• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
لیکن اس روایت میں جو بیان ہے اُس پرآپ نے غور کیا، لوگ خوف سے تکبیر نہیں پڑھ رہے تھے، اور خوف تو ذاتی حس کی بنیاد پر جنم لیتا ہے لیکن جب اُن کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا حکم سنایا گیا تو اس کی مخالفت کسی نے نہیں کی، اگر یہ حکم ہوتا تو لازمی بعد میں یا اُسی وقت کسی قسم کی کوئی مزاحمت سامنے ضرور آتی لہذا اس کو آپ اس روایت کہ درست زوائے سے پیش کیجئے نا کہ ایک خاص گروہ کی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
لیکن اس روایت میں جو بیان ہے اُس پرآپ نے غور کیا، لوگ خوف سے تکبیر نہیں پڑھ رہے تھے، اور خوف تو ذاتی حس کی بنیاد پر جنم لیتا ہے لیکن جب اُن کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا حکم سنایا گیا تو اس کی مخالفت کسی نے نہیں کی، اگر یہ حکم ہوتا تو لازمی بعد میں یا اُسی وقت کسی قسم کی کوئی مزاحمت سامنے ضرور آتی لہذا اس کو آپ اس روایت کہ درست زوائے سے پیش کیجئے نا کہ ایک خاص گروہ کی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔

محترم ،
لگتا ہے اپ نے اس روایت کی غور سے نہیں پڑھا ہے اس میں صاف موجود کہ خوف کوئی طبعی نہیں تھا بلکہ معاویہ رضی الله عنہ کے خوف سا لوگ سنت پر عمل نہیں کر رہے تھے تو یہ کہنا کہ یہ کوئی حکم نہیں تھا انتہائی نہ علمی کی بات ہے جب ابن عباس رضی اللہ عنہما خود فرما رہے ہے کہ سنت ترک کردی وہ بھی معاویہ رضی الله عنہ کے خوف سے تو اس پر کوئی اور کیا بات کہی جائے
دوسری بات اپ نے لکھا کہ مزاحمت ضرور آتی اس کے لئے مصنف ابن ابی شیبہ سے روایت پیش کر رہا ہوں کہ سارا مدینہ موجود تھا مگر کس طرح جبری بیعت لی جا رہی تھی مگر کوئی مزاحمت نہیں ہوئی تو بھائی جبر اتنا پڑھ گیا تھا کہ بولنا مشکل تھا اپ مزاحمت کی بات کر رہے ہیں اور اس حوالے سے بخاری کتاب علم میں ابو ھریرہ رضی الله عنہ کی روایت بھی پڑھ لینا .
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
محترم ،
لگتا ہے اپ نے اس روایت کی غور سے نہیں پڑھا ہے اس میں صاف موجود کہ خوف کوئی طبعی نہیں تھا بلکہ معاویہ رضی الله عنہ کے خوف سا لوگ سنت پر عمل نہیں کر رہے تھے تو یہ کہنا کہ یہ کوئی حکم نہیں تھا انتہائی نہ علمی کی بات ہے جب ابن عباس رضی اللہ عنہما خود فرما رہے ہے کہ سنت ترک کردی وہ بھی معاویہ رضی الله عنہ کے خوف سے تو اس پر کوئی اور کیا بات کہی جائے۔
وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور اے محمدؐ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں. (سورة الانعام # 116)

آپ ماشاء اللہ سمجھدار انسان لگتے ہیں، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ باتیں جو اب تک آپ کے قلم سے ادا ہوئی ہیں وہ ساری کی ساری ناسمجھی کہ دائرے میں گھوم رہی ہیں اگر خوف طبعی تھا تو پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہ کہنے پر تکبیر بلاخوف وجھجک کیونکر ذکر کرنا شروع کردی؟ دوسری بات خوف سے اگر لوگ تکبیر نہیں پڑھ رہے تھے تو وہ حج پر کیسے پہنچ گئے؟ کیونکہ حج بھی سنت ہے؟ یعنی ایک سنت میں طبعی خوف اور دوسرا ببانگ دہل انجام دینا کوئی منطق بنتی ہے؟ لہٰذا آپ اپنے مقصد کو یا یوں سمجھ لیں کہ رافضیت کہ موقف کو درست ثابت کرنے پر بضد کیوں ہیں؟ اگر اس کا کوئی نفسیاتی پہلو ہے تو اُس کو سامنے رکھیں، لیکن جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، احناف (اہل الرائے) میں سے آل دیوبند اور بریلی سے بریلوی حضرات نے یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کہ تعلق سے اہل روافض کے مواد کو من وعن اپنی کتب میں مقام افضلیت بخشا، اب کمبختی یہ آگئی کہ جیسے جیسے حقائق اور روایت کہ تخریج اور اسماء الرجال کی کسوٹی پر پرکھنے کہ بعد راویوں کہ ثقاہت جیسے معاملات سامنے آئے تو (اہل الرائے ) نظریات اور مسلکی عقائد کہ محلات کی دیواریں ہلنے لگی ہیں کیونکہ ایک عام قاری یا یوں کیں کہ لوگوں کی درسترس تک علم پہنچتا شروع ہو گیا ہے تو اہل روافض دور بیٹھے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ اب یہ خود اپنے مسلک کو بچانے کہ لئے یزید رحمہ اللہ علیہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہ خلاف اہل روافض کہ موقف کی تائید کریں گے۔ اسی لئے تقلید کو تنقید کہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔

دوسری بات! آپ کسی بھی فیس بک پر ایسے گروپ میں چلے جائیں جس میں انتظامی امور اہل روافض کہ ہاتھ میں ہیں تو وہ ہمیں اُن ہی کتب کہ صفحات اسکین کر، کر کے وہی واقعات دکھاتے ہیں جو رافضیوں کہ ذاکر ممبر پر بیٹھ کر سناتے ہیں آل دیوبند اور آل بریلی نے تقلید کی روش پر چلتے ہوئے من وعن بلاتحقیق اپنی مستند کتب میں جن واقعات کو جگہ دی آج وہی اُن کہ حلق کی ہڈی بن گئے ہیں۔ تو میرے دوست یہ کہلاتی ہے سازش سارے واقعات یا "روایات" ایک طرف دھکیل دیجیئے، کیونکہ اب بات ہورہی ہے حدیث کی اور امام بخاری رحمۃ اللہ کی بیان کردہ حدیثِ قسطنطنیہ تمام روایات جو راویوں کی قصہ گوئیوں پر مبنی ہیں پر بازی مار گئی اس لئے سُوظن رکھنے کی بجائے اپنے مسلمان اور کاملِ ایمان ہونے کا ثبوت اس حدیث کہ روشنی میں تمام روایات کو باطل سمجھ کر رد کرتے ہوئے کیجئے۔۔۔۔
کیونکہ اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے۔۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو کہ) تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
فتدبر!!!
واللہ اعلم،،،
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم ،
لگتا ہے اپ نے اس روایت کی غور سے نہیں پڑھا ہے اس میں صاف موجود کہ خوف کوئی طبعی نہیں تھا بلکہ معاویہ رضی الله عنہ کے خوف سا لوگ سنت پر عمل نہیں کر رہے تھے تو یہ کہنا کہ یہ کوئی حکم نہیں تھا انتہائی نہ علمی کی بات ہے جب ابن عباس رضی اللہ عنہما خود فرما رہے ہے کہ سنت ترک کردی وہ بھی معاویہ رضی الله عنہ کے خوف سے تو اس پر کوئی اور کیا بات کہی جائے
دوسری بات اپ نے لکھا کہ مزاحمت ضرور آتی اس کے لئے مصنف ابن ابی شیبہ سے روایت پیش کر رہا ہوں کہ سارا مدینہ موجود تھا مگر کس طرح جبری بیعت لی جا رہی تھی مگر کوئی مزاحمت نہیں ہوئی تو بھائی جبر اتنا پڑھ گیا تھا کہ بولنا مشکل تھا اپ مزاحمت کی بات کر رہے ہیں اور اس حوالے سے بخاری کتاب علم میں ابو ھریرہ رضی الله عنہ کی روایت بھی پڑھ لینا .
وہ صحابہ کرام جن کے رعب و دبدبے سے اہل فارس و روم کانپتے تھے - وہ معاویہ رضی الله عنہ کے حکم سے خوف کھا بیٹھے ؟؟- یہی صحابہ کرام جو خلیفہ دوم حضرت عمر رضی الله عنہ کی سخت گیر شخصیت کے سامنے حق بات کہنے سے گریز نہیں کرتے تھے اور عین خطبہ جمہ میں ان سے سوال کرلیتے تھے وہ معاویہ رضی الله عنہ کے دور خلافت میں اتنے بزدل ہو گئے کہ ان کے خوف سے تلبیہ پڑھانا چھوڑ دی ؟؟ - نیز معاویہ رضی الله عنہ نے اپنی حکم عدولی کرنے والوں کو کیا سزا دی ؟؟ کوئی روایت پیش کی جائے جس میں ان کے جبر و سزاؤں کا ذکر ہو جو ان کی حکم عدولی پر دی جاتیں تھیں ؟؟ صرف خالی جبر و ظلم کی بادشاہت کہہ دینے سے کوئی ظالم ثابت نہیں ہو جاتا -

البانی کے صحیح کہہ دینے سے روایت صحیح نہیں ہو جاتی - البانی رحم الله سے روایات کو پرکھنے میں اکثر مقامات پر خطاء ہوئی ہے-

آپ کو مخلصانہ مشوره ہے کہ "مودودیت " کے خول سے باہر آ کر اپنے نظریات پیش کریں -
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں !
اما بعد !
"بیعت وخلافتِ یزیدؒ "
صحیح روایات کے مقابلے میں تاریخ کے بے بنیاد اورغیرمحفوظ افسانوں کو ہی لوگوں نے سچ مان لیا اورتحقیق کی زحمت گوارہ نہیں کی، اورعلماء مذاہب نے بھی جھوٹی روایات کو پیش کرکے اپنی کم علمی کا ثبوت دیا اوراپنے ہی اسلاف کے خلاف زہرافشانی کرتے رہے ہیں ۔
یزیدؒ کے بارے میں انتہائی غلط تاثر قائم کر دیا گیا ہے اوران پر بے بنیاد اور قبیح الزام لگائے گئے ہیں ۔ جبکہ صحیح احادیث میں ان کو جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔
صحیح روایات میں ان کا کردار بالکل بے داغ ہے بلکہ اُن کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں :
عبداللہ بن زبیرؓ نے اپنے خلیفہ ہونے کا اعلان کیا اہل مدینہ میں سے (بعض لوگوں نے) یزیدؒ کی بیعت توڑ دی (اورعبداللہ بن زبیرؓ کو خلیفہ بنانا چاہا)، جب ابن حنظلہ نے (یزیدؒ کے خلاف) بیعت لینی شروع کی ، وہ موت پر بیعت لے رہے تھے (اکابرِ امت یزیدؒ کی بیعت توڑنے کے خلاف تھے) عبداللہ بن زید ؓ نے (ابن حنظلہ کی بیعت کرنے سے صاف انکار کر دیا انہوں نے) فرمایا ،،میں رسول ﷺ کے بعد موت پر کسی سےبیعت نہ کروں گا ۔
(صحیح بخاری کتاب الجہاد بیعت فی الحرب عن عباد بن تمیمؓ وکتاب الفتن)
عبداللہ بن عمرؓ بھی اس بغاوت میں شامل نہیں تھے ،انہوں نے یزیدؒ کی بیعت نہیں توڑی بلکہ انہوں نے اس سازش کی سخت مخالفت کی ،انہوں نے اپنے تمام رشتہ داروں اور اولاد کو جمع کیا اور فرمایا میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ۔، آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہر بد عہد کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ، ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی اور اب اس سے قتال شروع کر دیا ہے ، اگر مجھے معلوم ہوا کہ تم میں سے کسی نے یزیدؒ کی بیعت توڑی تو میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا ۔
( صحیح بخاری کتاب الفتن باب اذا قال عند قوم شیئا ثم خرج )
محمد بن عبدالرحمٰن ابوالاسودؓ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک لشکر تیار کیا گیا ( تاکہ یزیدؒ کے خلاف بغاوت کی جائے اوران کی فوج کا مقابلہ کیا جائے) میرا نام بھی اس میں لکھ لیا گیا (اگرچہ میری مرضی نہیں تھی) میں عکرمہؓ کے پاس گیا اور اُن سے اس بات کا تذکرہ کیا ۔ عکرمہؓ نے مجھے اس لشکر میں شامل ہونے سے سختی کے ساتھ ممانعت کی اور فرمایا کہ مجھے ابنِ عباسؓ نے خبردی کہ بعض مسلم (مجبوراً) کافروں کے ساتھ صحابہؓ کے خلاف میدانِ جنگ میں آگئے تھے اور (اگرچہ وہ لڑنے نہیں آئے تھے لیکن)مشرکین کی تعداد میں اضافہ کا موجب بنے ہوئے تھے ۔ (وہ مسلم اگرچہ لڑے نہیں لیکن پھر بھی ان میں سے) بہت سے تیروں کی ضرب سے قتل ہوتے رہے (جو تیر کافروں پر مارے جاتے تھے وہ ان پر بھی لگ جایا کرتے تھے) اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے متعلق یہ آ یت نازل فرمائی :
ترجمہ !!! بے شک جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا (اور کفار کی فوج میں شامل رہے) جب فرشتوں نے ان کی جان نکالی تو اُن سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے ( کیوں کفار کے ساتھ رہے) انہوں نے جواب دیا ہم ملک میں بے بس و مجبور تھے (مجبوراً ہمیں کفار ساتھ دینا پڑا) فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین فراخ نہیں تھی کہ اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت بُری جگہ ہے ۔
(سورۃ النسآء: 97) ۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ النسآء )
تبصرہ : یعنی عبداللہ بن زبیرؓ کےمقابلے میں بھی اس وقت عبداللہ بن عمرؓ ،و عبداللہ بن زید ؓ،و انسؓ اور دوسرے صحابہؓو تا بعیین نے نہ تو بیعت توڑی اور نہ اس بغاوت کو اچھا سمجھا بلکہ انہوں نے باقیوں کو بھی منع کردیا کہ نہ تو یزیدؒ کی بیعت توڑیں اور نہ ہی اس سازش میں شریک ہوں ۔ جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یزیدؒ ایک اچھے انسان تھے اور خلافت کا اہل بھی تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس وقت موجود اصحابؓ رسولﷺ ان کو کبھی بھی برداشت نہ کرتے ۔ عبداللہ بن عمرؓ کا یہ کہنا کہ ،،ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی ،، اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یزیدؒ امارت کے اہل تھے کیونکہ سنت کے مطابق جن امور پر بیعت کی جاتی ہے وہ یہ ہیں ۔ : 1 ؛ شرک نہ کرنا ۔ 2 ؛ چوری نہ کرنا ۔ 3 ؛ زنا نہ کرنا ۔ 4 ؛ اولاد کو قتل نہ کرنا ۔ 5 ؛ کسی پر بہتان نہ لگانا ۔ 6 ؛ معروف باتوں میں نافرمانی نہ کرنا ۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان ) 7؛ کسی کو ناحق قتل نہ کرنا ۔ (طبرانی اوسط ۱؍۵۰۴ ۔سندہ صحیح) 8 ؛ نوحہ و ماتم نہ کرنا ۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز و روٰی نحوہ البخاری فی کتاب الاحکام ) یہ ہے وہ سنت کے مطابق بیعت جس کا ذکر عبداللہ بن عمرؓ نے کیا اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت موجود تمام صحابہؓ نے بیعت کی تو وہ یزید ؒ کو امارت کا اہل و حق دار سمجھتے تھے اسی لیئے انہوں نے یزید ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔
وہ جانتے تھے کہ یزیدؒ امارت کے اہل ہیں ان کی بیعت کو توڑ کر ہم حدیث کی لپیٹ میں آجائیں گے یعنی ،،،
قیامت کے دن ہر بد عہد کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ، ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی اور اب اس سے قتال شروع کر دیا ،،، اگر یزیدؒ کے ایمان، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں اور ان کے کردار میں خامی ہوتی تو پھر بیعت توڑنے کا جواز ہوتا مگر ایسا نہیں تھا اسی لیئے صحابہؓ نے یزیدؒ کی بیعت نہیں توڑی جس کا واضح مطلب ہے کہ وہ حق پر قائم تھے ۔
تب ہی تو عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے تمام رشتہ داروں اور اولاد کو جمع کیا اور ان کو بیعت یزیدؒ توڑنے سے سختی سے منع کیا ۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں !
اما بعد !
"بیعت وخلافتِ یزیدؒ "
صحیح روایات کے مقابلے میں تاریخ کے بے بنیاد اورغیرمحفوظ افسانوں کو ہی لوگوں نے سچ مان لیا اورتحقیق کی زحمت گوارہ نہیں کی، اورعلماء مذاہب نے بھی جھوٹی روایات کو پیش کرکے اپنی کم علمی کا ثبوت دیا اوراپنے ہی اسلاف کے خلاف زہرافشانی کرتے رہے ہیں ۔
یزیدؒ کے بارے میں انتہائی غلط تاثر قائم کر دیا گیا ہے اوران پر بے بنیاد اور قبیح الزام لگائے گئے ہیں ۔ جبکہ صحیح احادیث میں ان کو جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔
صحیح روایات میں ان کا کردار بالکل بے داغ ہے بلکہ اُن کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں :
عبداللہ بن زبیرؓ نے اپنے خلیفہ ہونے کا اعلان کیا اہل مدینہ میں سے (بعض لوگوں نے) یزیدؒ کی بیعت توڑ دی (اورعبداللہ بن زبیرؓ کو خلیفہ بنانا چاہا)، جب ابن حنظلہ نے (یزیدؒ کے خلاف) بیعت لینی شروع کی ، وہ موت پر بیعت لے رہے تھے (اکابرِ امت یزیدؒ کی بیعت توڑنے کے خلاف تھے) عبداللہ بن زید ؓ نے (ابن حنظلہ کی بیعت کرنے سے صاف انکار کر دیا انہوں نے) فرمایا ،،میں رسول ﷺ کے بعد موت پر کسی سےبیعت نہ کروں گا ۔
(صحیح بخاری کتاب الجہاد بیعت فی الحرب عن عباد بن تمیمؓ وکتاب الفتن)
عبداللہ بن عمرؓ بھی اس بغاوت میں شامل نہیں تھے ،انہوں نے یزیدؒ کی بیعت نہیں توڑی بلکہ انہوں نے اس سازش کی سخت مخالفت کی ،انہوں نے اپنے تمام رشتہ داروں اور اولاد کو جمع کیا اور فرمایا میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ۔، آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہر بد عہد کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ، ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی اور اب اس سے قتال شروع کر دیا ہے ، اگر مجھے معلوم ہوا کہ تم میں سے کسی نے یزیدؒ کی بیعت توڑی تو میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا ۔
( صحیح بخاری کتاب الفتن باب اذا قال عند قوم شیئا ثم خرج )
محمد بن عبدالرحمٰن ابوالاسودؓ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک لشکر تیار کیا گیا ( تاکہ یزیدؒ کے خلاف بغاوت کی جائے اوران کی فوج کا مقابلہ کیا جائے) میرا نام بھی اس میں لکھ لیا گیا (اگرچہ میری مرضی نہیں تھی) میں عکرمہؓ کے پاس گیا اور اُن سے اس بات کا تذکرہ کیا ۔ عکرمہؓ نے مجھے اس لشکر میں شامل ہونے سے سختی کے ساتھ ممانعت کی اور فرمایا کہ مجھے ابنِ عباسؓ نے خبردی کہ بعض مسلم (مجبوراً) کافروں کے ساتھ صحابہؓ کے خلاف میدانِ جنگ میں آگئے تھے اور (اگرچہ وہ لڑنے نہیں آئے تھے لیکن)مشرکین کی تعداد میں اضافہ کا موجب بنے ہوئے تھے ۔ (وہ مسلم اگرچہ لڑے نہیں لیکن پھر بھی ان میں سے) بہت سے تیروں کی ضرب سے قتل ہوتے رہے (جو تیر کافروں پر مارے جاتے تھے وہ ان پر بھی لگ جایا کرتے تھے) اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے متعلق یہ آ یت نازل فرمائی :
ترجمہ !!! بے شک جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا (اور کفار کی فوج میں شامل رہے) جب فرشتوں نے ان کی جان نکالی تو اُن سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے ( کیوں کفار کے ساتھ رہے) انہوں نے جواب دیا ہم ملک میں بے بس و مجبور تھے (مجبوراً ہمیں کفار ساتھ دینا پڑا) فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین فراخ نہیں تھی کہ اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت بُری جگہ ہے ۔
(سورۃ النسآء: 97) ۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ النسآء )
تبصرہ : یعنی عبداللہ بن زبیرؓ کےمقابلے میں بھی اس وقت عبداللہ بن عمرؓ ،و عبداللہ بن زید ؓ،و انسؓ اور دوسرے صحابہؓو تا بعیین نے نہ تو بیعت توڑی اور نہ اس بغاوت کو اچھا سمجھا بلکہ انہوں نے باقیوں کو بھی منع کردیا کہ نہ تو یزیدؒ کی بیعت توڑیں اور نہ ہی اس سازش میں شریک ہوں ۔ جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یزیدؒ ایک اچھے انسان تھے اور خلافت کا اہل بھی تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس وقت موجود اصحابؓ رسولﷺ ان کو کبھی بھی برداشت نہ کرتے ۔ عبداللہ بن عمرؓ کا یہ کہنا کہ ،،ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی ،، اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یزیدؒ امارت کے اہل تھے کیونکہ سنت کے مطابق جن امور پر بیعت کی جاتی ہے وہ یہ ہیں ۔ : 1 ؛ شرک نہ کرنا ۔ 2 ؛ چوری نہ کرنا ۔ 3 ؛ زنا نہ کرنا ۔ 4 ؛ اولاد کو قتل نہ کرنا ۔ 5 ؛ کسی پر بہتان نہ لگانا ۔ 6 ؛ معروف باتوں میں نافرمانی نہ کرنا ۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان ) 7؛ کسی کو ناحق قتل نہ کرنا ۔ (طبرانی اوسط ۱؍۵۰۴ ۔سندہ صحیح) 8 ؛ نوحہ و ماتم نہ کرنا ۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز و روٰی نحوہ البخاری فی کتاب الاحکام ) یہ ہے وہ سنت کے مطابق بیعت جس کا ذکر عبداللہ بن عمرؓ نے کیا اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت موجود تمام صحابہؓ نے بیعت کی تو وہ یزید ؒ کو امارت کا اہل و حق دار سمجھتے تھے اسی لیئے انہوں نے یزید ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔
وہ جانتے تھے کہ یزیدؒ امارت کے اہل ہیں ان کی بیعت کو توڑ کر ہم حدیث کی لپیٹ میں آجائیں گے یعنی ،،،
قیامت کے دن ہر بد عہد کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ، ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی اور اب اس سے قتال شروع کر دیا ،،، اگر یزیدؒ کے ایمان، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں اور ان کے کردار میں خامی ہوتی تو پھر بیعت توڑنے کا جواز ہوتا مگر ایسا نہیں تھا اسی لیئے صحابہؓ نے یزیدؒ کی بیعت نہیں توڑی جس کا واضح مطلب ہے کہ وہ حق پر قائم تھے ۔
تب ہی تو عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے تمام رشتہ داروں اور اولاد کو جمع کیا اور ان کو بیعت یزیدؒ توڑنے سے سختی سے منع کیا ۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
جزاک الله-

کاش یہ بات اس فورم پرموجود کچھ لوگوں کو سمجھ آ جائے جو کسی بھی طور حقاق کو سمجھنے کو تیار نہیں ہیں -
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
پ ماشاء اللہ سمجھدار انسان لگتے ہیں، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ باتیں جو اب تک آپ کے قلم سے ادا ہوئی ہیں وہ ساری کی ساری ناسمجھی کہ دائرے میں گھوم رہی ہیں اگر خوف طبعی تھا تو پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہ کہنے پر تکبیر بلاخوف وجھجک کیونکر ذکر کرنا شروع کردی؟ دوسری بات خوف سے اگر لوگ تکبیر نہیں پڑھ رہے تھے تو وہ حج پر کیسے پہنچ گئے؟ کیونکہ حج بھی سنت ہے؟ یعنی ایک سنت میں طبعی خوف اور دوسرا ببانگ دہل انجام دینا کوئی منطق بنتی ہے؟
[FONT=simplified arabic, serif]محترم ،[/FONT]
[FONT=simplified arabic, serif]میں بھی اپ سے یہی حسن ظن رکھتا ہوں کہ اپ ایک سمجھدار انسان ہیں مگرجہاں تک میرا اندازہ ہے کہ اپ نے مجھے اس ظن پر قائم رہنے نہیں دینا ہے کیونکہ یہ طبی خوف والا مفہوم اپ ہی کے قلم سے ادا ہوا تھا کہ [/FONT]
[FONT=simplified arabic, serif]
اور خوف تو ذاتی حس کی بنیاد پر جنم لیتا ہے

[/FONT]


[FONT=simplified arabic, serif][/FONT]

[FONT=simplified arabic, serif]اس میں طبعی خوف کا میں نے انکار کیا تھا کہ یہ طبعی خوف نہیں تھا بلکہ معاویہ رضی الله عنہ کے خوف سے ایسا کیا جا رہا تھا میں یہ سمجھتا ھو کہ شاید اپ کے قلم کی لرزش سے ہوا ھو گا اور اپ یہی کہنا چارہے ہو گے کہ یہ طبعی خوف نہیں تھا تو اس طریقہ پر اپ کا جملہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ " اگر خوف طبعی نہیں تھا تو ابن عباس رضی الله عنہ کے کہنے سے تکبیر بلا خوف جھجھک کیونکر ذکر کرنا شروع کر دی ؟[/FONT]
اپ سے کس نے کہا کہ سب نے تکبیر دینا شروع کر دی تھی کسی نے اس وقت بھی تکبیر نہیں دی صرف ابن عباس رضی الله عنھما نے دی تھی روایت دوبارہ پڑھ لیں


سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: «مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟» قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِي(سنن نسائی رقم3006 کتاب الحج باب التَّلْبِيَةُ بِعَرَفَة)
ترجمہ: سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ عرفات میں تھا انہوں نے پوچھا کیا بات ہے میں لوگوں کی تلبیہ کی آواز نہیں سن رہا میں نے کہا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خوف سے نہیں کہہ رہے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے خیمہ سے نکلے اور لبیک اللھم لبیک کہا اور کہا کہ انہوں نے بغض علی رضی اللہ عنہ میں سنت کو چھوڑدیا۔

اس میں یہ کہاں موجود ہیں کہ سب نے تکبیر پڑھنا شروع کردیا تھا اپ مجھے دکھا دیں
دوسری بات اپ سے یہ سوال ہے سنن نسائی اہل رائے (دیوبندی یا برھلوی ) میں سے کس کی کتاب ہے جس میں یہ موجود ہے اور میں نے اپ کو اس کی سند بھی پیش کی تھی اس میں بھی اپ کوئی علت نہیں بیان کر سکے اور میں اپ کو پرکھی اور صحیح روایات پیش کر رہا ہوں یہ کوئی ضعیف اور منگھڑت روایت نہیں ہے دوسری اپ نے کہا کہ حج پر کیسے آ گئے تو اس کے لئے عرض ہے حج سے منع ہے نہیں کیا تھا جس حج کے حوالے سے مارا جاتا تھا وہ حج تمتع تھا اس سے منع کیا تھا اس کا بھی اسکین بھیج دوں گا اگر مطالبہ کیا تو

آل دیوبند اور آل بریلی نے تقلید کی روش پر چلتے ہوئے من وعن بلاتحقیق اپنی مستند کتب میں جن واقعات کو جگہ دی آج وہی اُن کہ حلق کی ہڈی بن گئے ہیں۔

تو اپ کی یہ خوش فہمی ہے کہ اہل رائے کے علاوہ اصحاب حدیث نے اس بارے میں کچھ نہیں لکھا یا ان کی کتابوں ایسی روایات موجود نہیں ہیں اصحاب حدیث نے اس میں یہ کیا ہے کہ کچھ چھان پھٹک کرنے کے بعد یہ اسناد کو واضح کر کے لکھا ہے کی ہے مگر ان کی کتابوں میں بھی اپ کو یہ باتیں مل جائے گی اس کی مثال کے طور پرامام ابن تیمیہ سے زیادہ اہل حدیث کون ہے اہل حدیث ان کو کوڈ کرتے ہے ان کے حوالے سے ان کے شاگرد ابن قیم زاد المعاد میں نقل کرتے ہیں کہ نماز میں احداث بنو امیہ نے نکالی ہیں .

تو میرے دوست یہ کہلاتی ہے سازش سارے واقعات یا "روایات" ایک طرف دھکیل دیجیئے، کیونکہ اب بات ہورہی ہے حدیث کی اور امام بخاری رحمۃ اللہ کی بیان کردہ حدیثِ قسطنطنیہ تمام روایات جو راویوں کی قصہ گوئیوں پر مبنی ہیں پر بازی مار گئی اس لئے سُوظن رکھنے کی بجائے اپنے مسلمان اور کاملِ ایمان ہونے کا ثبوت اس حدیث کہ روشنی میں تمام روایات کو باطل سمجھ کر رد کرتے ہوئے کیجئے۔۔۔۔
کیونکہ اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے۔۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
تو جب بخاری کی اور حدیث کی بات آ گئی ہے تو پھر میں بھی اپ کو بخاری مسلم اور احادیث ہی پیش کرتا ہوں میری دعوت بھی یہی ہے کہ حدیث اور کتب احادیث کی روایات سے اس معاملے کو سمجھیں اپکےلئے روایات پیش کردیتا ہوں




 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
huzafa.png



یہ بخاری کی روایت ہے قصہ کہانی کی کتاب نہیں ہے
اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد کے فتنوں کی وجہ سے مسلمان اکیلے نماز پڑھتے ڈر رہے ہیں کس سے ؟

abu hurerah.png


یہ بھی بخاری کی روایت ہے راویوں کی قصہ گوئی نہیں ہے اس میں ابوہریرہ رضی الله عنہ حدیث کیوں نہیں بتا رہے حدیث بتانے میں جان کا خوف کیوں ؟
اس میں صحابی کو کس کا خوف ہے ؟
مسلم سے ایک دو حوالے
imran bn husan.png


مرتے وقت حدیث بتا رہے ہیں اگرزندہ رہ گئے تو فرماتے ہیں چھپا لینا مت بتانا کس کا خوف ہے بقول اپ کے امن کا دور تھا پر اس امن کے دور میں کس کا خوف تھا ؟

maqal bin yasar.png


معقل بن یسار رضی الله عنہ مرتے وقت حدیث بتا رہے ہیں گورنر ابن زیاد کو اور فرما رہے ہیں اگر زندہ رہنے کی امید ہو تو نہ بتاؤں کیوں ابن زیاد ایسا کیا کرتا تھا کہ اس کو حدیث بھی نہ بتائی جائے؟

اور جو بتانے تھے اس کو کیا کہتا تھا پڑھ لو یہ عزت تھی اس وقت صحابہ کرام کی جو کو اپ بنو امیہ کا بڑا اچھا اسلامی دور کہتے ہیں اب بھی عظمت صحابہ کی حمیت جوش نہیں مارتی تو پھر الله ہی حافظ پڑھ لے صحابہ سے سلوک .
umer bin aiz.png


اپ نے مجھے بخاری کی حدیث پیش کی میں اپ کو ایک اور صحیح حدیث پیش کرتا ہوں اور اپ سے بھی کہتا ہوں
اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند مت کرو
گا



خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْك(سنن ابو داود رقم 4646)
ترجمہ: خلافت تیس سال ہے پھر اللہ جس کو چاہے گا بادشاہت دے گا

اور اس پر اصحاب حدیث کے تبصرے پڑھ لیں


امام ابن تیمیہ رحم اللہ فرماتے ہیں

َوَفَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ سَنَةَ إحْدَى عَشْرَةَ مِنْ هِجْرَتِهِ وَإِلَى عَامِ ثَلَاثِينَ سَنَةَ كَانَ إصْلَاحُ ابْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ السَّيِّدِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ بِنُزُولِهِ عَنْ الْأَمْرِ عَامَ إحْدَى وَأَرْبَعِينَ فِي شَهْرِ جُمَادَى الْأُولَى وَسُمِّيَ " عَامَ الْجَمَاعَةِ " لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ عَلَى " مُعَاوِيَةَ " وَهُوَ أَوَّلُ الْمُلُوكِ.
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ربیع الاول کی 11 ہجری کو ہوئی اور اس کے تیس سال بعد حسن رضی اللہ عنہ کی وجہ سے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان 41 ہجری جمادالاولی میں صلح ہوئی جس کو عام الجماعہ کا سال کہا جاتا ہے اور سب معاویہ رضی اللہ عنہ پر جمع ہوئے اور وہ اول ملوک ہیں

اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ غیبی خبر بھی پوری ہوتی ہے کہ
خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْك(سنن ابو داود رقم 4646)
ترجمہ: خلافت تیس سال ہے پھر اللہ جس کو چاہے گا بادشاہت دے گا۔
تو اس پر پوری امت کا اجماع ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ نہیں بلکہ بادشاہ ملوک تھےاس پر ایک آدھا حوالہ پیش کر دیتا ہوں
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں
قُلْتُ: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُقَالَ لِمُعَاوِيَةَ مَلِكٌ، وَلَا يُقَالُ لَهُ خليفة لحديث «سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .(البدایہ والنھایہ ترجمہ معاویہ رضی اللہ عنہ

ترجمہ: میں(ابن کثیر) کہتا ہوں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملوک کہا جائے اور خلیفہ نہ کہا جائے یہی سنت ہے کیونکہ حدیث سفینہ رضی اللہ عنہ ہے کہ میرے بعد 30سال خلافت ہے پھر ظالم بادشاہت ہے۔



 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
ان تبصروں سے اپ کی یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی ہو گی کہ اصحاب حدیث نے کچھ نہیں کہا ہے ابھی تو میں نے صرف ان دو آئمہ حدیث کے اقوال نقل کیے ہیں ابھی (١) ابن عبدالبر (٢) ابن حزم (٣)امام شوکانی (٤) امام نووی (٥) حافظ ابن حجر (٦) قاضی عیاز (٦) شاہ ولی الله وغیرہ کے قول نقل نہیں کیے اگر کر دوں تو اپ کی خوش فہمی دور اور اچھے طریقہ پر دور ہو جائے گی الله ہدایت دے
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top