شیخ سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا اس سےمراد یہ ہے کہ ہرشخص کےلئے ایک پیر لازمی ہونا چاہئے جس کی وہ بیعت کرے۔ یا اس سے آپ کی مراد کچھ اور ہے۔
پیری مریدی، گدی نشینی، خانقاہیں اور بیعت کا نظام مل کر جو ایک انسٹی ٹیوٹ بن چکا ہے، میری رائے میں اس پورے اسٹرکچر کا زمین بوس ہو جانا ہمارے دین کا بنیادی تقاضا ہے۔ شیخ سے میری مراد یہ ہے جس طرح ہم کسی کو استاذ بنا کر اس سے دین کا علم حاصل کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں اللہ کے کسی ایسے نیک بندے سے اصلاحی تعلق بھی قائم کرنا چاہیے جو اصلاح قلب اور تزکیہ نفس میں ہماری رہنمائی اور معاونت کر سکے یعنی اللہ کی کسی ولی کی مجلس یا صحبت میں کچھ وقت گزاریں اور اس کی رہنمائی میں اپنی اصلاح کریں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن مجید میں کئی مقامات پر چار فرائض بیان ہوئے ہیں، جن میں ایک تعلیم کتاب اور دوسرا تزکیہ نفس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت معلم بھی تھے اور مربی بھی اور یہی معاملہ صحابہ کا بھی تھا۔ بعد کے زمانوں میں جب اتنی جامعیت نہ رہی تو معلم اور مربی کی تقسیم پیدا ہوئی۔ تابعین ہی کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تقسیم شروع ہو چکی تھی مثلا سعید بن مسیب اور حسن بصری رحمہما اللہ کی مجالس میں باہمی فرق کو ہم علمی اور اصلاحی کی اصطلاحات سے واضح کر سکتے ہیں۔
ماضی قریب کی مثال لینی ہے تو شیخ الکل حضرت نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کا اپنے شاگرد عبد اللہ غزنوی رحمہ اللہ کے بارے یہ قول ہے کہ عبد اللہ نے مجھ سے بخاری سیکھی اور میں نے اس سے نماز۔ اسی طرح شاہ اسمعیل شہید رحمہ اللہ نے سید احمد شہید بریلوی رحمہ اللہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور معروف معنوں میں ان کے مرید کہلائے جبکہ سید احمد شہید رحمہ اللہ نے شاہ اسمعیل شہید رحمہ اللہ سے علم حاصل کیا اور معروف معنوں میں ان کے شاگرد قرار پائے۔ مجاہدین کی یہ تحریک جب پشاور پہنچی تو وہاں یہ دیکھنے میں آیا کہ فجر کی نماز کے بعد سید احمد بریلوی شہید رحمہ اللہ کی اصلاحی مجلس ہوتی تھی جس میں مسند پر تو سید احمد شہید رحمہ اللہ ہوتے جبکہ شاہ اسمعیل شہید سامنے ایک طالب کی حیثیت سے موجود ہوتے تھے۔ اور عصر کے بعد علمی مجلس ہوتی تھی جس میں مسند پر شاہ اسمعیل شہید رحمہ اللہ ہوتے اور سید احمد شہید رحمہ اللہ ایک شاگرد کی حیثیت سے سامنے بیٹھے ہوتے تھے۔