رسول اللہﷺ پر (نزول) وحی کا آغاز
رسول اللہﷺ کی طرف وحی کی ابتدا کس طرح ہوئی (یعنی اس کا ظہور کیونکر ہوا)
(۱)۔ خلیفہ راشد سیدنا عمر بن خطابؓ نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا: تمام اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے اور عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو ' پس اس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے (شمار) ہو گی جن کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔
(۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے (روایت ہے) کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ! آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح آواز آتی ہے اور (نزول وحی کی تمام حالتوں میں) یہ (حالت) مجھ پر زیادہ دشوار ہے۔ پھر (یہ حالت) مجھ سے دور (موقوف) ہو جاتی ہے اس حال میں کہ (فرشتے نے) جو کچھ کہا اس کو اخذ کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی صورت میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے تو جو کچھ وہ کہتا ہے اس کو میں حفظ کر لیتا ہوں۔ ''ام المومینن عائشہؓ کہتی ہیں کہ بے شک میں نے سخت سردی والے دن آپﷺ پر وحی اترتے ہوئے دیکھی اور سلسلہ منقطع ہونے پر (یہ دیکھا کہ اس وقت) آپﷺ کی (مقدس) پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا تھا۔
(۳)۔ ام المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا سب سے پہلی وحی جو رسول اللہﷺ پر شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے۔ پس جو خواب آپﷺ دیکھتے تھے وہ (صاف صاف) صبح کی روشنی کے مثل ظاہر ہو جاتا تھا۔ (پھر اللہ کی طرف سے) خلوت کی محبت آپﷺ کو دے دی گئی۔ چنانچہ آپﷺ غار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے اور وہاں آپ کئی رات (لگاتار) عبادت کیا کرتے تھے۔ بغیر اس کے کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آتے اور اسی قدر زاد راہ بھی لے جاتے یہاں تک کہ آپﷺ کے پاس وحی آ گئی اور آپﷺ غار حرا میں تھے یعنی فرشتہ آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے (آپﷺ سے) کہا کہ پڑھو ! آپﷺ نے فرمایا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپﷺ فرماتے ہیں پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے (زور سے) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی۔ پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے !تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور (زور سے) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے۔ تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپﷺ فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پھر پکڑ لیا اور سہ بار مجھے (زور سے) بھینچا پھر مجھ کہا کہ (اقرا باسم ربک﴾الخ (العلق : ۱۔ ۳) ''اپنے پروردگار کے نام (کی بر کت) سے پڑھو جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیاپڑھو اور (یقین کر لو کہ) تمہارا پروردگار بڑا بزرگ ہے''۔ پس رسول اللہﷺ کا دل اس واقعہ کے سبب سے (مارے خوف کے) کانپنے لگا اور آپﷺ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور (وہاں موجود لوگوں سے) کہا کہ مجھے کمبل اڑھا دو،مجھے کمبل اڑھا دو۔ چنانچہ انھوں نے آپﷺ کو کمبل اڑھا دیایہاں تک کہ (جب) آپﷺ کے دل سے خوف جاتا رہا تو آپﷺ نے خدیجہؓ سے سب حال (جو غار میں گزرا تھا) بیان کر کے کہا کہ بلاشبہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ خدیجہؓ بولیں کہ ہر گز نہیں۔ اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ یقیناً آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ناتواں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،جو چیز لوگوں کے پاس نہیں وہ انہیں دیتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور (اللہ کی راہ میں) مدد کرتے ہیں۔ پھر خدیجہؓ آپﷺ کولے کر چلیں اور ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ جو کہ خدیجہؓ کے چچا کے بیٹے تھے،کے پاس آپﷺ کو لائیں اور ورقہ وہ شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گیا تھا اور عبرانی کتا ب لکھا کرتا تھا۔ یعنی جس قدر اللہ کو منظور ہوتا تھا انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتا تھا اور بڑا بوڑھا آدمی تھا کہ بینائی جا چکی تھی۔ تو اس سے ام المومنین خدیجہؓ نے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ! اپنے بھتیجے (ﷺ) سے (ان کا حال) سنو !ورقہ بولے،اے میرے بھتیجے !تم کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا ان سے بیان کر دیا تو ورقہ نے آپﷺ سے کہا کہ یہ وہ فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ پر نازل کیا تھا۔ اے کاش! میں اس وقت (جب آپﷺ نبی ہوں گے) جوان ہوتا۔ اے کاش میں (اس وقت تک) زندہ رہتا جب کہ آپﷺ کو آپ کی قوم (مکہ سے) نکالے گی۔ رسول اللہﷺ نے (یہ سن کر بہت تعجب سے) فرمایا :کیا یہ لوگ مجھے نکالیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں جس شخص نے آپﷺ جیسی بات بیان کی اس سے (ہمیشہ) دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپﷺ (کی نبوت) کا دور مل گیا تو میں آپﷺ کی بہت ہی بھر پور طریقے سے مد د کروں گا۔ مگر چند ہی روز گزرے تھے کہ ورقہ کی وفات ہو گئی اور وحی (کی آمد عارضی طور پر چند روز کے لیے) رک گئی۔
(۴)۔ سید نا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے اور وہ وحی کے بند ہو جانے کا حال بیان کرتے ہیں اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ (رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک دن) اس حال میں کہ میں چلا جا رہا تھا تو یکا یک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی،میں نے اپنی نظر اٹھائی تو (کیا دیکھتا ہوں کہ) وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا،ایک کرسی پر زمین و آسمان میں معلق بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس (کے دیکھنے) سے ڈر گیا۔ پھر لوٹ آیا تو میں نے (گھر میں آ کر) کہا مجھے کمبل اڑھا دو،مجھے کمبل اڑھا دو۔ پھر (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ''اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھ کھڑا ہو اور (لوگوں کو عذاب الٰہی سے) ڈرا اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر اور ناپا کی (یعنی بتوں کی پرستش) کو چھوڑ دے۔ (المدثر:۱۔ ۵)
(۵)۔ سید نا ابن عباس سے اللہ تعالیٰ کے کلام '' لا تحریک۔ ۔ ۔ ۔ '' الخ (سورۃ القیامہ :۱۶کی تفسیر) میں منقول ہے کہ رسول اللہﷺ کو (قرآن کے) نزول کے وقت سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ازاں جملہ یہ تھا کہ آپﷺ اپنے دونوں ہونٹ (جلد جلد) ہلاتے تھے (تاکہ وحی یاد ہو جائے) ابن عباسؓ نے (سعید راوی سے) کہا کہ میں اپنے ہونٹوں کو تمہارے (سمجھانے کے لیے) اسی طرح حرکت دیتا ہوں جس طرح رسول اللہﷺ اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے (الغرض رسول اللہﷺ کی یہ حالت دیکھ کر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : ''اے محمد (ﷺ) (قرآن کو جلد یاد کرنے کے لیے) اس کے ساتھ تم اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کرو تا کہ جلد (اخذ) کر لو 'یقیناً اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے '' (سورۃ القیامہ:۱۷۔ ۱۶) سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ (یعنی) قرآن کا تمہارے سینہ میں جمع (محفوظ) کر دینا اور اس کو تمہیں پڑھا دینا۔ پھر جس وقت ہم اس کو پڑھ چکیں تو پھر تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔ (سورۃ القیامۃ :۱۸) ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ یعنی اس کو توجہ سے سنو اور چپ رہو۔ پھر یقیناً اس (کے مطلب) کا سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے (سورۃ القیامۃ :۱۹) (یعنی) پھر بے شک ہمارے ذمہ ہے یہ کہ انھیں یاد ہو جائے پھر اس کے بعد جب آپﷺ کے پاس جبرئیلؑ (کلام الٰہی لے کر) آتے تھے تو آپﷺ توجہ سے سنتے تھے۔ جب جبرئیلؑ چلے جاتے تو اس کو نبیﷺ اسی طرح پڑھتے جس طرح جبرئیلؑ نے اس کو (آپﷺ کے سامنے) پڑھا تھا۔
(۶)۔ سید نا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ آپﷺ رمضان میں سخی ہو جاتے تھے (خصوصاً) جب آپﷺ سے جبرئیل علیہ السلام (آ کر) ملتے تھے اور جبرئیل علیہ السلام آپﷺ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے تھے اور آپﷺ سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ تو یقیناً (اس وقت) رسول اللہﷺ (خلق اللہ کی نفع رسانی میں) تندو تیز ہوا سے بھی زیادہ (سخاوت میں) تیز ہوتے تھے۔
(۷)۔ سیدنا ابن عباسؓ نے ابو سفیان بن حربؓ سے بیان کیا کہ ہر قل (شاہ روم) نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا (اور وہ) قریش کے چند سواروں میں (اس وقت بیٹھے ہوئے تھے) اور وہ لوگ شام میں تاجر (بن گئے) تھے (اور یہ واقعہ) اس زمانہ میں (ہوا ہے) جبکہ رسول اللہﷺ نے ابو سفیان اور (نیز دیگر) کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا۔ چنانچہ سب قریش ہر قل کے پاس آئے اور یہ لوگ (اس وقت) ایلیاء میں تھے۔ تو ہر قل نے ان کو اپنے دربار میں طلب کیا اور اس کے گرد سردار ان روم (بیٹھے ہوئے) تھے۔ پھر ان (سب قریشیوں) کو اس نے (اپنے قریب) بلایا اور اپنے ترجمان کو طلب کیا اور (قریشیوں سے مخاطب ہو کر) کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے جو اپنے کو نبی کہتا ہے ؟ ابو سفیانؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں ان سب سے زیادہ (ان کا) قریب النسب ہوں (یہ سنکر) ہر قل نے کہا کہ ابو سفیان کو میرے قریب کر دو اور اس کے ساتھیوں کو (بھی) قریب رکھو اور ان کو ابو سفیان کے پس پشت (کھڑا) کرو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابو سفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے) پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بیان کرے تو تم (فوراً) اس کی تکذیب کر دینا۔ (ابو سفیان) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم!اگر (مجھے) اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے یقیناً میں آپﷺ کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا۔ غرض سب سے پہلے جو ہر قل نے مجھ سے پوچھا تھا،یہ تھا کہ ان کانسب تم لوگوں میں کیسا ہے ؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہیں۔ (پھر) ہر قل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے ان سے پہلے بھی اس بات (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا ہے ؟ میں نے کہا نہیں (پھر) ہر قل نے کہا کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟میں نے کہا نہیں۔ (پھر) ہر قل نے کہا کہ با اثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے ؟ میں نے کہا (امیروں نے نہیں بلکہ) کمزور لوگوں نے۔ (پھر) ہر قل بولا کہ آیا ان کے پیرو (روز بروز) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں ؟ میں نے کہا (کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ آیا ان (لوگوں) میں سے (کوئی) ان کے دین میں داخل ہو نے کے بعد ان کے دین سے بد ظن ہو کر منحرف بھی ہو جاتا ہے ؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا وہ (کبھی) وعدہ خلافی کرتے ہیں ؟میں نے کہا کہ نہیں۔ اور اب ہم ان کی طرف سے مہلت میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی) ابو سفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے اور مجھے موقع نہیں ملا کہ میں بات (آپﷺ کے حالات میں) داخل کر دیتا۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا تم نے (کبھی) اس سے جنگ کی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ تو (ہرقل) بو لا تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے ؟میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول (کے مثل) رہتی ہے کہ (کبھی) وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور (کبھی) ہم ان سے لے لیتے ہیں (یعنی کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ) (پھر) ہر قل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (شرکیہ باتیں و عبادتیں) جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے،سب چھوڑ دو اور ہمیں نماز (پڑھنے) اور سچ بولنے اور پرہیز گاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔
اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابو سفیان سے کہو کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں (اعلیٰ) نسب والے ہیں چنانچہ تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح (عالی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (یعنی اپنی نبوت کی خبر) تم میں سے کسی اور نے بھی ان سے پہلے کہی تھی؟تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ میں نے (اپنے دل میں) یہ کہا تھا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہوا تومیں کہہ دوں گا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ پس میں نے (اپنے دل میں) کہا تھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک (اقتدار حاصل کرنا) چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انھوں نے جو یہ بات (نبوت کا دعویٰ) کہی ہے،کہیں تم ان پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے ؟تو تم نے کہا کہ نہیں۔ پس (اب) میں یقیناً جانتا ہوں کہ (کوئی شخص) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں سے تو جھوٹ بولنا (غلط بیانی) چھوڑ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے (با اثر) لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے ؟ تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے اور (دراصل) تمام پیغمبر کے پیرو یہی لوگ (ہوتے رہے) ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم ؟ تو تم نے بیان کیا کہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور (درحقیقت) ایمان کا یہی حال (ہوتا) ہے تا وقتیکہ کمال کو پہنچ جائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے ناخوش ہو کہ (دین سے) پھر بھی جاتا ہے ؟تو تم نے بیان کیا کہ نہیں ! اور ایمان (کا حال) ایسا ہی ہے جب اس کی بشاشت دلوں میں رچ بس جائے (تو پھر نہیں نکلتی) اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں ؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں !اور (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟ تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو نیز تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز (پڑھنے) سچ بولنے اور پرہیز گاری (اختیار کرنے) کا حکم دیتے ہیں پس اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بے شک میں (کتب سابقہ کی پیش گوئی سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔ پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام وسعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقیناً میں ان کے قدموں کو دھوتا۔ پھر ہر قل نے رسول اللہﷺ کا (مقدس) خط،جو آپﷺ نے سید نا دحیہ کلبی کے ہمراہ میر بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور امیر بصریٰ نے اس کو ہر قل کے پاس بھیج دیا تھا،منگوایا (اور اس کو پڑھوایا) تو اس میں (یہ مضمون) تھا
''اللہ نہایت مہربان رحم والے کے نام سے ''
(یہ خط ہے) اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمدﷺ کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بعد اس کے (واضح ہو کہ) میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام لاؤ گے تو (قہر الٰہی سے) بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا ثواب دوگنا دے گا اور اگر تم (میری دعوت سے) سے منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری) تمام رعیت کے (ایمان نہ لانے) کا گناہ ہو گا اور ''اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اللہ کے سوا کسی کی بند گی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو سوائے اللہ کے پروردگار بنائے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دینا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم تو اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں ''۔ (آل عمران:۶۴)
ابو سفیان کہتے ہیں کہ ہر قل نے جو کچھ کہنا تھا،کہہ چکا اور (آپﷺ کا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں بہت ہی شور ہونے لگا۔ آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے) نکال دیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا،جب کہ ہم سب باہر کر دیے گئے،کہ (دیکھو تو) ابو کبثہ کے بیٹے (یعنی محمدﷺ) کا معاملہ و رتبہ ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنو اصفر (روم) کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے۔ پس ہمیشہ میں اس کا یقین رکھتا رہا کہ وہ عنقریب غالب ہو جائیں گے یہاں تک کہ اللہ نے مجھ کو مشرف بہ اسلام کر دیا۔
فرمایا اور ابن ناطور جو ایلیا ء کا حاکم،ہر قل کا مصاحب اور شام کے عیسائیوں کا پیر پادری ہے،وہ بیان کرتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا ء میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر اٹھا تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہمیں (اس وقت) آپ کی حالت کچھ اچھی دکھائی نہیں دیتی۔ ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کا ہن تھا،علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا،تو اس نے اپنے خواص سے،جب کہ انھوں نے پوچھا یہ کہا کہ میں نے رات کو جب ستاروں میں نظر کی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہو گیا تو (دیکھو کہ) اس دور کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا،سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں (حاکموں کو) لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کر دیے جائیں۔ پس وہ لوگ اپنی اسی منصوبہ بندی میں تھے کہ ہر قل کے پاس آدمی لایا گیا جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا وہ رسول اللہﷺ کی خبر بیان کرتا تھا سو جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی تو (اپنے لوگوں سے) کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے یا نہیں ؟لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے۔ اور ہرقل نے اس سے اہل عرب کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبیﷺ) اس دور کے لوگوں کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو گیا۔ پھر ہرقل نے اپنے دوست کو رومیہ (یہ حال) لکھ بھیجا وہ علم (نجوم) میں اسی کا ہم پلہ تھا اور (یہ لکھ کر) ہر قل حمص کی طرف چلا گیا۔ پھر حمص سے باہر بھی نہیں جانے پایا تھا کہ اس کے دوست کا خط (اس کے جواب میں) آگیا۔ وہ بھی نبیﷺ کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور یہ (اس نے لکھا تھا) کہ وہ نبی ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے سردار ان روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر دیے جائیں،تو وہ بند کر دیے گئے،پھر ہرقل (اپنے بالا خانے) نمودار ہو ا اور کہا کہ اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ) تمہارا بھی ہے؟اور (تمہیں) یہ منظور ہے) کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو) تو اس نبیﷺ کی بیعت کر لو۔ تو (اس کے سنتے ہی) وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے،کواڑوں کو بند پایا۔ بالآخر جب ہرقل نے (اس درجے) ان کی نفرت دیکھی اور (ان کے) ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس واپس لاؤ اور (جب وہ آئے تو ان سے) کہا کہ میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا (مقصود) تھا اور وہ مجھے معلوم ہو گئی۔ پس لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔