ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا ہی علمی وادبی زبان میں ارشاد ہے :::
اور اتنا زیادہ صحیح ہے کہ اس کے خلاف صحابی رسول ﷺ ۔اور استاذ المحدثین جناب امام احمد بن حنبل ؒ بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے ؛
اچھا ہوا کہ آپ نے خود ہی امام احمد بن حنبل رحم الله کا نام لے دیا - لگتا ہے کہ آپ امام احمد بن حنبل رحم الله کے مقلد ہیں - یہ تحریر میں یہاں ایک تھریڈ میں پیش کر چکا ہوں لیکن انتظامیہ نے وجہ بتائے بغیر وہ تھریڈ ڈیلیٹ کر دیا -
یہ تحریر ایک بندے سے مجھے موصول ہوئی ہے - سوچا تھا کہ یہاں لگا دوں تا کہ اگر اس میں کوئی ڈنڈی ماری گئی ہے تو میں اس کی اصلاح کر دوں - اب اس کو ایک دفعہ پھر یہاں لگا رہا ہوں تا کہ @اسحاق سلفی بھائی ہمارے علاوہ کسی اور پر بھی فتویٰ لگانے کے لیے اپنی بند زبان کو کھول دیں - دیکھتے ہیں کہ وہ اب کیا فتویٰ لگاتے ہیں -
امید ہے کہ انتظامیہ اب اس کو ڈیلیٹ نہیں کرے گی -
عقیدہ عود روح شیعت کے آئینے میں / عقیدہ عود روح کس لئے گھڑا گیا؟
عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ایک شخص بنام عبد اللہ بن سبا اسلام میں ظاہر ہوا اس نے دین میں شیعہ عقیدے کی بنیاد ڈالی اور نئی تشریحات کو فروغ دیا
الشھرستانی اپنی کتاب الملل و النحل میں لکھتے ہیں کہ:
السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.
السبائية : عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ۔ جس نے علی كرم الله وجهه سے کہا کہ: تو، تو ہے یعنی تو خدا ہے پس علی نے اس کو مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا - ان لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ (ابن سبا) یہودی تھا پھر اسلام قبول کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰ کا جانشین یوشع بن نون تھا اور اسی طرح علی رضی الله عنہ ۔ اور وہ (ابن سبا) ہی ہے جس نے سب سے پہلے علی کی امامت کے لئے بات پھیلائی - اور اس سے غالیوں کے بہت سے فرقے وابستہ ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ علی زندہ ہے وفات نہیں کر گئے - اور علی میں الوہی حصے تھے اور الله نے ان کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اجازت نہیں دی - اور وہ (علی) بادلوں کے ساتھ موجود ہیں اور آسمانی بجلی ان کی آواز ہے اور کوند انکی مسکراہٹ ہے اور وہ اس کے بعد زمین پر اتریں گے اور اس کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح یہ زمین ظلم سے بھری ہے - اور علی کی وفات کے بعد ابن سبا نے اس کو پھیلایا - اور اس کے ساتھ (ابن سبا) کے ایک گروپ جمع ہوا اور یہ پہلا فرقہ جس نے توقف (حکومت کے خلاف خروج میں تاخر)، غیبت (امام کا کسی غار میں چھپنا) اور رجعت (شیعوں کا امام کے ظہور کے وقت زندہ ہونا) پر یقین رکھا ہے - اور وہ علی کے بعد انپے اماموں میں الوہی اجزاء کا تناسخ کا عقید ہ رکھتے ہیں
ابن اثیر الکامل فی التاریخ میں لکھتے ہیں کہ:
أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم…
عبد اللہ بن سبا صنعاء، یمن کا یہودی تھا اس کی ماں کالی تھی اور اس نے عثمان (رضی الله عنہ) کے دور میں اسلام قبول کیا. اس کے بعد یہ حجاز منتقل ہوا پھربصرہ پھر کوفہ پھر شام، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکا - اس کو اہل شام نے ملک بدر کیا اور یہ مصر پہنچا اور وہاں رہا اور ان سے کہا: عجیب بات ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ عیسیٰ واپس آئے گا اور انکار کرتے ھو کہ نبی محمد صلی الله علیہ وسلم واپس نہ آیئں گے - اس نے ان کے لئے رجعت کا عقیدہ بنایا اور انہوں نے اس کو قبول کیا - پھر اس نے کہا: ہر نبی کےلئے ایک وصی تھا اور علی محمد کے وصی ہیں لہذا سب سے ظالم وہ ہیں جنہوں نے آپ کی وصیت پر عمل نہ کیا - اس نے یہ بھی کہا کہ عثمان نے بلا حق، خلافت پر قبضہ کیا ہوا ہے لہذا اٹھو اور اپنے حکمرانوں پر طعن کرو
رجعت کا عقیدہ شیعہ مذہب کی جڑ ہے اور اس کے بنا ساری خدائی بےکار ہے - ابن سبا کو اسلام میں موت و حیات کے عقیدے کا پتا تھا جس کے مطابق زندگی دو دفعہ ہے اور موت بھی دو دفعہ. اس کی بنیاد قرآن کی آیات ہیں
سورہ غافر میں ہے کہ:
قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِي
وہ (کافر) کہیں گےاے رب تو نے دو زندگیاں دیں اور دو موتیں دیں ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پس یہاں (جہنم ) سے نکلنے کا کوئی رستہ ہے
ابن سبا نے اس عقیدے پر حملہ کیا اور ان آیات کو رجعت کی طرف موڑ دیا کہ مستقبل میں جب خلفاء کے خلاف خروج ہو گا تو ہم مر بھی گئے تو دوبارہ زندہ ہوں گے اور ہمارے دشمن دوبارہ زندہ ہو کر ہمارے ہاتھوں ذلیل ہونگے - اس آیت کا شیعہ تفاسیر میں یہی مفہوم لکھا ہے اور اہل سنت جو مفہوم بیان کرتے ہیں وہ شیعہ کے نزدیک اہل سنت کی عربی کی غلط سمجھ بوجھ ہے -
رجعت کے عقیدہ کو اہل سنت میں استوار کرنے کے لئے دو زندگیوں اور دو موتوں والی آیات کو ذھن سے نکالنا ضروری تھا - اس کے لئے عود روح کی روایت بنائی گئیں کہ ایک دفعہ مردے میں موت کا مفہوم ختم ہو جائے تو پھر میدان صاف ہے - آہستہ آہستہ اہل سنت مردے کے سننے اور مستقبل میں کسی مبارزت طلبی پر قبر سے باہر نکلنے کا عقیدہ اختیار کر ہی لیں گے -
لہذا عود روح کی روایات شیعہ راویوں نے اصحاب رسول کی طرف منسوب کیں اور بالآخر یہ راوی کم از کم اس بات میں کامیاب ہوئے کہ دو موتوں اور دو زندگیوں کا اصول ذہن سے محو ہو گیا -
جب بھی دو موتوں اور دو زندگیوں والی آیات پر بات کی جاتی ہے تو خود سنی ہونے کے دعویدار کہتے ہیں کیا کیجئے گا قرآن میں تو خود تین زندگیوں والی آیات موجود ہیں کہ الله نے قوم موسی کو زندہ کیا عیسی نے زندہ کیا وغیرہ ، گویا با الفاظ دیگر روایات نے ان آیات کو منسوخ کر دیا نعوذ باللہ -
کبھی کہتے ہیں کہ موت نیند ہے انسان زندگی میں سینکڑوں دفعہ سوتا ہے اور لاتعداد موتوں سے ہمکنار ہوتا ہے یعنی وہی سبائی سوچ کے تسلط میں قرآن میں تضاد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے - افسوس تمہاری سوچ پر اور افسوس تمہاری عقل پر!!!
الغرض سبائی سوچ کامیاب ہوئی اور امام احمد رحم الله اپنی مسند میں موجود ایمان لائے اور فتوی دینے لگے کہ ایمانیات میں سے ہے کہ
والإيمان بمنكر ونكير وعذاب القبر والإيمان بملك الموت يقبض الأرواح ثم ترد في الأجساد في القبور فيسألون عن الإيمان والتوحيد
ایمان لاؤ منکر نکیر اور عذاب قبر پر اور موت کے فرشتے پر کہ وہ روحوں کو قبض کرتا ہے پھر جسموں میں لوٹاتا ہے قبروں میں پس سوال کیا جاتا ہے ایمان اور توحید پر
وہ یہ بھی کہنے لگے کہ:
كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس
بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے
وہ خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم سے سن کر روایت بیان کرنے لگے
رأيت أبي رحمه الله يصحح الأحاديث التي تروى عن النبي صلى الله عليه وسلم في الرؤية ويذهب إليها وجمعها أبي رحمه الله في كتاب وحدثنا بها
عود روح کے امام احمد رحم الله کے عقیدے کو ابن تیمیہ رحم الله بھی مان گئے اور فتوی میں کہا کہ امام احمد رحم الله کے یہ الفاظ امت کے نزدیک تلقاها بالقبول کے درجے میں ہیں یعنی قبولیت کے درجے پر ہیں -
ابن تیمیہ رحم الله نے لکھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں اور حسین راضی الله و یزید کے معرکے میں خالی مسجد النبی میں قبر سے اذان دیتے رہے -
وہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم میں لکھتے ہیں کہ:
وكان سعيد ين المسيب في أيام الحرة يسمع الأذان من قبر رسول الله صلى الله عليه و سلم في أوقات الصلوات وكان المسجد قد خلا فلم يبقى غيره
اور سعيد ين المسيب ایام الحرہ میں اوقات نماز قبرِ رسول الله صلى الله عليه وسلم سے اذان کی آواز سن کر معلوم کرتے تھے اور مسجد (النبی) میں کوئی نہ تھا اور وہ با لکل خالی تھی
بس کسر ہی رہ گئی ، نبی صلی الله علیہ وسلم قبر سے نہ نکلے - شاید رجعت کا وقت نہیں آیا تھا -
اب تو عقیدے کا بگاڑ سر چڑھ کر بولا - ارواح کا قبروں میں اترنا اور چڑھنا شروع ہوا - روحوں نے اپنی تدفین کا مشاہدہ کیا - زندوں کے اعمال مرودں کو دکھائے جانے لگے نبی کی قبر پر بنے گنبد پر لَب سی لئے گئے اور کسی نے اس پر کلام کیا تو ان کی آواز کو فتووں کی گھن گرج سے پست کر دیا گیا -
قبرنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اذان کی آواز سننے والی ایک روایت کی تحقیق@
کفایت اللہ
بھائی
کر چکے ہیں وہ بھی دیکھ لیں -
لنک
http://forum.mohaddis.com/threads/قبرنبوی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-سے-اذان-کی-آواز-سننے-والی-روایت.2477/
۔