• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح بخاری مترجم۔’’ التجرید الصریح لاحادیث الجامع الصحیح ''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مقدمہ

فضیلۃ الشیخ محمد ابراہیم بھٹی حفظہ اللہ تعالیٰ​
(( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی أَفْضَلِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ خَاتَمِ النَّـبِـیِّـیْنَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِہِ الطَّیِّبِیْنَ وَ صَحَابَتِہِ الْاَکَْرمِیْنَ وَ مَنْ تَبِعَھُمْ بِإِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنَ ... اَمَّا بَعْدُ ! ))
اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انبیاء و رسل علیھم السلام کے ذریعے اپنا پیغام اپنی مخلوق تک پہنچایا۔ رسول کا لفظی معنی قاصد ہے اوریہ بات واضح ہے کہ کسی بھی معاملہ میں قاصد اسے بنایا جاتا ہے کہ جس پر مکمل اعتماد و بھروسا ہو، جس کے بارے میں یہ یقین ہوکہ اس نے صرف ہمارا پیغام ہی دینا ہے، اس میں اپنی طرف سے کسی ایک لفظ کی بھی ملاوٹ نہیں کرنی ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق تک پیغام رسانی کے لیے جن مبارک ہستیوں پر اعتماد کرتے ہوئے ان کا انتخاب کیا انہیں انبیاء و رسل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔
ان مبارک ہستیوں میں سے کسی نے بھی اپنی قوم کے سامنے خود ساختہ دین پیش نہیں کیا بلکہ صرف اور صرف اللہ کا حکم قوم کے سامنے رکھا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :{إنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ } (سورئہ انعام) یعنی'' حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے ۔''
معلوم ہوا کہ دین اسلام کسی شخص کے جذبات کا نام نہیں بلکہ اللہ کا فیصلہ ہی اسلام ہے ۔انسانیت کو صرف یہی حکم دیا گیا ہے :
{ اِتَّبِعُوْا مَا أُ نْزِلَ اِلَیْکُمْ مِن رَّ بِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ }[سورۂ اعراف]
''پیروی کرو اس چیز کی جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی اور نہ پیروی کرو اس کے سوا دوسرے رفیقوں کی، تم بہت کم دھیان کرتے ہو۔''
قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کریم کی اتباع و پیروی کا حکم نہیں دیا بلکہ ''مَا اُنْزِلَ'' کی اتباع کا حکم ہے اور ہرصاحب علم جانتا ہے کہ مطلقاً ''ما'' اپنے عموم پر دلالت کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ (مَااُنْزِلَ) میں صرف قرآن کریم ہی نہیں بلکہ کچھ اور بھی ہے کہ جس کی تعلیم و تربیت کیلئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا اور اس چیز کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے خود فرما دی ہے :
{ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُبِیْنٍ } [سورہ آل عمران]
''تحقیق اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان کیاجب ان میں بھیجا رسول انھیں میں سے، جو پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیات اور پاک کرتا ہے ا ن کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور حکمت اور تحقیق تھے وہ پہلے اس سے کھلی گمراہی میں ۔''
معلوم ہوا کہ جن چیزوں کی تعلیم دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا ہے ان میں ''قرآن کریم اور حکمت '' یہ دونوں چیزیں شامل ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حکمت قرآن مقدس کے مجملات کی تفسیر و توضیح کا نام ہے جسے دوسرے مقام پر لفظ ''بَیَانٌ ''سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَ قُرْاٰنَہُ علیھم السلام فَاِذَا قَرَأْنَاہُ علیھم السلام فَاتَّبِعْ قُرْانَہُ علیھم السلام ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ } [سورۃ القیامۃ]
''بے شک ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور پڑھا دینا پس جب ہم اس کو پڑھ دیں تو آپ اس پڑھنے کی اتباع کریں پھر بے شک ہمارے ذمہ اس کا بیان بھی ہے ۔''
ان آیات میں قرآن اور بیان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، جس سے بات واضح ہوگئی ہے کہ یہ دونوں (مَا اُنْزِلَ ) میں داخل ہیں ۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی تبیین وتوضیح کا حکم دیا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی غیر شرعی چیز کا حکم ہر گز نہیں دے گا تو پھر ماننا پڑے گا کہ جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہ اسلام میں داخل ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے :
{ وَ مَا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَھُمْ } [سورۃ النحل]
''ہم نے آپ پر کتاب کو صرف اسی لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کے لیے اس کی ''تبیین و تفسیر'' کر دیں ۔
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{ إِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّٰہُ } [ سورۃ النساء]
''ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب کو نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں اس کے ساتھ کہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سمجھایا۔
اس آیت سے صراحتاً معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے قرآنی احکام کے تحت ہوا کرتے تھے اور یہ ایک خاص فہم و بصیرت تھی جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی تھی جسے قرآن کریم میں کہیں حکمت اور کہیں بیان کہاگیا ہے اور اس حکمت و بیان کو دوسرے لفظوں میں سنت اور حدیث کہا گیا ہے ۔اور یہ سب مترادف الفاظ ہیں جو کہ وحی الٰہی میں شامل ہیں ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وحی ہونے کے بہت سے دلائل ہیں۔ ان میں سے صرف دو دلیلوں پر اکتفا کروں گا جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ مفہوم و مطالب کے اعتبار سے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی میں شامل ہے۔
۱۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کی بستی کا محاصرہ کیا تو جو اس کے اطراف میں نخلستان واقع تھے ان میں سے کئی ایک درخت کاٹ دیے تاکہ محاصرہ باآسانی ہو سکے اور یہود کو رسوا کیا جاسکے اور جو درخت حائل نہیں تھے ان کو کھڑا رہنے دیا۔ مسلمانوں کے اس عمل پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر تھا مدینہ کے منافقین اور یہودیوں نے شور مچایاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو فساد سے منع کرتے ہیں اور خود ان درختوں کو کاٹ کر فساد فی الارض کھڑا کر دیا ہے۔تو اس شور پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی :
{ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْھَا قَائِمَۃً عَلٰی اُصُوْلِھَا فَبِإِذْنِ اللّٰہِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ} (الحشر)
''تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا، یہ سب اللہ ہی کے حکم سے تھا اور (اللہ نے یہ حکم اس لئے دیا) تاکہ فاسقوں کو ذلیل کرے ۔''
درختوں کے کاٹنے کا حکم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا، یہ آیت تو درختوں کے کاٹ دیے جانے کے بعد نازل ہوئی اور اس میں فرمایا کہ میرے حکم سے درخت کاٹے گئے اور چھوڑے گئے تو اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور فرمان وحی الٰہی ہے ۔
۲۔ صحیح مسلم میں ایک طویل حدیث ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دن ایک یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی ایک سوالات کئے اور اس کا کہنا یہ تھا کہ میر ے ان سوالوں کا جواب نبی کے علاوہ کوئی اور نہیں دے سکتا یا شاید ایک دو آدمی جانتے ہوں۔ بہر حال وہ سوال کرتا رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے جواب دیتے رہے آخر میں اس نے اقرار کیا اور کہا :
(( لَقَدْ صَدَقْتَ وَ إِنَّکَ لَنَبِیٌّ ))
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا اور آپ واقعی نبی ہیں ۔''
اس کے چلے جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا :
(( لَقَدْ سَأَلَنِیْ ھَذَا عَنِ الَّذِیْ سَأَلَنِیْ عَنْہُ وَ مَا لِیْ عِلْمٌ بِشَیْئٍ مِّنْہُ حَتّٰی اَتَانِیَ اللّٰہُ بِہٖ ))
''اس نے جو باتیں مجھ سے پوچھیں وہ مجھے معلوم نہیں تھیں حتی کہ اللہ تعالی نے مجھے بتا دیں۔ ''
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے جواب دیے وہ سب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے یہ جواب قرآن کریم میں نہیں بلکہ حدیث رسول میںہیں ۔لہٰذا ماننا پڑے گا کہ قرآن و حدیث دونوں وحی ہیں اور دونوں کا مجموعہ اسلام ہے ، دین اسلام میں جس طرح قرآن کریم حجت ہے اسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شرعی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین ایک ایک حدیث کی خاطر ایک ایک ماہ کا سفر طے کرتے تھے ،ایک مختصر سی حدیث کی خاطر ملک شام سے مدینہ کا رخ کیا جاتا ۔
مگر افسوس کہ تقلید کے پھندے نے انسانیت کو گھٹنوں کے بل گرا دیا ،تقلید نے ایک ایسا جمود پیدا کر دیا ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان نے بجائے تحقیق کرنے کے محض فقہی اقوال و آرا اور قیاسات کو کافی سمجھ لیا ۔تقلید جس کے متعلق عبداللہ بن المعتمر کا قول بڑا مشہور ہے ،وہ فرماتے ہیں:
'' لَا فَرْقَ بَیْنَ بَھِیْمَۃٍ تُقَادُ وَ اِنْسَانٍ یُقَلَّدُ '' [اعلام الموقعین ،جامع بیان العلم]
''جو جانور باندھ کر کھینچا جاتا ہے اس کے اور تقلید کرنے والے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔''
کیونکہ جس جانور کو گلے میں رسی ڈال کر کھینچا جائے اسے کچھ معلوم نہیں کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے ،آیا گھاس کھلانے کے لیے یا ذبح کرنے کے لیے۔ جس طرح بندھا ہوا جانور پوچھ نہیں سکتا بالکل اسی طرح مقلد بھی پوچھنے کا حق نہیں رکھتا بلکہ دلیل معلوم کئے بغیر اس نے پیچھے چلنا ہوتا ہے ۔اسی لیے اسے بھی کچھ معلوم نہیں کہ وہ حق کی طرف جا رہا ہے یا باطل کی طرف۔ حالانکہ اس تقلید کا حکم تو ائمہ کرام میں سے بھی کسی نے نہیں دیا بلکہ واضح ممانعت موجود ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تقلید کی مذمت کے بارے میں حنفی مذہب کے قابل فخر عالم علامہ جار اللہ زمخشری رحمہ اللہ کا قول ہے :
'' اِنْ کَانَ لِلضَّلَالِ أُمٌ فَالتَّقْلِیْدُ اُمُّہٗ '' [اطواق الذھب]
''اگر کوئی گمراہی کی بھی ماں ہے تو پھر وہ تقلید ہی ہے ۔''
بہرحال اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے محدثین کرام کو، جنہوں نے بڑی محنت و کاوش کے ذریعے ذخیرئہ احادیث جمع کیا، صحیح و ضعیف کا فرق واضح کیا ، ناسخ و منسوخ کی پہچان بتائی ،ظاہری تناقض و تعارض و تصادم کی تطبیق پیش کی ۔ابواب و تراجم کے ذریعے مسائل کی فہم نہایت سہل کر دی ۔ایک ایک مسئلہ قرآن و حدیث کے نصوص سے واضح کر دیا ۔کیونکہ اگر دیکھا جائے تو دین اسلام کے ہر مسئلے کا حل قرآن و حدیث میں موجود ہے یہ اور بات ہے کہ علم و فہم و استدلال کے قصور کی وجہ سے کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ مگر یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ :
{ فَوْقَ کُلِّ ذَیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ } [سورۂ یوسف]
''اور ہر ایک عالم سے بڑھ کر دوسرا عالم ہے۔''
معلوم ہوا کہ اہل علم بھی استعداد و فہم و تفقہ میں درجات رکھتے ہیں۔ کوئی تھوڑی سمجھ رکھتا ہے تو کوئی زیادہ فہم و فراست کا مالک نظر آتا ہے ۔اس لیے بجائے تقلید شخصی کے وسعت قلبی سے کام لیتے ہوئے تمام اہل علم کی علمی صلاحیتوں کی قدر کرنی چاہیے۔ اگر کوئی اہل علم نص قرآنی یا نص حدیث سے مسئلہ کی وضاحت کرے تو اسے لینا اور عملی شکل دینا ایک مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے اور اس کے تصادم میں پیش آمد قول و رائے اور قیاس کو چھوڑ دینا عین اسلامی روش ہے۔کیونکہ رائے و قیاس ''خطاء و صواب'' کا مجموعہ ہے ۔جبکہ قرآن و حدیث معصوم عن الخطا ہے۔ ثانیاً رائے و قیاس کا تعلق محض عقل سے ہے ۔جس میں ''احتمال خطا'' موجود ہے اور قرآن و حدیث کا تعلق ''نص'' سے ہے جو کہ ''یقین پر مبنی '' ہے۔ اب مشکوک چیز کو یقین پر کیسے مقدم سمجھا جائے ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
(( اَلْعِلْمُ ثَلَاثَۃٌ کِتَابُ اللّٰہِ النَّاطِقُ وَ سُنَّۃٌ مَاضِیَۃٌ وَ لَا اَدْرِیْ )) [اعلام الموقعین ]
''علم تین چیزوں کانام ہے ۔قرآ ن و حدیث اور ''لَااَدْرِیْ '' (میں نہیں جانتا )کہنا۔''
یعنی اگر قرآن و حدیث میں کوئی مسئلہ نہ مل سکے تو جواب میں ''لَااَدْرِیْ '' (میں نہیں جانتا)کہہ دینا چاہیے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول سے بھی معلوم ہوا کہ قیاس علم شرعی کی قسم نہیں ہے ۔ علم شرعی قرآن و حدیث کا نام ہے جس کا حصول ہر مسلمان پر لازم ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کچھ صحیح بخاری اور اما م بخاری کے متعلق

(احادیث نبویہ کا) یہ علمی ذخیرہ جن کتب میں موجود ہے ان میں سے ایک ''صحیح بخاری'' ہے جس کے مصنف امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ ہیں۔
یہ وہ عظیم کتاب ہے کہ جسے ''اصح الکتب بعد کتاب اﷲ'' کا درجہ و اعزاز باجماع امت حاصل ہے ۔اس کی صحت معتبر و یقینی ہے۔ ''صحیح بخاری'' کی احادیث دوسری کتب کی احادیث کے لیے درجۂ معیار رکھتی ہیں۔
''صحیح بخاری'' کے متعلق شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' اوّل ما صنف اھل الحدیث فی علم الحدیث جعلوہ مدونا فی اربعۃ فنون فی السنۃ اعنی السنۃ الذی یقال لہ الفقہ مثل مؤطا مالک و جامع سفیان و فن التفسیر مثل کتاب ابن جریج وفن السیر مثل السیر مثل کتاب محمد بن اسحاق و فن الزھد والرقاق مثل کتاب ابن المبارک فاراد البخاری رحمہ اللہ ان یجمع الفنون الاربعۃ فی کتاب و یجردہ لما حکم لہ العلماء بالصحۃ قبل البخاری و فی زمانہ و یجردہ للحدیث المرفوع المسند و ما فیہ من الاثار وغیرھا انما جاء بہ تبعا لا بالاصالۃ و لھذا سمی کتابہ بالجامع الصحیح المسند و اراد ایضاً ان یفرغ جہدہ فی الاستنباط من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویستنبط من کل حدیث مسائل کثیرۃ جدا و ھذا امر لم یسبق الیہ غیرھا'' (شرح تراجم ابواب صحیح بخاری)۔
''علماء اہل حدیث نے سب سے پہلے علم حدیث کو چار فنون کی صورت میں تقسیم کیااور پھر مدون کیا۔ ان فنون اربعہ میں سے ایک فن'' سنۃ'' یعنی فقہی مسائل کا ہے۔ اس کی مثال مؤطا امام مالک اور جامع سفیان ثوری ہے۔ دوسرا فن ''تفسیر'' ہے جیسا کہ ابن جریج کی کتاب۔ تیسرا فن ''سیروغزوات '' ہے جیسا کہ ابن اسحق کی کتاب۔ چوتھا فن'' زھد و رقاق'' ہے جیساکہ عبداللہ بن مبارک کی کتاب ۔ پس امام بخاری رحمہ اللہ نے ان چاروں فنون کو جمع کرنے کا ارادہ کیااور اس کے لیے ایسی روایات جمع کیں جن کی صحت کا فیصلہ علمائے عصر اور علمائے قبل زمانہ کر چکے ہوں اور یہ ارادہ کیا کہ خالص مرفوع اور مسند روایتیں جمع کریں اور صحابہ و غیرہم کے جتنے آثار جمع کیے وہ سب بالتبع ہیں بالاصالۃ نہیں۔ اور اسی لئے اپنی کتاب کا نام ''الجامع الصحیح المسند'' رکھا ۔اور یہ بھی امام بخاری نے چاہا کہ اپنی کوشش کو احادیث نبویہ سے مسائل کے استنباط کرنے میں صرف کریں۔ چنانچہ ایک ایک حدیث سے کئی ایک مسائل نکالے ہیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو آپ سے پہلے کسی نے نہیں کیا ''۔
یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ صحیح بخاری کی احادیث پر تمام علماء حدیث نے صحت کا حکم لگایا ہے خواہ یہ علماء امام بخاری رحمہ اللہ کے دور کے ہوں یا پہلے گزر چکے ہوں ان سب نے بالاتفاق ان احادیث کو صحیح کہا ہے اس اعتبار سے یہ کتاب اسم بامسمی ہے ۔
علامہ عینی حنفی صحیح بخاری کی شرح ''عمدۃ القاری'' میں لکھتے ہیں :
''اتفق علماء الشرق و الغرب علی انہ لیس بعد کتاب اللہ تعالی اصح من صحیحی البخاری و مسلم ۔''
''مشرق و مغرب کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم کے بعدبخاری و مسلم سے زیادہ کوئی صحیح کتاب نہیں ہے۔''
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حجۃاللہ البالغہ میں بخاری و مسلم کی عظمت میں کمی و توہین کرنے والے کو بدعتی کہا ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب کی تبویب مسجد نبوی کے اس حصے میں بیٹھ کر کی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ''روضۃ من ریاض الجنۃ'' (جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ )کہا ہے اور ہر حدیث کے لکھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھی، استخارہ کیا اورپھر یقین صحت کے بعد حدیث کو لکھا۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ استخارہ بذات خود ایک کامیابی کی علامت ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری کے مقدمہ میں اما م بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں :
'' لم اخرج فی ھذا الکتاب الَّا صحیحا۔ ''
''میں نے اس کتاب میں صرف صحیح احادیث کی تخریج کی ہے ۔''
اور ساتھ ہی اما م بخاری رحمہ اللہ نے احادیث سے مسائل کا استنباط بھی کیا ہے۔ یہ اما م بخاری رحمہ اللہ کا تفقہ ہے، جس کا محدثین نے اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ محمد بن بشار بندار آپ کو ''سید الفقہاء'' کہتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ابو مصعب رحمہ اللہ تو آپ کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی ''افقہ و ابصر'' کہتے ہیں۔
نعیم بن حماد اور یعقوب بن ابراہیم الدورقی نے آپ کو'' فقیہ الامہ '' کہا ہے ۔
اما م اسحاق بن راھویہ فرماتے ہیں کہ اگر امام بخاری رحمہ اللہ حسن بصری رحمہ اللہ کے دور میں ہوتے توبھی لوگ انہی کی معرفت بالحدیث اور تفقہ کے محتاج ہوتے ۔(تہذیب التہذیب)۔
اللہ تعالیٰ نے آپ ( رحمہ اللہ ) کو علم حدیث میں''تبحر'' عطاکیا تھا۔ آپ (رحمہ اللہ) حدیث، فقہ ،لغت اور ورع میں امامت کا درجہ رکھتے تھے۔
آپ ( رحمہ اللہ ) نے جس دور میں صحیح بخاری کی تصنیف شروع کی، اس وقت اسلام کے خلاف کئی ایک فتنے سر اٹھا چکے تھے۔ فتنہ انکار حدیث ۔جہمیہ۔ معطلہ۔ قدریہ وغیرہم کے فتنوں نے اسلامی لبادہ اوڑھا ہوا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے۔ { ادفع بالتی ھی احسن} ۔(جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو) کا مصداق بنتے ہوئے ان تمام فتنوں کا نصوص شرعیہ کے ذریعے رد کیا اور اس احسن قول کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ فتنے بھی مغلوب ہو گئے اور صحیح بخاری کی قدر و منزلت بھی دشمن کے ہاں مسلّم رہی۔ اور قیامت تک اس کتاب کو یہ شرف حاصل رہے گا ۔ ان شاء اللہ ۔
بقول ابن الصلاح صحیح بخاری میں تمام مسند احادیث مکررات سمیت ۷۲۷۵ ہیں اور مکررات کے علاوہ۴۰۰۰ احادیث ہیں۔
صحیح بخاری میں موجود ہر روایت کی حیثیت اس موتی کی ہے جو دین اسلام کے ہار کی زینت ہے، اور دین اسلام کے کسی بھی نقطہ کو فاضل اور زائد نہیں سمجھا جا سکتا۔ ان دینی ذخائر کی محتاجی قیامت تک رہے گی۔ ہاں البتہ دور حاضر میں لوگوں کا رجحان چونکہ مادیت کی طرف بڑھتا جا رہا ہے اس لئے ان لوگوں کے عقائد اور اعمال کی اصلاح کے لیے لازمی سمجھا گیا کہ اس دینی ذخیرے کا خلاصہ ان کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ کم وقت میں نصوص شرعیہ کی تلخیص کو سمجھ کر عقائد و اعمال باطلہ سے اجتناب اور عمل بالکتاب والسنہ کر سکیں
اس جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے الشیخ زین الدین احمد بن عبداللطیف الزبیدی رحمہ اللہ نے بڑی محنت و کاوش سے صحیح بخاری کے مختلف ابواب سے احادیث کو جمع کیا ہے اور ترتیب ایسی رکھی ہے کہ جس سے مابقی (بقیہ احادیث) کے علم سے بھی محرومی نہ رہے۔ اس کتاب کا نام ''التجرید الصریح لاحادیث الجامع الصحیح'' رکھا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ ہمارے دوست نوجوان ساتھی ابو عبیدہ الجراح حفظہ اللہ نے مختلف تراجم سے اخذ کرکے ترتیب دیا ہے اور تصحیح چھوٹے بھائی فضیلۃ الشیخ ضیاء الحق بھٹی حفظہ اللہ استاذ الجامعہ الستاریہ کراچی نے فرمائی ہے۔ کئی ایک مہربان دوستوں کی اعانتیں ، نیک مشورے اور دعائیں اس کتاب کی تکمیل میں شامل ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان جملہ ساتھیوں کی مساعی اور دینی جہود کو ان کے اور ان کے والدین و اساتذہ کے لیے صدقہ جاریہ بنادے اور اس دینی مخلصانہ محنت سے ہر خاص و عام کو مستفید ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین۔
محمد ابراہیم بھٹی حفظہ اللہ تعالیٰ​
مدیر تعلیم المعھد السلفی گلستان جوہر کراچی پاکستان​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عرض ناشر

مختصر صحیح بخاری امام زین الدین احمد بن عبد اللطیف رحمہ اللہ کی تالیف ہے جس کا نام انھوں نے '' التجرید الصریح لاحادیث الجامع الصحیح'' رکھا ہے۔ دراصل یہ کتاب امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کی صحیح بخاری کی مرفوع احادیث کا جامع اختصار ہے۔ صحیح بخاری کو امت میں کتاب اﷲ کے بعد ممتاز مقام اور قبول عام حاصل ہے۔
''دارالاندلس '' کی ذمہ د اری سنبھالنے کے فوراً بعد میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ادارہ کی جانب سے مختصر صحیح بخاری کاسلیس ، رواں اور شستہ ترجمہ ،ایک جلد میں نہایت مناسب ہدیہ پر احباب کی خدمت میں پیش کرنا چاہیے۔ اس خواہش کا تذکرہ جب امیر محترم کی موجودگی میں جماعت کے بزرگ علماء سے ہوا تو سب نے اس کام کی ضرورت اور اہمیت پر اتفاق فرمایا۔
ہمارے ایک دوست ابو عبیدہ الجراح ، جو کہ شہید کے بھائی بھی ہیں۔ پہلے ہی اس عظیم منصوبہ پر کام کر چکے تھے۔ ان سے رابطہ کرکے میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو جذبۂ دینی سے سر شار بھائی نے ایثار اور قربانی کی نادر مثال پیش کرتے ہوئے کتاب کا پیسٹ شدہ مکمل مسودہ میرے حوالے کر دیا۔ جزاہم اللہ خیرا۔
مسودہ کے حصول کے بعد خوب سے خوب تر کی جستجو میں اس پر چھ ماہ مزید کام ہوا۔ جماعت کے معروف عالم اور محقق شیخ الحدیث مولانا ابو ذر زکریا حفظہ اللہ نے کتاب کے عربی متن اور ترجمہ کو نہایت دقت نظر سے حرفاً حرفاً پڑھا،مختصرصحیح بخاری اورصحیح بخاری کے مختلف متون کے ساتھ مسودہ کے متن کا تقابل کیا، ترجمہ میں جہاں جہاں کمزوری محسوس کی،اسے دور کیا اور بے شمار مقامات پر تصحیح فرمائی۔ بعد ازاں ''دارالاندلس'' کے رفیق ،محترم مولانا محمود الحسن اسد نے بھی سخت جانفشانی اور عرق ریزی سے مسودے کا مطالعہ کیا۔ تہذیب و تسہیل کے علاوہ کمپوزنگ کی بعض فنی کوتاہیوں کو دور کیا۔ عبد القدوس بھائی(کمپوزر دارالاندلس) نے بھی کمپوزنگ اور کتاب کی خوبصورتی میں بھرپور محنت کی۔ امیر محترم کو جب آخری مسودہ پیش کیا گیا تو انھوں نے اس پر نہایت مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا۔ اﷲ تعالیٰ اس کاوش میں شریک جمیع معاونین کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اسے ان کے لیے توشۂ آخرت بنائے ۔آمین!
اب یہ عظیم الشان کتاب تیار ہو کر آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ حقیقت میں اس کتاب کی اشاعت سے میری زندگی کے ایک دیرینہ خواب کی تعبیر ہوئی ہے،اﷲ تعالی قبول فرمائے ۔آخر میں قارئین کی خدمت میں گزارش ہے کہ گو کتاب کی تصحیح کے لیے ہر ممکن کوشش عمل میں لائی گئی ہے مگر اس کے باوجود یہ ایک انسانی کاوش ہے جس میں خطا کا احتمال بہر حال موجود رہتا ہے سو کسی بھی کوتاہی کی صورت میں ادارہ کو آگاہ فرما کر عند اﷲ ماجور ہوں۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو اس عظیم علمی ورثہ سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کے لیے ذریعہ نجات بنائے۔ آمین۔
محمد سیف اللہ خالد​
مدیر'' دارالاندلس''​
۳۔جمادی الاخری ۱۴۲۵ھ​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پیش لفظ

(از محترم پروفیسر حافظ محمد سعید حفظہ اللہ )​
امام بخاری رحمہ اللہ جہاں حفاظ محدثین کے امام ہیں، وہیں مجتہدین و فقہاء کے سرخیل بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ''الجامع الصحیح'' میں حفاظت ِحدیث اور اجتہاد کو بڑے حسین انداز میں مجتمع کیا ہے، اس اعتبار سے صحیح بخاری ہر دور کے لیے ایک رہنما کتاب ہے اور بلند نام علماء نے ہمیشہ اسے عملاً یہ مقام دیا ہے۔
علم وحی کا قرآن و حدیث دونوں پر اطلاق ہوتا ہے۔ اﷲ نے ان دونوں سر چشموں کی حفاظت کا اہتمام فرمایا ہے، جیسے قرآن محفوظ ہے ویسے ہی سنت بھی مامون ہے ۔ حفاظت قرآن کے لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے مقربین کو منتخب کیا ہے تو تحفظ حدیث کے لیے بھی اہل ِتقویٰ محدثین کا انتخاب فرمایا ہے۔ ان سعید بخت اور شہیر علماء میں امام بخاری نمایاں ترین ہیں کہ جنہوں نے بخاری میں حفاظت حدیث کا کڑا معیار اور قیامت تک کے لیے روز مرہ مسائل کے حل کے لیے قرآن و حدیث کا کردار واضح کیا ہے۔
صحیح بخاری جہاں صحیح احادیث کا بیش قیمت مجموعہ ہے وہیں یہ فقہ الحدیث کی ایک نادر کتاب بھی ہے، جس میں الگ الگ ابواب قائم کرکے معاشرتی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔قرآن وحدیث سے رہنمائی پیش کی گئی ہے، ایک حدیث کئی ابواب میں لا کر اس سے متعدد مسائل حل کیے ہیں اور یوں یہ رجحان پیدا کرنے کی بلیغ سعی کی ہے کہ مسلمان ہر مسئلہ کے لیے عقلِ محض کا نہیں کتاب و سنت کا پابند ہے۔
اجتہاد کے باب میں امت مسلمہ نے ایسی شدید ٹھوکر کھائی ہے کہ جس کے ناقابل تلافی نقصان کا خمیازہ وہ آج بھی بھگت رہی ہے، ایک طبقہ نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا اورتقلید کو واجب گردانا ، دوسرے نے تقلیدی زنجیروں کو توڑا اور در اجتہاد کو اس قدر کشادہ کردیا کہ وہ منہج سلف سے ہٹ کر الحاد کی دہلیز تک جا پہنچامگر تکلفاًقرآن و حدیث کا لاحقہ ساتھ لگائے رکھا ، یوں تقلید و اجتہاد جسد ِ امت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے ،تو امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس افراط وتفریط کا کامل ازالہ فرمایا اور واضح کیا کہ ہر دور کے لیے صرف قرآن و حدیث ہی مسائل کا حل ہے کہ خاتم النبیین نے اپنے بعد کسی شخصیت کو نہیں کتاب وسنت کو مسائل کے حل کا مدار قرار دیا تھا، سو امام بخاری نے اپنی صحیح کے ذریعے تقلید و الحاد سے امت کا رخ راہِ اعتدال کی طرف موڑ دیا۔
جب سے امت وحی الٰہی کے چشمہ ٔ صافی سے کٹی ہے، وہ منتشر ہوئی اورتفرقوں میں بٹی ہے ۔ علما امت کافرض ہے کہ وہ امت کی اس آب شریں کی طرف رہنمائی کریں، شریعت کے جاری سر چشموں سے پانی پئیںاور الگ الگ گھاٹ نہ بنائیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحت حدیث اور اخذ مسائل سے اجتہاد کا منہج اپنی کتاب میں صحت کے اعلیٰ معیار کے ساتھ پیش کیا ہے کہ مشکوک چیز پر بالیقین عمل نہیں ہو سکتا اور یقین و ایمان ثقاہت سے حاصل ہوتا ہے اگر صحت کے اس امر کو ملحوظ رکھا جائے تو امت مستحکم ہو گی اور اجتہادِ الحاد کی فضا بھی بہت جلد ختم ہو جائے گی۔ (ان شاء ﷲ)
دارالاندلس کی طرف سے اشاعت ِمختصر صحیح بخاری (مترجم) کی یہ پہلی کاوش ہے ۔ترجمہ رواں اور شستہ ہے۔ معیار عمدہ اور نرخ انتہائی مناسب رکھے گئے ہیں تاکہ استفادہ عام ہو سکے۔ بڑی دیر سے خواہش تھی کہ کتب احادیث، خصوصاً کتب ستہ مع ترجمہ بہترین اشاعت کے ساتھ منظر عام پر لائی جائیں۔ مدیر دارالاندلس سیف اﷲ خالدبھائی کو اﷲ جزائے خیر سے نوازے کہ انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے کام کاآغاز کردیاہے۔ گو صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور دیگرکتب احادیث پر شروحات اور مختصرات کے اعتبار سے کافی کام پہلے ہی ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں عامۃ الناس کو حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل کرنے کے لیے متعدد زاویوں سے مزید کام ہونا چاہیے۔ اﷲ بھائیوں کو توفیق بخشے گا اور علما ء کی ایک مجلس یہ کام سرانجام دے گی۔ (ان شاء اﷲ )

احادیث یہاں سے ملاحظہ فرمائیں

1-کِتَابُ بَدءِ الوَحیِ
رسول اللہ پر(نزولِ) وحی کا آغاز

2-کتاب الایمان
ایمانیات

3-کتاب العلم
علم کا بیان

3-کتاب الوضوء
وضو کا بیان

4-کتاب الغسل
غسل کا بیان

5-کتاب الحیض
حیض کا بیان

6-کتاب التیمم
تیمم کا بیان

7-کتاب الصلاۃ
نماز کا بیان

8-کتاب موقیت الصلاۃ
نماز کے اوقات کا بیان

9-کتاب لاذان
اذان کا بیان

10-کتاب ابواب صفۃ الصلاۃ
نماز کے مسائل

11-کتاب الجمعہ
جمعہ کا بیان

12-کتاب صلاۃ الخوف
نماز خوف کا بیان

13-کتاب العیدین
عید کا بیان

14-کتاب الجنائز
جنازہ کے بیان میں

15-کتاب الزکوۃ
زکوۃ کے بیان میں

16-کتاب الحج
حج کے بیان میں

17-کتاب الصوم
روزے کے بیان میں
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

کِتَابُ بَدءِ الوَحیِ
کتاب :رسول اللہ پر(نزولِ) وحی کا آغاز


بَابٌ : كَيْفَ كَانَ بَدْئُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
رسول اللہﷺکی طرف وحی کی ابتدا کس طرح ہوئی (یعنی اس کا ظہور کیونکر ہوا)​
(1) عَن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ " إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَّا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيْـبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَا جَرَ إِلَيْهِ "
خلیفہ ٔ راشد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا :'' تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا ۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو ، پس اس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے (شمار) ہوگی جن کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ہجرت کی ہے ۔''
(2) عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ " أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَـلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيَفْصِمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِيَ الْمَلَكُ رَجُلاً فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ " قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا *
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے (روایت ہے) کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا یارسول اللہ! آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ تو رسول اللہﷺنے فرمایا :'' کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح کی آواز آتی ہے اور(نزول وحی کی تمام حالتوں میں) یہ ( حالت ) مجھ پر زیادہ دشوار ہے۔ پھر (یہ حالت) مجھ سے دور (موقوف) ہو جاتی ہے اس حال میں کہ (فرشتے نے) جو کچھ کہا اس کو اخذ کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی صورت میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے تو جو کچھ وہ کہتا ہے اس کو میں حفظ کر لیتا ہوں۔'' ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بے شک میں نے سخت سردی والے دن آپ ﷺپر وحی اترتے ہوئے دیکھی اور سلسلہ منقطع ہونے پر (یہ دیکھا کہ اس وقت) آپ ﷺکی (مقدس) پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا تھا۔
(3) عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَئُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَائٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ _ وَهُوَ التَّعَبُّدُ _ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَ يَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَائَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَائٍ فَجَائَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ { اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَo خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍo اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْـأَكْرَمُ } فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِالْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَكَانَ امْرَأً قَدْ تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَاابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خَبَرَ مَا رَأَى فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى يَالَيْتَنِي فِيهَا جَذَعٌ لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ؟ قَالَ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ وَإِنْ يُّدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ *
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ ﷺپر شروع ہوئی ، وہ اچھے خواب تھے۔ پس جو خواب آپ ﷺ دیکھتے تھے وہ (صاف صاف) صبح کی روشنی کے مثل ظاہر ہو جاتا تھا۔ (پھر اللہ کی طرف سے) خلوت کی محبت آپ ﷺکو دے دی گئی۔ چنانچہ آپ ﷺغار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے اور وہاں آپ کئی رات (لگا تار) عبادت کیا کرتے تھے، بغیر اس کے کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آتے اور اسی قدر زاد راہ بھی لے جاتے، یہاں تک کہ آپ ﷺکے پاس وحی آ گئی اور آپ ﷺغار حرا میں تھے یعنی فرشتہ آپﷺکے پاس آیا اور اس نے (آپﷺسے) کہا کہ پڑھو ! آپﷺنے فرمایا:'' میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔'' آپﷺفرماتے ہیں :''پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے (زور سے) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی۔ پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے! تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔'' پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور (زور سے) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی ۔ پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے ۔ تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپﷺفرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پھر پکڑ لیا اور سہ بارہ مجھے (زور سے) بھینچا پھر مجھ سے کہا کہ { اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ }الخ (العلق:۱۔۳) ''اپنے پروردگار کے نام (کی برکت) سے پڑھو جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا ۔ انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیاپڑھو اور (یقین کر لو کہ) تمہارا پروردگار بڑا بزرگ ہے''۔ پس رسول اللہﷺ کا دل اس واقعہ کے سبب سے (مارے خوف کے) کانپنے لگا اور آپ ﷺام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور (وہاں موجود لوگوں سے) کہا کہ ''مجھے کمبل اڑھا دو ، مجھے کمبل اڑھا دو''۔چنانچہ انھوں نے آپ ﷺکو کمبل اڑھا دیا یہاں تک کہ (جب) آپﷺکے دل سے خوف جاتا رہا تو آپ ﷺنے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے سب حال (جو غار میں گزرا تھا) بیان کر کے کہا کہ بلا شبہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا بولیں کہ ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ آپﷺکو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ یقینا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ،ناتواں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، جو چیز لوگوں کے پاس نہیں وہ انھیں کما دیتے ہیںمہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور (اللہ کی راہ میں) مدد کرتے ہیں۔ پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا آپﷺکو لے کر چلیں اور ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی جو کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ، چچا کے بیٹے تھے،کے پاس آپﷺکو لائیں اور ورقہ وہ شخص تھا جو زمانہ ٔجاہلیت میں نصرانی ہو گیا تھا اور عبرانی کتاب لکھا کرتا تھا ۔ یعنی جس قدر اللہ کو منظور ہوتا تھا انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتا تھا اور بڑا بوڑھا آدمی تھا کہ بینائی جا چکی تھی تو اس سے ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے(ﷺ) سے (ان کا حال) سنو ! ورقہ بولے، اے میرے بھتیجے! تم کیا دیکھتے ہو ؟ رسول اللہﷺنے جو کچھ دیکھا تھا ان سے بیان کر دیا تو ورقہ نے آپﷺسے کہا کہ یہ وہ فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ اے کاش! میں اس وقت (جب آپﷺنبی ہوں گے) جوان ہوتا ۔ اے کاش میں (اس وقت تک) زندہ رہتا جب کہ آپﷺ کو آپ کی قوم (مکہ سے) نکالے گی۔ رسول اللہﷺ نے (یہ سن کر بہت تعجب سے) فرمایا :'' کیا یہ لوگ مجھے نکالیں گے؟'' ورقہ نے کہا ہاں جس شخص نے آپﷺ جیسی بات بیان کی اس سے (ہمیشہ) دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپﷺ (کی نبوت) کا دور مل گیا تو میں آپﷺکی بہت ہی بھر پور طریقے سے مدد کروں گا۔ مگر چند ہی روز گزرے تھے کہ ورقہ کی وفات ہو گئی اور وحی (کی آمد عارضی طور پر چند روز کے لیے) رک گئی ۔
(4) عَن جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَائِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَائَنِي بِحِرَائٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ فَرُعِبْتُ مِنْهُ فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى { يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَأَنْذِرْ } إِلَى قَوْلِهِ { وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ } فَحَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ *
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے اور وہ وحی کے بند ہو جانے کا حال بیان کرتے ہیں اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ (رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ایک دن) اس حال میں کہ میں چلا جا رہا تھا تو یکایک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی ، میں نے اپنی نظر اٹھائی تو ( کیا دیکھتا ہوں کہ) وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا، ایک کرسی پر زمین و آسمان کے درمیان میں معلق بیٹھا ہوا ہے، میں اس (کے دیکھنے) سے ڈر گیا۔پھر لوٹ آیا تو میں نے (گھر میں آ کر) کہا مجھے کمبل اڑھا دو ، مجھے کمبل اڑھا دو۔ پھر (اسی موقع پر ) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :
''اے کپڑا اوڑھنے والے، اٹھ کھڑا ہو اور (لوگوں کو عذاب الٰہی سے) ڈرا اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر اور ناپاکی (یعنی بتوں کی پرستش) کو چھوڑ دے۔'' (المدثر : ۱۔۵)
پھر وحی (کی آمد خوب) سرگرم ہو گئی اور لگاتار آنے لگی۔
(5) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى { لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ} قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَنَا أُحَرِّكُهُمَا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُحَرِّكُهُمَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَه، وَقُرْآنَهُ } قَالَ جَمْعَه لَكَ فِي صَدْرِكَ وَتَقْرَأُ ه، {فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ } قَالَ فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ { ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ } ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَعْدَ ذَلِكَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ قَرَأَهُ النَّبِيُّ ﷺ كَمَا قَرَأَهُ *
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے کلام لَا تحَرِّکْ الخ (سورۃ القیامہ :۱۶ کی تفسیر) میں منقول ہے کہ رسول اللہﷺ کو (قرآن کے) نزول کے وقت سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ازاں جملہ یہ تھا کہ آپﷺاپنے دونوں ہونٹ (جلد جلد) ہلاتے تھے (تاکہ وحی یاد ہو جائے) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (سعید راوی سے) کہا کہ میں اپنے ہونٹوں کو تمہارے (سمجھانے کے) لیے اسی طرح حرکت دیتا ہوں جس طرح رسول اللہ ﷺاپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے (الغرض رسول اللہ ﷺکی یہ حالت دیکھ کر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:'' اے محمد (ﷺ) (قرآن کو جلد یاد کرنے کے لیے) اس کے ساتھ تم اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کرو تاکہ جلدی (اخذ) کر لو، یقینا اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے'' (سورۃ القیامہ : 16.17) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (یعنی) قرآن کا تمہارے سینہ میں جمع (محفوظ) کر دینا اور اس کوتمہیں پڑھا دینا ۔ پھر '' جس وقت ہم اس کو پڑھ چکیں تو پھر تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو'' (سورئہ القیامۃ : 18) ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (یعنی) اس کو توجہ سے سنو اور چپ رہو ۔ پھر ''یقینا اس (کے مطلب) کا سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے'' (سورۃ القیامۃ :۱۹) (یعنی) پھر بے شک ہمارے ذمہ ہے یہ کہ انھیں یاد ہو جائے پھر اس کے بعد جب آپ ﷺکے پاس جبرئیل علیہ السلام (کلام الٰہی لے کر) آتے تھے تو آپﷺتوجہ سے سنتے تھے۔ جب جبرئیل علیہ السلام چلے جاتے تو اس کو نبیﷺ اسی طرح پڑھتے تھے جس طرح جبرئیل علیہ السلام نے اس کو (آپﷺکے سامنے) پڑھا تھا۔
(6) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ *
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺتمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ آپﷺ رمضان میں سخی ہو جاتے تھے (خصوصاً) جب آپﷺسے جبرئیل علیہ السلام (آ کر) ملتے تھے اور جبرئیل علیہ السلام آپﷺ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے تھے اور آپﷺ سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ تو یقینا (اس وقت) رسول اللہﷺ (خلق اللہ کی نفع رسانی میں) تندوتیزہوا سے بھی زیادہ (سخاوت میں) تیز ہوتے تھے۔
(7) وَ عَنْهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَكَانُوا تُجَّارًا بِالشَّامِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَكُفَّارَقُرَيْشٍ فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَائَ فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ وَحَوْلَهُ عُظَمَائُ الرُّومِ ثُمَّ دَعَاهُمْ وَ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا فَقَالَ أَدْنُوهُ مِنِّي وَ قَرِّبُوا أَصْحَابَهُ فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ قَالَ فَوَاللَّهِ لَوْلاَ الْحَيَائُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَيَّ كَذِبًا لَكَذَبْتُ عَنْهُ ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ قُلْتُ لاَ قَالَ فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ قُلْتُ لاَ قَالَ فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَقُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قُلْتُ بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ قُلْتُ لاَ قَالَ فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَّقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لاَ قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قُلْتُ لاَ وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لاَ نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا قَالَ وَلَمْ تُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرُ هَذِهِ الْكَلِمَةِ قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ قُلْتُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ قَالَ مَاذَا يَأْمُرُكُمْ قُلْتُ يَقُولُ اعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ وَ لاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَاتْرُكُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُكُمْ وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ
فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ قُلْ لَهُ سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ لَقُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ قُلْتُ فَلَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ أَبِيهِ وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ وَسَأَلْتُكَ أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَذَكَرْتَ أَنَّ ضُعَفَائَهُمُ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُكَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَذَكَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ أَمْرُ الإِيمَانِ حَتَّى يَتِمَّ وَسَأَلْتُكَ أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ وَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لاَ تَغْدِرُ وَسَأَلْتُكَ بِمَا يَأْمُرُكُمْ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَ لاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاكُمْ عَنْ عِبَادَةِ الْـأَوْثَانِ وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلاَةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ فَإِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ لَمْ أَكُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْكُمْ فَلَوْ أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَائَهُ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِﷺ الَّذِي بُعِثَ بِهِ دِحْيَةُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى فَدَفَعَهُ إِلَى هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْم اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلاَمِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْـأَرِيسِيِّينَ وَ { يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَائٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَ لاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ } قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ وَفَرَغَ مِنْ قِرَائَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ وَ ارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا فَقُلْتُ لِـأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْـأَصْفَرِ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الإِسْلاَمَ-
وَكَانَ ابْنُ النَّاطُورِ صَاحِبُ إِيلِيَائَ وَهِرَقْلَ سُقُفًّا عَلَى نَصَارَى الشَّأْمِ يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَائَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ قَدِ اسْتَنْكَرْنَا هَيْئَتَكَ قَالَ ابْنُ النَّاطُورِ وَكَانَ هِرَقْلُ حَزَّائً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ أَنَّ مَلِكَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَالُوا لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلاَّ الْيَهُودُ فَلاَ يُهِمَّنَّكَ شَأْنُهُمْ وَاكْتُبْ إِلَى مَدَائِنِ مُلْكِكَ فَيَقْتُلُوا مَنْ فِيهِمْ مِنَ الْيَهُودِ فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى أَمْرِهِمْ أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِكُ غَسَّانَ يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ قَالَ اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لاَ فَنَظَرُوا إِلَيْهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ وَسَأَلَهُ عَنِ الْعَرَبِ فَقَالَ هُمْ يَخْتَتِنُونَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَذَا مَلِكُ هَذِهِ الأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ ثُمَّ كَتَبَ هِرَقْلُ إِلَى صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ وَكَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَى حِمْصَ فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّى أَتَاهُ كِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْيَ هِرَقْلَ عَلَى خُرُوجِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَائِ الرُّومِ فِي دَسْكَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ ثُمَّ اطَّلَعَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلاَحِ وَالرُّشْدِ وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْكُكُمْ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ فَلَمَّا رَأَى هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ وَأَيِسَ مِنَ الْإِيمَانِ قَالَ رُدُّوهُمْ عَلَيَّ وَقَالَ إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ فَقَدْ رَأَيْتُ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ فَكَانَ ذَلِكَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ *
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا (اور وہ) قریش کے چند سواروں میں (اس وقت بیٹھے ہوئے تھے) اور وہ لوگ شام میں تاجر (بن کر گئے) تھے (اور یہ واقعہ) اس زمانہ میں (ہوا ہے) جبکہ رسول اللہﷺنے ابو سفیان اور (نیز دیگر) کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا۔ چنانچہ سب قریش ہرقل کے پاس آئے اور یہ لوگ (اس وقت) ایلیاء میں تھے۔ تو ہرقل نے ان کو اپنے دربار میں طلب کیا اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے) تھے۔ پھر ان (سب قریشیوں) کو اس نے (اپنے قریب) بلایا اور اپنے ترجمان کو طلب کیا اور (قریشیوں سے مخاطب ہوکر) کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے، جو اپنے کو نبی کہتا ہے ؟ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں ان سب سے زیادہ (ان کا) قریب النسب ہوں (یہ سنکر) ہرقل نے کہا کہ ابو سفیان کو میرے قریب کر دو اور اس کے ساتھیوں کو (بھی) قریب رکھو اور ان کو ابوسفیان کے پس پشت (کھڑا) کرو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابو سفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے کو نبی کہتا ہے) پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بیان کرے تو تم (فوراً) اس کی تکذیب کر دینا۔ (ابوسفیان) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! اگر (مجھے) اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے تو یقینا میں آپﷺ کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا ۔ غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا تھا ، یہ تھا کہ ان کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے ؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہیں ۔ (پھر) ہرقل نے کہا کہ کیا تم میںسے کسی نے ان سے پہلے بھی اس بات (یعنی نبوت ) کا دعویٰ کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر) ہرقل نے کہا کہ کیا ان کے باپ دادا میںکوئی بادشاہ گزراہے ؟ میں نے کہا نہیں ۔(پھر ) ہرقل نے کہا کہ با اثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے ؟ میں نے کہا (امیروں نے نہیں بلکہ) کمزور لوگوں نے ۔ (پھر) ہرقل بولا کہ آیا ان کے پیرو (روزبروز) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا (کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ آیا ان (لوگوں) میں سے (کوئی) ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے بدظن ہو کر منحرف بھی ہو جاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں ۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا وہ (کبھی ) وعدہ خلافی کرتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ نہیں، اور اب ہم ان کی طرف سے مہلت میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی) ابو سفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے اور مجھے موقع نہیں ملا کہ میں کوئی بات (آپﷺکے حالات میں)داخل کر دیتا ۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا تم نے (کبھی) اس سے جنگ کی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں ۔ تو (ہرقل) بولا تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے؟ میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول (کے مثل) رہتی ہے کہ (کبھی ) وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور (کبھی ) ہم ان سے لے لیتے ہیں (یعنی کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ )۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (شرکیہ باتیں و عبادتیں) جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، سب چھوڑ دو اور ہمیں نماز (پڑھنے) اور سچ بولنے اور پرہیز گاری اورصلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں ۔
اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابو سفیان سے کہو کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں(اعلیٰ) نسب والے ہیں چنانچہ تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح (عالی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (یعنی اپنی نبوت کی خبر) تم میں سے کسی اور نے بھی ان سے پہلے کہی تھی ؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ میں نے (اپنے دل میں) یہ کہا تھا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہوا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں ! پس میں نے (اپنے دل میں) کہا تھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک (اقتدار حاصل کرنا) چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انھوں نے جو یہ بات (نبوت کا دعویٰ) کہی ہے، کہیں تم ان پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ تو تم نے کہا کہ نہیں۔ پس (اب) میں یقینا جانتا ہوں کہ (کوئی شخص) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں سے تو جھوٹ بولنا (غلط بیانی) چھوڑ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے (با اثر) لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ تو تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے اور (دراصل) تمام پیغمبروں کے پیرو یہی لوگ (ہوتے رہے) ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم؟ تو تم نے بیان کیا کہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور (درحقیقت) ایمان کا یہی حال (ہوتا) ہے تاوقتیکہ کمال کو پہنچ جائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے ناخوش ہو کر (دین سے) پھر بھی جاتا ہے ؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں! اور ایمان (کا حال) ایسا ہی ہے جب اس کی بشاشت دلوں میں رچ بس جائے (تو پھر نہیں نکلتی) اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں ! اور (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو نیز تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز (پڑھنے)، سچ بولنے اور پرہیزگاری (اختیار کرنے) کا حکم دیتے ہیں ۔ پس اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بے شک میں (کتب سابقہ کی پیش گوئی سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔ پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام و سعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقینا میں ان کے قدموں کو دھوتا۔ پھر ہرقل نے رسول اللہﷺکا (مقدس) خط ، جو آپﷺنے سیدنا دحیہ کلبی کے ہمراہ امیر بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور امیر بصریٰ نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، منگوایا (اور اس کو پڑھوایا) تو اس میں (یہ مضمون) تھا
''اللہ نہایت مہربان رحم والے کے نام سے ''
(یہ خط ہے) اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمدﷺکی طرف سے بادشاہ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بعد اس کے (واضح ہوکہ) میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام لاؤ گے تو (قہر الٰہی سے) بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا ثواب دو گنا دے گا اور اگر تم (میری دعوت سے) منہ پھیروگے تو بلا شبہ تم پر (تمہاری) تمام رعیت کے (ایمان نہ لانے) کا گناہ ہو گا اور ''اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو سوائے اللہ کے پروردگار بنائے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دینا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم تو اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں'' (آل عمران :۶۴)
ابو سفیان کہتے ہیں کہ جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا ، کہہ چکا اور (آپﷺ کا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں بہت ہی شور ہونے لگا ۔ آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے) نکال دیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ، جب کہ ہم سب باہر کر دیے گئے، کہ (دیکھو تو) ابو کبشہ کے بیٹے (یعنی محمدﷺ) کا معاملہ و رتبہ ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنو اصفر (روم) کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے ۔ پس ہمیشہ میں اس کا یقین رکھتا رہا کہ وہ عنقریب غالب ہو جائیں گے یہاں تک کہ اللہ نے مجھ کو مشرف بہ اسلام کر دیا۔
فرمایا اور ابن ناطور جو ایلیاء کا حاکم، ہرقل کا مصاحب اورشام کے عیسائیوں کا پیر پادری ہے ،وہ بیان کرتا ہے کہ ہرقل جب ایلیاؔء میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر اٹھا تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہمیں (اس وقت) آپ کی حالت کچھ اچھی دکھائی نہیں دیتی ۔ ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کاہن تھا، علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا، تو اس نے اپنے خواص سے، جب کہ انھوں نے پوچھا ، یہ کہا کہ میں نے رات کو جب ستاروں میں نظر کی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہو گیا تو (دیکھو کہ) اس دور کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا ، سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں (حاکموں کو) لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کر دیے جائیں۔ پس وہ لوگ اپنی اسی منصوبہ بندی میں تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا وہ رسول اللہﷺ کی خبر بیان کرتا تھا، سو جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی تو (اپنے لوگوں سے) کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے یا نہیں؟ لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے۔ اور ہرقل نے اس سے اہل عرب کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں ۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبیﷺ)اس دور کے لوگوں کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو گیا ۔ پھر ہرقل نے اپنے ایک دوست کو رومیہ (یہ حال) لکھ بھیجا اور وہ علم (نجوم) میں اسی کا ہم پلہ تھا اور (یہ لکھ کر) ہرقل حمص کی طرف چلا گیا۔ پھر حمص سے باہر بھی نہیں جانے پایا تھا کہ اس کے دوست کا خط (اس کے جواب میں) آ گیا ۔وہ بھی نبیﷺ کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور یہ (اس نے لکھا تھا) کہ وہ نبی ہیں ۔ اس کے بعد ہرقل نے سرداران روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر دیے جائیں، تو وہ بند کر دیے گئے، پھرہرقل (اپنے بالا خانے سے) نمودار ہوا اور کہا کہ اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ) تمہارا بھی ہے ؟ اور (تمہیں) یہ (منظور ہے) کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو) تو اس نبی ﷺکی بیعت کر لو۔ تو (اس کے سنتے ہی) وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے ، کواڑوں کو بند پایا ۔ با لآخر جب ہرقل نے (اس درجے) ان کی نفرت دیکھی اور (ان کے) ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس واپس لاؤ اور (جب وہ آئے تو ان سے) کہا کہ میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا (مقصود) تھا اور وہ مجھے معلوم ہو گئی۔ پس لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

کتاب الایمان
ایمانیات


بَابٌ : قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ '' بُنِيَ الْإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ ''
نبیﷺ کا ارشاد (ہے) کہ اسلام (کا محل) پانچ (ستونوں) پر بنایا گیا ہے​
(8) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ '' بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لاَّ اِلٰـہَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللَّهِ وَ إِقَامِ الصَّلاَةِ وَ إِيتَائِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَ صَوْمِ رَمَضَانَ ''
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :''اسلام ( کا محل) پانچ (ستونوں) پر بنایا گیا ہے ۔ (۱) اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اس بات کی گواہی (بھی دینا) کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ (۲) نماز پڑھنا (۳) زکوٰۃ دینا (۴) حج کرنا (۵) رمضان کے روزے رکھنا۔ ''
 
Top