محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
18۔شریعت کے نفاذ کےلیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟
شریعت کا نفاذ سب سے پہلے اپنے آپ سے شروع کریں - وضاحت اس امیج میں
لیکن میرے نزدیک توحید اور شرک سے بچاو کی دعوت سب سے اھم ہے کیونکہ !
تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کا خلاصہ صرف ایک اللہ کی عبادت اور شرک کا ردّ تھا، فرمان باری ہے:
﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ ... سورة النحل
کہ ’’ہم نے ہر امت کی طرف رسول بھیجا کہ (اے لوگو!) اللہ کی عبادت اور طاغوت سے بچو۔‘‘
انبیاء علیہم السلام نے بغیر کسی تمہید کے قوم کو توحید کی دعوت دی کیونکہ جب لَا اِلہَ اِلَّا اللہُ کا عقیدہ دل کی گہرائیوں میں گھر کر جائے تو اس کے ساتھ ہی وہ پورا طرزِ زندگی روپذیر ہو جاتا ہے جو اس عقیدہ کی عملی تفسیر ہے۔
رسول ﷲ ﷺ نے بھی لوگوں کو یہی دعوت دی:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ (البقرہ 21/2)
''اے لوگو اپنے رب کی بندگی کرو ۔''
حالانکہ محمد رسول ﷲ ﷺ کے زمانے میں بھی بہت سے اخلاقی، تمدنی ، معاشرتی اور سیاسی مسائل حل طلب تھے۔ خود عرب قوم جہالت ، اخلاقی پستی ، افلاس ، طوائف الملوکی اور خانہ جنگی میں مبتلاتھی۔ رومی اور ایرانی ایمپئر یلزم موجود تھا۔ طبقاتی امتیازات بھی تھے۔ مگر نبی کریم ﷺ نے کسی ایک مسئلہ کی طرف بھی توجہ نہ کی۔ اگر آپ چاہتے تو آسانی سے عرب قبائل کو جمع کرکے ایرانی اور رومی ایمپیئریلزم کا مقابلہ کرتے۔ عرب سرزمین سے ان لوگوں کو باہر نکال دیتے اس طرح عرب اپنی قومیت کے پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آپ کی قیادت تسلیم کرلیتے پھر آپ انہیں توحید کی دعوت دیتے... اس طرح قومیت کی آسان راہ کے ذریعے عرب ﷲ تعالیٰ کے آگے جھک جاتے۔ مگر ﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس راہ پر نہیں ڈالا آپ کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی صدا بلند کرنے کا حکم دیا اور مخالفت پر صبر کرنے کی تلقین کی۔ ﷲ خوب جانتا تھا کہ قومیت کی راہ سے رومی اور ایرانی طاغوت سے نجات تو مل جاتی، مگر ﷲ کی زمین اسلامی قومیت کی بجائے عربی قومیت کے حوالے ہو جاتی اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا جھنڈا اونچا نہ ہوتا۔
لہذا ہرمسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ حسب استطاعت دین قائم کرے ، اور امامت وخلافت بھی اللہ تعالی کے دین کوقائم اورنافذ کرنے کے لیے مشروع کی گئی ہے ، لہذا کوئی بھی یہ خیال اورگمان نہ کرے کہ کسی بھی ملک میں کسی بھی دورمیں امام یا خلیفہ کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دین کومعطل کردیا جائے اور اس میں سستی کی جائے اوراس میں سے کچھ پر عمل نہ کیا جائے۔
موجودہ دور اور اس سے پہلے بھی کچھ ایسے لوگ پائے جاتے ہيں جن کا نظریہ ہے کہ دینی شعائر کواس وقت تک معطل رکھا جائے جب تک کہ خلیفۃ المسلمین اور ایک اسلامی مملکت کا قیام عمل میں نہ لایا جائے ، یہ نظریہ اورقول گمراہی کی سب سے بدترین شکل ہے جوکہ نمازجمعہ اورجماعت اورحج اورجہاد کومعطل کرکے رکھ دیتی ہے ۔
اور اسی طرح زکاۃ کا جمع کرنا بھی معطل قراردیتا ہے اورنہ ہی نماز استسقاء اور اسی طرح نمازعیدین اورمساجد میں اماموں اورمؤذنوں کی تعیین بھی نہیں کی جاسکتی اوراس کے علاوہ اوربھی بہت سے احکام دین کومعطل کرنا چاہتے ہیں یہ نظریہ رکھنے والوں کواللہ تعالی کا یہ فرمان نظر نہیں آتا :
{ تم میں جتنی طاقت و استطاعت ہے اتنا ہی اللہ کا تقوی اختیار کرو } ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو کہاں لے جائيں گے ؟
( میں نے تمہیں جوحکم دیا ہے اس پراپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو )
تو اس لیے اموردین میں سب سے پہلے اہم اہم کاموں کواہمیت دینی چاہیے اور ان کا خیال رکھنا ضروری ہے ، اس لیے ہم اللہ تعالی کے دین کا تفقہ اختیار کريں گے اور اسی طرح عقیدہ توحید کوسب سے زيادہ اہمیت دیں گے پھر اس کے بعد ظاہری اسلامی شعائر پرعمل پیرا ہوکر بعد میں جودوسرے واجبات ہیں ان پر عمل پیرا ہوا جائے گا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی کام سب سے زيادہ اہم ہے ۔
اوراسی طرح ہراس دینی معاملہ پربھی جس پر قدرت وطاقت ہو ، بلکہ اسلامی مملکت کا قیام تو اس وقت ہوا جب ایمان و توحید اورشرک سے نجات اوردین کا تفقہ پیدا ہوچکا تھا جس طرح کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے مندرجہ ذیل فرمان میں بھی ذکر کیا ہے :
{ اللہ تعالی نےتم میں سے ایمان والوں اوراعمال صالحہ کرنے والوں کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں زمین میں حکومت دی جائی گی جس طرح ان سے پہلے لوگوں کی دی گئی اورہم ان کے لیے ان کے لیے پسندکیے گئے دین کوآسان کردینگے ، اورانہیں خوف میں امن دیں گے وہ میری عبادت کرینگے اورمیرے ساتھ شرک نہیں کریں گے } ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تیرہ برس ( 13 ) تک دعوت الی اللہ کا کام کرتے اورلوگوں کوتوحید اورعقیدہ سکھاتے رہے اوران پر وحی کی تلاوت کرتے اورکفار کے ساتھ اچھے انداز میں مجادلہ کرتے رہے اوران کے دی گئئ تکالیف پر صبر کرتے ہوئے اپنی نماز اوراس وقت کی دوسری مشروع عبادت کوبجالاتے رہے ، انہوں نے توتعلیم دین کونہیں چھوڑا حالانکہ مکہ میں اس وقت اسلامی مملکت کا قیام تو نہيں ہوا تھا ۔
پھریہ بھی ہے کہ اسلامی مملکت کے قیام کا عقیدہ کی اساس اوراسلامی معاشرہ قائم ہونے اوراس پر عمل و تربیت اور دین سیکھنے اورقائم کرنے کے بغیر کیسے ممکن ہے ؟ اورجس نے بھی یہ کہا ہے کہ ( اپنے آپ میں اسلامی مملکت قائم کرو توزمین پربھی اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی ) اس نے سچ کہا اوروہ اپنی اس بات میں صادق ہے ۔
شریعت کا نفاذ سب سے پہلے اپنے آپ سے شروع کریں - وضاحت اس امیج میں
لیکن میرے نزدیک توحید اور شرک سے بچاو کی دعوت سب سے اھم ہے کیونکہ !
تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کا خلاصہ صرف ایک اللہ کی عبادت اور شرک کا ردّ تھا، فرمان باری ہے:
﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ ... سورة النحل
کہ ’’ہم نے ہر امت کی طرف رسول بھیجا کہ (اے لوگو!) اللہ کی عبادت اور طاغوت سے بچو۔‘‘
انبیاء علیہم السلام نے بغیر کسی تمہید کے قوم کو توحید کی دعوت دی کیونکہ جب لَا اِلہَ اِلَّا اللہُ کا عقیدہ دل کی گہرائیوں میں گھر کر جائے تو اس کے ساتھ ہی وہ پورا طرزِ زندگی روپذیر ہو جاتا ہے جو اس عقیدہ کی عملی تفسیر ہے۔
رسول ﷲ ﷺ نے بھی لوگوں کو یہی دعوت دی:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ (البقرہ 21/2)
''اے لوگو اپنے رب کی بندگی کرو ۔''
حالانکہ محمد رسول ﷲ ﷺ کے زمانے میں بھی بہت سے اخلاقی، تمدنی ، معاشرتی اور سیاسی مسائل حل طلب تھے۔ خود عرب قوم جہالت ، اخلاقی پستی ، افلاس ، طوائف الملوکی اور خانہ جنگی میں مبتلاتھی۔ رومی اور ایرانی ایمپئر یلزم موجود تھا۔ طبقاتی امتیازات بھی تھے۔ مگر نبی کریم ﷺ نے کسی ایک مسئلہ کی طرف بھی توجہ نہ کی۔ اگر آپ چاہتے تو آسانی سے عرب قبائل کو جمع کرکے ایرانی اور رومی ایمپیئریلزم کا مقابلہ کرتے۔ عرب سرزمین سے ان لوگوں کو باہر نکال دیتے اس طرح عرب اپنی قومیت کے پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آپ کی قیادت تسلیم کرلیتے پھر آپ انہیں توحید کی دعوت دیتے... اس طرح قومیت کی آسان راہ کے ذریعے عرب ﷲ تعالیٰ کے آگے جھک جاتے۔ مگر ﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس راہ پر نہیں ڈالا آپ کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی صدا بلند کرنے کا حکم دیا اور مخالفت پر صبر کرنے کی تلقین کی۔ ﷲ خوب جانتا تھا کہ قومیت کی راہ سے رومی اور ایرانی طاغوت سے نجات تو مل جاتی، مگر ﷲ کی زمین اسلامی قومیت کی بجائے عربی قومیت کے حوالے ہو جاتی اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا جھنڈا اونچا نہ ہوتا۔
لہذا ہرمسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ حسب استطاعت دین قائم کرے ، اور امامت وخلافت بھی اللہ تعالی کے دین کوقائم اورنافذ کرنے کے لیے مشروع کی گئی ہے ، لہذا کوئی بھی یہ خیال اورگمان نہ کرے کہ کسی بھی ملک میں کسی بھی دورمیں امام یا خلیفہ کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دین کومعطل کردیا جائے اور اس میں سستی کی جائے اوراس میں سے کچھ پر عمل نہ کیا جائے۔
موجودہ دور اور اس سے پہلے بھی کچھ ایسے لوگ پائے جاتے ہيں جن کا نظریہ ہے کہ دینی شعائر کواس وقت تک معطل رکھا جائے جب تک کہ خلیفۃ المسلمین اور ایک اسلامی مملکت کا قیام عمل میں نہ لایا جائے ، یہ نظریہ اورقول گمراہی کی سب سے بدترین شکل ہے جوکہ نمازجمعہ اورجماعت اورحج اورجہاد کومعطل کرکے رکھ دیتی ہے ۔
اور اسی طرح زکاۃ کا جمع کرنا بھی معطل قراردیتا ہے اورنہ ہی نماز استسقاء اور اسی طرح نمازعیدین اورمساجد میں اماموں اورمؤذنوں کی تعیین بھی نہیں کی جاسکتی اوراس کے علاوہ اوربھی بہت سے احکام دین کومعطل کرنا چاہتے ہیں یہ نظریہ رکھنے والوں کواللہ تعالی کا یہ فرمان نظر نہیں آتا :
{ تم میں جتنی طاقت و استطاعت ہے اتنا ہی اللہ کا تقوی اختیار کرو } ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو کہاں لے جائيں گے ؟
( میں نے تمہیں جوحکم دیا ہے اس پراپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو )
تو اس لیے اموردین میں سب سے پہلے اہم اہم کاموں کواہمیت دینی چاہیے اور ان کا خیال رکھنا ضروری ہے ، اس لیے ہم اللہ تعالی کے دین کا تفقہ اختیار کريں گے اور اسی طرح عقیدہ توحید کوسب سے زيادہ اہمیت دیں گے پھر اس کے بعد ظاہری اسلامی شعائر پرعمل پیرا ہوکر بعد میں جودوسرے واجبات ہیں ان پر عمل پیرا ہوا جائے گا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی کام سب سے زيادہ اہم ہے ۔
اوراسی طرح ہراس دینی معاملہ پربھی جس پر قدرت وطاقت ہو ، بلکہ اسلامی مملکت کا قیام تو اس وقت ہوا جب ایمان و توحید اورشرک سے نجات اوردین کا تفقہ پیدا ہوچکا تھا جس طرح کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے مندرجہ ذیل فرمان میں بھی ذکر کیا ہے :
{ اللہ تعالی نےتم میں سے ایمان والوں اوراعمال صالحہ کرنے والوں کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں زمین میں حکومت دی جائی گی جس طرح ان سے پہلے لوگوں کی دی گئی اورہم ان کے لیے ان کے لیے پسندکیے گئے دین کوآسان کردینگے ، اورانہیں خوف میں امن دیں گے وہ میری عبادت کرینگے اورمیرے ساتھ شرک نہیں کریں گے } ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تیرہ برس ( 13 ) تک دعوت الی اللہ کا کام کرتے اورلوگوں کوتوحید اورعقیدہ سکھاتے رہے اوران پر وحی کی تلاوت کرتے اورکفار کے ساتھ اچھے انداز میں مجادلہ کرتے رہے اوران کے دی گئئ تکالیف پر صبر کرتے ہوئے اپنی نماز اوراس وقت کی دوسری مشروع عبادت کوبجالاتے رہے ، انہوں نے توتعلیم دین کونہیں چھوڑا حالانکہ مکہ میں اس وقت اسلامی مملکت کا قیام تو نہيں ہوا تھا ۔
پھریہ بھی ہے کہ اسلامی مملکت کے قیام کا عقیدہ کی اساس اوراسلامی معاشرہ قائم ہونے اوراس پر عمل و تربیت اور دین سیکھنے اورقائم کرنے کے بغیر کیسے ممکن ہے ؟ اورجس نے بھی یہ کہا ہے کہ ( اپنے آپ میں اسلامی مملکت قائم کرو توزمین پربھی اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی ) اس نے سچ کہا اوروہ اپنی اس بات میں صادق ہے ۔
رسول ﷲ ﷺ کی موت کے وقت بھی یہی دعوت تھی
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
اللہ تعالی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اوران کے صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم پر رحمتیں نازل فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین