جواب آپ کو دیدیا ہے۔
پھر بھی ضد ہے تو دوبارہ کہتا ہوں
"بحث برائے بحث نہیں کرو دلیل لاؤ۔ صرف تم در المختار نہیں پڑھتے رہے پوری امت کے علماء نے پڑھی ہے۔ بتاؤ کس کس نے اسے گستاخی کہا ہے۔ ورنہ اپنی عقل کا ماتم کرو کہ اپنے علماء کی اندھی تقلید میں کتنا آگے نکل چکے ہو۔"
بھائی اشماریہ صاحب !
اس طرح کے اقوال کے سلسلے میں آپ نے دو موقف اپنائے ہیں :
1۔ ان اقوال کے قائلین کے شاذ ( غیر صحیح ) اقوال ہیں جن کا دیگر حنفی علماء نے رد کیاہے ۔
2۔ اس طرح کے اقوال کرنےمیں کسی قسم کی گستاخی نہیں ۔ اگر ہوتی تو علماء بیان فرمادیتے ۔
میرے خیال سےپہلی توجیہ ہی درست ہے ۔
بات یہ ہے کہ تقلید کے جواز کے قائلین کے نزدیک بھی تقلید کوئی مطلوب شرعی نہیں ہے بلکہ یہ بطور ضرورت کرنا پڑتی ہے ۔
دیکھیں تقلید کی بنیادی ساری مباحث ان لوگوں کے ار گرد گھومتی ہیں جو بذات خود قرآن وسنت کو سمجھنے کی اہلیت یا استطاعت نہیں رکھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ مقلدین حضرات اپنے آئمہ مثلا ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو مجتہد بلکہ صراحتا غیر مقلد بھی قرار دیتے ہیں ۔ یہ ساری کوشش کیوں کہ ان کے نزدیک بھی تقلید ایک ’’ نقص ‘‘ اور ’’ خامی ‘‘ ہے ۔ جس کو وہ امام صاحب کے لیے برداشت نہیں کرسکتے ۔
جب حالت یہ ہے تو پھر ایک نبی کو جس کو یقینا مراد الہی کا سب سے زیادہ ادراک اور شریعت کا سب سے زیادہ فہم ہوتا ہے اس کو کسی کے فہم کا پابند بنادینا تو اس نبی کی شان میں گستاخی کے سوا اور کیاکہا جاسکتا ہے ۔
ایک توجیہ یہی کی جاسکتی ہے کہ قائل کی مراد یہ ہے کہ ’’ حضرت عیسی علیہ السلام جو فیصلہ کریں وہ تقلیدا نہیں بلکہ علی وجہ البصیرت فقہ حنفی کےمطابق کریں گے کہ وہ اس وقت رائج ہوگی ‘‘
بظاہر یہ توجیہ اچھی محسوس ہوتی ہے ۔ لیکن میں سمجھتا صرف تعبیر کا فرق ہے بات دونوں جگہ ایک ہی ہے ۔ مہدی و عیسی علیہ السلام آکر تجدید دین کریں گے اور ہر قسم کے نظام کو اس سمت چلا دیں گے جس طرح اس کو ہونا چاہیے ۔ اور حق سچ نظام اور درست سمت کا تعین کتاب وسنت کی بنیاد پر کیا جائے گا یا کسی امتی کے اجتہادات کی بنیاد پر ؟