الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
چلیں میں ایک کوشش کر لیتا ہوں بات سمجھانے کی۔
قرآن میں ہے:
والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما ۔۔۔(المائدہ ۵ آیت ۳۸ )
ترجمہ:’’ چو ر مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو ‘‘
اب یہ حکم عام ہے چاہے چوری کسی قسم کی ہو یا کسی چیز کی ہو تھوڑی ہو یا زیادہ لیکن حدیث اس عام حکم کی تخصیص کر دیتی ہے۔
’’لا قطع...
محترم، ایک ہی بات بار بار دہرانے کا فائدہ نہیں۔ اوپر محترم اسحاق سلفی بھائی نے بخوبی ہمارے مؤقف کی وضاحت کر دی ہے کہ ہمارے نزدیک سجدوں کا رفع الیدین شاذ ہے۔ اس لئے ہم نہیں کرتے۔ اگر آپ کے نزدیک یہ روایات درست ہیں تو عمل کیجئے اور اگر آپ رکوع والے رفع الیدین کی طرح انہیں منسوخ سمجھتے ہیں تو اس...
آپ سے پہلے بھی گزارش کی گئی تھی کہ ایک ہی موضوع سے متعلق بہت سارے دھاگوں میں ایک ساتھ شرکت نہ کریں۔ ایک وقت میں ایک موضوع پر ایک دھاگے میں بات کریں تاکہ ایک ہی بات تین تین جگہ نہ کی جا رہی ہو۔ اب یہاں تراویح سے متعلق ایک پرانے دھاگے میں آپ کی مشارکت ہرگز ضروری نہیں، جبکہ ایسے دو تین دھاگوں میں...
میرے خیال سے آپ یہاں بس کھیلنے تشریف لاتے ہیں۔ کسی سنجیدہ گفتگو کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جن لوگوں نے بھی آپ سے گفتگو کی کوشش کی ہے، اب مجھے ان کی فرسٹریشن اچھی طرح سمجھ آ رہی ہے۔
آپ نے یہ لکھا تھا:
میں آپ سے یہ عرض کر رہا ہوں کہ حرمین شریفین میں جو بھی اعمال ہو رہے ہیں، کیا وہ سب زمانہ خلافت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے متصل متواتر چلے آ رہے ہیں؟
اس سادی سی بات کا درست جواب بھی بالکل سادہ سا ہے۔ جانے آپ کیوں کترا رہے ہیں۔
عجیب مصیبت سی مصیبت ہے۔ آپ غالبا پڑھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
یہاں احادیث کی بات ہو ہی کہاں رہی ہے؟ موضوع تو یہ ہے کہ اتنے سارے حنفی علماء ہیں جو آٹھ رکعات تراویح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار دے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آپ ان حنفی علماء کو لامذہب قرار دیں گے یا نہیں؟
میرے خیال سے بہت سارے دھاگوں میں ایک ہی بات مختلف انداز سے بیان ہو رہی ہے ۔ ممکن ہو تو یہ اعتراضات یکجا ایک ہی دھاگے میں بیان کر دیجئے۔ کیونکہ یہاں اصل مسئلہ سنت و بدعت کی تعریف اور اصول کا ہے۔ آپ مسئلہ کی بنیاد سمجھے بغیر فقط الزامات لگا رہے ہیں اور جو جوابات دئے جا رہے ہیں انہیں خاطر میں نہیں...
آپ نتائج پر چھلانگ لگانے میں بہت جلدی کر رہے ہیں۔ میں نے فقط یہ پوچھا ہے کہ اصولاً (خاص اس موضوع کی بات نہیں ہے) کیا یہ ممکن ہے کہ کسی حدیث سے قرآن کے کسی عمومی حکم کی تخصیص ہو جائے؟
یعنی جو کام بھی حرمین شریفین میں آج ہو رہے ہیں ، وہ سارے کے سارے زمانہ خلافت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے متصل متواتر ہوتے چلے آ رہے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر ٹھیک ہے۔ اور اگر جواب ہے نہیں، تو تراویح کی تخصیص کی کیا دلیل ہے؟
اس پورے موضوع میں جواب کے لائق آپ کو یہی بات نظر آئی۔
موضوع کے متعلق کیا ارشاد فرمانا چاہیں گے۔ کیا یہ سب علمائے احناف آپ کے انصاف کے ترازو پر "لامذہب" قرار پائیں گے؟ یا تاویل کی چھلنی سے پاک صاف ہو کر اہل سنت کے اہل سنت ہی رہیں گے؟
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بیس رکعت پڑھی جاتی تھیں، اس کا ثبوت؟
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیس رکعات تراویح پڑھی یا پڑھائی تھی، اس کا ثبوت؟
جی بالکل۔ یہ اصول حدیث کا اتفاقی ضابطہ ہے۔ اگر آپ کو محدثین کا بنایا ہوا یہ اصول قبول نہیں تو منکر حدیث بن جائیے۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: ''ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہے۔'' [الرسالہ:ص٥٣]
اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں: ''حکم یہ ہے...
کیا آپ درج بالا بات کا سیدھا سیدھا جواب ہاں، نہیں یا اس میں کچھ تفصیل ہے کہہ کر نہیں دے سکتے۔ آپ جو دلائل پیش کر رہے ہیں، ان پر بھی ضرور بات ہوگی، پہلے یہ بات واضح ہو جائے۔ نہ آپ کہیں بھاگے جا رہے ہیں اور نہ ہم۔
اچھا جی گویا سیاق و سسباق کی کوئی اہمیت نہیں۔ چلئے یہ تو طے ہوا کہ یہاں معاملہ سلام کے بعد کا نہیں، کیونکہ سلام کے بعد ایک ہاتھ یا دونوں ہاتھ سینے پر رکھنے کو کوئی سنت نہیں کہتا۔ اور اگر یہ حدیث قیام سے متعلق مانی جائے تو ایک ہاتھ سینے پر رکھنے کا بھی کوئی قائل نہیں۔ لہٰذا بات وہی درست ٹھہری کہ...
نہیں بھائی۔ آپ نہیں سمجھے۔
جب بھی کوئی یوزر موبائل سے آپ کی سائٹ کا صفحہ کھولے گا تو یہ فونٹ خودکار طور پر اس کے موبائل میں ڈاؤن لوڈ ہو گا۔ فقط اتنا حصہ جتنا صفحہ کو اس فانٹ میں دکھانے کے لئے ضروری ہے۔ گویا یوزر کے لئے آپ کی سائٹ دیر سے کھلے گی۔ اچھا اپنی سائٹ کا لنک تو دیجئے۔
اصل مسئلہ اصول کا ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا ایک حدیث کے عموم میں دوسری حدیث سے تخصیص کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح کیا مخصوص حدیث قرآنی آیت کے عمومی حکم کی تخصیص کر سکتی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب عنایت کیجئے تو بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔