• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نزول عیسیٰ کے قائلین سے چند سوالات

شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
یہاں آج اچانک نظر پڑی اور میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ فیضان اکبر صاحب کے سوالات اور دلائل کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکا ، لیکن فیضان اکبر صاحب کے چند سوالات کے جوابات میں لکھنا چاہوں گا جس میں دوسروں کے اوہام کا بھی جواب آجائے گا انشاءاللہ ۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
اپنے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
میں کبھی قادیانی نہیں تھا، اور نا ہی قادیانی ہوں، نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر کامل ایمان رکھتا ہوں۔
میں ہوں صرف مسلم۔۔۔۔۔
نبی اکرم حضرت عیسی علیہ السلام کی موت سولی پر نہیں ہوئی ۔ اور نا ہی یہود جناب حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کرسکے۔
آپ یقینا غامدی کے مقلد ہیں

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
وہ لوگ جو نزول عیسیٰ کے قائل ہیں یہ قرآن مجید اور حدیث کے خلاف ہے۔ ۔ ۔ قرآن کی حاکمیت ختم کی گئی ہے اگر ۔ ۔ ۔آیات کے ترجمے غلط حدیثوں کو سامنے رکھ کر کئے گئے ہیں ۔ ۔ ۔ جس کی وجہ سے نزول عیسیٰ علیہ اسلام کا عقیدہ وجود میں آیا ہے۔ ۔ ۔ یہ عقیدہ عیسیٰوں کا تھا ۔ ۔ جو کہ اب مسلمانوں میں بھی شامل ہو چکا ہے۔ ۔ ۔اگر دوبارہ نزول ہونا ہوتا تو قرآن مجید میں واضح الفاظ ملتے جیسا کہ عیسیٰ علیہ اسلام کی پیدائش سے پہلے اور محمد (ص) کی پیدائش سے پہلے معلوم ہو چکا تھا ۔ ۔ ۔ عیسیٰ علیہ اسلام وفات پا چکے ہیں ۔ ۔ ۔اب صرف قیامت کا انتظار کریں ۔ ۔ شکریہ۔
۱)عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و الذی نفسی بیدہ لَیَوْشِکَنَّ ان ینزل فِیکم ابن مریم حکماً عدلاً فیکسر الصلیب و یقتل الخنزیر ویَضَعَ الحربَ و یُفیضَ المال حتیٰ لا یقبلِہ احد حتٰی تکون السجدہ الواحدۃ خیراً من الدّنیا و ما فیھا (بخاری کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم۔مسلم ، باب بیان نزول عیسیٰ۔ ترمذی ابواب الفتن، باب فی نزول عیسیٰ۔ؑ مسند احمد، مرویات ابوہریرہؓ)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، ضرور اُتریں گے تمہارے درمیان ابن مریم حاکم عادل بن کر ، پھر وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، اور خنزیر کو ہلاک کر دیں گے۔[5] اور جنگ کا خاتمہ کر دیں گے (دوسری روایت میں حرت کے بجائے جزیہ کا لفظ ہے، یعنی جزیہ ختم کر دیں گے [6]۔)اور مال کی وہ کثرت ہو گی کہ اس ک قبول کرنے والا کوئی نہ رہے گا اور (حالت یہ ہو جائے گی کہ لوگوں کے نزدیک خدا کے حضور) ایک سجدہ کر لینا دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔ ‘‘

(۲)۔ ایک اور روایت حضرت ابوہریرہؓ سے ان الفاظ میں ہے کہ: ’’ لا تقوم السّاعۃ حتّٰی ینزل عیسٰی ابن مریم......‘‘
’’قیامت قائم نہ ہوگی جب تک نازل نہ ہولیں عیسٰی ابن مریم..........‘‘
اور اس کے بعد ہی مضمون ہے جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوا ہے (بخاری ، کتاب المظالم، باب کسرالصلیب۔ ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال)

(۳)۔ عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال کیف انتم اذ انزل ابن مریم فیکم و امامکم منکم (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء ، باب نزول عیسیٰ۔ مسلم ، بیان نزول عیسیٰ۔ مسند احمد ، مرویات ابی ہریرہؓ)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ کیسے ہو گے تم جبکہ تمہارے درمیان ابن مریم اتریں گے اور تمہارا امام اس وقت خود تم میں سے ہو گا۔‘‘
[یعنی نماز میں حضرت عیسیٰ امامت نہیں کرائیں گے بلکہ مسلمانوں کا جو امام پہلے سے ہو گا اسی کے پیچھے وہ نماز پڑھیں گے۔ ]

(۴)۔ عن ابی ھریرۃؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ینزل عیسیٰ ابن مریم فیقتل الخنزیر و یمحوا الصلیب و تجمع لہ الصلوٰۃ و یعطی المال حتی لا یقبل و یضع الخراج و ینزل الرَّوحاء فیحجّ منھا، او یعتمر، او یجمعھما‘‘ (مسند احمد ، بسلسلہ ، مرویات ابی ہریرہؓ مسلم ، کتاب الحج۔ باب جواز التمتُّع فی الحج والقرآن)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے پھر وہ خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو مٹا دیں گے اور ان کے لیے نماز جمع کی جائے گی اور وہ اتنا مال تقویم کریں گے کہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ہو گا اور وہ خراج ساقط کر دیں گے اور رَوحاء(مدینہ سے ۳۵ میل کے فاصلے پر ایک مقام) کے مقام پر منزل کر کے وہاں سے حج یا عمرہ کریں گے ، یا دونوں کو جمع کریں گے‘‘ ( واضح رہے کہ اس زمانے میں جن صاحب کو مثیلِ مسیح قرار دیا گیا ہے انہوں نے اپنی زندگی میں نہ حج کیا اور نہ عمرہ) راوی کو شک ہے کہ حضورؐ نے ان میں سے کونسی بات فرمائی تھی۔

(۵)۔ عن ابی ھریرۃؓ (بعد ذکر خروج الدجال) فبینما ھم یعدّون للقتال یسوّون الصّفوف اذا اقیمت الصلوٰۃ فینزل عیسیٰؑ ابن مریم فامّھم فاذا راٰہ عدو اللہ یذوب کما یذوب الملح فی الماء فلو ترکہ لانذاب حتٰی یھلک ولٰکن یقتلہ اللہ بیدہ فیریھم دمہ فی حربتہٖ (مشکوٰۃکتاب الفتن، باب الملاحم، بحوالۂ مسلم)۔
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے (دجّال کے خروج کا ذکر کرنے کے بعد حضورؐ نے فرمایا)اس اثنا میں کہ مسلمان اس سے لڑنے کی تیاری کر رہے ہوں گے ، صفیں باندھ رہے ہوں گے اور نماز کے لیے تکبیر اقامت کہی جاچکی ہو گی کہ عیسیٰ ابنِ مریم نازل ہو جائیں گے۔ اور نماز مین مسلمانوں کی امامت کریں گے۔ اور اللہ کا دشمن (یعنی دجّال) ان کو دیکھتے ہی اس طرح گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام اس کو اُس کے حال پر چھوڑ دیں تو وہ آپ ہی گھل کر مر جائے۔ مگر اللہ اس کو اُن کے ہاتھ سے قتل کرائے گا اور وہ اپنے نیزے میں اُس کا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔‘‘

(۶)۔ عن ابی ھریرۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لیس بینی وبینہٗ نبی (یعنی عیسیٰ) و انہ نازل فاذا رأیتموہ ماعرفوہ رجل مربوع الی الحمرۃ و البیاض، بین ممصرتین کان راٴسہ یقطروَان لم یصبہ بلل فیقاتل الناس علی الاسلام فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ و یھلک اللہ فی زمانہ الملل کلھا الا الاسلام ویھلک المسیح الدجال فیمکث فی الارض اربعین سنۃ ثم یتوفی فیصلی علیہ المسلمون۔(ابوداؤد ، کتاب الملاحم، باب خروج الدّجال۔ مُسند احمد مرویات ابو ہریرہؓ)
’’ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرے اور اُن (یعنی عیسیٰ علیہ السلام)کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ اور یہ کہ وہ اُترنے والے ہیں ، پس جب تم ان کو دیکھو تو پہچان لینا، وہ ایک میانہ قد آدمی ہیں، رنگ مائل بسُرخی و سپیدی ہے، دو زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے۔ ان کے سر کے بال ایسے ہوں گے گویا اب ان سے پانی ٹپکنے والا ہے، حالانکہ وہ بھیگے ہوئے نہ ہوں گے۔ وہ اسلام پر لوگوں سے جنگ کریں گے، صلیب کو پاش پاش کر دیں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے، جزیہ ختم دیں گے، اور اللہ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام مِلّتوں کو مٹا دے گا، اور وہ مسیح دجال کو ہلاک کر دیں گے، اور زمین میں وہ چالیس سال ٹھیریں گے۔ پھر ان کا انتقال ہو جائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔‘‘

(۷)۔ عن جابر بن عبداللہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم .......فینزل عیسیٰ ابن مریم صلی اللہ علیہ وسلم فیقول امیرھم تعال فصلِّ فیقول لا ان بعضکم علیٰ بعض امراء تکرمۃ اللہ ھٰذہ الامۃ۔ (مسلم، بیاننزول عیسیٰ ابن مریم۔ مُسند احمد بسلسلہ مرویات جابرؓ بن عبداللہ)
حضرت جابربن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا کہ:
’’ ....پھر عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ مسلمانوں کا امیر اُن سے کہے گا کہ آئیے، آپ نماز پڑھائیے، مگر وہ کہیں گے کہ نہیں، تم لوگ خود ہی ایک دوسرے کے امیر ہو۔[7]یہ وہ اُس عزّت کا لحاظ کرتے ہوئے کہیں گے جو اللہ نے اس اُمّت کو دی ہے۔‘‘

(۸)۔ عن جابر بن عبداللہ (فی قصۃ ابن صیاد)فقال عمر بن الخطاب ائذن لی فاقتلہٗ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یکن ھو فلست صاحبہ انما صاحبہ عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام، و ان لا یکن فلیس لک ان تقتل رجلا من اھل العھد(مشکوٰۃ۔ کتاب الفتن، باب قصّۂ بن صیّاد ، بحوالہشرح السُّنہ بَغَوی)
جابر بن عبداللہ (قصّۂ ابن صیّاد کے سلسلہ میں ) روایت کرتے ہیں کہ پھر عمر بن خطاب نے عرض کیا، یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کر دوں۔ اس پر حضورؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’اگر یہ وہی شخص (یعنی دجال) ہے تو اس کے قتل کرنے والے تم نہیں ہو بلکہ اسے تو عیسیٰ بن مریم ہی قتل کریں گے۔ اور اگر یہ وہ شخص نہیں ہے تو تمہیں اہلِ عہد (یعنی ذمیوں ) میں سے ایک آدمی کو قتل کر دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘

(۹)۔ عن جابر عبداللہ (فی قصہ الدجال) فاذاھم بعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فتقام الصلوٰۃ فیقال لہ تقدم یا روح اللہ فیقول لیتقدم امامکم فلیصلِّ بکم فاذاصلی صلوٰۃ الصبح خرجو االیہ، قال جحین یری انکذاب کما ینماث الملح فی الماء فیمشی الیہ فیقتلہٗ حتی ان الشجر والحجر ینادی یا روح اللہ ھٰذا الیھودیُّ ، فلا یترک ممن کان یتبعہ احداالاقتلہٗ۔(مسنداحمد ، بسلسلۂ روایات جابر بن عبداللہ)
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ (دجال کا قصہ بیان کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا):
’’ اس وقت یکایک عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام مسلمانوں کے درمیان آجائیں گے۔ پھر نماز کھڑی ہوگی اور ان سے کہا جائے گا کہ اے روح اللہ آگے بڑھئے، مگر وہ کہیں کہ نہیں، تمہارے امام ہی کو آگے بڑھنا چاہیے، وہی نماز پڑھائے۔ پھر صبح کی نماز سے فارغ ہو کر مسلمان دجال کے مقابلے پر نکلیں گے۔ فرمایا، جب وہ کذّاب حضرت عیسیٰ کو دیکھے گا تو گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ پھر وہ اس کی طرف بڑھیں گے اور اسے قتل کردیں گے اور حالت یہ ہوگی کہ درخت اور پتھر پکار اٹھیں گے کہ اے روح اللہ یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ دجال کے پیرووں میں سے کوئی نہ بچے گا جسے وہ (یعنی عیسیٰؑ ) قتل نہ کر دیں۔‘‘

(۱۰)۔ عن النواس بن سمعان ( فی قصۃ الدجّال) فبینما ھو کذٰلک اذ بعث اللہ المسیح بن مریم فینزل عند المنارۃ البیضاء شرقی دمشق بین مھروذتین واضعاً کفیہ علیٰ اجنحہ ملکین اذا طاُ طأ راسہٗ قطرو اذا رفعہ تحد رمنہ جمان کاللوٗلوٗ فلا یحل لکافر یجد ریح نفسہ الامات و نفسہ ینتہی الیٰ حیث ینتہی طرفہ فیطلبہ حتیٰ یردکہ ببابِ لُدٍّ فیقتلہ۔ (مسلم، ذکرالدجّال۔ ا بو داوٗد، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال۔ ترمذی، ابو اب الفتن ، باب فتنۃ الدّجال۔ ابن ماجہ ، کتاب الفتن، باب فتنۃالدّجال )
حضرت نَاّس بن سَمْعان کلانی (قصۂ دجال بیان کرتے ہوئے ) روایت کرتے ہیں :
’’اس اثناء میں کہ دجال یہ کچھ کر رہا ہوگا، اللہ تعالیٰ مسیحؑ ابن مریم کو بھیج دے گا اور وہ دمشق کے مشرقی حصے میں، سفید مینار کے پاس، زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے، دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔ جب وہ سر جھکائیں گے تو ایسا محسوس ہوگا کہ قطرے ٹپک رہے ہیں، اور جب سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح قطرے ڈھلکتے نظر آئیں گے۔ ان کے سانس کی ہوا جس کافر تک پہنچے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ان کی حدِ نظر تک جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ زندہ نہ بچے گا۔ پھر ابن مریم دجال کا پیچھا کریں گے اور لُدّ [8] کے دروازے پر اسے جا پکڑیں گے اور قتل کر دیں گے۔ ‘‘

(۱۱)۔ عن عبداللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : یخرج الدجال فی امتی فیمکث اربعین (لا ادری اربعین یوماً او اربعین شھراً او اربعین عاماً)فیبعث اللہ عیسیٰ بن مریم کانہ عُروۃ بن مسعود فیطلبہ فیھلکہ ثم یمکث الناس سبع سنین لیس بین اثنین عداوۃ (مسلم، ذکر الدجال)
عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’دجال میری امت میں نکلے گا اور چالیس( میں نہیں جانتا چالیس دن یا چالیس مہینے یاچالیس سال[9]) رہے گا۔ پھر اللہ عیسیٰ ابن مریم کو بھیجے گا۔ ان کا حلیہ عُروہ بن مسعود (ایک صحابی) سے مشابہ ہوگا۔ وہ اس کا پیچھا کریں گے اور اسے ہلاک کر دیں گے، پھر سات سال تک لوگ اس حال میں رہیں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان بھی عداوت نہ ہوگی۔ ‘‘

(۱۲)۔ عن حذیفۃ بن اسید الغفاری قال اطلع النبی صلی اللہ علیہ وسلم علینا و نحن نتذاکر فقال ما تذکرون قالوا نذکر السّاعۃ قال انھالن تقوم حتیٰ ترون قبلھا عشراٰیات فذکر الدخان و الدجال والدابۃ و طلوع الشمس من مغربھا و نزول عیسیٰ ابن مریم و یاجوج و ماجوج و ثلثۃ خسوف، خسف بالمشرق و خسف بالمغرب، وخسف بجزیرۃ العرب، و اٰخر ذٰلک نار تخرج من الیمن تطرد الناس الیٰ محشرھم (مسلم: کتاب الملاحم، باب امارات الساعہ)
’’حُذیفہ بن اسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مجلس میں تشریف لائے اور ہم آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ آپؐ نے پوچھا:
’’کیا بات ہو رہی ہے؟‘‘
لوگوں نے عرض کیا :
’’ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے۔‘‘
فرمایا: ’’وہ ہرگز قائم نہ ہو گی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں۔‘‘
پھر آپ نے وہ دس نشانیاں یہ بتائیں :
’’(۱) دھُواں،
(۲)دجال،
(۳) دابۃ الارض،
(۴) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا
(۵) عیسیٰ ابنِ مریم کا نزول،
(۶)یاجوج و ماجوج،
(۷)تین بڑے خَسَف( زمین دھس جاناLandslide )، ایک مشرق میں،
(۸)دوسرا مغرب میں،
(۹) تیسرا جزیرۃ العرب میں،
(۱۰) سب سے آخر میں ایک زبردست آگ جو یمن سے اٹھے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی۔ ‘‘

(۱۳)۔ عن ثوبان مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن النبی صلی اللہ وسلم عصابتان من امتی احرزھما اللہ تعالیٰ من النار۔ عصابۃ تغزوالھند، وعصابۃ تکون مع عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام (نسائی، کتاب الجہاد۔ مسند احمد، بسلسلہ روایات ثُوبان)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا:
’’میری امت کے دو لشکر ایسے ہیں جن کو اللہ نے دوزخ کی آگ سے بچا لیا۔ایک وہ لشکر جو ہندوستان پر حملہ کرے گا۔ دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریمؑ کے ساتھ ہو گا۔ ‘‘

(۱۴)۔ عن مُجمِّع بن جاریۃ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول یقتل ابنُ مریم الدّجال بباب لُدّ ( مسنداحمد۔ترمذی ، ابواب الفتن )
مُجَمّع بن جاریۃ انصاری کہتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ:
’’ابن مریم دجال کو لُدّ کے دروازے پر قتل کریں گے۔ ‘‘

(۱۵)۔ عن ابی اُمامۃ الباھلی(فی حدیث طویل فی ذکر الد جال) فبینما امامھم قد تقدم یصلّی بھم الصبح اذ نزل علیھم عیسیٰ ابن مریم فرجع ذٰلک الامام ینکص یمشی تھقریٰ لیتقدم عیسیٰ فیضع عیسیٰ یدہ بین کتفیہ تم یقول لہٗ تقدم فصل فانھا لک اقیمت فیصلی بھم امامھم فاذا انصرف قال عیسیٰ علیہ السلام افتحوا الباب فیفتح و ورأہ الدجال و معہ سبعون الف یھودی کلھم ذوسیف محلی و ساج فاذا نظر الیہ الدجال ذاب کما یذوب الملح فی الماء و ینطلق ھارباً و یقول عیسیٰ ان لی فیک ضربۃ لن تسبقنی بھا فیدرکہ عند باب الُّلدِّ الشرقی فیھزم اللہ الیھود ..... و تملأ الارض من المسلم کما یملأ الا ناء من الماء و تکون الکلمۃ واحدۃ فلا یعبد الا اللہ تعالیٰ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنتہ الدجال)
ابو اُمامہ باہلی (ایک طویل حدیث میں دجال کا ذکر کرتے ہوئے ) روایت کرتے ہیں کہ:
’’ عین اس وقت جب مسلمانوں کا امام صبح کی نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھ چکا ہوگا۔ عیسیٰ ابن مریم اُن پر اُتر آئیں گے۔ امام پیچھے پلٹے گا تاکہ عیسیٰؑ آگے بڑھیں، مگر عیسیٰ اس کے شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہیں گے کہ نہیں تم ہی نماز پڑھاؤ کیونکہ یہ تمہارے لیے ہی کھڑی ہوئی ہے۔ چنانچہ وہی نماز پڑھائے گا۔ سلام پھیرنے کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ دروازہ کھولو، چنانچہ وہ کھولا جائے گا۔ باہر دجال ۷۰ ہزار مسلح یہودیوں کے ساتھ موجود ہوگا۔ جوں ہی کہ عیسیٰ علیہ السلام پر اس کی نظر پڑے گی وہ اس طرح گھُلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھُلتا ہے اور وہ بھاگ نکلے گا۔ عیسیٰ کہیں گے میرے پاس تیرے لیے ایک ایسی ضرب ہے جس سے تو بچ کر نہ جا سکے گا پھر وہ اُسے لُدّ کے مشرقی دروازے پر لے جائیں گے اور اللہ یہودیوں کو ہرا دے گا...... اور زمین مسلمانوں سے اس طرح بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جائے۔ سب دنیا کا کلمہ ایک ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہوگی۔‘‘

(۱۶)۔ عن عثمانؓ بن ابی العاص قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:’’.. ... وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام عند صلوۃ الفجر فیقول لہ امیرھم یاروح اللہ تقدم، صلِّ، فیقول ھٰذہ الامۃ بعضھم امراء علیٰ بعض فیتقدم امیرھم فیصلی، فاذا قضیٰ صلوٰتہٗ اخذ عیسیٰ حربتہٗ فیذھب نحو الدجال فاذا یراہ الدجال ذاب کما یذوب الرصاص فیضع حربتہ بین شندوبتہ فیقتلہٗ وینھزم اصحابہ لیس یومئذ شیء یواری منھم احدا حتیٰ ان الشجر لیقول یا مومن ھٰذا کافر و یقول الحجر یا مومن ھٰذا کافر ‘‘ (مُسند احمد۔ طُبرانی۔ حاکم)
عثمانؓ بن ابی العاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے:
’’....اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فجر کی نماز کے وقت اُتر آئیں گے۔ مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا اے رُوح اللہ آپ نماز پڑھایئے۔ وہ جواب دیں گے کہ اس امت کے لوگ خود ہی ایک دوسرے پر امیر ہیں۔ تب مسلمانوں کا امیر آگے بڑھ کر نماز پڑھائے گا۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر عیسیٰ اپنا حربہ لے کر دجال کی طرف چلیں گے۔ وہ جب ان کو دیکھے گا تو اس طرح پگھلے گا جیسے سیسہ پگھلتا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اپنے حربے سے اس کو ہلاک کر دیں گے اور اس کے ساتھی شکست کھا کر بھاگیں گے مگر کہیں انہیں چھپنے کو جگہ نہ ملے گی، حتیٰ کہ درخت پکاریں گے اے مومن، یہ کافر یہاں موجود ہے اور پتھر پکاریں گے کہ اے مومن، یہ کافر یہاں موجود ہے۔ ‘‘

(۱۷)۔ عن سمرۃ بن جُنْدُب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم (فی حدیث طویل):’’ فیصبح فیھم عیسیٰ ابن مریم فیھزمہ اللہ و جنودہ حتیٰ ان اجذم الحائط و اصل الشجر لینادی یا مومن ھٰذا کافر یستتربی فتعال اقتلہ۔ ‘‘ (مُسند احمد۔ حاکم)
سَمُرہ جُندُب(ایک طویل حدیث میں )نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں:
’’پھر صُبح کے وقت مسلمانوں کے درمیان عیسیٰ ابن مریم آجائیں گے اور اللہ دجال اور اس کے لشکروں کو شکست دے گا یہاں تک کہ دیواریں اور درختوں کی جڑیں پکار اٹھیں گی کہ اے مومن، یہ کافر میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آ اور اسے قتل کر۔ ‘‘

(۱۸) عن عمران بن حصین انّ رسول اللہ علیہ وسلم قال لاتزال طائفۃ من امتی علی الحق ظاھرین علیٰ من نوأھم حتیٰ یاتی امر اللہ تبارک و تعالیٰ و ینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔ (مُسند احمد)
عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری اُمت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو حق پر قائم اور مخالفین پر بھاری ہوگا یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فیصلہ آجائے اور عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام نازل ہوجائیں۔‘‘

(۱۹)عن عائشۃؓ(فی قصۃ الدّجال): ’’فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہ ثم یمکث عیسیٰ علیہ السلام فی الارض اربعین سنۃ اماماً عادلاً حَکَماً مُقسطاً۔‘‘ (مسند احمد)
حضرت عائشہؓ (دجال کے قصّے میں ) روایت کرتی ہیں :
’’پھر عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک زمین میں ایک امامِ عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے۔‘‘

(۲۰)۔ عن سفینۃ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (فی قصۃالدجّال ) فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہ اللہ تعالیٰ عند عقیۃ افیق۔ (مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سفینہ(دجال کے قصے میں )روایت کرتے ہیں :
’’پھر عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ دجال کو افیق[10] کی گھاٹی کے قریب ہلاک کر دے گا۔

(۲۱) عن حذیفۃ(فی ذکرالدجال ) فلما قاموا یصلّون نزل عیسیٰ بن مریم امامہم فصلّی بھم فلما انصرف قال ھٰکذا فرجوا بینی و بین عدو اللہ...........ویسلط اللہ علیھم المسلمین فیقتلونھم حتیٰ ان الشجر و الحجر لینادی یا عبداللہ یا عبدالرحمٰن یا مسلم ھٰذا الیھودی فقتلھم فیفینھم اللہ تعالیٰ و یظھر المسلمون فیکسرون الصلیب ویقتلون الخنزیر و یضعون الجزیۃ (مستدرک حاکم۔ مسلم میں بھی یہ روایت اختصار کے ساتھ آئی ہے۔ اور حافظ ابن حجرنے فتح الباری جلد۶ ص، ۴۵ میں اسے صحیح قرار دیا ہے )
حضرت حُذَیفہ بن یَمان (دجال کا ذکر کرتے ہوئے ) بیان کرتے ہیں :
’’ پھر جب مسلمان نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوں گے تو اُن کی آنکھوں کے سامنے عیسیٰ ابن مریم اتر آئیں گے اور وہ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے پھر سلام پھیرنے کے بعد لوگوں سے کہیں گے کہ میرے اور اس دشمن خدا کے درمیان سے ہٹ جاؤ ........اور اللہ دجال کے ساتھیوں پر مسلمانوں کو مسلط کر دے گا اور مسلمان انھیں خوب ماریں گے یہاں تک کہ درخت اور پتھر پکار اٹھیں گے اے عبداللہ ، اے عبدالرحمٰن ، اے مسلمان، یہ رہا ایک یہودی، مار اسے۔ اس طرح اللہ ان کو فنا کر دے گا اور مسلمان غالب ہوں گے اور صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے اور جزیہ ساقط کر دیں گے۔ ‘‘

یہ جملہ ۲۱ روایات ہیں جو ۱۴ صحابیوں سے صحیح سندوں کے ساتھ حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں وارد ہوئی ہیں۔ اگرچہ ان کے علاوہ دوسری بہت سی احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے، لیکن طولِ کلام سے بچنے کے لیے ہم نے ان سب کو نقل نہیں کیا ہے بلکہ صرف وہ روایتیں لے لی ہیں جو سند کے لحاظ سے قوی تر ہیں۔


Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
"اگرہم مفسرین کو ایک طرف رکھ کر سورہ آل عمران کی آیت "اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنے حضور عزت دونگا (یعیسی انی متوفیک الی رافعک الی) کو سورہ النسا کی آیت "بلکہ اللہ نے عیسی کو اپنے حضور عزت دی" (بل رفعہ اللہ علیہ) کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو ہم پر یہ امر واضع ہوگا کہ پہلی آیت میں اللہ تعالی نے ایک وعدہ فرمایا ہے اور دوسری آیت میں اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے اس وعدہ کو پورا فرمایا۔ خداتعالی کا وعدہ جیسا کہ پہلی آیت میں مذکور ہے یہ ہے کہ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو خود وفات دے کر انہیں اپنے حضور عزت و رفعت دیگا۔ اور انکو کافروں کے الزامات سے پاک کریگا۔ اور موخرالذکر آیت میں تمام امور کا حوالہ دیئے بغیر صرف مسیح علیہ السلام کی سرفرازی اور خدا کے حضور رفعت دئیے جانے کا ذکر ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں آیات کی تفسیر اور تطبیق ایک دوسرے کی روشنی میں کی جانی چاہئے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالی نے واقعی مسیح علیہ السلام کو موت دی اور ان کا اپنے حضور میں رفع درجات فرمایا۔ اور کفر کرنے والوں کے الزامات سے ان کو پاک فرمایا۔ قرآن کریم کی لغت کے ایک بہت بڑے مستند مفسر علامہ الالوسی نے اس آیت کے معنی "میں تجھے موت دونگا" اس مفہوم میں کئے ہیں کہ اللہ تعالی نے مسیح علیہ السلام کو پوری طبعی عمر عطا فرمائی اور ان کی وفات بھی طبعی رنگ میں اس طرح فرمائی کہ انہیں ان کے دشمنوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا کہ وہ آپ کو قتل کر سکتے یا آپ کے خلاف اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوسکتے۔
یہ ظاہر ہے کہ عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کے حضور سرفرازی اور بلندی درجات عطا کی گئی۔ آیت میں لفظ رفع توفی کے بعد مذکور ہے اس لئے اس کے معنی رفع درجات کے ہی ہوسکتے ہیں۔ مادی جسم کے آسمان پر اٹھائے جانے کے نہیں۔
اس ترجمہ کی تائید اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام سے فرمایا ہے کہ وہ انہیں ان پر ایمان نہ لانے والوں (کافروں) سے پاک کرے گا۔ گویا ساری آیت کا مقصد مسیح علیہ السلام کی سرفرازی اور اللہ تعالی کے دربار میں بلندی درجات کو بیان کرنا ہے۔
قرآن کریم کے دوسرے متعدد مقامات میں اور عربی زبان کے کلاسیکی ادب میں لفظ رفع کے عربی مفہوم سے بھی مذکورہ بالا معنوں کی تائید ہوتی ہے۔ آخر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کے تعلق میں اس لفظ کے استعمال کے ایک اور صرف ایک ہی معنی ہوسکتے ہیں یعنی اللہ کی نصرت اور حفاظت۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری تفسر کرنا قرآن کریم سے بے انصافی کے مترادف ہوگا۔ البتہ بے بنیاد کہانیوں اور من گھڑت روایات کے بے جا تائید ضرور ہوگی۔ ------------ حیرانی ہوتی ہے کہ مسیح کو ان کے دشمنوں کے درمیان سے اٹھا کر مع ان کے مادی جسم کے آسمان پر لے جانا کس طرح اللہ تعالی کی تدبیر کہلا سکتا ہے۔ اور کیسے اس تدبیر کو مسیح کے دشمنوں کی تدبیر سے بہتر اور برتر کہا جاسکتا ہے۔ جبکہ کمزور انسان ہونے کی حیثیت سے ان کے لئے اللہ تعالی کے اس فعل کا مقابلہ کرنا ہرگز ممکن نہیں تھا۔
اس طویل مقالہ کی بحث میں ہم مندرجہ ذیل نتائج پر پہنچتے ہیں:
عربی عبارت نقل کریں علامہ آلوسی کی

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 
شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
فیضان صاحب نے نزول والی احادیث کا انکار صرف اس لیے کیا ہے کہ وہ بظاہر قرآن کے خلاف نظر آئیں ، حلانکہ احادیث کی تاویل قرآن کے مطابق کی جاسکتی ہے ، اس ضمن میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بعض کو اعتراض ہے کہ حدیث کو پرکھنے کا معیار قرآن کیسے ہوگیا ، سورۃ الجاثیة میں اللہ فرماتا ہے ۔ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ یعنی اللہ اور اس کی آیات ( آیت کا مطلب نشان بھی ہوتا ہے ) کے بعد کس حدیث ( حدیث کے معنی قول کے ہوتے ہیں ) پر ایمان لاو گے ، فیضان صاحب کی پیش کردہ روایت نہ بھی مانی جائے پھر بھی قرآن سے ایسے مضمون کی کئی آیات مل سکتی ہیں جیسا کہ ایک ابھی میں نے پیش کی ،

فیضان صاحب کا ایک سوال یہ تھا کہ خاتم النبیین کے معنی میں احمدی اور اہل سنت کے مختلف گروہ تاویل کرتے ہیں ، میرا سوال فیضان صاحب سے یہ ہے کہ آیت میں خاتم النبیین جو آیا ہے وہ مداح میں آیا ہے یا نہیں ؟ اگر مداح میں آیا ہے تو پھر اس کا مطلب آخری کس طرح کرتے ہیں جناب ؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ جو اس کا مطلب آخری کرتے ہیں ان میں امام راغب شامل ہونے کے باوجود وہ بھی مفردات قرآن میں مانے ہیں کہ اصل معنی خاتم کے نقش پیدا کرنے کے ہیں ، خاتم بفتح تاء ہی قرآن میں موجود ہے اور خلفاء راشدین نے بھی اسی طرح پڑھا ہے ،۔

اب آتے ہیں دوسری طرف یعنی نزول کی بحث ، بات یوں ہے کہ بے شک آپ حدیث کو نہ بھی مانیں ، ہمارا مدعا قرآن سے ہی ثابت ہے ، اللہ فرماتا ہے کہ
يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ
سورۃ اعراف کی آیت ہے یہ ، آپ جیسے توفی اور رفع کو سمجھ چکے ہیں پھر آپ کے لیے آسان ہوگا کہ یا بنی آدم سے قیامت تک کے لیے سب مخاطب ہیں ، اور اما حرف شرط ہے ، یاتین میں بھی مستقبل شامل ہے ، لیں جناب ایک ہی آیت سے رسول کا آنا جائز ثابت ہو گیا ، ( قرآن سے ہی اور بھی دلائل ہیں لیکن پہلی دلیل کے طور پر یہ کافی ہے )

پھر دین مکمل والی آیت سے یہ کہنا کہ کسی نبی کا آنا اس لیے ممکن نہیں یہ نہایت احمقانہ خیال ہے ، کیونکہ قرآن سے ہی ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں نبی آئے ، آپ کا یہ سوال کہ امتی کیسے کہہ سکتا ہے کہ ایمان لاو مجھ پر ، سو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک شخص امت میں سے ہو کر نبی بھی ہو تو یہ اس کا فرض ہے کہ ایمان لانے کا کہے ، اور یہ تو قرآنی بھی اور تاریخی طور پر بھی حقیقت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر عمل کرتے ہوئے نبی آئے اور ایک نہیں بہت سے آئے ، تو اب کیا مسئلہ ہو گیا کیا امت محمدیہ آپ کے نزدیک ہر لحاظ سے گری ہوئی ہے یہود سے؟

اور حدیث کو اتنا بھی آسانی سے رد نہیں کرنا چاہیے ، تاریخ جو اسلامی آج موجود ہے جو آپ بھی پڑھتے ہیں وہ بھی روایت کے ہی تسلسل پر قائم ہے ، گھر بیٹھ کر نہیں کوئی مورخ لکھتا رہا تو احادیث میں تو زیادہ خیال رکھا گیا ہے ، ورنہ آپ اگر ترک کرو تو کونسی دلیل ہے آپ کے پاس کہ حضرت محمد ﷺ کی کتنی بیویاں تھیں اور کس کا نام کیا تھا ؟ یہ درست ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کی طرف معبوث کیے گئے جیساکہ آپ نے قرآن سے آیت پیش کی ، مگر یہ بھی یاد رہے کہ حضرت محمد ﷺ کے سلسلہ کو اور ان کی آمد کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مثال دی گئی ہے قرآن میں کئی مقامات پر ، اور سورۃ صف کے آخر میں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا بتا کر یہ کہا ہے کہ کچھ ایمان لائے اور کچھ نے انکار کیا ؟ اس کا کیا مقصد بتانے کا امت کو اگر نہیں امت میں نبی آنا تھا ؟ آپ کے جواب کا انتظار رہے گا تاکہ تبادلہ خیالات اور دلائل بھی ہو سکے۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
فیضان صاحب نے نزول والی احادیث کا انکار صرف اس لیے کیا ہے کہ وہ بظاہر قرآن کے خلاف نظر آئیں ، حلانکہ احادیث کی تاویل قرآن کے مطابق کی جاسکتی ہے ، اس ضمن میں یہ بھی بتاتا چلوں
السلام علیکم!
 
Top