلِكَ وَأَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا".


"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ بھیڑیا آ گیا اور ریوڑ سے ایک بکری اٹھا کر لے جانے لگا۔ چرواہے نے اس سے بکری چھڑانی چاہی تو بھیڑیا بول پڑا۔ درندوں والے دن میں اس کی رکھوالی کرنے والا کون ہو گا جس دن میرے سوا اور کوئی چرواہا نہ ہو گا۔ اسی طرح ایک شخص بیل کو اس پر سوار ہو کر لیے جا رہا تھا، بیل اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا کہ میری پیدائش اس کے لیے نہیں ہوئی ہے۔ میں تو کھیتی باڑی کے کاموں کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔ وہ شخص بول پڑا۔ سبحان اللہ! (جانور اور انسانوں کی طرح باتیں کرے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان واقعات پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بن خطاب بھی۔"

صحیح بخاری،كتاب فضائل الصحابة،حدیث: 3663


حدیث میں درندوں اور وحشی جانوروں کے کلام کرنے کا جو ذکر آیا ہے تو اس سے مراد اصلی اور حقیقی معنوں میں کلام ہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:

يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

وہ (اپنی) مخلوقات میں جو چاہتا ہے، بڑھاتا ہے، اللہ تعالٰی یقیناً ہرچیز پر قادر ہے۔
الفاطر، 1:35
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
120-121
قیامت سے پہلے اسلام کا دنیا سے معدوم ہوجانا-
قرآن مجید کا مصاحف اور سینوں سے اٹھا لیا جانا:



قرب قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ اسلام معدوم ہوجائے گا اور اس کی تعلیمات اور شعائر، گناہوں اور جہالت کے باعث مٹ جائیں گے۔ لوگوں میں نماز اور روزہ باقی نہ رہے گا۔ لوگوں کے سینوں سے قرآنِ مجید اٹھا لیا جائے گا حتیٰ کہ روئے زمین پر قرآن کی ایک بھی آیت باقی نہیں رہے گی۔ لوگوں میں جہالت اس قدر زیادہ ہوجائے گی کہ بوڑھے مرد اور عورتیں کہیں گے کہ ہم نے تو اپنے آباء و اجداد کو کلمہ لا الہ الا اللہ کہتے ہوئے سنا تھا، اسی لیے ہم بھی یہ کلمہ پڑھتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ،‏‏‏‏ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ،‏‏‏‏ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَدْرُسُ الْإِسْلَامُ كَمَا يَدْرُسُ وَشْيُ الثَّوْبِ،‏‏‏‏ حَتَّى لَا يُدْرَى مَا صِيَامٌ،‏‏‏‏ وَلَا صَلَاةٌ،‏‏‏‏ وَلَا نُسُكٌ،‏‏‏‏ وَلَا صَدَقَةٌ،‏‏‏‏ وَلَيُسْرَى عَلَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي لَيْلَةٍ،‏‏‏‏ فَلَا يَبْقَى فِي الْأَرْضِ مِنْهُ آيَةٌ،‏‏‏‏ وَتَبْقَى طَوَائِفُ مِنَ النَّاسِ،‏‏‏‏ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْعَجُوزُ،‏‏‏‏ يَقُولُونَ:‏‏‏‏ أَدْرَكْنَا آبَاءَنَا عَلَى هَذِهِ الْكَلِمَةِ،‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ فَنَحْنُ نَقُولُهَا"،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ صِلَةُ:‏‏‏‏ مَا تُغْنِي عَنْهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ وَهُمْ لَا يَدْرُونَ مَا صَلَاةٌ،‏‏‏‏ وَلَا صِيَامٌ،‏‏‏‏ وَلَا نُسُكٌ،‏‏‏‏ وَلَا صَدَقَةٌ ؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ حُذَيْفَةُ،‏‏‏‏ ثُمَّ رَدَّهَا عَلَيْهِ ثَلَاثًا،‏‏‏‏ كُلَّ ذَلِكَ يُعْرِضُ عَنْهُ حُذَيْفَةُ،‏‏‏‏ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فِي الثَّالِثَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا صِلَةُ تُنْجِيهِمْ مِنَ النَّارِ،‏‏‏‏ ثَلاثًا.

حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کو اس طرح مٹا دیا جائے گا جیسے کپڑے کے نقش و نگار مٹ جاتے ہیں، حتیٰ کہ یہ جاننے والے بھی باقی نہ رہیں گے کہ نماز، روزہ، قربانی اور صدقہ و زکاۃ کیا چیز ہے؟ اور قرآن مجید کو ایک رات میں اٹھا لیا جائے گا حتیٰ کہ روئے زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہ رہ جائے گی ۱؎، اور لوگوں کے چند گروہ ان میں سے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں باقی رہ جائیں گے، کہیں گے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو یہ کلمہ «لا إله إلا الله» کہتے ہوئے پایا، تو ہم بھی اسے پڑھ لیتے ہیں۔
صلہ بن زفرنے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: جب انہیں یہ نہیں معلوم ہو گا کہ نماز، روزہ، قربانی اور صدقہ و زکاۃ کیا چیز ہے تو انہیں فقط یہ کلمہ «لا إله إلا الله» کیا فائدہ پہنچائے گا؟ تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان سے منہ پھیر لیا، پھر انہوں نے تین بار یہ بات ان پر دہرائی لیکن وہ ہر بار ان سے منہ پھیر لیتے، پھر تیسری مرتبہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے صلہ! یہ کلمہ ان کو جہنم سے نجات دے گا، اس طرح تین بار کہا“


سنن ابن ماجہ،كتاب الفتن،حدیث: 4049

يَدْرُسُ معنی ہیں کہ معدوم کردیا جائے گا اور مٹا دیا جائے گا، حتیٰ کہ اسلام کی کوئے چیز باقی نہ بچے گی۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں اسلام کے تمام ظاہری شعار اور نشانات ختم ہوجائیں گے۔

وَشْيُ الثَّوْبِ کپڑوں کے نقش و نگار جو مختلف رنگوں سے کپڑے پر بنائے جاتے ہیں مگر کثرت استعمال اور بار بار دھونے سے وہ آہستہ آہستہ مٹ جاتے ہیں۔

وَلَيُسْرَى عَلَى كِتَابِ اللَّهِ‏‏‏ یعنی قرآن مجید کو سینوں اور مصاحف سے اٹھا لیا جائے گا اور یہ ایسے وقت میں ہوگا جب لوگ قرآن سے غفلت کریں گے، اس کی تلاوت اور اس کے ذریعے عبادت کرنا چھوڑ دیں گے۔

یہ علامت تاحال ظاہر نہیں ہوئی اور دین اسلام الحمد للہ مسلسل پھیل اور بڑھ رہا ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
122- بیت اللہ پر حملہ آور لشکر کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا:


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ ایک لشکر بیت اللہ پر حملہ کرے گا، وہ قریش کے ایک شخص یعنی امام مہدی کو گرفتار کرنا چاہتا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اول سے آخر تک اس سارے لشکر کو زمین میں دھنسا دے گا۔ اس لشکر میں مختلف قسم کے لوگ ہوں گے اور پھر ان لوگوں کو ان کی نیتوں کے مطابق (روزِ قیامت) اٹھایا جائے گا۔

عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ابْنِ الْقِبْطِيَّةِ قَالَ دَخَلَ الْحَارِثُ بْنُ أَبِى رَبِيعَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ وَأَنَا مَعَهُمَا عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ فَسَأَلاَهَا عَنِ الْجَيْشِ الَّذِى يُخْسَفُ بِهِ وَكَانَ ذَلِكَ فِى أَيَّامِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فَقَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « يَعُوذُ عَائِذٌ بِالْبَيْتِ فَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ فَإِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الأَرْضِ خُسِفَ بِهِمْ ». فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ بِمَنْ كَانَ كَارِهًا قَالَ « يُخْسَفُ بِهِ مَعَهُمْ وَلَكِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى نِيَّتِهِ ».

عبید اللہ بن قبطیہ بیان کرتے ہیں کہ حارث بن ابی ربیعہ اور عبد اللہ بن صفوان اور میں، ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئِے ، ان دونوں نے آپ سے اس لشکر کے بارے میں سوال کیا جس کو زمین میں دھنسادیا جائے گا۔ یہ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا (اور وہ بیت اللہ میں محصور تھے)، ام المؤمنین نے کہا: رسول اللہﷺنے فرمایا تھا:
"ایک پناہ لینے والا بیت اللہ کی پناہ لے گا ، اس کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا ، جب وہ لشکر ہموار زمین میں پہنچے گا تو اس کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا "، میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! جو اس لشکر میں زبردستی بھیجا گیا ہو؟ آپﷺنے فرمایا: "اس کو بھی دھنسا دیا جائے گا ، لیکن قیامت کے دن اس کو اس کی نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا۔"

صحیح مسلم، الفتن،حدیث:7240(2882)


لوگوں کو ان کی نیت کے مطابق اٹھانے کا سبب یہ ہے کہ ان میں کوئی مجبوراً آیا ہوگا، کوئی نوکر چاکروں میں سے ہوگا، کوئی گاڑی بان ہوگا اور کوئی منڈی لگانے اور سودا بیچنے والا ہوگا، اس لیے ہر ایک سے اس کی نیت کے مطابق ہی معاملہ کیا جائے گا۔ ان تمام لوگوں کو شریروں کی صحبت کی نحوست کی وجہ سے ہلاک کیا جائے گا۔ یعنی دنیا میں یہ ہلاکت و بربادی ساتھ ہونے کی وجہ سے ہوگی، جبکہ روزِ قیامت اپنے اپنے قصد و ارادہ اور نیت کے مطابق ان سے حساب لیا جائے گا۔ یہ حدیث پاک اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ برے لوگوں کی صحبت اور رفاقت سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ جو شخص اپنی مرضی سے معصیت و نافرمانی میں کسی قوم کا ساتھ دے اور ان کی تعداد بڑھانے کا سبب بنے تو وہ بھی ان کے ساتھ عذاب کی لپیٹ میں آجائے گا۔ نیز اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس لشکر کو کعبہ تک پہنچنے سے قبل ہی زمین میں دھنسا دے گا۔

اس سلسلے میں وارد تمام روایات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بیت اللہ میں پناہ لینے والے امام مہدی محمد بن عبداللہ ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے گا اور حملہ آور لشکر کو زمین میں دھنسا دے گا۔


أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ عَبِثَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى مَنَامِهِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَنَعْتَ شَيْئًا فِى مَنَامِكَ لَمْ تَكُنْ تَفْعَلُهُ. فَقَالَ« الْعَجَبُ إِنَّ نَاسًا مِنْ أُمَّتِى يَؤُمُّونَ بِالْبَيْتِ بِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدْ لَجَأَ بِالْبَيْتِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ ». فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الطَّرِيقَ قَدْ يَجْمَعُ النَّاسَ. قَالَ « نَعَمْ فِيهِمُ الْمُسْتَبْصِرُ وَالْمَجْبُورُ وَابْنُ السَّبِيلِ يَهْلِكُونَ مَهْلَكًا وَاحِدًا وَيَصْدُرُونَ مَصَادِرَ شَتَّى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ ».

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے نیندسے گھبرا کر اٹھ بیٹھے،میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ آج نیند سے خلاف معمول اٹھ بیٹھے ہیں! ،آپﷺنے فرمایا:" میں نے آج ایک عجیب چیز دیکھی ہے ، میری امت کے کچھ لوگ قریش کے ایک آدمی (کو پکڑنے) کے لیے بیت اللہ کا ارادہ کریں گے ، جس نے بیت اللہ میں پناہ لی ہوئی ہوگی ، یہاں تک کہ جب وہ میدان میں پہنچیں گے تو ان کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا "، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺّ! راستہ میں تو سب لوگ جمع ہوتے ہیں ، آپﷺنے فرمایا:"ہاں! ان میں بااختیار ، مجبور اور مسافر بھی ہوں گے ، وہ سب ایک ساتھ ہلاک ہوجائیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کے اعتبار سے ان کو الگ الگ اٹھائے گا۔"

صحیح مسلم، الفتن،حدیث:7244(2884)

ایک اور روایت میں ہے کہ:

حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَغْزُو جَيْشٌ الْكَعْبَةَ،‏‏‏‏ فَإِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ يُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ كَيْفَ يُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ،‏‏‏‏ وَفِيهِمْ أَسْوَاقُهُمْ وَمَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ،‏‏‏‏ ثُمَّ يُبْعَثُونَ عَلَى نِيَّاتِهِمْ".

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرے گا۔ جب وہ ایک کھلے میدان میں پہنچے گا تو انہیں اول سے آخر تک سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ! ان تمام کو کیوں کر دھنسایا جائے گا جب کہ وہیں ان کے بازار بھی ہوں گے اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو ان لشکریوں میں سے نہیں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! ان سب کو دھنسا دیا جائے گا۔ پھر ان کی نیتوں کے مطابق وہ اٹھائے جائیں گے۔

صحیح بخاری،كتاب البيوع،حدیث: 2118

امام مہدی اور ان کے واقعات کا ذکر آگے آئے گا۔ (دیکھیے علاماتِ صغریٰ نمبر:131)
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
123-بیت اللہ کے حج کا متروک ہوجانا:


آخری زمانے میں جہاں بہت سے فتنے رونما ہوں گے اور دین کا راستہ روکنے کی کوششیں کی جائیں گی، وہاں کعبہ پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ حج اور عمرہ معطل ہوجائے گا۔

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُحَجَّ الْبَيْتُ

قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک بیت اللہ کا حج موقوف نہ ہو جائے۔

صحیح بخاری،كتاب الحج،حدیث: 1593

یہ علامت بہت تاخیر سے واقع ہوگی، اس لیے کہ نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ خروجِ یاجوج ماجوج کے بعد بھی حج جاری رہے گا۔

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


"لَيُحَجَّنَّ الْبَيْتُ وَلَيُعْتَمَرَنَّ بَعْدَ خُرُوجِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ"

"بیت اللہ کا حج اور عمرہ یاجوج اور ماجوج کے خروج کے بعد بھی ہوتا رہے گا۔"

صحیح بخاری،كتاب الحج،حدیث: 1593

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک بیت اللہ کا حج موقوف نہ ہوجائے" کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک مدت تک جنگوں اور فسادات کی وجہ سے بیت اللہ کا حج موقوف رہے گا اور پھر جاری ہوجائے گا، یا اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ کچھ قومیں لوگوں کو بیت اللہ کا حج کرنے سے زبردستی روک دیں گی۔ واللہ اعلم۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
124-بعض قبائلِ عرب کا دوبارہ بتوں کی پوجا شروع کرنا


جزیرۃ العرب میں شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو توفیق دی اور اپنے لشکروں سے ان کی مدد کی حتیٰ کہ انہوں نے تمام بتوں کا خاتمہ کردیا اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا علم بلند کردیا۔ لیکن قیامت کے قریب لوگوں کے دین سے دور اور علم سے بے نیاز ہونے کی وجہ سے ایک گروہ دوبارہ بتوں کی پوجا شروع کردے گا اور یہ علاماتِ قیامت میں سے ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


"لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ عَلَى ذِي الْخَلَصَةِ"
"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک قبیلہ دوس کی عورتوں کی سرینیں " ذو الخلصہ" کے اردگرد حرکت نہ کرنے لگیں۔"

صحیح بخاری،كتاب الفتن،حدیث: 7116
صحیح مسلم، الفتن، حدیث:2906


ذُو الْخَلَصَةِ ایک بت کا نام ہے جس کی پوجا قبیلہ دوس کے لوگ دور جاہلیت میں کیا کرتے تھے۔

أَلَيَاتُ الیۃ کی جمع ہے اور اس کے معنی انسان کی سرین کے ہیں۔

مطلب یہ کہ ان خواتین کی سرینیں "ذوالخلصہ" کے گرد طواف کرنے کے باعث متحرک نظر آئیں گی، یعنی اس قبیلے کے لوگ اسلام سے مرتد ہوکر بتوں کی پوجا اور ان کی تعظیم کی طرف لوٹ جائیں گے۔

قبیلہ دوس کے مقامات جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مغرب میں واقع ہیں۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
125-قبیلہ قریش کا مکمل طور پر ختم ہوجانا:


قبیلہ قریش عرب قبائل میں سے معروف ترین قبیلہ ہے۔ اس قبیلے کے لوگ فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ کی اولاد ہیں۔ قریش ایک لقب ہے جس سے ان کی اولاد مشہور ہوئی۔ لفظِ "قریش" 'تقارش' سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی تجارت کے ہیں۔ یہ لوگ تجارت پیشہ تھے، اس لیے قریش کے لقب سے مشہور ہوئے۔

قریش کی بہت سے شاخیں ہیں: ان میں بنو حارث بن فہر، بنو جذیمہ، بنو عائذہ، بنو لؤی بن غالب، بنو عامر بن لؤی، بنو عدی بن کعب بن لؤی، بنو مخزوم، بنو تمیم بن مرہ، بنو زہرہ بن کلاب، بنو اسد بن عبدالعزی، بنو عبدالدار، بنو نوفل، بنو عبدالمطلب، بنو امیہ اور بنو ہاشم وغیرہ شامل ہیں۔

اسلام کی آمد کے بعد قبیلہ قریش کے لوگ بہت سی شاخوں میں بٹ گئے، جیسے: بکری، عمری، عثمانی اور علوی وغیرہ-
ان کا اصل مسکن جزیرہ نمائے عرب ہے لیکن بعد میں یہ لوگ بہت پھیل گئے اور زمین کے مختلف حصوں میں کئی ممالک کو انہوں نے آباد کیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ قریش بتدریج کم ہوتے جائیں گے حتیٰ کہ ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی یا بالکل ختم ہوجائے گی۔


حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَسْرَعُ قَبَائِلِ الْعَرَبِ فَنَاءً قُرَيْشٌ، وَيُوشِكُ أَنْ تَمُرَّ الْمَرْأَةُ بِالنَّعْلِ، فَتَقُولَ: إِنَّ هَذَا نَعْلُ قُرَشِيٍّ "

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" عرب کے قبائل میں سب سے جلد ختم ہونے والا قبیلہ قریش ہے۔ قریب ہے کہ کوئی عورت ایک جوتے کے پاس سے گزرے اور کہے کہ یہ ایک قریشی کا جوتا ہے۔"


مسند احمد:8437

إسناده صحيح على شرط مسلم، عمر بن سعد -وهو أبو داود الحفري- وسعد بن طارق من رجاله، وباقي رجال الِإسناد من رجال الشيخين. أبو حازم: هو سليمان الأشجعي

اس امر کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا:

يَا عَائِشَةُ، قَوْمُكِ أَسْرَعُ أُمَّتِي بِي لَحَاقًا

" اے عائشہ! میرے دنیا سے جانے کے بعد امت میں سب سے پہلے مجھے تمہاری قوم (قریش) آ کر ملے گی۔"

مسند احمد:24519
وسلسلة الأحاديث الصحيحة:1953
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
126-حبشہ کے ایک آدمی کے ہاتھوں کعبہ کی بربادی:


علامات قیامت میں سے مسلمانوں کے قبلہ کعبہ مشَّرفہ کا انہدام بھی ہے۔ اسے آخری زمانے میں ایک کالا حبشی شخص منہدم کرے گا جس کا نام ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ (دو چھوٹی پنڈلیوں والا) ہوگا۔ اس کا یہ نام اس کی پنڈلیوں کے چھوٹے اور باریک ہونے کی وجہ سے ہوگا۔ وہ کعبہ کے ایک ایک پتھر کو گرا دے گا، اس کے غلاف کو اتار دے گا اور اس کے زیورات کو لوٹ لے گا۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ أَحْمَدَ الْبَغْدَادِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ،‏‏‏‏ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَيْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حَنِيفٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "اتْرُكُوا الْحَبَشَةَ مَا تَرَكُوكُمْ فَإِنَّهُ لَا يَسْتَخْرِجُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ إِلَّا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ الْحَبَشَةِ".

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل حبشہ کو چھوڑے رہو جب تک وہ تمہیں چھوڑے ہوئے ہیں، کیونکہ کعبہ کے خزانے کو سوائے ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ حبشی کے کوئی اور نہیں نکالے گا۔"

سنن أبي داود،كتاب الملاحم،حدیث: 4309
صحیح


ایک دوسری روایت میں ہے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ الْحَبَشَةِ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا ایک حبشی برباد کر دے گا۔“

صحیح بخاری،كتاب الحج،حدیث : 1591

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

"كَأَنِّي بِهِ أَسْوَدَ أَفْحَجَ يَقْلَعُهَا حَجَرًا حَجَرًا".

”گویا میری نظروں کے سامنے وہ پتلی ٹانگوں والا سیاہ آدمی ہے جو خانہ کعبہ کے ایک ایک پتھر کو اکھاڑ پھینکے گا۔“

صحیح بخاری، كتاب الحج ،حدیث : 1595

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ وَهُوَ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ، وَيَسْلُبُهَا حِلْيَتَهَا، وَيُجَرِّدُهَا مِنْ كِسْوَتِهَا، وَلَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ أُصَيْلِعَ أُفَيْدِعَ، يَضْرِبُ عَلَيْهَا بِمِسْحَاتِهِ وَمِعْوَلِهِ "


سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کعبے کو چھوٹی اور پتلی پنڈلیوں والا ایک حبشی برباد کردے گا، وہ اس کے زیورات کو لوٹ لے گا اور اسے غلاف سے محروم کردے گا۔ میں گویا اس کو دیکھ رہا ہوں: گنجا، ٹیٹرھے ہاتھ پاؤں والا، کعبہ کو اپنے بیلچے اور کدال کے ذریعے سے ڈھا رہا ہے۔"


مسند احمد:7053
بعضه مرفوع صحيح، وبعضه يروى مرفوعاً وموقوفاً، والموقوف أصح
إسناد ضعيف. محمد بن إسحاق: مدلس، وقد عنعن، لكنه توبع، وباقي رجاله ثقات رجال الصحيح. محمد بن سلمة: هو الباهلي الحراني، وابنُ أبي نجيح: هو عبد الله.
وأخرجه بنحوه أبو داود (٤٣٠٩) عن القاسم بن أحمد البغدادي، والحاكم ٤/٤٥٣ من طريق أحمد بن حبان بن ملاعب، كلاهما عن أبي عامر (يعني العقدي) ، عن زهير بن محمد (هو التميمي العنبري) ، عن موسى بن جبير، عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قال: "اتركوا الحبشة ما تركوكم، فإنه لا يستخرج كنْز الكعبة إلا ذو السويقتين من الحبشة" وصححه الحاكم، ووافقه الذهبي


أُصَيْلِعَ یہ اصلع کی تصغیر ہے، یعنی اس کے سر پر بال نہیں ہوں گے۔

أُفَيْدِعَ جوڑوں میں ٹیڑھا پن۔ گویا وہ اپنی جگہ سے ہٹے ہوئے ہوں۔

بِمِسْحَاتِهِ یعنی اپنے پھاؤڑے سے گرائے گا۔ پھاؤڑا لوہے کا ایک آلہ ہے جو زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔

المِعْوَلِ کدال، لوہے کا ایک آلہ جس سے پتھروں میں کھدائی کی جاتی ہے۔

ایک اشکال:
یہاں لوگوں کے ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ حبشی کعبہ کو کیسے گرائے گا جبکہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو امن والا حرم بنایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَ‌مًا آمِنًا

"کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو با امن بنا دیا ہے"
العنکبوت،67:29

أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَ‌مًا آمِنًا

"کیا ہم نے انہیں امن و امان اور حرمت والے حرم میں جگہ نہیں دی؟"
القصص، 57:28

نیز ارشادِ الٰہی ہے:

وَمَن يُرِ‌دْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
"جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے"
الحج، 25:22

سوال: اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی ہاتھی والوں سے اس وقت حفاظت فرمائی، جب مکہ والے کافر اور مشرک تھے تو اب اس شخص کو کعبہ پر کس طرح مسلط کیا جائے گا، جبکہ وہ مسلمانوں کا قبلہ ہے؟
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ بیت اللہ قرب قیامت تک امن والے حرم کی حیثیت سے محفوظ رہے گا، قیامت قائم ہونے اور دنیا کے تباہ ہونے تک نہیں، آیات میں قیامت کے برپا ہونے تک امن کے باقی رہنے کا ذکر نہیں ہے۔ آیاتِ کریمہ صرف یہ بتا رہی ہیں کہ جب یہ آیات نازل ہورہی تھیں اس زمانے میں حرم بہت امن و حفاظت والی جگہ تھی۔ یہ نہیں فرمایا گیا کہ یہ امن و امان قیامت تک باقی رہے گا۔

دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد میں اشارہ فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب اس گھر کی حرمت کو اس رہنے والے ہی پامال کردیں گے۔


حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَمْعَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يُخْبِرُ أَبَا قَتَادَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "يُبَايَعُ لِرَجُلٍ مَا بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، وَلَنْ يَسْتَحِلَّ الْبَيْتَ إِلَّا أَهْلُهُ، فَإِذَا اسْتَحَلُّوهُ فَلَا تَسْأَلْ عَنْ هَلَكَةِ الْعَرَبِ، ثُمَّ تَأْتِي الْحَبَشَةُ فَيُخَرِّبُونَهُ خَرَابًا لَا يَعْمُرُ بَعْدَهُ أَبَدًا، وَهُمُ الَّذِينَ يَسْتَخْرِجُونَ كَنْزَهُ "

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایک شخص(اس شخص سے مراد امام مہدی ہیں) کی حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کی جائے گی۔ اس گھر کی حرمت کو اس کے رہنے والے ہی پامال کریں گے۔ اور جب ایسا ہوگا تو پھر عربوں کی ہلاکت اور بربادی کے بارے میں پوچھا نہ جائے گا۔ پھر حبشہ سے ایک لشکر آئے گا جو کعبہ کو تباہ و برباد کردے گا۔ اس تباہی کے بعد پھر اللہ کا یہ گھر کبھی آباد نہ ہوسکے گا۔ یہی لوگ اس کا خزانہ بھی نکال کر لے جائیں گے۔"

مسند احمد:7910
إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين غيرَ سعيد بن سمعان، فقد روى له البخاري في "القراءة خلف الإِمام" وأصحابُ السنن غيرَ ابن ماجه، وهو ثقة. ابن أبي ذئب: هو محمد بن عبد الرحمن بن المغيرة بن الحارث

واقعہ اصحاب فیل کے زمانے میں مکہ والے کافر تو تھے مگر بیت اللہ کی تعظیم کرتے تھے۔ اور اس کی حرمت پامال نہیں کرتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو ابرہہ اور اس کے لشکر سے بچا لیا۔ جہاں تک حبشی ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ کا معاملہ ہے تو وہ کعبہ کو گرانے میں اس وقت کامیاب ہوسکے گا جب مقامی لوگ بھی کعبہ کی حرمت کو پامال کرنا شروع کر دیں گے اور اس کی حرمت کا پاس نہیں کریں گے، جب وہ بیت اللہ کی خدمت اور اہتمام سے پہلوتہی کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے گا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
آپ کی اس علمی محنت کو اللہ تعالی قبول فرما کر ۔۔آپ کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے
اور قارئین کیلئے مفید اور نفع بخش بنائے ۔۔آمین
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
127-مومنوں کی روحوں کو قبض کرنے کے لیے ایک پاکیزہ ہوا کا چلنا:


جب یکے بعد دیگرے علاماتِ قیامت ظاہر ہو جائیں گی اور علامات کبریٰ بھی ظاہر ہوجائیں گی، جیسے خروج دجال اور نزولِ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام تو قیامت بہت قریب آجائے گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو مومنین کی روحیں قبض کرلے گی تاکہ وہ قیامت کے وقت پیدا ہونے والے خوف اور گھبراہٹ سے محفوظ رہ سکیں۔ کیونکہ قیامت صرف بدترین لوگوں پر قائم ہوگی۔

سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے ایک صبح دجال کا ذکر کیا اور ایک لمبی حدیث بیان فرمائی حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ فرمائے:

"فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ"

"وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اچانک اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جوانہیں بغلوں کے نیچے محسوس ہو گی اور وہ ہر مومن اور ہر مسلم کی روح قبض کرلے گی اور روئے زمین پر صرف برے اور شریر لوگ باقی رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح کھلے عام جماع کریں گے (یعنی مرد عورتوں کے ساتھ اس طرح سرے عام بدکاری کریں گے جس طرح گدھے کرتے ہیں) ، انہی پر قیامت قائم ہوگی ۔"

صحیح مسلم، الفتن، حدیث:7373(2937)

سیدنا عبداللہ بن عَمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يَخْرُجُ الدَّجَّالُ۔۔۔۔۔۔۔ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ رِيحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّأْمِ فَلاَ يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ أَحَدٌ فِى قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ أَوْ إِيمَانٍ إِلاَّ قَبَضَتْهُ حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ دَخَلَ فِى كَبَدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْهُ عَلَيْهِ حَتَّى تَقْبِضَهُ ».

دجال نکلے گا۔۔۔۔۔۔، پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ایسی ٹھنڈی ہوا بھیجے گا جو روئے زمین کے ہر اس آدمی کی روح کو قبض کرلے گی جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان یا خیر ہوگی،صورت حال یہ ہوگی کہ اگر ان میں سے کوئی پہاڑ کے اندر داخل ہوگیا تو وہ اس میں بھی اس تک پہنچ کر اسے قبض کر کے ہی چھوڑے گی،

صحیح مسلم، الفتن، حدیث:7381(2940)

یہ ہوا دجال کے قتل اور سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی وفات کے بعد چلے گی۔
 
Top