• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تفسیراحسن البیان

(تفسیر مکی)
مولانا صلاح الدین یوسف
قرآن مجید کی سورتوں کی فہرست​
پارہ 01
01سورة الفاتحة

02سورة البقرة

پارہ 02
پارہ 03
03سورة آل عمران

پارہ 04
04سورة النسآء

پارہ 05
پارہ 06
05سورة المآئدہ

پارہ 07
06سورة الأنعام

پارہ 08
07سورة الاعراف

پارہ 09
08سورة الانفال

پارہ 10
09سورة التوبہ

پارہ 11
10سورة یونس
11سورة ھود

پارہ 12
12سورة یوسف

پارہ 13
13سورة الرعد
14سورة ابراہیم
15سورة الحجر

پارہ 14
16سورة النحل

پارہ 15
17سورۃ بنی اسرائیل / الإسرَاء

18سورة الکهف

پارہ 16
19سورة مریم
20سورة طه

پارہ 17
21سورة الأنبیاء

22سورة الحج

پارہ 18
23سورة المؤمنون
24سورة النور
25سورة الفرقان

پارہ 19
26سورة الشعراء
27سورة النمل

پارہ 20
28سورة القصص
29سورة العنکبوت

پارہ 21
30سورة الروم
31سورة لقمان
32سورة السجدة
33سورة الأحزاب

پارہ 22
34سورة سبأ
35سورة فاطر
36سورة یس

پارہ 23
37سورة الصافات
38سورة ص
39سورة الزمر

پارہ 24
40سورة غافر
41سورة فصلت

پارہ 25
42سورة الشورى
43سورة الزخرف
44سورة الدخان
45سورة الجاثیة

پارہ 26
46سورة الأحقاف

47سورة محمد
48سورة الفتح
49سورة الحجرات
50سورة ق
51سورة الذاریات

پارہ 27
52سورة الطور
53سورة النجم
54سورة القمر
55سورة الرحمن
56سورة الواقعة
57 سورة الحدید

پارہ 28
58سورة المجادلة

59سورة الحشر
60سورة الممتحنة
61سورة الصف
62سورة الجمعة
63سورة المنافقون
64سورة التغابن
65سورة الطلاق
66سورة التحریم

پارہ 29
67سورة الملک

68سورة القلم
69سورة الحاقة
70سورة المعارج
71سورة نوح
72سورة الجن
73سورة المزمل
74سورة المدثر
75سورة القیامة
76سورة الإنسان
77سورة المرسلات

پارہ 30
78سورة النبأ

79سورة النازعات
80سورة عبس
81سورة التکویر
82سورة الإنفطار
83سورة المطففین
84سورة الانشقاق
85سورة البروج
86سورة الطارق
87سورة الأعلى
88سورة الغاشیة
89سورة الفجر
90سورة البلد
91سورة الشمس
92سورة اللیل
93سورة الضحى
94سورة الشرح
95سورة التین
96سورة العلق
97سورة القدر
98سورة البینة
99سورة الزلزلة
100سورة العادیات
101سورة القارعة
102سورة التکاثر
103سورة العصر
104سورة الهمزة
105سورة الفیل
106سورة قریش
107سورة الماعون
108سورة الکوثر
109سورة الکافرون
110سورة النصر
111سورة المسد

112سورة الإخلاص
113سورة الفلق
114سورة الناس
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
پارہ 01
سورة الفاتحة

سورة الفاتحہ مکی ہے، اس میں سات آیتیں ہیں۔​

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ ﴿١﴾
شروع کرتا ہوں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ (١)
* سورہ الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے، جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتداء کے ہیں، اس لیے اسے اَلفَاتِحَةُ یعنی فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے۔ اس کے اور بھی متعدد نام احادیث سے ثابت ہیں، مثلا: ام القرآن، السبع المثانی، القرآن العظیم، الشفاء، الرقیہ (دم) وغیرھا من الاسماء۔
اس کا ایک اہم نام "الصلوۃ" بھی ہے، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قسمت الصلوۃ بینی وبین عبدی۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوۃ) "میں نے صلاۃ (نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے"، مراد سورۃ فاتحہ ہے جس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا و مناجات ہے جو بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔
اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو "نماز" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کر دی گئی ہے، فرمایا: لا صلاۃ لمن لم یقرا بفاتحة الکتاب (صحیح بخاری ومسلم) "اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی۔" اس حدیث میں (من) کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے۔ منفرد ہو یا امام، یا امام کے پیچھے مقتدی۔ سری نماز ہو یا جہری، فرض نماز ہو یا نفل۔ ہر نمازی کے ليے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
اس عموم کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قراءت بوجھل ہو گئی، نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لا تفعلوا الا بام القرآن فانہ لا صلوۃ لمن لم یقرابھا) "تم ایسا مت كيا کرو (یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو) البتہ سورۃ فاتحہ ضرور پڑھا کرو، کیونکہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔" (ابو داؤد، ترمذی، نسائی) اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا (من صلی صلوۃ لم یقرا فیھا بام القرآن فھی خداج۔ ثلاثا ۔ غیر تمام) "جس نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے" تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا گیا: انا نکون وراء الامام (امام کے پیچھے بھی ہم نماز پڑھتے ہیں، اس وقت کیا کریں؟) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا (اقرا بھا فی نفسک (امام کے پیچھے تم سورۃ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو) صحیح مسلم۔
مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ قرآن مجید میں جو آتا ہے: (وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا) (الاعراف:204) "جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو" یا حدیث (واذا قرا فانصتوا) (بشرط صحت) "جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو" کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قراءت خاموشی سے سنیں۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں۔ یا امام سورۃ فاتحہ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں، یا امام سورہ فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ لیں۔ اس طرح آیت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمد للہ کوئی تعارض نہیں رہتا۔ دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔ جب کہ سورہ فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں ٹکراؤ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک پر ہی عمل ہو سکتا ہے۔ بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں۔ فتعوذ باللہ من ھذا۔ دیکھئے سورۃ اعراف، آیت ۲۰۴ کا حاشیہ (اس مسئلے کی تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو کتاب "تحقیق الکلام" از مولانا عبد الرحمن مبارک پوری و "توضیح الکلام" مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ، وغیرہ)۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگر مقتدی امام کی قراءت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ ۲۳/۲۶۵)
* یہ سورۃ مکی ہے۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (13 نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں، خواہ ان کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا، یا اس کے اطراف و جوانب میں اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں، خواہ مدینہ یا اس کے اطراف میں نازل ہوئیں یا اس سے دور۔ حتیٰ کہ مکہ اور اس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔
١۔١ بسم اللہ کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے، یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے، یا یہ صرف سورہ فاتحہ کی ایک آیت ہے یا یہ کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے، اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کے لیے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے۔ قراء مکہ و کوفہ نے اسے سورۃ فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے، جبکہ قراء مدینہ، بصرہ و شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا ہے۔ سوائے سورہ نمل کی آیت ٣٠ کے، کہ اس میں بالاتفاق بسم اللہ اس کا جزو ہے۔ اسی طرح جہری نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے میں بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری آواز سے (فتح القدیر) اکثر علما نے سری آواز سے پڑھنے کو راجح قرار دیا ہے۔ تاہم جہری آواز سے بھی پڑھنا جائز ہے۔
بسم اللہ کے آغاز میں اقرا، ابدا یا اتلو محذوف ہے۔ یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا، یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں۔ ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بسم اللہ پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت بسم الله الرحمن الرحيم سے پہلے اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بھی پڑھنا ضروری ہے (فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ) (النحل-98) "جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو"۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾
سب تعریف اللہ تعالٰی کے لیے ہے (۱) جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ (۲)
(۱)۔ الحمد میں ال ، استغراق یا اختصاص کے لیے ہے، یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، یا اس کے لیے خاص ہیں، کیوں کہ تعریف کا اصل مستحق اور سزاوار صرف اللہ تعالٰی ہے۔ کسی کے اندر کوئی خوبی، حسن یا کمال ہے تو وہ بھی اللہ تعالٰی کا پیدا کردہ ہے اس لیے حمد (تعریف) کا مستحق بھی وہی ہے۔ الله یہ اللہ کا ذاتی نام ہے، اس کا استعمال کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ الحمد لله یہ کلمہ شکر ہے جس کی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ ایک حدیث میں لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ کو افضل الذکر اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کو افضل الدعا کہا گیا ہے۔ (ترمذی، نسائی وغیرہ) صحیح مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے "الحمد للہ میزان کو بھر دیتا ہے" اسی لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے پر اور پینے پر بندہ اللہ کی حمد کرے۔ (صحیح مسلم)
(۲)۔ رَ‌بِّ، اللہ تعالٰی کے اسمائے حسنٰی میں سے ہے، جس کا معنی ہیں ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی ضروریات مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس کا استعمال بغیر اضافت کے کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ عَالَمِيْنَ عَالَم (جہان) کی جمع ہے۔ ویسے تو تمام خلائق کے مجموعے کو عالم کہا جاتا ہے، اس لئے اس کی جمع نہیں لائی جاتی۔ لیکن یہاں اس کی ربوبیت کاملہ کے اظہار کے لئے عالم کی بھی جمع لائی گئی ہے، جس سے مراد مخلوقات کی الگ الگ جنسیں ہیں۔ مثلا عالم جن، عالم انس، عالم ملائکہ اور عالم وحوش و طیور وغیرہ۔ ان تمام مخلوکات کی ضرورتیں ایک دوسرے سے قطعا مختلف ہیں، لیکن رَبِّ الْعَالَمِيْنَ سب کی ضروریات، ان کے احوال و ظروف اور طباع و اجسام کے مطابق مہیا فرماتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ ﴿٣﴾
بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا۔ (١)
(١)۔ رحمن بروزن فعلان اور رحیم بروزن فعیل ہے ۔ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں ۔ جن میں کثرت اور دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالٰی بہت رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت دیگر صفات کی طرح دائمی ہے۔ بعض علما کہتے ہیں: رحمٰن میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ ہے، اسی لیے رحمٰن الدنیا والآخرہ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی رحمت عام ہے جس سے بلا تخصیص کافر و مومن سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور آخرت میں وہ صرف رحیم ہو گا۔ یعنی اس کی رحمت صرف مومنین کے لئے خاص ہوگی۔ اللھم اجعلنا منھم ۔آمین
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾
بدلے کے دن (یعنی قیامت کا) مالک ہے۔ (١)
(١)۔ دنیا میں بھی اگرچہ مکافات عمل کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے، تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالٰی ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق مکمل جزا یا سزا دے گا۔ اسی طرح دنیا میں عارضی طور پر اور بھی کئی لوگوں کے پاس تحت الاسباب اختیارات ہوتے ہیں، لیکن آخرت میں تمام اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالٰی ہی ہوگا۔ اللہ تعالٰی اس روز فرمائے گا: لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ؟ (آج کس کی بادشاہی ہے؟) پھر وہی جواب دے گا: لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (صرف ایک اللہ غالب کے لیے) (لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّـهِ ) (الانفطار) "اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی، سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔" یہ ہوگا جزا کا دن۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔ (۱)
(۱)۔ عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لیے انتہائی تذلل و عاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیر "شریعت میں کمال محبت، خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے" یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو، اس کی ما فوق الاسباب طاقت کے سامنے عاجزی و بے بسی کا اظہار بھی ہو اور اسباب و مافوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ سیدھی عبارت (نعبدك ونستعينك) (ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد چاہتے ہیں) ہوتی، لیکن اللہ تعالی نے یہاں مفعول کو فعل پر مقدم کر کے (إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ) فرمایا، جس سے مقصد اختصاص پیدا کرنا ہے، یعنی "ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں" نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ استعانت ہی کسی اور سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سدباب کر دیا گیا ہے، لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پا گیا ہے، وہ ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظر انداز کر کے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں، بیوی سے مدد چاہتے ہیں، ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔ حالانکہ اسباب کے ما تحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے، یہ تو اللہ تعالٰی کا بنایا ہوا نظام ہے، جس میں سارے کام ظاہر اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں، حتی کہ انبیاء بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا (مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ) (الصف) "اللہ کے دین کیلئے کون میرا مددگار ہے؟ اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کو فرمایا (ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى) (المائدہ:2) "نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو" ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک بلکہ مطلوب و محمود ہے۔ اس کا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کر سکتا ہو، جیسے کسی فوت شدہ شحص کو مدد کے لیے پکارنا، اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا، اس کو نافع وضار باور کرنا اور دور و نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اس کا نام ہے ما فوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا، اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا۔ اسی کا نام شرک ہے، جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
توحید کی تین قسمیں: اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں مختصرا بیان کردی جائیں ۔
یہ قسمیں ہیں ۔ توحید ربوبیت ،توحید الوہیت ، اور توحید صفات۔
۱۔ توحید ربوبیت کا مطلب ہے کہ اس کائنات کا خالق ، مالک ،رازق ،اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس توحید کو ملاحدہ و زنادقہ کے علاوہ تمام لوگ مانتے ہیں، حتی کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں، جیساکہ قرآن کریم نے مشرکیں مکہ اعتراف نقل کا ہے۔ مثلا فرمایا: "اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم)! ان سے پوچھیں کہ تم کو آسمان و زمیں میں رزق کون دیتا ہے، یا (تمہارے ) کانوں اور آنکھوں کامالک کون ہے اور بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے ؟ جھٹ کہہ دیں گے کے اللہ (یعنی یہ سب کام کرنے والا اللہ ہے) ۔(سورہ یونس:31) دوسرے مقام پر فرمایا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کا خالق کون ہے ؟ تو یقینا یہی کہں گے کہ اللہ (الزمر:38) ایک اور مقام پر فرمایا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے، یہ سب کس کا مال ہے ؟ ساتوں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ؟ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے ؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے، اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں ۔ ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔ (المومنون :89-84) وغیرھا من الایات۔
۲۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کے لئے ، یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے ، اس لئے نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ صرف یہی عبادات نہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا و التجاء کرنا، اس کے نام کی نذر ونیاز دینا، اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا، اس کا طواف کرنا، اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں ۔ توحید الوہیت یہ ہے کہ تمام کام صرف اللہ تعالی ہی کے لیے کیے جائیں۔ قبر پرستی کے مرض میں مبتلا عوام و خواص اس توحید الوہیت میں شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے ۔
۳۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن وحدیث میں بیان ہوئی ہیں، ان کو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں ، مثلا جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے، یادور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے، کائنات میں ہرطرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، یہ یا اس قسم کی اور صفات الٰہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نبی ، ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں ۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہوگا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کررکھا ہے ۔ اعاذنااللہ منہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اهْدِنَا الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾
ہمیں سیدھی (اور سچی) راہ دکھا۔ (١)
(١)۔ ہدایت کے کئی مفہوم ہیں۔ راستے کی طرف رہنمائی کرنا، راستے پر چلا دینا، منزلِ مقصود تک پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد توفیق، الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما، اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما، تاکہ ہمیں تیری رضا (منزلِ مقصود) حاصل ہو جائے۔ یہ صراط مستقیم محض عقل اور ذہانت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ صراط مستقیم وہی ‏‏"الاسلام" ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ‌ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
ان لوگوں کا راہ جن پر تو نے انعام کیا (۱) ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کا۔ (۲)
(۱)۔ یہ صراطِ مستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر وہ لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا۔ یہ منعم علیہ گروہ ہے انبیا شہدا صدیقین اور صالحین کا۔ جیسا کہ سورہ نساء میں ہے (وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا ) (النساء:69) "اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں، وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا،یعنی انبیا، صدیقین، شہدا، اور صالحین، اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔" اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے، نہ کہ کوئی اور راستہ۔
اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔
(۲)۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ مغضوب علیھم (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ) سے مراد یہودی اور ضالین (گمراہوں) سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں۔ ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں (لا اعلم خلافا بين المفسرين في تفسير المغضوب عليھم : باليھود و الضالين بالنصاريٰ) (فتح القدير) اس لیے مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود اور نصاریٰ دونوں کی گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے، آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے، حضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے، اپنے احبار و رھبان کو حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں ابن اللہ اور ثالث ثلاثة (اللہ کا بیٹااور تین خدا میں سے ایک) قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہے۔ اللہ تعالٰی اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے، تاکہ ادبار و نکبت کے بڑھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکے۔
سورۃ کے آخر میں آمين کہنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید اور فضیلت بیان فرمائی ہے۔ اس لیے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (جہری نمازوں میں) اونچی آواز سے آمین کہا کرتے تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی، حتٰی کہ مسجد گونج اٹھتی (ابن ماجہ۔ ابن کثیر) بنا بریں آمین اونچی آواز سے کہنا سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول بہ ہے۔ آمین کے معنی مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ (كذٰلك فليكن) (اسی طرح ہو) (لا تخيب رجاءنا) (ہمیں نا مراد نہ کرنا) (اللھم! استجب لنا) (اے اللہ ہماری دعا قبول فرما لے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سورة البقرة

(سورة البقره مدنی ہے (۱) اور اس میں دو سو چھیاسی آیات اور چالیس رکوع ہیں۔)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(۱) ۔ اس سورت میں آگے چل کر گائے کا واقعہ بیان ہوا، اس لیے اس کو بقرہ (گائے کے واقعہ والی سورت کہا جاتا ہے) حدیث میں اس کی ایک خاص فضیلت بھی بیان کی گئی ہے کہ جس گھر میں یہ پڑھی جائے، اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين)۔ نزول کے اعتبار سے یہ مدنی دور کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے البتہ اس کی بعض آیات حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئیں۔ بعض علماء کے نزدیک اس میں ایک ہزار خبر، ایک ہزار احکام اور ایک ہزار منہیات ہیں۔(ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الم ﴿١﴾
الم (۱)
ف۱ الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے (وَاللّہ العالِمُ بمرادہ) البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم ایک حرف اور لام ایک حرف ہر حرف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔
 
Top