• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدینے کے مشرق کی تلاش حرکات شمس کی مدد سے ( گوگل ارتھ کی مدد سے کیے گئے بریلوی پراپیگینڈہ کا رد)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام صاحب کیا آپ دوبارہ وہ پوسٹ کرسکتے ہیں جس میں آپ نے جوش خطابت میں کاپی پیسٹ کرتے ہوئے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ لکھ دیا اور پھر مجھ سے جواب بھی مانگا، مجھے بہت افسوس کہ میں وہ پوسٹ محفوظ نہ کر سکا۔
اس کے لیے میں الگ ایک دھاگہ بنارہا ہوں کیونکہ اس کا تعلق اس تھریڈ سے نہیں تھا اس لئے اس کو دیلیٹ کردیا ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
چاہیے تو یہ تھا کہ گوگل ارتھ کی بجائے احادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اعتماد کیا جاتا لیکن بعض لوگ زبان حال سے موجودہ نقشہ جات کوہی زیادہ قابل اعتماد سمجھتے ہوئے محل فتنہ سرزمین ریاض و درعیہ کو گردانتے ہیں۔ لہذا میں نے سوچا کہ اس معاملہ کو اگر ماڈرن جیوگرافک انفارمیشن سسٹمز پر جانچنا ہی ہے تو سرسری طور پر ہی کیوں؟؟؟؟Detail سے کیوں نہیں؟
جواب
طالب علم بھائی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے
آیئں گوگل ارتھ کی بجائے احادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اعتماد کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔
ان سوالوں کے جوابات اب تک نہیں آئے
اب میں فاضل دوست سے پوچھنا چاھوںگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کس نجد کی طرف بھیجا تھا کیا یہ آپ کا لغوی معنی والا نجد ہے یا مجودہ دور کا سعودی نجد ؟؟؟

٢۔ بنوحنیفہ کے ثمامہ بن اثال جو پکڑ کر لایا گیا کیا یہ آپ کا لغوی معنی والا نجد تھا یا مجودہ دور کا سعودی نجد ؟؟؟
کیا میرے فاضل دوست بتانا پسند کریں گے کے یہ "غزوہ نجد " کونسی سرزمین پر ہوا
کیا غزوہ نجد آپ کے لغوی معنی والے نجد میں ہوا یا آج کے سعودی نجد میں؟؟؟؟
سوال یہ ہے کہ کیا یہ چاروں سردار آپ کے لغوی معنی والے نجد سے تعلق رکھنے کی بناء پر نجدی کہلائے یا موجودہ سعودی نجد سے تعلق کی وجہ سے نجدی کہلائے ؟؟؟؟
اس حدیث شریف میں ایک گستاخ خبیث کا بھی ذکر ہوا ہے آپ جیسے اہل علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہوگی کہ اس گستاخ خبیث کا نام عبداللہ ذوالخصیرہ ہے او یہ محمد بن عبدالواھاب کے قبیلے بنو تمیم سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا تعلق بھی موجودہ سعودی نجد ہی سے تھا
یہ اولین شیطان کا سینگ تھا جو نجد سے ظاہر ہوا اور ایسے باباء خوارج بھی کہا جاتا ہے ،
دوسرا شیطان کا سینگ جو نجد سعودی سے ظاہر ہوا وہ مسلیمہ کذاب تھا
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
ایسی طرح بعض حضرات صرف اس حدیث کو لیتے ہیں کہ جو ان کے موقف کے موافق ہو ورنہ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ چاہے وہ احادیث بخاری شریف ہی کی کیوں نہ ہو اور ساتھ ہی یہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے مستند کتاب ہے !!
۔۔۔[/CENTER]

QUOTE=بہرام;55519]
دلچسپ بات​

اس حدیث شریف میں ایک گستاخ خبیث کا بھی ذکر ہوا ہے آپ جیسے اہل علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہوگی کہ اس گستاخ خبیث کا نام عبداللہ ذوالخصیرہ ہے او یہ محمد بن عبدالواھاب کے قبیلے بنو تمیم سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا تعلق بھی موجودہ سعودی نجد ہی سے تھا
یہ اولین شیطان کا سینگ تھا جو نجد سے ظاہر ہوا اور ایسے باباء خوارج بھی کہا جاتا ہے ،

مختلف احادیث میں اس کا حلیہ بیان کیا گیا ہے جو کہ کچھ اس طرح ہے ،
١۔ آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں۔
٢۔ پیشانی ابھری ہوئی تھی۔
٣۔ داڑھی گھنی تھی۔
٤۔ دونوں کلے پھولے ہوئے تھے۔
٥۔ سر گٹھا ہوا تھا۔
٦۔ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا۔
٧۔ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدوں کا اثر نمایاں تھا۔

مختلف احادیث میں اس کی نسل سے پیدا ہونے والوں کے اعمال بیان ہوئے جو کے اس طرح کے ہونگے۔

١۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ‘ وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکار ی جانور میں سے پار نکل جاتا ہے۔
٢۔ وہ اہل اسلام کو ( کافر کہہ کر قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ۔
٣۔ اس کے (ایسے) ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔
٤۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا۔
٤۔ وہ مخلوق میں سب سے بدتر (یا بدترین) ہوں گے۔
٥۔ وہ اﷲ عزوجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا اوروہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
٦۔ ان کا قاتل ان کی نسبت اﷲ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو گا۔
٧۔ خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے۔
٨۔ وہ اپنی عبادت میں تندہی سے کام لیں گے یہاں تک کہ وہ لوگوں کو بھلے لگیں گے اور وہ خود بھی اپنے آپ (اور اپنی نمازوں) پر اترائیں گے حالانکہ وہ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح کہ تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
٩۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔

بنوتمیم کی فضیلت، اسماعیل علیہ السلام کی اولاد اور دجال کی مخالفت میں سب سے زیادہ سخت ہوں گے


فصل: 13 ـ باب مَنْ مَلَكَ مِنَ الْعَرَبِ رَقِيقًا فَوَهَبَ وَبَاعَ وَجَامَعَ وَفَدَى وَسَبَى الذُّرِّيَّةَ|نداء الإيمان

2583 ـ حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لاَ أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ‏.‏ وَحَدَّثَنِي ابْنُ سَلاَمٍ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‏.‏ وَعَنْ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ مَا زِلْتُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مُنْذُ ثَلاَثٍ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ فِيهِمْ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ ‏"‏ هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ ‏"‏‏.‏ قَالَ وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا ‏"‏‏.‏ وَكَانَتْ سَبِيَّةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ عَائِشَةَ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ أَعْتِقِيهَا فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ ‏"‏‏.‏

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ فرماتے ہیں کہ :
"تین باتوں کی وجہ سے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنی ہیں، میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا : کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں امت میں سے سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔
پھر ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بنو تمیم کے ہاں سے زکوٰۃ کا مال آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کہ یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس (غلام) تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان سے فرمایا : اسے آزاد کردو
یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ّکی اولاد میں سے ہے۔

بخاری: کتاب العتق: باب من ملک من العرب

جناب عالی آپ اس حدیث سے کیوں کترا جاتے ہیں اگرچہ یہ بھی بخاری میں ہے، آپ نبی تمیم کی دشمنی میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صیح احادیث کو نظرانداز کیے جارہے ہیں لہذا آپ کے لیے بریلوی مسلک کی ایک کتاب جوکہ اہل کوفہ کے دفاع میں لکھی گئی ہے سے اقتباس دکھاتے ہیں، شاید کہ آپ کچھ غور فرمائیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بنوتمیم کی فضیلت، اسماعیل علیہ السلام کی اولاد اور دجال کی مخالفت میں سب سے زیادہ سخت ہوں گے


فصل: 13 ـ باب مَنْ مَلَكَ مِنَ الْعَرَبِ رَقِيقًا فَوَهَبَ وَبَاعَ وَجَامَعَ وَفَدَى وَسَبَى الذُّرِّيَّةَ|نداء الإيمان

2583 ـ حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لاَ أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ‏.‏ وَحَدَّثَنِي ابْنُ سَلاَمٍ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‏.‏ وَعَنْ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ مَا زِلْتُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مُنْذُ ثَلاَثٍ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ فِيهِمْ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ ‏"‏ هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ ‏"‏‏.‏ قَالَ وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا ‏"‏‏.‏ وَكَانَتْ سَبِيَّةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ عَائِشَةَ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ أَعْتِقِيهَا فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ ‏"‏‏.‏

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ فرماتے ہیں کہ :
"تین باتوں کی وجہ سے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنی ہیں، میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا : کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں امت میں سے سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔
پھر ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بنو تمیم کے ہاں سے زکوٰۃ کا مال آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کہ یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس (غلام) تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان سے فرمایا : اسے آزاد کردو
یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ّکی اولاد میں سے ہے۔

بخاری: کتاب العتق: باب من ملک من العرب

صحیح بخاری
کتاب المغازی
باب: بنی تمیم کے وفد کا بیان
حدیث نمبر : 4365
حدثنا أبو نعيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي صخرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن صفوان بن محرز المازني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عمران بن حصين ـ رضى الله عنهما ـ قال أتى نفر من بني تميم النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ اقبلوا البشرى يا بني تميم ‏"‏‏.‏ قالوا يا رسول الله قد بشرتنا فأعطنا‏.‏ فريء ذلك في وجهه فجاء نفر من اليمن فقال ‏"‏ اقبلوا البشرى إذ لم يقبلها بنو تميم ‏"‏‏.‏ قالوا قد قبلنا يا رسول الله‏.‏


ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ان سے ابو صخرہ نے ، ان سے صفوان بن محرز مازنی نے اور ان سے عمران بن حصین نے بیان کیاکہبنوتمیم کے چند لوگوں کا (ایک وفد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایااے بنوتمیم! بشارت قبول کرو۔ وہ کہنے لگے کہ بشارت تو آپ ہمیں دے چکے، کچھ مال بھی دیجئیے۔ ان کے اس جواب پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پرناگواری کا اثر دیکھا گیا، پھر یمن کے چند لوگوں کا ایک (وفد) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے بشارت نہیں قبول کی، تم قبول کر لو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم کو بشارت قبول ہے۔
یہاں میں اعتراض سے پہلے ہی وضاحت کردوں کہ کسی بھی قبیلے کا وفد اس پورے قبیلے کا نمائندہ ہوتا ہے

صحیح بخاری
کتاب التفسیر
باب: آیت ((والمؤلفۃ قلوبھم)) کی تفسیر
حدیث نمبر : 4667
حدثنا محمد بن كثير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن أبي نعم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ قال بعث إلى النبي صلى الله عليه وسلم بشىء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقسمه بين أربعة وقال ‏"‏ أتألفهم ‏"‏‏.‏ فقال رجل ما عدلت‏.‏ فقال ‏"‏ يخرج من ضئضئ هذا قوم يمرقون من الدين ‏"‏‏.‏

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی ، انہیں ان کے والد سعید بن مسروق نے ، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نے چار آدمیوں میں اسے تقسیم کر دیا۔ (جو نومسلم تھے) اور فرمایا کہ میں یہ مال دے کر ان کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں اس پر (بنو تمیم کا) ایک شخص بولا کہ آپ نے انصاف نہیں کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہو جائیں گے۔
اس حدیث میں خبیث گستاخ ذوالخویصرہ التمیی کا ذکر ہے جو کہ قبیلہ بنو تمیم سے تھا جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ " اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہو جائیں گے" اب اس کی نسل سے میں جو لوگ ہونگےان کا تعلق بھی یقینا قبیلہ بنو تمیم ہی سے ہوگا تو کیا ہم صرف قبیلہ بنو تیمیم سے تعلق کی بناء پر اس خبیث گستاخ اور اس کی نسل سے محبت کریں بھائی یہ ہم سے نہ ہوگا یہ آپ ہی کو مبارک ہو
إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَO
4. بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتےo
سُورة الْحُجُرَات آیت نمبر ٤

مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے وفد کے لئے نازل ہوئی
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
اس حدیث میں خبیث گستاخ ذوالخویصرہ التمیی کا ذکر ہے جو کہ قبیلہ بنو تمیم سے تھا جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ " اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہو جائیں گے" اب اس کی نسل سے میں جو لوگ ہونگےان کا تعلق بھی یقینا قبیلہ بنو تمیم ہی سے ہوگا تو کیا ہم صرف قبیلہ بنو تیمیم سے تعلق کی بناء پر اس خبیث گستاخ اور اس کی نسل سے محبت کریں بھائی یہ ہم سے نہ ہوگا یہ آپ ہی کو مبارک ہو
بہرام صاحب!!
آپ کی مذکورہ بالا تاویل کچھ سمجھ میں نہیں آئی ۔۔۔۔ بلکہ آپ ہی کی تاویل کی ذرا مزید تشریح کی جائے تو آپ کی تاویل حدیثِ بخاری کی روشنی میں صریح توہین رسالت کے زمرے میں آ جاتی ہے!!
آپ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ گستاخ ذوالخویصرہ التمیی کی نسل سے میں جو لوگ ہونگےان کا تعلق بھی یقینا قبیلہ بنو تمیم ہی سے ہوگا تو کیا ہم صرف قبیلہ بنو تیمیم سے تعلق کی بناء پر اس خبیث گستاخ اور اس کی نسل سے محبت کریں ؟؟
جبکہ کتاب المغازی ، صحیح بخاری کی حدیث ہے ۔۔۔۔
حدثني زهير بن حرب حدثنا جرير عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة رضي الله عنه قال لا أزال أحب بني تميم بعد ثلاث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها فيهم هم أشد أمتي على الدجال وكانت فيهم سبية عند عائشة فقال أعتقيها فإنها من ولد إسماعيل وجاءت صدقاتهم فقال هذه صدقات قوم أو قومي
۔۔۔۔ بنی تمیم کی ایک عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس قید تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو آزاد کر دو ، بنی تمیم حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ اور ایسا ہوا کہ سب قوموں کی زکوٰۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، بنی تمیم کی زکوٰۃ آئی تو آپ نے فرمایا : میری قوم کی زکوٰۃ ہے!
اردو ترجمہ : علامہ وحید الزماں

میری قوم کی زکوٰۃ ہے! ۔۔ اس فقرہ کی شرح میں مترجم فرماتے ہیں : "کیونکہ بنی تمیم الیاس بن مضر میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتے ہیں۔"

یعنی مترجم کے بقول ۔۔۔ بنی تمیم کا شجرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔
اب اس وضاحت کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم آپ کی تاویل پر دوبارہ نظر دوڑاتے ہیں ۔۔۔۔
اب اس کی نسل سے میں جو لوگ ہونگےان کا تعلق بھی یقینا قبیلہ بنو تمیم ہی سے ہوگا
تو اسی غیض و غضب کی رو میں شاید آپ یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ ۔۔۔۔
اب اس کی نسل سے میں جو لوگ ہونگےان کا تعلق بھی یقینا قبیلہ بنو تمیم ہی سے ہوگا جن کا شجرہ الیاس بن مضر میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے !!
اب اس کے بعد جو بھی آپ کہنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ ذرا دوبارہ وضاحت تو فرمائیے گا ۔۔۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
7 - كنت أتمنى أن ألقى رجلا من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم يحدثني عن الخوارج فلقيت أبا برزة الأسلمي في نفر من أصحابه في يوم عرفة فقلت: حدثني بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوله في الخوارج فقال: ألا أحدثك بما سمعته أذناي ورأته عيناي إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتي بدنانير فكان يقسمها وعنده رجل أسود مطموم الشعر عليه ثوبان أبيضان بين عينيه أثر السجود فكان يعرض لرسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يعطه فعرض له من قبل وجهه فلم يعطه شيئا ثم أتاه من خلفه فلم يعطه شيئا فقال: يا محمد ما عدلت هذا اليوم في القسمة فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم غضبا شديدا ثم قال: والله لا تجدون أحدا يعني: أعدل عليكم مني , ثلاث مرات ثم قال: يخرج من قبل المشرق رجال كأن هذا منهم هديهم هكذا يقرؤون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية لا يعودون إليه ووضع يده على صدره سيماهم التحليق لا يزالون يخرجون حتى يخرج آخرهم مع المسيح الدجال وإذا رأيتموهم فاقتلوهم شرار الخلق والخليقة , يقولها ثلاثا
الراوي: أبو برزة الأسلمي المحدث: البوصيري - المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 8/62
خلاصة حكم المحدث: رواته ثقات

عبداللہ ذوالخوصیرہ التمیمی کی نسل سے لوگ آخری زمانے میں دجال کے ساتھ ہونگے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بہرام صاحب دلیل کے ساتھ گفتگو کرنے کی بجائے صرف اپنی ہی پیش کرنا جانتے ہیں، فریق مخالف کی دلیل کا جواب دینے سے انہیں کوئی مطلب نہیں، لہٰذا ان کے ساتھ گفتگو وقت کا ضیاع ہے۔ اسی بناء پر پہلے بھی ان کا ایک تھریڈ مقفّل کیا گیا ہے، جو بقول ان کے ان کا موقف تھا ہی نہیں لیکن یہ اسے بلاوجہ گھسیٹے جا رہے تھے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام صاحب!!
آپ کی مذکورہ بالا تاویل کچھ سمجھ میں نہیں آئی ۔۔۔۔ بلکہ آپ ہی کی تاویل کی ذرا مزید تشریح کی جائے تو آپ کی تاویل حدیثِ بخاری کی روشنی میں صریح توہین رسالت کے زمرے میں آ جاتی ہے!!
آپ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ گستاخ ذوالخویصرہ التمیی کی نسل سے میں جو لوگ ہونگےان کا تعلق بھی یقینا قبیلہ بنو تمیم ہی سے ہوگا تو کیا ہم صرف قبیلہ بنو تیمیم سے تعلق کی بناء پر اس خبیث گستاخ اور اس کی نسل سے محبت کریں ؟؟
جبکہ کتاب المغازی ، صحیح بخاری کی حدیث ہے ۔۔۔۔
حدثني زهير بن حرب حدثنا جرير عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة رضي الله عنه قال لا أزال أحب بني تميم بعد ثلاث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها فيهم هم أشد أمتي على الدجال وكانت فيهم سبية عند عائشة فقال أعتقيها فإنها من ولد إسماعيل وجاءت صدقاتهم فقال هذه صدقات قوم أو قومي
۔۔۔۔ بنی تمیم کی ایک عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس قید تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو آزاد کر دو ، بنی تمیم حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ اور ایسا ہوا کہ سب قوموں کی زکوٰۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، بنی تمیم کی زکوٰۃ آئی تو آپ نے فرمایا : میری قوم کی زکوٰۃ ہے!
اردو ترجمہ : علامہ وحید الزماں

میری قوم کی زکوٰۃ ہے! ۔۔ اس فقرہ کی شرح میں مترجم فرماتے ہیں : "کیونکہ بنی تمیم الیاس بن مضر میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتے ہیں۔"

یعنی مترجم کے بقول ۔۔۔ بنی تمیم کا شجرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔
اب اس وضاحت کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم آپ کی تاویل پر دوبارہ نظر دوڑاتے ہیں ۔۔۔۔

تو اسی غیض و غضب کی رو میں شاید آپ یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ ۔۔۔۔
اب اس کی نسل سے میں جو لوگ ہونگےان کا تعلق بھی یقینا قبیلہ بنو تمیم ہی سے ہوگا جن کا شجرہ الیاس بن مضر میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے !!
اب اس کے بعد جو بھی آپ کہنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ ذرا دوبارہ وضاحت تو فرمائیے گا ۔۔۔۔۔
صحیح بخاری
کتاب استتابہ المرتدین
باب: دل ملانے کے لیے کسی مصلحت سے کہ لوگوں میں نفرت نہ پیدا ہوخارجیوں کو نہ قتل کرنا
حدیث نمبر: 6933
حدثنا عبد الله بن محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا هشام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا معمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي سلمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي سعيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال بينا النبي صلى الله عليه وسلم يقسم جاء عبد الله بن ذي الخويصرة التميمي فقال اعدل يا رسول الله‏.‏ فقال ‏"‏ ويلك من يعدل إذا لم أعدل ‏"‏‏.‏ قال عمر بن الخطاب دعني أضرب عنقه‏.‏ قال ‏"‏ دعه فإن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وصيامه مع صيامه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ينظر في قذذه فلا يوجد فيه شىء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ينظر في نصله فلا يوجد فيه شىء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ينظر في رصافه فلا يوجد فيه شىء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ينظر في نضيه فلا يوجد فيه شىء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قد سبق الفرث والدم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ آيتهم رجل إحدى يديه ـ أو قال ثدييه ـ مثل ثدى المرأة ـ أو قال مثل البضعة ـ تدردر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يخرجون على حين فرقة من الناس ‏"‏‏.‏ قال أبو سعيد أشهد سمعت من النبي صلى الله عليه وسلم وأشهد أن عليا قتلهم وأنا معه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ جيء بالرجل على النعت الذي نعته النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ قال فنزلت فيه ‏ {‏ ومنهم من يلمزك في الصدقات‏}‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہا یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاافسوس اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اورکون کرے گا۔ اس پر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ ان کی نماز اور روزے کے سامنے تم اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھوگے لیکن وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر جانور میں سے باہر نکل جاتا ہے۔ تیر کے پر کو دیکھا جائے لیکن اس پر کوئی نشان نہیں پھر اس پیکان کو دیکھا جائے اور وہاں بھی کوئی نشان نہیں پھر اس کے باڑ کو دیکھا جائے اور یہاں بھی کوئی نشان نہیں پھر اس کی لکڑی کو دیکھا جائے اور وہاں بھی کوئی نشان نہیں کیونکہ وہ (جانور کے جسم سے تیر چلایاگیا تھا) لید گوبر اور خون سب سے آگے (بے داغ) نکل گیا (اسی طرح وہ لوگ اسلام سے صاف نکل جائیں گے) ان کی نشانی ایک مرد ہو گا جس کا ایک ہاتھ عورت کی چھاتی کی طرح یا یوں فرمایا کہ گوشت کے تھل تھل کرتے لوتھڑے کی طرح ہو گا۔ یہ لوگ مسلمانوں میں پھوٹ کے زمانہ میں پیدا ہوں گے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہروان میں ان سے جنگ کی تھی اور میں اس جنگ میں ان کے ساتھ تھا اور ان کے پاس ان لوگوں کے ایک شخص کو قیدی بنا کر لایا گیا تو اس میں وہی تمام چیزیں تھیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تھیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ ”ان میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کے صدقات کی تقسیم میں عیب پکڑتے ہیں“۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صحیح بخاری
کتاب الادب
باب: لفظ ”ویلک“ یعنی تجھ پر افسوس ہے کہنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 6163
حدثني عبد الرحمن بن إبراهيم،‏‏‏‏ حدثنا الوليد،‏‏‏‏ عن الأوزاعي،‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ عن أبي سلمة،‏‏‏‏ والضحاك،‏‏‏‏ عن أبي سعيد الخدري،‏‏‏‏ قال بينا النبي صلى الله عليه وسلم يقسم ذات يوم قسما فقال ذو الخويصرة ـ رجل من بني تميم ـ يا رسول الله اعدل‏.‏ قال ‏"‏ ويلك من يعدل إذا لم أعدل ‏"‏‏.‏ فقال عمر ائذن لي فلأضرب عنقه‏.‏ قال ‏"‏ لا،‏‏‏‏ إن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاتهم،‏‏‏‏ وصيامه مع صيامهم،‏‏‏‏ يمرقون من الدين كمروق السهم من الرمية،‏‏‏‏ ينظر إلى نصله فلا يوجد فيه شىء،‏‏‏‏ ثم ينظر إلى رصافه فلا يوجد فيه شىء،‏‏‏‏ ثم ينظر إلى نضيه فلا يوجد فيه شىء،‏‏‏‏ ثم ينظر إلى قذذه فلا يوجد فيه شىء،‏‏‏‏ سبق الفرث والدم،‏‏‏‏ يخرجون على حين فرقة من الناس،‏‏‏‏ آيتهم رجل إحدى يديه مثل ثدى المرأة،‏‏‏‏ أو مثل البضعة تدردر ‏"‏‏.‏ قال أبو سعيد أشهد لسمعته من النبي صلى الله عليه وسلم وأشهد أني كنت مع علي حين قاتلهم،‏‏‏‏ فالتمس في القتلى،‏‏‏‏ فأتي به على النعت الذي نعت النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏

مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے، ان سے زہری نے، ان سے ابوسلمہ اور ضحاک نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ تقسیم کر رہے تھے۔ بنی تمیم کے ایک شخص ذوالخویصرۃ نے کہا یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس! اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ اس کے کچھ (قبیلہ والے) ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ تم ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نماز کومعمولی سمجھو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزے کو معمولی سمجھو گے لیکن وہ دین سے اس طرح نکل چکے ہوں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ تیرکے پھل میں دیکھا جائے تو اس پر بھی کوئی نشان نہیں ملے گا۔ اس کی لکڑی پر دیکھا جائے تو اس پر بھی کوئی نشان نہیں ملے گا۔ پھر اس کے دندانوں میں دیکھا جائے اور اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا پھر اس کے پر میں دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ (یعنی شکار کے جسم کو پار کرنے کا کوئی نشان) تیر لید اور خون کو پار کر کے نکل چکا ہو گا۔ یہ لوگ اس وقت پیدا ہوں گے جب لوگوں میں پھوٹ پڑ جائے گی۔ (ایک خلیفہ پر متفق نہ ہوں گے) ان کی نشانی ان کا ایک مرد (سردار لشکر) ہو گا۔ جس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہو گا یا (فرمایا) گوشت کے لوتھڑے کی طرح تھل تھل ہل رہا ہو گا۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ سے یہ حدیث سنی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ جب انہوں نے ان خارجیوں سے (نہروان میں) جنگ کی تھی۔ مقتولین میں تلاش کی گئی توایک شخص انہیں صفات کالا یا گیا جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھیں۔ اس کا ایک ہاتھ پستان کی طرح کا تھا۔

مزید وضاحت


ان دو احادیث میں جس گستاخ خبیث ذوالخویصرہ التمیمی جو کہ قبیلہ بنو تیمیم سے تھا میں اس گستاخ خبیث سے محبت نہیں رکھتا چاہے اس کا تعلق لاکھ بنو تمیم سے ہو اور اس کی نسل سے ایسی کی طرح کے جو خبیث پیدا ہونگے ان سے مجھے محبت نہیں ، اس گستاخ خبیث اور اس کی نسل سے پیدا ہونے والے ایسی طرح کے خبیثوں سے محبت آپ ہی کو مبارک ہو میں ان سے محبت نہیں کرسکتا ِ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132

اس حدیث مبارکہ کا ترجمہ بریلوی عالم نے کچھ یوں کیا ہے





ترجمہ آپریشن


وذكر العراق فقال لم يكن عراق يومئذ‏

ترجمہ : از داؤد راز
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عراق نہیں تھا۔
یعنی عراق کے وجود مطلقا انکار
اور کوئی اعتراض نہیں
ترجمہ از مولانا عبدالحکیم خان
ان دونوں عراق (مسلمانوں کا ملک) نہ تھا
جو کہ اس حدیث کا خلاصہ ہے
صحیح بخاری
کتاب الحج
باب: عراق والوں کے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے
حدیث نمبر : 1531
تر جمہ از داؤد راز
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے نافع سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب یہ دو شہر (بصرہ اور کوفہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ یا امیرالمؤمنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے لوگوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قرار دی ہے اور ہمارا راستہ ادھر سے نہیں ہے، اگر ہم قرن کی طرف جائیں تو ہمارے لئے بڑی دشواری ہو گی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تم لوگ اپنے راستے میں اس کے برابر کوئی جگہ تجویز کر لو۔ چنانچہ ان کے لئے ذات عرق کی تعیین کر دی۔


یعنی عراق حضرت عمر کے دور میں فتح ہوا اور اسلامی سلطنت شامل ہوا

اعتراض کرنے والے اس ترجمہ پر اعتراض نہیں فرمارہے جس میں عراق کے وجود کا ہی انکار کیا جارہا لیکن اس بات پر اعتراض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عراق اسلامی سلطنت نہیں تھا
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جہاں جہاں سطح مرتفع ہے



اگر احادیث کی تفاسیر اور عربی کی مستند لغات بریلوی مذہب کے خلاف جاتی ہیں تو میں کیا کرسکتا ہوں ؟؟؟؟؟؟

یاد رہے ابن حجر العسقلانی وہ شخصیت تھے کہ جنہوں نے بخاری شریف کی شرح لکھی
یہ سب احادیث کی تفاسیر اور لغت ہیں احادیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم نہیں آپ یہ اعتراض فرما رہیں ہیں اس دھاگہ کی پوسٹ اول میں کہ
چاہیے تو یہ تھا کہ گوگل ارتھ کی بجائے احادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اعتماد کیا جاتا
اب جب میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے دلائل پیش کررہاہوں آپ تفسیر اور لغت پر اعتماد کرنے کا کہہ رہیں ہیں اب اگراحادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نجدی مذہب کے خلاف جارہی ہیں تو میں اس میں کیا کرسکتا ہوں !!
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top