عبدہ بھائی ایک ہی بات کے تکرار سے بہتر ہے کہ اپنا موقف دلیل کے ساتھ پیش کریں۔
میں نے شروع میں لکھا ہے کہ مجھے معلومات نہیں مگر دونوں کے دلائل کا موازنہ کرنا چاہتا ہوں
البتہ یہ بھی لکھا تھا کہ میرے خیال میں چونکہ شرک کہنے والے بھی علماء ہیں اور جائز کہنے والے بھی علماء ہیں تو میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ حتی الامکان تطبیق دی جائے پس میں نے اوپر لکھا تھا کہ جس طرح سماع موتی پر کچھ علماء شرک کہتے ہیں اور کچھ بدعت تو اصل میں شرک کہنے والے کسی اور پہلو سے کہ رہے ہوتے ہیں اور بدعت کہنے والے کسی اور پہلو سے کہ رہے ہوتے ہیں
اسی طرح توسل کو کچھ شرک کہتے ہیں جیسے محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ نے اکسو نواقض میں لکھا ہے مگر دوسرے پہلو سے کچھ اسکو بدعت بھی کہ رہے ہوتے ہیں
پس میں نے کہا تھا کہ پہلے انکی وجوہات یا علت کو فائنل کر دیا جائے تاکہ تطبیق آسان ہو ورنہ دراڑ ڈالنا تو کوئی مشکل کام نہیں
دوسرا میرا اصرار فقہی نقطہ نظر سے ہے اگر آپ کو سمجھا سکوں- وہ یہ کہ محترم عمران بھائی قرآنی تعویذوں کو شرک کہنے والوں کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں پس اسکے لئے فقہی طریقے سے دیکھا جائے تو پہلے ہمیں شرک کہنے والوں کی دلیل کو دیکھنا ہو گا اور پھر اسکا رد کرنا ہو گا پس میرے خیال میں اوپر کچھ بھائیوں نے تعویذ لٹکانے کے عموم سے سب کے شرک ہونے کی دلیل پکڑی ہے اب ہم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ جس حدیث میں تعویذ لٹکانے کو شرک کہا گیا ہے اس میں حکم کسی صفت سے مقید تو نہیں پس اس کے لئے حکم کی علت نکالے بغیر چارہ نہیں کیونکہ شرک کہنے والے اسی علت کو قرآنی تعویذ پر متعدی کر رہے ہیں اور پھر محترم عمران بھائی کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ جس علت کو شرک کہنے والے قرآنی تعویذ پر متعدی کرنا چاہتے ہیں وہ علت تو کسی صفت سے متعدی ہے جو قرآنی تعویذ میں نہیں پائی جاتی پس قرآنی تعویذ کو شرک کہنے والوں کو اس علت کو متعدی کرنا درست نہیں
بہنا میں نے شروع میں فقہی زبان استعمال نہیں کی تھی صرف اصرار کر رہا تھا کہ اس طرح چلا جائے تو منزل مل سکتی ہے ورنہ کچھ فائدہ نہیں اب میں نے مسئلہ کو نکالنے کے فقہی طریقے کو لکھ دیا ہے اس میں علماء سے اصلاح کی درخواست ہے