• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھا؟

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں نے اللہ کو دیکھا وہ نور ہی نور تھا"

میں جبرائیل والی بات کو رد نہٰیں کر رہا مگر میرے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ اس میں نفی نہیں کہیں نھی کہ میں نے اللہ کو نہیں دیکھا.آقا علیہ سلام نے جبرائیل کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا انہوں نے مشرق کو بھر لیا مگر ثم دنا فتدلی سے مراد وہ نہیں اللہ ہیں ......جبرائیل کو دیکھنا اللہ کے دیدار کی نفی نہیں.....معراج کی وجہ ہی دیدار الٰہی ہے......
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں نے اللہ کو دیکھا وہ نور ہی نور تھا"

میں جبرائیل والی بات کو رد نہٰیں کر رہا مگر میرے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ اس میں نفی نہیں کہیں نھی کہ میں نے اللہ کو نہیں دیکھا.آقا علیہ سلام نے جبرائیل کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا انہوں نے مشرق کو بھر لیا مگر ثم دنا فتدلی سے مراد وہ نہیں اللہ ہیں ......جبرائیل کو دیکھنا اللہ کے دیدار کی نفی نہیں.....معراج کی وجہ ہی دیدار الٰہی ہے......
میرا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کو دیکھا وہ بھی سر کی آنکھ سے........
اسی لیئے کہ جس نے اثبات کیا اس نے خود سنا......اور جس نے نفی کی اس نے اپنا اجتہاد لیا.......
بھائی! آپ سے افہام وتفہیم بہت مشکل ہے۔ آپ کو ایک دو مرتبہ کہنے سے بات سمجھ ہی نہیں آتی۔

میں نے عرض کیا تھا کہ صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم آپ بیان کر دیں، آپ نے پھر غیر متعلّقہ باتیں شروع کر دیں!

صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ یہ ہے:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
جس نے کہا کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔
سیدنا مسروق﷫ نے عرض کیا کہ اے ام المؤمنین، ذرا غور کیجئے! جلدی نہ کریں! کیا اللہ نے نہیں فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ ﴾ ۔۔۔ التكوير ’’اور البتہ اس نے اسے آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔‘‘ اور ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ النجم ’’اور البتہ تحقیق اس نے اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا۔‘‘
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا: « إنما هو جبريل. لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين. رأيته منهبطا من السماء. سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض » کہ ’’وہ تو جبریل تھے، میں نے جبریل کو ان کی اصل صورت جس پر انہیں پیدا کیا گیا ان دو مرتبہ کے علاوہ نہیں دیکھا، میں نے انہیں آسمان سے اُترتے دیکھا اس حال میں کہ اپنی عظیم خلقت وجسامت سے انہوں نے زمین وآسمان کے درمیان جگہ کو پُر کیا ہوا تھا۔‘‘ ۔۔۔ صحیح مسلم

اس روایت کا مفہوم آپ بیان کر دیں!

مجھے لگتا ہے کہ آپ پھر ادھر ادھر کی باتیں کریں گے، لہٰذا میں اس حدیث کا مفہوم بیان کر دیتا ہوں اگر آپ کو اتفاق ہو، تو میرے ساتھ تائید کر دیں یا پھر جہاں آپ کو اختلاف ہے وہ واضح کر دیں!

اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ سورۃ التکویر کی آیات کریمہ ﴿ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَ‌سُولٍ كَرِ‌يمٍ ١٩ ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْ‌شِ مَكِينٍ ٢٠ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ ٢١ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ ٢٢ وَلَقَدْ رَ‌آهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ اور سورۃ النجم کی آیات کریمہ ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ عِندَ سِدْرَ‌ةِ الْمُنتَهَىٰ ١٤ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ١٥ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَ‌ةَ مَا يَغْشَىٰ ١٦ مَا زَاغَ الْبَصَرُ‌ وَمَا طَغَىٰ ١٧ لَقَدْ رَ‌أَىٰ مِنْ آيَاتِ رَ‌بِّهِ الْكُبْرَ‌ىٰ ١٨ میں نبی کریمﷺ کے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ سیدنا جبریل﷤ کو دیکھنے کا ذکر ہے۔

کیا آپ کو اس سے اتفاق ہے؟؟؟
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
بھائی! آپ سے افہام وتفہیم بہت مشکل ہے۔ آپ کو ایک دو مرتبہ کہنے سے بات سمجھ ہی نہیں آتی۔

میں نے عرض کیا تھا کہ صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم آپ بیان کر دیں، آپ نے پھر غیر متعلّقہ باتیں شروع کر دیں!

صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ یہ ہے:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
جس نے کہا کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔
سیدنا مسروق﷫ نے عرض کیا کہ اے ام المؤمنین، ذرا غور کیجئے! جلدی نہ کریں! کیا اللہ نے نہیں فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ ﴾ ۔۔۔ التكوير ’’اور البتہ اس نے اسے آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔‘‘ اور ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ النجم ’’اور البتہ تحقیق اس نے اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا۔‘‘
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا: « إنما هو جبريل. لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين. رأيته منهبطا من السماء. سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض » کہ ’’وہ تو جبریل تھے، میں نے جبریل کو ان کی اصل صورت جس پر انہیں پیدا کیا گیا ان دو مرتبہ کے علاوہ نہیں دیکھا، میں نے انہیں آسمان سے اُترتے دیکھا اس حال میں کہ اپنی عظیم خلقت وجسامت سے انہوں نے زمین وآسمان کے درمیان جگہ کو پُر کیا ہوا تھا۔‘‘ ۔۔۔ صحیح مسلم

اس روایت کا مفہوم آپ بیان کر دیں!

مجھے لگتا ہے کہ آپ پھر ادھر ادھر کی باتیں کریں گے، لہٰذا میں اس حدیث کا مفہوم بیان کر دیتا ہوں اگر آپ کو اتفاق ہو، تو میرے ساتھ تائید کر دیں یا پھر جہاں آپ کو اختلاف ہے وہ واضح کر دیں!

اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ سورۃ التکویر کی آیات کریمہ ﴿ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَ‌سُولٍ كَرِ‌يمٍ ١٩ ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْ‌شِ مَكِينٍ ٢٠ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ ٢١ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ ٢٢ وَلَقَدْ رَ‌آهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ اور سورۃ النجم کی آیات کریمہ ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ عِندَ سِدْرَ‌ةِ الْمُنتَهَىٰ ١٤ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ١٥ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَ‌ةَ مَا يَغْشَىٰ ١٦ مَا زَاغَ الْبَصَرُ‌ وَمَا طَغَىٰ ١٧ لَقَدْ رَ‌أَىٰ مِنْ آيَاتِ رَ‌بِّهِ الْكُبْرَ‌ىٰ ١٨ میں نبی کریمﷺ کے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ سیدنا جبریل﷤ کو دیکھنے کا ذکر ہے۔

کیا آپ کو اس سے اتفاق ہے؟؟؟

میں پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ حضرت عائشہ سے کوئی روایت ایسی نہیں جس میں انہوں نے رسول اللہ سے یہ پوچھا ہو اور آپ نے یہ فرمایا ہو کہ میں نے اللہ کو نہیں دیکھا۔۔۔کوئی روایت بھی ایسی نہیں جبرائیل والی حدیث کا تو اس میں زکر ہی نہیں ۔۔۔۔۔اس میں استدلال کی 30 روایات ملتی ہیں۔۔۔کہ صھابہ نے خود سنا آقا سے اور انہوں نے فرمایا میں نے اللہ کو دیکھا۔۔۔۔۔حضرت عائشہ کا نفی کرنا کسی روایت سے نہیں "لا تدرک البصار" والی آیت سے تھا اور ان کی اس بات کو حضرت ابو بکر صدیق نے رد کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔آپ روایت دے رہے ہیں میں اس کا بھی آپکو جواب دے رہا ہوں کہ اس کی پوری حقیقت کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ جبرائیل والی حدیث اس بات کی دلیل نہیں کہ انہوں نے نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
آپ کوئی روایت لائیں جس میں ارشاد ہو کہ آپ نے فرمایا ہو میں نے اللہ کو نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبریل والی ات کا ہیاں کوئی جواز نہیں نتا۔۔۔۔۔۔نفی کی دلیل لائیں۔۔۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
میں پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ حضرت عائشہ سے کوئی روایت ایسی نہیں جس میں انہوں نے رسول اللہ سے یہ پوچھا ہو اور آپ نے یہ فرمایا ہو کہ میں نے اللہ کو نہیں دیکھا۔۔۔کوئی روایت بھی ایسی نہیں جبرائیل والی حدیث کا تو اس میں زکر ہی نہیں ۔۔۔۔۔اس میں استدلال کی 30 روایات ملتی ہیں۔۔۔کہ صھابہ نے خود سنا آقا سے اور انہوں نے فرمایا میں نے اللہ کو دیکھا۔۔۔۔۔حضرت عائشہ کا نفی کرنا کسی روایت سے نہیں "لا تدرک البصار" والی آیت سے تھا اور ان کی اس بات کو حضرت ابو بکر صدیق نے رد کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔آپ روایت دے رہے ہیں میں اس کا بھی آپکو جواب دے رہا ہوں کہ اس کی پوری حقیقت کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ جبرائیل والی حدیث اس بات کی دلیل نہیں کہ انہوں نے نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔
آپ کوئی روایت لائیں جس میں ارشاد ہو کہ آپ نے فرمایا ہو میں نے اللہ کو نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبریل والی ات کا ہیاں کوئی جواز نہیں نتا۔۔۔۔۔۔نفی کی دلیل لائیں۔۔۔۔۔
بھائی! میں بھی عمومی بات نہیں کر رہا، صرف سورۃ التکویر اور سورۃ النجم کی مخصوص آیات کی بات کر رہا ہوں۔
آپ سے مکرر گزارش ہے کہ ازراہِ کرم! صحیح مسلم کی روایت کے متعلّق آپ اپنا موقف بیان کریں!
بھائی! آپ سے افہام وتفہیم بہت مشکل ہے۔ آپ کو ایک دو مرتبہ کہنے سے بات سمجھ ہی نہیں آتی۔

میں نے عرض کیا تھا کہ صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم آپ بیان کر دیں، آپ نے پھر غیر متعلّقہ باتیں شروع کر دیں!

صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ یہ ہے:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
جس نے کہا کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔
سیدنا مسروق﷫ نے عرض کیا کہ اے ام المؤمنین، ذرا غور کیجئے! جلدی نہ کریں! کیا اللہ نے نہیں فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ ﴾ ۔۔۔ التكوير ’’اور البتہ اس نے اسے آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔‘‘ اور ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ النجم ’’اور البتہ تحقیق اس نے اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا۔‘‘
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا: « إنما هو جبريل. لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين. رأيته منهبطا من السماء. سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض » کہ ’’وہ تو جبریل تھے، میں نے جبریل کو ان کی اصل صورت جس پر انہیں پیدا کیا گیا ان دو مرتبہ کے علاوہ نہیں دیکھا، میں نے انہیں آسمان سے اُترتے دیکھا اس حال میں کہ اپنی عظیم خلقت وجسامت سے انہوں نے زمین وآسمان کے درمیان جگہ کو پُر کیا ہوا تھا۔‘‘ ۔۔۔ صحیح مسلم

اس روایت کا مفہوم آپ بیان کر دیں!

مجھے لگتا ہے کہ آپ پھر ادھر ادھر کی باتیں کریں گے، لہٰذا میں اس حدیث کا مفہوم بیان کر دیتا ہوں اگر آپ کو اتفاق ہو، تو میرے ساتھ تائید کر دیں یا پھر جہاں آپ کو اختلاف ہے وہ واضح کر دیں!

اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ سورۃ التکویر کی آیات کریمہ ﴿ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَ‌سُولٍ كَرِ‌يمٍ ١٩ ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْ‌شِ مَكِينٍ ٢٠ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ ٢١ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ ٢٢ وَلَقَدْ رَ‌آهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ اور سورۃ النجم کی آیات کریمہ ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ عِندَ سِدْرَ‌ةِ الْمُنتَهَىٰ ١٤ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ١٥ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَ‌ةَ مَا يَغْشَىٰ ١٦ مَا زَاغَ الْبَصَرُ‌ وَمَا طَغَىٰ ١٧ لَقَدْ رَ‌أَىٰ مِنْ آيَاتِ رَ‌بِّهِ الْكُبْرَ‌ىٰ ١٨ میں نبی کریمﷺ کے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ سیدنا جبریل﷤ کو دیکھنے کا ذکر ہے۔

کیا آپ کو اس سے اتفاق ہے؟؟؟
 

بابر تنویر

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 02، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
692
پوائنٹ
104
آپ کوئی روایت لائیں جس میں ارشاد ہو کہ آپ نے فرمایا ہو میں نے اللہ کو نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبریل والی ات کا ہیاں کوئی جواز نہیں نتا۔۔۔۔۔۔نفی کی دلیل لائیں۔۔۔۔۔
عاصم صاحب کو کوئ تو سمجھاۓ کہ دلیل وجود کی ہوا کرتی ہے۔ عدم کی نہیں۔ آپ یہ ثابت کیجیۓ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہین یہ فرمایا کہ میں نے اللہ تعالی کو دیکھا
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
کتابیں بھری پڑھی ہیں ....جناب کتنی تو میں بھی دے چکا ہوں......
بات اصل میں یہ ہے کہ آپ کے پاس دو روایات ہیں وہ بھی حضرت عائشہ والی اور جبرائیل والی.........

١-حضرت عائشہ کا اپنا اجتہاد تھا جس سے انہوں نے نفی کی وہ "لا تد رک الابصار والی آیت سے تھی.........اور اس سے احاطہ کی نفی ہے دیدار کی نہیں....اور حضرت عائشہ نے کوئی حدیث روایت نہیں کی جس میں اللہ کو دیکھنے کی نفی ہو......یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا جسکو ان کی اپنی حیات میں ان کے والد نے ہی رد کر دیا تھا.....اب آپ اس کو پھر دلیل میں کر نہ آہیں....

2- دوسری بات جبرائیل والی تو اس سے ان کو دیکھنا مراد ہے مگر رویت باری تعالیٰ کی نفی مراد نہیں......جبرائیل کو بھی دیکھا مگر اس میں وہ بات جو آپ لے کر آجاتے ہیں اس سے اس کی نفی کا تو کوئی جواز بنتا ہی نہیں.......اور جب جبریل جاکر سدرۃ لمنتہیٰ پر رک گیا تو آگے آقا کے ساتھ کون گیا تھا؟؟؟؟؟؟............اکیلے گئے تھے...........اور وہاں کی بات ہے "ثم دنا فتدلیٰ" وہاں رب قریب ہوا......

یہ روایت تو آگئی ہیں کتابون میں مگر ان پر جو صحابہ کی رائے تھی یا تابعی کی رائے یا فقہا کی رائے آپ ان کو بھی نہیں مانتے ور ہر بار یہی دوبارہ لے کر آجاتے ہں.....میں آپکو مجبور نہیں کرتا ...آپ اپنی عقیدے پر مجبور ہیں تو یوں ہی سہی...اب کی بار نہی دلیل ہو تو آنا ورنہ اس کے بعد اس پر ان ہی دلاہل سے بحث نہ کرنا......ان کو میں پہلے ہی ان کی حیات اور ان کے بعد کے عظیم لوگوں کی رویات لے کر رد کر چکا ہوں کہ آقا کی حدیث ان کے اپنے اجتہاد سے مقدم ہے..........جنہوں نے خود سنا کہ میں نے دیکھا ہے .......کسی نے نہیں سنا کہ میں نے نہیں دیکھا........

اب ان کے علاوہ روایات ہوں تو آجاہئں......ورنہ حدا حافظ.......
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
معراج کی وجہ ہی دیدار الٰہی ہے......
یہ دعویٰ بلا دلیل ہے بلکہ قرانی صراحت کے منافی ہے کہ نبی کریمﷺ کو معراج دیدارِ الٰہی کیلئے کرایا گیا تھا۔ اگر آپ کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل ہے تو بیان کریں!
ورنہ پھر یہ اللہ پر افتراء ہوگا، جو سب سے بڑا ظلم ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کو معراج بڑی بڑی نشانیاں دکھانے کیلئے کرایا گیا تھا۔
فرمانِ باری ہے: ﴿ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَ‌ىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَ‌كْنَا حَوْلَهُ لِنُرِ‌يَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‌ ١ ﴾ ۔۔۔ سورۃ الإسراء
پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے (1)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود اسراء ومعراج کی حکمت بیان کی ہے کہ یہ اس لئے تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔ اگر اس موقع پر نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہوتا تو لازماً اس کا یہاں ذکر ہوتا۔

نیز فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ عِندَ سِدْرَ‌ةِ الْمُنتَهَىٰ ١٤ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ١٥ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَ‌ةَ مَا يَغْشَىٰ ١٦ مَا زَاغَ الْبَصَرُ‌ وَمَا طَغَىٰ ١٧ لَقَدْ رَ‌أَىٰ مِنْ آيَاتِ رَ‌بِّهِ الْكُبْرَ‌ىٰ ١٨ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم
اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (13) سدرةالمنتہیٰ کے پاس (14) اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے (15) جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی (16) نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی (17) یقیناً اس (محمدﷺ) نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں (18)
پیچھے صحیح مسلم کی روایت سے واضح کیا جا چکا ہے کہ آیت نمبر 13 نبی کریمﷺ سے بذاتِ خود جبریل﷤ کی رؤیت مراد لی ہے۔ اور سورۃ النجم کی یہی آیات کریمہ معراج سے متعلق ہیں، اس سے پچھلی آیات میں معراج کا ذکر نہیں ہے۔
آیت نمبر 18 میں اللہ تعالیٰ نے صراحت فرمادی کہ معراج کی رات نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض دیکھیں۔

ثابت ہوا کہ معراج کے موقع پر نبی کریمﷺ نے جبریل﷤ کو دیکھا اور اللہ تعالیٰ بڑی بڑی نشانیوں میں بعض مثلاً جنت جہنم وغیرہ دیکھیں، لیکن اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔
اگر آپﷺ نے اللہ کو دیکھا ہوتا تو لازماً اس کا یہاں اور سورۃ الاسراء کی پہلی آیت کریمہ میں ذکر ہوتا۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
کتابیں بھری پڑھی ہیں ....جناب کتنی تو میں بھی دے چکا ہوں......
بات اصل میں یہ ہے کہ آپ کے پاس دو روایات ہیں وہ بھی حضرت عائشہ والی اور جبرائیل والی.........

١-حضرت عائشہ کا اپنا اجتہاد تھا جس سے انہوں نے نفی کی وہ "لا تد رک الابصار والی آیت سے تھی.........اور اس سے احاطہ کی نفی ہے دیدار کی نہیں....اور حضرت عائشہ نے کوئی حدیث روایت نہیں کی جس میں اللہ کو دیکھنے کی نفی ہو......یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا جسکو ان کی اپنی حیات میں ان کے والد نے ہی رد کر دیا تھا.....اب آپ اس کو پھر دلیل میں کر نہ آہیں....
بھائی! دو روایات نہیں، اور بھی ہیں، لیکن میں ایک ایک کر کے ہر دلیل پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جس پر آپ راضی نہیں۔ دس مرتبہ آپ سے کہا ہے کہ صحیح مسلم کی روایت پر اپنا موقف بیان کریں، لیکن وہی ڈھاک کے تین پات!
جہاں اس بات کا تعلق ہے کہ سیدنا ابو بکر﷜ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کو ردّ کر دیا تھا، تو یہ بھی آپ کا دعویٰ ہی ہے، جس پر آپ نے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ اگر اس کی کوئی دلیل ہے تو حوالے کے ساتھ پیش کریں!

2- دوسری بات جبرائیل والی تو اس سے ان کو دیکھنا مراد ہے مگر رویت باری تعالیٰ کی نفی مراد نہیں......جبرائیل کو بھی دیکھا مگر اس میں وہ بات جو آپ لے کر آجاتے ہیں اس سے اس کی نفی کا تو کوئی جواز بنتا ہی نہیں.......
چلیں آپ نے کم از کم یہ تو تسلیم کیا کہ سورۃ النجم کی معراج سے متعلق آیات (13 تا 18) میں اللہ تعالیٰ کی نہیں بلکہ سیدنا جبریل کی رؤیت کا ذکر ہے۔

آپ کہتے ہیں کہ اس سے اس موقعہ کے علاوہ دیگر موقعوں پر رؤیت الٰہی کا ردّ نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہے! مجھے آپ سے اتفاق ہے۔

اب یہ آپ کا کام ہے کہ معراج کے علاوہ دیگر موقعوں پر رؤیت الٰہی ثابت کریں! اگر آپ صحیح وصریح دلائل سے ثابت کر دیں گے تو میں ان شاء اللہ تسلیم کر لوں گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ دلائل اکٹھے کٹ پیسٹ کرنے کی بجائے صرف ایک دلیل پیش کریں، جب اس پر بات ختم ہوجائے تو پھر اگلی دلیل پیش کریں تاکہ بحث نتیجہ خیز ثابت ہوسکے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اور جب جبریل جاکر سدرۃ لمنتہیٰ پر رک گیا تو آگے آقا کے ساتھ کون گیا تھا؟؟؟؟؟؟............اکیلے گئے تھے...........اور وہاں کی بات ہے "ثم دنا فتدلیٰ" وہاں رب قریب ہوا......
سورۃ النجم کی آیات کریمہ 13 سے 18 کے بارے میں میرا اور آپ کا اتفاق ہے کہ ان آیات میں رؤیت جبریل﷤ کا ذکر ہے۔

اب اس کے بعد آپ کا موقف ہے کہ سورة النجم کی آیت نمبر 8 ﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ سدرۃ المنتہیٰ سے آگے کے مرحلے کی ہے۔ اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا قریب ہونا مراد ہے۔

جبکہ میرا موقف یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ معراج کے بارے میں ہے ہی نہیں، بلکہ یہ تو شروع وحی کے موقع کی ہے جب نبی کریمﷺ نے پہلی مرتبہ جبریل﷤ کو ان کی اصل فرشتوں والی شکل میں دیکھا۔ اور اس آیت کریمہ سے جبریل﷤ کا قریب آنا مراد ہے۔
میری دلیل صحیح بخاری ومسلم کی یہ روایت ہے کہ سیدنا مسروق﷫ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیات کریمہ: ﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم کا معنیٰ پوچھا تو انہوں نے فرمایا: إنما ذاك جبريل! كان يأتيه في صورة الرجال، وإنه أتاه هذه المرة في صورته التي هي صورته فسد أفق السماء کہ اس سے مراد جبریل﷤ ہیں، عام طور پر وہ نبی کریمﷺ کے پاس آدمی کی صورت میں آتے تھے، اس مرتبہ وہ نبی کریمﷺ کے پاس اپنی اصل (فرشتوں والی) صورت میں آئے تھے اور انہوں آسمان کا افق گھیر رکھا تھا۔‘‘

اسی طرح سیدنا ابن مسعود﷜ سے آیات کریمہ ﴿ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم کی تفسیر میں مروی ہے: أنه رأى جبريل، له ست مائة جناح ۔۔۔ صحیح البخاری کہ نبی کریمﷺ نے جبریل﷤ کو دیکھا تھا اور ان کے چھ سو پر تھے۔

تمام جید مفسرین نے بھی اس آیت کریمہ کی اوّلین اور راجح تفسیر یہی بیان کی ہے۔ دیکھئے پوسٹ نمبر 61، پوسٹ نمبر 62 اور پوسٹ نمبر 81

میرا آپ سے سوال ہے کہ اگر یہ آیت کریمہ سدرۃ المنتہیٰ کے بعد کی ہے تو اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سدرۃ المنتہیٰ سے پہلے کیوں کیا؟ کیونکہ سورۃ النجم کی آیت نمبر 14 میں سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر ہے، جبکہ اس آیت کریمہ کا نمبر 8 ہے۔
 
Top