• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (قراءت)

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس میں سے کون سی تحریر قولِ ابی حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟
قراءت
نماز میں قيام كى حالت میں سورة فاتحہ کی قراءت اور اس کے ساتھ دیگر کسی سورۃ يا تين آيات كى مقدار قراءت واجب ہے۔ نماز میں کسی شخص کی تین حالتیں ممکن ہیں۔ نمبر ایک منفرد :نمبر دو امام: نمبر تین مقتدی :
منفرد
احادیث سے ظاہر ہے کہ منفرد پر سورة فاتحہ کے ساتھ كوئى اور سورۃ يا تين آيات كى مقدار قراءت واجب ہے۔ رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مدینہ میں منادی کردو کہ نماز نہیں مگر قرآن کے ساتھ وہ سورۃ فاتحہ اور زیادہ ہو(سنن أبی داؤد کتاب الصلاۃ باب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)۔
رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمايا اس كى نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور زياده نہ پڑھا
(سنن النسائي کتاب الافتتاح باب إِيجَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلاةِ)۔
رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمايا نماز كى كنجى وضوء ہے اور اس كى تحريم الله اكبر ہے اور حلت سلام پھیرنا ہے اس كى نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور زياده نہ پڑھا فرض اور غير فرض نماز میں(سنن الترمذي کتاب الصلاۃ باب مَا جَاءَ فِي تَحْرِيمِ الصَّلَاةِ وَتَحْلِيلِهَا)۔
رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم كى تعليم فرمائى نماز
ابو ہریرۃ رضى الله تعالیٰ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہؤا اور نماز پڑھنے کے بعد آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ شخص گیا اور اس نے نماز پڑھی اور آکر سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی اس طرح تین دفعہ ہؤا۔ اس کے بعد اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ مجھے سکھلائیے میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہہ پھر پڑھ قرآن سے جو تمہیں یاد ہو پھر رکوع کر اطمینان کے ساتھ پھر رکوع سے کھڑا ہو اطمینان کے ساتھ پھر سجدہ کر اطمینان کے ساتھ پھر سجدہ سے سر اٹھا اور اطمینان سے بیٹھ جا پھر پوری نماز میں ایسا کر(صحيح بخاری کتاب الآذان باب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا)۔
وضاحت: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے قراءت کے بارے فرمايا، قرآن سے تمہیں جو ياد ہے اس سے قراءت كر۔ یہی فرمانِ باری تعالیٰ بھی ہے "فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآَنِ" پس پڑھ قرآن سے جو تمہیں یاد ہو۔ نماز کی قراءت میں مطلقاً قرآن پڑھنا فرض ہے سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ دوسری کوئی سورت پڑھنا واجب۔
امام
امام پر سورۃ فاتحہ کے ساتھ دیگر كوئى سورۃ يا تين آيات كى مقدار قراءت واجب ہے- فجر٬ مغرب، عشاء، جمعہ اور عیدین كى نمازو میں امام بلند آواز سے قراءت کرے گا بقیہ نمازوں میں آہستہ۔
ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور ہمیں سنتیں سکھلائیں اور نماز کی وضاحت فرمائی۔ فرمایا صفوں کو سیدھا کرو پھر تم میں سے ایک امام بنے جب تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اور جب "وَلا الضَّالِّينَ" کہے تو آمین کہو اللہ آپ سے محبت کرے گا(سنن النسائي کتاب التطبیق باب نَوْعٌ آخَرُ مِنْ التَّشَهُّدِ)۔
جو کچھ لکھا گیا احادیث کی روشنی میں لکھا گیا اور ان کا حوالہ بھی دیا گیا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
كما روي عن أبي يوسف رحمه الله تعالیٰ أنه كان مع شيخه أبي حنيفة رحمه الله تعالیٰ في السفر، ولم يجد أول وقت صلاة الفجر لعارض، وكانت الشمس كادت أن تطلع، فقدم أبو حنيفة أبا يوسف رحمهما الله تعالیٰ، وصار لأبي يوسف رحمه الله تعالیٰ تلميذه مقتديا به، فصلی أبو يوسف رحمه الله تعالیٰ ركعتي الفجر من غير رعاية تعديل الأركان، وإقامة الحدود، ورعاية الأدب، والسنن والواجبات؛ بل أدي الفرائض فقط علی سبيل التعجيل مخالفة طلوع الشمس في الصلاة، ثم أبا حنيفة أعاد الصلاة بنية النفل في وقت آخر لترك الواجبات والسنن وغيرها من الآداب إلا أنه لم يترك هيئتها أيضا ابتغاء للثواب، ومن هنا قال أبو حنيفة رحمه الله تعالیٰ: صاريعقوبنا فقيها.
بصد احترام عرض ہے کہ اس اقتباس میں پہلی دو تین لائن بھی شامل کرلیتے تو نہ آپ کو دھوکہ لگتا اور نہ دوسروں کو۔ یہاں وہی ہؤا کہ کوئی قرآن کا حوالہ دے اور کہے کہ قرآن میں ہے ”لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ“ اور ”وَأَنْتُمْ سُكَارَى“ چھوڑ دے۔
آپ التماس ہے کہ اس اقتباس سے پہلے کی سطور بھی بمع ترجمہ لکھ دیں تاکہ تلافی ہوجائے۔ شکریہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بصد احترام عرض ہے کہ اس اقتباس میں پہلی دو تین لائن بھی شامل کرلیتے تو نہ آپ کو دھوکہ لگتا اور نہ دوسروں کو۔
تقریر ترمذی میں بیان کردہ مکمل واقعہ بیان کیا گیا ہے! مجھے تو یہاں کوئی دھوکہ نہیں لگا، ہاں دوسروں کے دھوکوں سے لوگوں کو متنبہ کر دیا ہے!
یہاں وہی ہؤا کہ کوئی قرآن کا حوالہ دے اور کہے کہ قرآن میں ہے ”لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ“ اور ”وَأَنْتُمْ سُكَارَى“ چھوڑ دے۔
یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا، مکمل واقعہ بیان کیا گیا ہے، البتہ یہ کام آپ نے میرے پیش کئے گئے حوالہ میں کیا تھا، اور بھی دیگر جگہ آپ اس کے مرتکب ہوئے ہیں!
آپ التماس ہے کہ اس اقتباس سے پہلے کی سطور بھی بمع ترجمہ لکھ دیں تاکہ تلافی ہوجائے۔ شکریہ
کتاب کا لنک دیا ہے، آپ وہاں سز اپنی مطلوبہ عبارت نقل کردیں!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
تقریر ترمذی میں بیان کردہ مکمل واقعہ بیان کیا گیا ہے! مجھے تو یہاں کوئی دھوکہ نہیں لگا، ہاں دوسروں کے دھوکوں سے لوگوں کو متنبہ کر دیا ہے!
کتاب کا لنک دیا ہے، آپ وہاں سز اپنی مطلوبہ عبارت نقل کردیں!

پوری عبارت کچھ یوں ہے؛
قولہ:’ومن ادرک رکعۃمن الصبح فقد ادرک الصبح
‘ذہب الامام الشافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ الیٰ ہٰذا الحدیث وحملہ فی حق الناسی، والنائم، واستثناہما من روایت النہیٰ عن صلاۃ فی الاوقات المکروہۃ ہٰکذا، و اخذا اامامنا ابو حنیفۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ بحدیث النہیٰ لترجیحہ بکونہ محرما، و جوابہ عن ہٰذا الحدیث باَن یقال: لما تعارضت الروایات فترجع الیٰ القیاس، والقیاس یرجح حدیث النہی فی الصبح لا العصر، کما ذکرہ شارح الوقایۃ، او یقال: ان ہٰذا الحدیث فی حق الصبی اذا بلغ، والکافر اذا سلم، والمحائض والنفساء اذا طھرنا فی وقت الطلوع او الغروب، فیجب علیھم قضاء صلاۃ ہٰذا الوقت لما انھم ادرکوا الجزء الاخیر الذی ھو موجب الصلاۃ، او یقال: ان معنیٰ من ادرک صلاۃ قبل الغروب والطلوع فقد ادرک الصلاۃ، ای ثواب الصلاۃ مطلقاء و اما اداء الصلاۃ الکاملۃ فی ھٰذا الوقت المکروہ فلا بحث عنہ فی الحدیث؛ بل یجب علیہ ان یؤذی الصلاۃ کیف ما امکن فی الوقت الضیق، ثم یقضیھا فی وقت آخر لاحتراز الکمال، كما روي عن أبي يوسف رحمه الله تعالیٰ أنه كان مع شيخه أبي حنيفة رحمه الله تعالیٰ في السفر، ولم يجد أول وقت صلاة الفجر لعارض، وكانت الشمس كادت أن تطلع، فقدم أبو حنيفة أبا يوسف رحمهما الله تعالیٰ، وصار لأبي يوسف رحمه الله تعالیٰ تلميذه مقتديا به، فصلی أبو يوسف رحمه الله تعالیٰ ركعتي الفجر من غير رعاية تعديل الأركان، وإقامة الحدود، ورعاية الأدب، والسنن والواجبات؛ بل أدي الفرائض فقط علی سبيل التعجيل مخالفة طلوع الشمس في الصلاة، ثم أبا حنيفة أعاد الصلاة بنية النفل في وقت آخر لترك الواجبات والسنن وغيرها من الآداب إلا أنه لم يترك هيئتها أيضا ابتغاء للثواب، ومن هنا قال أبو حنيفة رحمه الله تعالیٰ: صاريعقوبنا فقيها.
واقعہ تشریعی بیان تھا جس کو سیاق کے بغیر آپ نے ذکر گیا ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
کسی سے اختلاف رکھنا آپ کا حق ہے مگر کسی کے مؤقف کے بیان میں کمی بیشی اچھی بات نہیں۔
تمام حضرات سے گذارش ہے کہ بحث حق کی تلاش کے لئے کریں اور خواہ مخواہ کے اعتراضات سے بچیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھٹی صاحب ! میں نے یہاں مسئلہ بیان نہیں کیا ہے، یہاں ميں نے واقعہ ہی بیان کیا ہے، اور واقعہ پورا بیان کیا ہے، جیسا وہاںمنقول ہے!
بھٹی صاحب! آپ سے بھی ایک عرض ہے کہ عقل استعمال سے کم نہیں ہوتی، اس کے استعمال میں کنجوسی نہ کریں!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
میں نے یہاں مسئلہ بیان نہیں کیا ہے، یہاں ميں نے واقعہ ہی بیان کیا ہے، اور واقعہ پورا بیان کیا ہے، جیسا وہاںمنقول ہے!
فقہ حنفی کا یہ مسئلہ کہ واجب کے عمداً ترک کرنے سے بھی نماز ہو جاتی ہے، یہ تمام کے لئے ہے، امام کے لئے بھی مقتدی کے لئے بھی اور منفرد کے لئے بھی!
بھٹی صاحب! آپ کی تسلی قلب کی خاطر آپ کو حنفی فقیہ بننے کا گُر بتلا دیتے ہیں۔
جی اب کچھ ارشاد ہو۔ غلطی انسان سے ہوتی ہے اور یہ عیب نہیں۔ عیب یہ ہے کہ غلطی کو تسلیم نہ کیا جائے۔
شدید تر یہ ہے کہ اس پر بضد ہؤا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا فرمائے اور اسی پر چلائے (آمین)۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ سے بھی ایک عرض ہے کہ عقل استعمال سے کم نہیں ہوتی، اس کے استعمال میں کنجوسی نہ کریں!
عقل استعمال نہ کرنے سے یہ حال ہے، اگر استعمال کرلی تو ۔۔۔۔۔ ابتسامہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی اب کچھ ارشاد ہو۔ غلطی انسان سے ہوتی ہے اور یہ عیب نہیں۔ عیب یہ ہے کہ غلطی کو تسلیم نہ کیا جائے۔
شدید تر یہ ہے کہ اس پر بضد ہؤا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا فرمائے اور اسی پر چلائے (آمین)۔
آپ کس مدرسہ میں زیر تعلیم ہیں؟ آپ کا داخلہ سے قبل اردو کا ٹیسٹ لیا گیا تھا، کہ آیا آپ کو اردو سمجھ آتی ہے!
تقریر ترمذی سے میں نے مسئلہ بیان نہیں کیا، تقریر ترمذی میں درج واقعہ بیان کیا ہے!
عقل استعمال نہ کرنے سے یہ حال ہے، اگر استعمال کرلی تو ۔۔۔۔۔ ابتسامہ
آپ نے جلد ہی ''متکلم الاسلام'' کا رتبہ حاصل کر لینا ہے!
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
تقریر ترمذی سے میں نے مسئلہ بیان نہیں کیا، تقریر ترمذی میں درج واقعہ بیان کیا ہے!
تقریر ترمذی میں واقعہ حدیث کی تفہیم میں پیش کیا گیا تھا۔ اصل مدعا کو بیان کیئے بغیر واقعہ بیان کرنے سے وہی عندیہ ملے گا جس کے لئے آپ نے وہ واقعہ بیان کیا۔ خیر دنیا ہر طرح کے انسانوں سے بھری پڑی ہے۔
 
Top