الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
مذکورہ نسخہ دو قلمی نسخوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے جن کے عکس لگائے گئے۔
عوامہ صاحب کے پاس کیا دلیل ہے ان دونوں پر اعتماد نا کرنے کی؟
کیا یہ دونوں قلمی نسخے ملی بھگت کا نتیجہ ہیں؟
قال ابن القيم في "بدائع الفوائد" 3/91: واختلف في موضع الوضع فعنه (أي: عن الإمام أحمد) : فوق السرة، وعنه تحتها، وعنه أبو طالب: سألت أحمد بن حنبل: أين يضع يده إذا كان يصلي؟ قال: على السرة أو أسفل، كل ذلك واسع عنده إن وضع فوق السرة أو عليها أو تحتها.
درج ذیل حدیث میں محدث نے ناف کے اوپر نیچے کا تو ذکر کیا مگر سینہ کی بات ہی نہیں کی
سنن الترمذي: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال ثم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم...
اوپر مذکور دو روایات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس بات پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا تھا کہ ایک ہی مجلس میں تین طلاق کیوں دیں؟
بلکہ ناراضگی کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ غصہ میں یا بلا وجہ ایک مجلس میں تین طلاق نا دی جائیں۔
ہاں کوئی عذر ہو تو ایسا کیا جاسکتا ہے...
سوچنے اور فکر کی بات
کتب احادیث میں تحت السرۃ اور فوق السرۃ (روات کی بحث نا چھیڑی جائے) کی احادیث موجود ہیں مگر ’’ذراع علی الذراع‘‘ (ید علی الذراع کی بات نہیں) کی کوئی حدیث میری نظر سے نہیں گزری۔
اگر کسی کی نظر سے گزری ہو تو براہِ کرم لکھ دے۔
میں نے الحمد للہ ثابت کردیا ہے کہ حدیث وائل رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ’’تحت السرۃ ‘‘ کا اضافہ تحریفاً نہیں بلکہ دو قلمی نسخوں میں یہ الفاظ موجود ہیں جن کے عکس لگا دیئے گئے ہیں۔