24۔ ہر انسان زندگی کے کسی نہ کسی شعبہ میں مہارت اور قابلیت رکھتا ہے ، اس حوالے سے اپنی صلاحیتوں کی تلاش کیسے ہوئی ؟ نیز اس مہارت اور قابلیت کا تذکرہ بھی کیجیئے۔
میری تعلیم حاصل کرنے کے دوران یہ عادت رہی ہے کہ روزانہ کے لیکچرز کے نوٹس بڑی ذمہ داری کے ساتھ لیتا تھا۔ پھر پیپرز کی تیاری اس طرح کرتا کہ ہر سبجیکٹ کے پورے سلیبس کا خلاصہ ایک یا دو صفحات پر خود تیار کرتا۔ اس تلخیص سے تقریباً میری تیاری ہوجاتی تھی اور پھر عین پیپر سے پہلے اسے ریوائز کرکے پیپر میں بیٹھتا تھا۔
یہ عادت اتنی پکی تھی کہ بعض اوقات تو خلاصہ تیار کرتے کرتے پیپر کا وقت ہوجاتا اور دہرانے کا موقع بھی نہ ملتا۔ لیکن چونکہ سارا خلاصہ خود تیار کیا ہوتا تو وہ مجھے ازبر ہو گیا ہوتا۔
اسی طرح ایک اور بات تھی کہ عموماً طلبہ کو جو مضمون مشکل لگا کرتا میں اسے اپنے لئے چیلنج سمجھتا کہ یہ مشکل کیوں ہے؟ اس میں کیا شے ہے جو لوگوں کو سمجھ نہیں آتی؟ اللہ کا کرنا یہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی دی ذہانت سے وہ چیز میرے لئے آسان ہوجاتی۔
جب تک میں نے ریگولر عصری تعلیم حاصل کی تو میں نے محسوس کیا کہ لڑکوں کو انگلش اور میتھ سب سے مشکل لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اساتذہ کرام کی شفقت ومحنت سے یہ مضامین میرے لئے بہت آسان ہوگئے حتیٰ کہ مجھے یاد ہے کہ میٹرک کے بورڈ کے امتحان میں میرے انگلش میں 150 میں 134 اور میتھ میں 100 میں سے 90 نمبر تھے۔ ایک سوال جلدی میں پورا ہی غلط ہوگیا تھا۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ایف اے کا امتحان میں نے پرائیویٹ دیا تھا، صبح کے وقت میں جامعہ میں پڑھتا تھا۔ ایف اے میں بھی میتھ رکھا تھا کہ لیکن ڈبل پڑھائی اور زیادہ تیاری نہ کر سکنے کی باعث ایک چانس کے ساتھ اسے بمشکل پاس کیا۔
بہرحال مدینہ یونیورسٹی سے واپسی پر جب مجھے تدریس کا موقعہ ملا تو یہاں بھی یہی کام کیا کہ جو سبجیکٹ مجھے پڑھانا ہوتا یہاں اس کا خلاصہ نکالنے کی بجائے مقررہ کتاب کو پڑھ کر، سمجھ کر اسے اپنے الفاظ میں لکھتا، اس کے نقشے بناتا۔ کمپیوٹر استعمال کرنے، اردو، عربی، انگریزی تینوں زبانوں میں تیز ٹائپنگ کی پوری مہارت تھی۔
مجھے جامعہ رحمانیہ میں تدریس کے جتنے اسباق ملے۔ میں نے ان تمام کے بھی ذاتی نوٹس تیار کیے۔ وراثت کا علم ایک ایسا علم ہے کہ عموماً طلبہ کو یہ مشکل لگتا ہے۔ کچھ اس لئے بھی کہ اس کا آدھا حصہ حساب (میتھ) پر مشتمل ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے دوران تو طلبہ کسی نہ کسی تیاری کرکے اس کا امتحان دے دیتے ہیں لیکن بعد میں پریکٹس نہ کرنے کی بنا پر یہ علم بھول جاتا اور ذہن سے نکل جاتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بڑے بڑے اساتذہ اور علماء جو تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، گرائمر، منطق کے بڑے ماہر ہیں، وراثت کے معاملے میں ان سے کوئی سوال کرے تو عموماً سادہ سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہیں اعتماد نہیں ہوتا۔ حدیث مبارکہ کے مطابق بھی سب سے پہلے جس علم کو بھلا دیا جائے گا، دنیا سے اٹھا لیا جائے گا کہ وہ علم وراثت ہے۔ بعض احادیث مبارکہ میں اس علم کو تمام علوم کا نصف بھی قرار دیا گیا ہے، اگرچہ ایسی بعض احادیث کو ضعیف بھی قرار دیا گیا ہے۔
جب میں نے علم وراثت پڑھایا تو اس کے نوٹس اس طرح تیار کیے کہ وہ ایک تفصیلی درسی کتاب کے شکل اختیار کر گئے۔ اگرچہ وہ کتاب آج تک چھپ نہیں سکی لیکن میرا وراثت کا ذوق بڑھتا چلا گیا۔ اسی دوران وراثت کے معروف مفتی استاد محترم شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ نے بھی وراثت کے ایسے مسئلے جن میں حساب وکتاب زیادہ تھا میرے پاس بھیجنا شروع کر دئیے۔ شروع میں میں جو جواب لکھتا، وہ پہلے استاد محترم کی خدمت میں بھجواتا، جب وہ اسے پاس کرتے تو آگے دیتا۔ بس پھر کیا تھا، استاد محترم اس سلسلے میں مجھ پر اعتماد کرنے لگے اور بہت سارے لوگ وراثت کے متعلق فتویٰ کیلئے میرے پاس آنے لگے۔ وللہ الحمد والمنۃ