• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’خارجیت، سبائیت اورشیعیت‘‘ بجواب ’’رافضیت ، ناصبیت اوریزیدیت‘‘ (نقد وتبصرے)۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
پہلے پیراگراف کو سمجہا نہیں ! ہم کہاں اور کب دیر سے آئے اور ہم نے کب کسی موقف کو جو آپکے تمام مراسلات میں هے یزید ، امیر المسلمین ، اللہ ارحمہ کو قبول کیا هے یا موافقت کی هے؟
اپنا صحیح تعارف کرواو کیونکہ دعوی کا فی کرچکے ہیں ۔ جیسے آپ کا کہنا "میں نے ثابت کیا" ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
محترم -

پہلی بات تو آپ یہ سمجھ لیں کہ میں نے نہ تو کسی حدیث نبوی کو اپنے پاس سے ضعیف کہا ہے اور نہ اپنی طرف سے صحیح کہا ہے-میرا ایمان ہے کہ جس روایت پر جمہور کا اجماع ہے وہ حدیث صحیح ہے ،میں تو شروع سے اب تک آئمہ کے ان موقف پر بات کر رہا ہوں جو انہوں نے اپنے نظریہ کے تحت کسی صحیح روایت سے اخذ کیے ہیں - اور میرا موقف یہی ہے کہ ایسی توجیہات جو کسی بھی روایت سے کسی امام نے اخذ کی ہوں اب چاہے وہ ابن حجر عسقلانی ہوں یا شاہ ولی الله یا امام ذہبی اور وہ توجہات صحابہ کی عظمت اور قرآن کی صریح نص کے خلاف ہوں وہ کسی طور پر قابل قبول نہیں- ہم صحیح حدیث نبوی کو ماننے ضرور مکلف ہیں لیکن روایت سے متعلق کسی کی راے کو ماننے کے مکلف نہیں ہیں -" آپ کہہ رہے ہیں کہ کتب تاریخ کے حوالے سے تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے بغیر تحقیق کذاب اور حدیث وضع کرنے والوں کی روایات درج کی ہے" - تو محترم پھر کسی کے بارے میں فسق کا حکم لگانے کا فیصلہ یا حق آپ کو کیسے حاصل ہوگا - جب کہ آپ کو تاریخ کتب پر ا عتماد ہی نہیں یا ان کی روایات کی آپ کے نزدیک کوئی حیثیت ہی نہیں- یہ تو آپ کو تاریخ کتب بتائیں گی کہ کون سے واقعہ کب اور کیسے پیش آیا اور اس کے کیا محرکات تھے؟؟ - آپ مجھے کسی صحیح احادیث کی کتب سے ثابت کردیں کہ واقعہ کربلا سن ٦١ ہجری میں پیش آیا تھا اور اس وقت یزید بن معاویہ مسلمانوں کے حاکم تھے؟؟ کیا آپ ایسا کرسکیں گے ؟؟ اگر آپ کا بخاری، مسلم، اور دیگر کتب حدیث پر اتنا ہی پختہ اعتماد ہے تو آپ کو جان لینا چاہیے کہ جتنی روایات آپ نے پچھلے ایک مہینے میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی تنقیص و تنقید میں پیش کی ہیں ان سے دگنی صحیح روایات ان کی قدرو منزلت و بزرگی اور ان کے جنّتی ہونے سے متعلق ان ہی کتب حدیث میں موجود ہیں جن کے حوالہ جات آپ مسلسل پیش کررہے ہیں- لیکن پھر وہی رافضیت کی پٹی جو آنکھوں پر بندھی ہو اور دل میں تعصب کی آگ ہو تو ایسی روایت آپ کو کہاں نظر آئیں گی؟؟ -

آخری بات یہ کہ جس نظریہ کی آڑ لیکر آپ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی پاکیزہ شخصیت کو داغ دار کرنے پر تلے ہویا ہیں - یعنی یہ نظریہ کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمین معصوم عن الخطاء نہیں تھے - تو آپ شاید بھول رہے ہیں کہ اس نظریہ کے تحت تو تمام صحابہ کرام رضوان الله اجمین معصوم نہیں ہیں - اب چاہے وہ امیر معاویہ رضی الله عنہ هوں یا ان کی آل اولاد ہو یا حضرت علی رضی الله عنہ ہوں یا ان کی آل اولاد ہو - میں آپ کو ان ہی کتب سے پانچ دس ایسی روایات پیش کر سکتا ہوں کہ جن سے حضرت علی رضی الله عنہ کی اجتہادی غلطیاں ثابت ہوتی ہیں اور جن سے عالم اسلام کو نقصان بھی پہنچا - لیکن میں اپنے آپ کو اتنا بے باک نہیں سمجھتا کہ حضرت علی رضی الله عنہ کی عظمت اور بلند مرتبہ کو بلاے طاق رکھ کر ان کی اجتہادی غلطیوں کا اس طرح پرچار کروں جس طرز پر آپ کاتب وہی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی ذات کے پیچھے پڑ کر ان پر کیچڑ اچھال رہے ہیں-
دوبارہ پڑهیں. جناب 786
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
پہلے پیراگراف کو سمجہا نہیں ! ہم کہاں اور کب دیر سے آئے اور ہم نے کب کسی موقف کو جو آپکے تمام مراسلات میں هے یزید ، امیر المسلمین ، اللہ ارحمہ کو قبول کیا هے یا موافقت کی هے؟
اپنا صحیح تعارف کرواو کیونکہ دعوی کا فی کرچکے ہیں ۔ جیسے آپ کا کہنا "میں نے ثابت کیا" ۔


امام بخاری نے حدیث نقل کی ہے کہ"
- باب مَا يُكْرَهُ مِنْ ثَنَاءِ السُّلْطَانِ وَإِذَا خَرَجَ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ
7178 - حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أُنَاسٌ لِابْنِ عُمَرَ إِنَّا نَدْخُلُ عَلَى سُلْطَانِنَا فَنَقُولُ لَهُمْ خِلاَفَ مَا نَتَكَلَّمُ إِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمْ قَالَ كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا(صحیح بخاری رقم 7178)
ترجمہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگ آئے اور کہا کہ جب ہم سطان(حکمرانوں) کے پاس جاتے ہیں تو جو وہ کہتے ہیں ہم ان کے موافق بات کرتے ہیں اور جب ہم ان کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو ان کے خلاف کہتے ہیں اس پر ابن عمر نے فرمایا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس کو نفاق سے تعبیر کرتے تھے۔
اور وہ حکمران کون تھے اس کو ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں نقل کیا ہے اس میں اپ کے چہتے یزید کا نام ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے پڑ لوِ
طريق أبي الشعثاء قال دخل قوم على ابن عمر فوقعوا في يزيد بن معاوية فقال: "أتقولون هذا في وجوههم؟ قالوا بل نمدحهم ونثني عليهم (فتح الباری تحت رقم 7178)
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگ آئے اور یزید کے بارے میں بیان کیا آپ نے پوچھا کیا تم اس کے سامنے بھی یہ کہتے ہو انہوں نے کہا بلکہ ہم اس کی تعریف ہیں کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور روایت نقل کی ہے
أتيت ابن عمر فقلت إنا نجلس إلى أئمتنا هؤلاء فيتكلمون في شيء نعلم أن الحق غيره فنصدقهم، فقال: كنا نعد هذا نفاقا، فلا أدري كيف هو عندكم ۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہم آئمہ(حکمرانوں یہاں جمع کا صغیہ میں بیان ہوا ہے اس میں اس وقت کے تمام حکمرانوں کا ذکر آ جاتا ہے) کے پاس ہوتے ہیں تو وہ جو کہتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ حق نہیں ہے مگر پھر بھی ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا پہلے ہم اس کو نفاق کہتے تھے اب تمہارے لیے یہ کیا ہے میں نہیں جانتا۔
یہ میری اس پوسٹ سے قبل پوسٹ ہے جس پر اپنے اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا اس کو رد نہیں کیا کہ یہ غلط ہے یزید بڑے نیک تھے اور ان کے سامنے لوگ حق گوئی بیان کرتے تھے میں اس کی بات کر رہا ہوں۔ تو اگر یہ غلط ہے اور اپ کے یزید اس کے مصداق نہیں ہے تو اس کا رد کریں ورنہ میں اس کو اپ کے سکوت کی وجہ سے قبولیت سمجھتا ہوں۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
دوبارہ پڑهیں. جناب 786
میں پڑھ چکا اس پر میرے اشکالات ہیں
(1) آئمہ نے کیا قرآن نہیں پڑھا جو یہ سب اپنی کتب میں لکھ گئے؟
(2) کیا ایسی باتیں لکھ کر وہ صحابہ کی عظمت کو گھٹانے والے نہیں بن گئے؟
(3) کیا ان کی ان توجہات کے بعد آپ ان اکابرین کو امام مانتے جبکہ ان کی ہی توجہات پیش کر کے میں کیچڑ اچھانے والا بن گیا اور وہ اس سے بری ہیں؟
محترم ابھی تو میں نے بہت سی باتیں برائے ادب بیان نہیں کی اور بہت سے اکابرین کے حوالے بیان بھی نہیں کیے ہیں مثلا ابن عبدالبر ، محمد رشید رضا، ابو الکلام آزاد ،امام شوکانی،محمد بن ھادی المقبلی وغیرہ
فحال اپ اس کے جواب عنایت کر دیں۔اللہ ہدایت دے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
میں پڑھ چکا اس پر میرے اشکالات ہیں
(1) آئمہ نے کیا قرآن نہیں پڑھا جو یہ سب اپنی کتب میں لکھ گئے؟
(2) کیا ایسی باتیں لکھ کر وہ صحابہ کی عظمت کو گھٹانے والے نہیں بن گئے؟
(3) کیا ان کی ان توجہات کے بعد آپ ان اکابرین کو امام مانتے جبکہ ان کی ہی توجہات پیش کر کے میں کیچڑ اچھانے والا بن گیا اور وہ اس سے بری ہیں؟
محترم ابھی تو میں نے بہت سی باتیں برائے ادب بیان نہیں کی اور بہت سے اکابرین کے حوالے بیان بھی نہیں کیے ہیں مثلا ابن عبدالبر ، محمد رشید رضا، ابو الکلام آزاد ،امام شوکانی،محمد بن ھادی المقبلی وغیرہ
فحال اپ اس کے جواب عنایت کر دیں۔اللہ ہدایت دے
یہ بھی پڑھ لیں -

ابن جریر طبری اپنی تاریخ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

قارئین کتاب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ میں نے جو اخبار و آثار (روایتیں) اس کتاب میں نقل کیے ہیں، اس میں میرا اعتماد انہی روایات پر ہے جنہیں میں نے ذکر کیا ہے اور جن کے ساتھ ان کی سندیں بھی موجود ہیں۔ اس میں وہ حصہ بہت ہی کم ہے جنہیں میں نے عقلی دلائل کے ادراک اور وجدانی استنباط کے بعد ذکر کیا ہے کیونکہ گزشتہ واقعات کی خبروں کا نہ ذاتی طور پر ہمارا مشاہدہ ہے اور نہ وہ زمانہ ہی ہم نے پایا ہے۔ ان کا علم ہمیں صرف ناقلین اور راویوں کی بیان کردہ خبروں ہی سے ہو سکتا ہے نہ کہ عقلی دلائل اور وجدانی استنباط سے۔ پس ہماری کتاب میں جو بعض ایسی روایات ہیں، جنہیں ہم نے پچھلے لوگوں سے نقل کیا ہے، ان کے بارے میں اگر اس کتاب کے پڑھنے یا سننے والے اس بنا کر کوئی برائی یا عجیب پن محسوس کریں کہ اس میں انہیں صحت کی کوئی وجہ اور معنی میں کوئی حقیقت نظر نہ آئے، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے انہیں خود اپنی طرف سے درج نہیں کیا ہے بلکہ ان کا ماخذ وہ ناقل (نقل کرنے والے) ہیں جنہوں نے وہ روایات ہمیں بیان کیں۔ ہم نے وہ روایات اسی طرح بیان کر دی ہیں جس طرح ہم تک پہنچیں [طبری۔ مقدمہ۔ 1/17]

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود امام طبری رحم الله کا نقطہ نظر ہرگز یہ نہیں ہے کہ " میرا فرمایا ہوا مستند ہے ۔" ان تک جو روایتیں پہنچیں، انہوں نے انہیں آگے نقل کر دیا۔ اور یہی اصول اکثر باقی آئمہ و شارحین کا روایت سے متعلق رہا ہے-

ابو زرعۃ الرازی فرماتے ہیں :

جب آپ کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کی کردار کشی کرتا ہے تو جان لیجیے کہ وہ شخص زندیق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں، قرآن برحق ہے اور جو کچھ حضور لائے ہیں ، حق ہے۔ یہ سب کچھ ہم تک صحابہ کرام ہی کے واسطے سے پہنچا ہے تو ان صحابہ پر اعتراض کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے گواہوں کو مجروح کریں تاکہ اس طرح قرآن اور حدیث ہی کو بے کار بنا کر رکھ دیں۔ اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ خود ایسے لوگوں کو قابل اعتراض اور مجروح قرار دیا جائے- [ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ۔ مقدمہ۔ 1/24]۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو صحابہ کرام کی کردار کشی سے متعلق متعدد روایت دوسری و تیسری صدی میں وضع کی گئیں اور مقاصد اپنے سیاسی عزائم کی پایا تکمیل تک پہنچنا تھا- اسلام کے دیرینہ دشمنوں عراقیوں و کوفیوں کے پاس ایک یہی حربہ تھا کہ ایسی روایات گھڑی جائیں جو نہ صرف صحابہ کرام اور ان کی آل اولاد کے پاکیزہ کردار کو داغ دار کریں بلکہ امامت کے عقیدے کے ذریے رسالت کے عقیدے کو بھی مشکوک بنا دیا جائے- اور اسی ہی طرح وہ اسلام کی دیوارون کو کمزور کر سکتے- اس کام کا لئے سب سے زیادہ جس ہستی کا نام استمعال ہوا- وہ حضرت علی رضی الله عنہ تھے- ظاہر ہے ان کی عظمت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا تھا اس لئے ان کا اور ان کی آل اولاد کا نام بنو امیہ کو بدنام کرنے کے لئے متعدد روایات میں موازنے کے طور پر پیش کیا گیا - اور سادہ لوح عوام اس دھوکہ و فریب میں آسانی سے گرفتار ہو گئے -
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
یہ بھی پڑھ لیں -

ابن جریر طبری اپنی تاریخ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

قارئین کتاب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ میں نے جو اخبار و آثار (روایتیں) اس کتاب میں نقل کیے ہیں، اس میں میرا اعتماد انہی روایات پر ہے جنہیں میں نے ذکر کیا ہے اور جن کے ساتھ ان کی سندیں بھی موجود ہیں۔ اس میں وہ حصہ بہت ہی کم ہے جنہیں میں نے عقلی دلائل کے ادراک اور وجدانی استنباط کے بعد ذکر کیا ہے کیونکہ گزشتہ واقعات کی خبروں کا نہ ذاتی طور پر ہمارا مشاہدہ ہے اور نہ وہ زمانہ ہی ہم نے پایا ہے۔ ان کا علم ہمیں صرف ناقلین اور راویوں کی بیان کردہ خبروں ہی سے ہو سکتا ہے نہ کہ عقلی دلائل اور وجدانی استنباط سے۔ پس ہماری کتاب میں جو بعض ایسی روایات ہیں، جنہیں ہم نے پچھلے لوگوں سے نقل کیا ہے، ان کے بارے میں اگر اس کتاب کے پڑھنے یا سننے والے اس بنا کر کوئی برائی یا عجیب پن محسوس کریں کہ اس میں انہیں صحت کی کوئی وجہ اور معنی میں کوئی حقیقت نظر نہ آئے، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے انہیں خود اپنی طرف سے درج نہیں کیا ہے بلکہ ان کا ماخذ وہ ناقل (نقل کرنے والے) ہیں جنہوں نے وہ روایات ہمیں بیان کیں۔ ہم نے وہ روایات اسی طرح بیان کر دی ہیں جس طرح ہم تک پہنچیں [طبری۔ مقدمہ۔ 1/17]

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود امام طبری رحم الله کا نقطہ نظر ہرگز یہ نہیں ہے کہ " میرا فرمایا ہوا مستند ہے ۔" ان تک جو روایتیں پہنچیں، انہوں نے انہیں آگے نقل کر دیا۔ اور یہی اصول اکثر باقی آئمہ و شارحین کا روایت سے متعلق رہا ہے-

ابو زرعۃ الرازی فرماتے ہیں :

جب آپ کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کی کردار کشی کرتا ہے تو جان لیجیے کہ وہ شخص زندیق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں، قرآن برحق ہے اور جو کچھ حضور لائے ہیں ، حق ہے۔ یہ سب کچھ ہم تک صحابہ کرام ہی کے واسطے سے پہنچا ہے تو ان صحابہ پر اعتراض کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے گواہوں کو مجروح کریں تاکہ اس طرح قرآن اور حدیث ہی کو بے کار بنا کر رکھ دیں۔ اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ خود ایسے لوگوں کو قابل اعتراض اور مجروح قرار دیا جائے- [ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ۔ مقدمہ۔ 1/24]۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو صحابہ کرام کی کردار کشی سے متعلق متعدد روایت دوسری و تیسری صدی میں وضع کی گئیں اور مقاصد اپنے سیاسی عزائم کی پایا تکمیل تک پہنچنا تھا- اسلام کے دیرینہ دشمنوں عراقیوں و کوفیوں کے پاس ایک یہی حربہ تھا کہ ایسی روایات گھڑی جائیں جو نہ صرف صحابہ کرام اور ان کی آل اولاد کے پاکیزہ کردار کو داغ دار کریں بلکہ امامت کے عقیدے کے ذریے رسالت کے عقیدے کو بھی مشکوک بنا دیا جائے- اور اسی ہی طرح وہ اسلام کی دیوارون کو کمزور کر سکتے- اس کام کا لئے سب سے زیادہ جس ہستی کا نام استمعال ہوا- وہ حضرت علی رضی الله عنہ تھے- ظاہر ہے ان کی عظمت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا تھا اس لئے ان کا اور ان کی آل اولاد کا نام بنو امیہ کو بدنام کرنے کے لئے متعدد روایات میں موازنے کے طور پر پیش کیا گیا - اور سادہ لوح عوام اس دھوکہ و فریب میں آسانی سے گرفتار ہو گئے -
محترم ،
اہل علم میں سے کوئی ایک بھی ایسا دکھا دیں جو یہ کہتا ہو میرا لکھا حرف آخر اور قطعی ہے اور اس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے ایسا اہل علم اپ کو ایک بھی نہیں ملے گا ہاں ایسے جاہل بے شمار مل سکتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم اور اپ اور دیگر اہل علم بھی آئمہ کے حوالے کوڈ کرتے ہیں اس لئے کہ وہ اہل علم ہے ان کو امت بحیثیت امام مانتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ انہوں نے قرآن اور سنت کو سمجھا ہے اور اس کے مطابق اپنا موقف بیان کرتے ہیں

اپ نے امام طبری کے حوالے سے جو لکھا ہے اس سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان کا اعتماد ان روایات پر ہے جو سند کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور یہ باتیں انہوں نے تاریخ کے کتب کے حوالے سے لکھی ہے اور میں اپ کو بار ہا عرض کر چکا کہ میں تاریخ کی بات کر ہی نہیں رہا میں اپ کو کتب احادیث میں سے صحیح سند کے ساتھ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اثار پیش کر رہا ہوں اور اس پر آئم کے تبصرہ جو انہوں نے شروحات میں یا اس حوالے سے دیگر کتب میں نقل کیے ہیں اور اپ مجھے بار بار تاریخ کی کتب کے حوالے سے جواب عنایت کر رہے ہیں جیسا ابھی بھی اپ نے امام طبری کی تاریخ کی کتب کا حوالہ نقل کیا ہے میں آپ سے مودبانہ عرض کرتا ہیں کہ تاریخ کی کتب کا پیچھا چھوڑ کر کتب احادیث سے اس مسئلہ کو سمجھے کہ امت پر کیا قیامت گزری ہے کس طرح ان بنو مروان اور بنو امیہ میں سے کچھ حکمرانوں نے دین کو برباد کیا خلافت کو برباد کیا ہے اس کے لئے میں نے کسی تاریخ کی کتب کا حوالہ نہیں دیا ہے میں پھر عرض کر رہا ہوں میں نے کتب احادیث سے سب بیان کیا ہے۔


اور اپ نے جو امام ابو الزرعہ رازی کا قول نقل کیا ہے اس کے مطابق اپ لوگوں نے جو کردار کشی کا معنی اختراع کیا ہوا ہے اس حساب سے بڑے بڑے آئمہ محدثین اور اکابرین زندیق ہو جائیں گے (نعوذباللہ) مثال کے لئے چند حوالے دیتا ہوں
بسر بن ارطاۃ
اس کے بارے میں تھذیب میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ
مختلف في صحبته
اس کے صحابی ہونی میں اختلاف ہے یعنی اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو ہے مگر صحبت نہیں پائی ہے۔
چنانچہ اس کے ترجمہ میں حافظ صاحب نے علل کے امام دارقطنی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے اور اس کے بعد کیا لکھا ہے پڑھ لیں
وقال الدارقطني له صحبة ولم يكن له استقامة بعد النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ: امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ اگرچہ انہوں نےصحبت اٹھائی ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد استقامۃ پر نہیں رہے۔
یہ امام دارقطنی کا قول ہے اب آپ یہی فرمایں گے کہ ان کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے مگر میرا مدعا یہ نہیں کہ یہ صحابی ہے یا نہیں میرا مدعا یہ ہے کہ امام دارقطنی نے اس کو صحابی مانا ہے "له صحبة" اس کے بعد یہ لکھا ہے کہ" ولم يكن له استقامة بعد النبي صلى الله عليه وسلم" تو کیا امام دارقطنی زندیق ہو گئے کیا انہوں نے قرآن نہیں پڑھا ہے یا صحابہ کی عظمت وہ نہیں جانتے تھے یہ کوئی فقہی مسئلہ نہیں کہ اس میں غلطی ہو گئی یہ ایمان کا مسئلہ ہے اور یہ دین کے اصول میں سے بات ہے تو پھر امام دارقطنی نے یہ بات کیوں لکھ دی کیا وہ صحابہ کرام کی عظمت کے قائل نہیں تھے۔

اور اپ ایسے صحابی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا قول ہے جن کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
(2) امام ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے اپ بھی پڑھ لیں۔

وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: مَا كَانَتْ فِي عَلِيٍّ خَصْلَةٌ تَقْصُرُ بِهِ عَنِ الْخِلَافَةِ، ولم يكن في معاوية خصلة ينازع بها علياً.(
البدایہ والنھایہ جلد 8 ص 130)
امام ابن المدینی فرماتے ہیں میں نے سفیان بن عیینہ سے سنا وہ فرماتے ہیں: علی رضی اللہ عنہ میں ایک بھی ایسی خامی نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ خلافت کے اہل نہ ہوں اورمعاویہ رضی اللہ عنہ میں ایک بھی ایسی خوبی نہیں تھی جو اس (خلافت پر) علی رضی اللہ عنہ سے لڑے تھے۔
اب بھائی اس کو میرے سر نہیں مڈ دینا یہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا قول ہے اور اس کی سند سنابلی صاحب کی شرائط پر صحیح ہے
یہ صرف دو مثالیں دی ہیں جن میں بقول اپ کے کردار کشی کا پہلو ہے تو اپ یہ دونوں امام زندیق ہو گئے ابھی اور بھی حوالے ہیں اور بڑے بڑے امام موجود ہے مثال کے طور چند لکھ دیتا ہوں۔
(1) امام ابن عبدالبر
(2) امام طحاوی حنفی
(3) امام ذہبی
(4) حافظ ابن حجر
(5) قاضی عیاض
(6) امام عراقی
یہ چند نام ہیں اور اس میں اور بھی بہت سے نام باقی ہے اور بہت سے حوالےبھی ہیں۔

محترم
کردار کشی کا معنی جو آئمہ نے بیان کیا ہے وہ روافضی کے لئے بیان کیا ہے کہ وہ نعوذ باللہ لعن طعن کرتے برا بولتے تھے اور کردار کشی کو آئمہ نے اسی معنوں میں لیا ہے وگرنہ اگر کسی صحابی کی غلطی بیان کرنایا کوئی ایسی بات جس سے دین کا کوئی نقصان ہوا ہے اس کو کردار کشی کے معنی میں بیان کرنا ہوتا تو پھر آئمہ میں سے کسی ایک نے بھی یہ بیان نہ کیا ہوتا ان کے تو ایمان کے لالے پڑ جاتے اس لئے پھر وہی عرض کرتا ہوں اپ نےجو معنی کردار کشی کا اختراع کیا ہے وہ یہی ہے کہ صحابہ کرام کو معصوم عن الخطا مان لیا ہے کہ ان سے غلطی نہیں ہو سکتی حالانکہ محدثین نےتو خود احادیث میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہھم کی غلطی والی روایات نقل کی ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے خود لکھوائی بھی ہیں جیسا ان تین اصحاب رضی اللہ عنہم کا تذکرہ جن سے مکمل 50 دن بات چیت کرنا بند کر دیا گیا تھا کتب احادیث میں وہ روایات بھی موجود ہیں اور محدثین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ہی نقل کی ہے تو کردار کشی کا مفہوم جو اپ نے بنایا ہوا ہے وہ آئمہ اور سلف میں سے کسی کا نہیں ہے وگرنہ وہ یہ باتیں کبھی نہ لکھتے ان کے تو ایمان برباد ہو جاتے
محترم اللہ نے دین میں کسی نبی کے اصحاب کو یہ استثناء نہیں دی کہ جس نے بھی ایک بار دیکھ لیا وہ جو بھی کریں ان کو استثناء حاصل ہے
بلکہ جن کا رتبہ بڑا ہوتا ہے ان کی اللہ نے پکڑ بھی سخت رکھی ہے
قرآن میں کیا یہ ارشاد نہیں پڑھا " اے نبی کی ازواج اگر تم میں سے کوئی بحیائی کی مرتکب ہو گی تو اس کو دوگنا عذاب ہو گا)
اللہ کا دین عدل پر مبنی ہے وہ دین جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی بھی چوری کرے(نعوذ باللہ ) تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔
ہمارا ایمان ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے جو بھی خطا ہوئی ہیں اللہ نے ان کو بخش دیا ہے اور میں بارہا عرض کر چکا یہ نہ جنت کا معاملہ ہے اور نہ جہنم کا یہ خلافت کا مسئلہ ہے جو برباد ہوئی ہے اس پر میرا رونا ہے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا ادب وہ احترام اسی طرح کرتا ہوں جیسا ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا کرنے کا حق ہے۔ مگر ان کی جن خطاؤں کی وجہ سے خلافت ملوکیت میں بدل گئی اس پر اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ ان سے درگزر کرے اور ان کو وہ درجہ عطا کرے جو ان کا حق ہے اور ہم اس سے عبرت حاصل کریں اور اس خلافت کی کوشش کریں جس کے لئے ہر مسلمان پیدا ہوتا ہے۔

اور آخر میں میرے تین سوالات اب بھی ویسے ہی باقی ہیں ان کا جواب ضرور عنایت کیجیئے گا

(1) آئمہ نے کیا قرآن نہیں پڑھا جو یہ سب اپنی کتب میں لکھ گئے؟
(2) کیا ایسی باتیں لکھ کر وہ صحابہ کی عظمت کو گھٹانے والے نہیں بن گئے؟
(3) کیا ان کی ان توجہات کے بعد آپ ان اکابرین کو امام مانتے جبکہ ان کی ہی توجہات پیش کر کے میں کیچڑ اچھانے والا بن گیا اور وہ اس سے بری ہیں؟
اللہ سب کو ہدایت دے


 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
سٹپ 1-2-3
یہ ارتهمیٹک تم پر اپلیکیبل اس وقت تک نہیں جب تک تم ان علماء کی طرح عالم نہیں ۔
ہر وہ جو فوت هو چکا ۔ اللہ کے حضور هے ۔ ہماری دسترس سے باہر هے اور محفوظ بهی ۔ ہم دعاء کرتے ہیں اللہ ان کی اخطاء کو معاف فرمائے ۔
آپ ہیں کی روئے جا رہے ہیں ۔ ماتم کناں ہیں ۔ کیا ماضی تبدیل کیا جا سکتا هے؟
مناصب سیاسی پہ رونا کیسا کہ الملك لله ۔ میں یزید ، اللہ ارحمہ کو امیر المومنین کہتا هوں کیوں کہ یہ امر واقعی هے اور ماضی کی حقیقت بهی ۔ میں بهلا رو رو کر اور ماتم کر کے کیا تبدیل کر سکتا ہوں ۔ بالعکس میں دعاء کرتا ہوں کہ اللہ ان پر رحمت فرمائے ۔ چاہے یزید رحمہ اللہ صالح ہوں یا غیر صالح ۔ ایک منصب پر فایز تهے اور وہ منصب سیاسی تها
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
سٹپ 1-2-3
یہ ارتهمیٹک تم پر اپلیکیبل اس وقت تک نہیں جب تک تم ان علماء کی طرح عالم نہیں ۔
ہر وہ جو فوت هو چکا ۔ اللہ کے حضور هے ۔ ہماری دسترس سے باہر هے اور محفوظ بهی ۔ ہم دعاء کرتے ہیں اللہ ان کی اخطاء کو معاف فرمائے ۔
آپ ہیں کی روئے جا رہے ہیں ۔ ماتم کناں ہیں ۔ کیا ماضی تبدیل کیا جا سکتا هے؟
مناصب سیاسی پہ رونا کیسا کہ الملك لله ۔ میں یزید ، اللہ ارحمہ کو امیر المومنین کہتا هوں کیوں کہ یہ امر واقعی هے اور ماضی کی حقیقت بهی ۔ میں بهلا رو رو کر اور ماتم کر کے کیا تبدیل کر سکتا ہوں ۔ بالعکس میں دعاء کرتا ہوں کہ اللہ ان پر رحمت فرمائے ۔ چاہے یزید رحمہ اللہ صالح ہوں یا غیر صالح ۔ ایک منصب پر فایز تهے اور وہ منصب سیاسی تها
واہ محترم سوال کھیر جواب کریلا
میں نے یہ کب کہا میں عالم فاضل اور ان سے بڑھ کر ہوں میں تو یہ عرض کر رہا ہوں کہ ان علماء نے یہ کیون بیان کیا کیا انتے بڑے اہل علم جیسا اپ نے خود فرمایا قرآن اور سنت کو نہ سمجھ سکے اور آج اپ نے
بغیر دلائل دیئے سمجھ لیا اور یہ دلائل اور احادیث پڑھ کر بھی غلطی پر تھے آپ کا فہم اتمام اس حد تک ہے کہ سب درست سمجھے وہ بھی بغیر دلائل۔ وللعجب
میں صرف رو نہیں رہا اپ کو دعوت بھی دے رہا ہوں کے خلافت کے لئے کوشش کریں اور اس سے عبرت حاصل کریں قرآن نے پچھلوں کے واقعات عبرت کے لئے ہی نقل کیے ہیں اگر اپ کی طرح مٹی پاؤ کی فلسفہ ہوتا تو قرآن ہابیل قابیل اور نوح علیہ السلام اور دیگر انبیاء کے واقعے قرآن میں نہ بیان کرت صرف نماز روزے کی احکام دے دیتا ہو ختم یہ اس لئے بیان ہوئے کہ ان سے عبرت حاصل کی جائے پہلوں سے جو غلطیاں ہوئی اس سے سبق لیا جائے اور آگے بڑھا جائے۔
اور اپ نے جو فرمایا کہ"وہ منصب سیاسی تها
"
علامہ اقبال کا مصرعہ ہے
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اسلام کے اگر سیاست نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں یہ اسلام دنیا پر غالب ہونے آیا ہے اس کے لئے کوشش کرنا ہوگی ورنہ سارا قرآن معطل رہے گا "چور کی سزا" "زنی کی سزا" قاتل کی سزا عادل کا معاشرہ انصاف کی فراہمی زکوۃ کا نظام نماز کی پابندی یہ سب قرآن میں ہے یا نہیں سارا قرآن معطل ہے کہیں بھی اللہ کا دین نافذ نہیں ہے اور اس سارے کام کی ابتدا جہاں سے ہوئی اس کو بیان بھی نہ کیا جاے اس ملوکیت کے اثرات آج بھی ہیں مسلمان کیا صرف چند عبادات کرنے دنیا میں آئے ہے اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تلوار نے اٹھاتے بس چند رسومات سکھادیتے مگر مسلمان اس لیے ایا ہے کہ وہ ایسی طاقت ہوں کے دنیا میں جہاں بھی ظلم وعدوان ہو اس کا قلع قمع کرنے کے لئے طاقت رکھتے ہوں اسلام صرف نماز روزے کا ہی نام نہیں ہے سیاست(حکومت) کرنے کا نام ہے اس حکومت کی باگ دوڑ ایسے نیک ولی اللہ لوگوں کے پاس ہو جو اس نظام خلافت کو قائم کریں اللہ کا دین غالب ہو مگر آپ کے لئے دین کا تصورصرف مذہب بن کر رہے گیا ہے نماز روزہ ھج زکوۃ وغیرہ
علام اقبال کا شعر ہے کہ
ہند میں ہے گر ملا کو سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے اسلام ہے آذاد

یہ ملوکیت کے ہی اثرات ہے کہ اس نے یہ بھی نہیں چھوڑا کوئی نیک خلیفہ ہو گا وہ ملک میں نماز کا اہتمام کرے گا عبادات ہوں کی امن سکون ہوگا عادل انصاف ہو گا مگر اس ملوکیت میں یہ بھی نظر نہیں آتا ،

بھائی اسلام مغلوب ہے اس کے غلبہ کی فکر کرو یہ یزید اور حسین رضی اللہ عنہ کی کوئی بات نہیں خلافت اور ملوکیت کی جنگ تھی ایک دین بچانے کے لئے کھڑے تھے اور دوسرا(یزید) اپنی دنیاوی حکومت کے لالچ میں تھا اس لئے پلٹو اس خلافت کی طرف جو دین کی اصل ہے جس میں اللہ کی زمین پر اللہ کا حکم چلتا ہے کسی غیر کے قانون نہیں مسلمانوں میں یہ تصور ہی ختم ہوتا جارہا ہے جہاں یہ بات کرو بس شخصیات کی بحث میں پڑ جاتے ہیں اورجنت جہنم کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اللہ کی جنت ہے جس کو چاہے عطا کرے مگر ہمیں اس ملوکیت سے جو نقصان ہوا ہے کہ اج تک یہ ہمارے سروں پر مسلط ہے اس کے لئے کوشش کروں۔ اللہ سب کو ہدایت دے
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top