ازدواجی زندگی کے متعلق نوجوانان کو کچھ نصیحتیں کریں جو جوانی اور کم عمری میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں، اور اپنی ازدواجی زندگی کے ان اہم پہلو کو اجاگر کریں جن سے ایک نوجوان انسان میں مثبت تبدیلی آ سکتی ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ بلوغت کے بعد شادی میں زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ جتنی تاخیر ہوگی اتنی عادتیں اور مزاج پختہ اور فریق ثانی کے ساتھ نبھاؤ مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ چھوٹی عمر میں دوسرے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جو بعد میں کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ جتنی بڑی عمر میں شادی ہوگی اتنی ڈیمانڈ بھی زیادہ ہوتی جائے گی۔ لڑکا (بلکہ ’مرد‘) تیس بتیس سال کی عمر میں اعلیٰ ترین تعلیمی مرحلہ عبور کرنے کے بعد جاب یا کاروبار سیٹ کر بیٹھا ہو اور وہ کیسے امیچور، چھوٹی عمر، بی اے بی ایس سی پاس لڑکی کو اپنے جوڑ کا سمجھے گا؟ اسے ڈاکٹر، انجینئر، پی ایچ ڈی، اپنے قدموں میں کھڑی بیگم درکار ہوگی، جس کی اس کے ساتھ اور اِس (مرد) کی اُس کے ساتھ سیٹنگ نہ ہوگی، کیونکہ دونوں یہ سمجھیں گے کہ ہم ایک دوسرے کی تکمیل کیلئے نہیں بلکہ اپنی جگہ پرفیکٹ ہیں۔
کم عمری کی شادی میں دونوں طرف کی ڈیمانڈز کم ہوں گی، مفاہمت کا امکان زیادہ سے زیادہ ہوگا۔
اگر یہ بہانہ بنایا جائے کہ بیس بائیس سال کی عمر میں لڑکا کمائی کیسے کرے گا، بیگم کو کیسے کھلائے گا؟ تو ہم ہر بات میں مغرب کی نقّالی کرنے والے یہاں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مغرب میں لڑکے لڑکیاں 14، 15 سال کی عمر میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو رہے ہیں۔ مہنگے تعلیمی اخراجات کے علاوہ ان گنت گرل فرینڈز کو تحفے تحائف بھی دے سکتے ہیں تو مسلمان کیوں بیس بائیس کی عمر تک ایک حد تک اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے، پھر ہمارے ہاں والدین بھی سپورٹ کرتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکی کی عمر کم ہوگی تو ظاہری سی بات ہے کہ ڈیمانڈ بھی زیادہ نہیں ہوگی۔ فطرت پر عمل بھی ہوگا، اللہ راضی ہوں گے، نصف ایمان مکمل ہوگا۔ لڑکا لڑکی نفسیاتی مسائل، گناہوں اور معاشرے میں پھیلی فحاشی کے مقابلے میں ’قلعہ بند‘ ہوسکیں گے۔ تعلیم شادی کے بعد بھی مکمل کی جا سکتی ہے۔
شادی سے پہلے فرد صرف اپنی ذات کے متعلق سوچتا ہے، شادی کرنا در اصل تاحیات اپنے اوپر فیملی کی ایک بہت بڑی ذمہ داری قبول کرنا ہے، احصان کا یہی معنیٰ ہے۔ یہی فرق نکاح اور سفاح (زنا کاری) میں ہے، مؤخر الذکر میں صرف جنسی آسودگی ہے اور پھر میں کون تو کون؟ جبکہ اول الذکر میں جنسی تسکین کے ساتھ مستقل ذمّہ داری بھی۔ ’نکاحِ متعہ اور ’حلالہ‘ میں یہ ذمّہ داری نہیں لہٰذا وہ بھی سفاح میں شامل ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت دونوں کیلئے فرمایا ہے:
محصنين غير مسافحين ولا متخذي أخدان
محصنات غير مسافحات ولا متخذات أخدان
اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اللہ نے ازدواجی زندگی میں ہر قسم کی برکت دے رکھی ہے۔
میرے نزدیک شادی کے بعد میاں بیوی، ساس بہو کے اور دیگر جھگڑوں کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لڑکی کو اپنا نہیں غیر سمجھا جاتا ہے۔ اپنوں کو تو خامیوں خوبیوں سمیت دل وجان سے قبول کیا جاتا ہے۔ ماں باپ بچوں کو اپنا سمجھتے ہیں تو جسمانی عیوب ونقائص پر دھکے دے گھر سے نہیں نکالتے۔ بہن بھائیوں کی محبت خوبصورتی ؍ بدصورتی سے بالا تر ہوتی ہے۔ ماں کے لئے کالا کلوٹا بیٹا ہی یوسف ہوتا ہے۔ بیوی کو اپنا نہیں سمجھا جائے گا تو وہ شوہر اور اس کے گھروالوں کو اپنائیت کیسے دے گی؟ ہر وقت کھینچا تانی لگی رہے گی۔
اگر میاں بیوی اپنے حقوق اور مفادات دیکھنے کی بجائے خالقِ کائنات کی طرف سے اپنے پر مقررہ فرائض جاننا اور انہیں نبھانا شروع کردیں تو گھر جنت نظیر بن سکتا ہے۔ شوہر اپنے اور بیوی میں فرق نہ رکھے، اسے پاؤں کی جوتی نہ سمجھے، محنت ومزدوری کر کے ان کی نگہبانی اور معاشی ذمہ داری اٹھانے کی ’ہر ممکن کوشش‘ کرے۔ بیوی حقوق اللہ کے بعد حتی الامکان شوہر کی اطاعت کرے تو ایک مثالی گھرانہ تشکیل پاسکتا ہے۔