پارہ 01
سورة الفاتحة
سورة الفاتحہ (١) مکی ہے، (٢) اس میں سات آیتیں ہیں۔ (٣)
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾
شروع کرتا ہوں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ (٤)
(١) سورة الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے، جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتداء کے ہیں، اس لیے اسے اَلفَاتِحَةُ یعنی فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے۔ اس کے اور بھی متعدد نام احادیث سے ثابت ہیں، مثلا: ام القرآن، السبع المثانی، القرآن العظیم، الشفاء، الرقیہ (دم) وغیرھا من الاسماء۔
اس کا ایک اہم نام "الصلوۃ" بھی ہے، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قسمت الصلوۃ بینی وبین عبدی۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوۃ) "میں نے صلاۃ (نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے"، مراد سوره فاتحہ ہے جس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا و مناجات ہے جو بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔
اس حدیث میں سورهء فاتحہ کو "نماز" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کر دی گئی ہے، فرمایا: لا صلاۃ لمن لم یقرا بفاتحة الکتاب (صحیح بخاری ومسلم) "اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی۔" اس حدیث میں (من) کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے۔ منفرد ہو یا امام، یا امام کے پیچھے مقتدی۔ سری نماز ہو یا جہری، فرض نماز ہو یا نفل۔ ہر نمازی کے ليے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
اس عموم کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قراءت بوجھل ہو گئی، نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لا تفعلوا الا بام القرآن فانہ لا صلوۃ لمن لم یقرابھا) "تم ایسا مت كيا کرو (یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو) البتہ سورۃ فاتحہ ضرور پڑھا کرو، کیونکہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔" (ابو داؤد، ترمذی، نسائی) اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا (من صلی صلوۃ لم یقرا فیھا بام القرآن فھی خداج۔ ثلاثا ۔ غیر تمام) "جس نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے" تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا گیا: انا نکون وراء الامام (امام کے پیچھے بھی ہم نماز پڑھتے ہیں، اس وقت کیا کریں؟) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا (اقرا بھا فی نفسک (امام کے پیچھے تم سورۃ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو) صحیح مسلم۔
مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ قرآن مجید میں جو آتا ہے: (
وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا) (الاعراف:204) "جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو" یا حدیث (واذا قرا فانصتوا) (بشرط صحت) "جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو" کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قراءت خاموشی سے سنیں۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں۔ یا امام سورۃ فاتحہ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں، یا امام سورہ فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ لیں۔ اس طرح آیت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمد للہ کوئی تعارض نہیں رہتا۔ دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔ جب کہ سورہ فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں ٹکراؤ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک پر ہی عمل ہو سکتا ہے۔ بیک وقت دونوں پرعمل ممکن نہیں۔ فتعوذ باللہ من ھذا۔ دیکھئے سورهء اعراف، آیت ۲۰۴ کا حاشیہ (اس مسئلے کی تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو کتاب "تحقیق الکلام" از مولانا عبد الرحمن مبارک پوری و "توضیح الکلام" مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ، وغیرہ)۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگر مقتدی امام کی قراءت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ ۲۳/۲۶۵)
(٢) یہ سورۃ مکی ہے۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (13 نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں، خواہ ان کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا، یا اس کے اطراف و جوانب میں اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں، خواہ مدینہ یا اس کے اطراف میں نازل ہوئیں یا اس سے دور۔ حتیٰ کہ مکہ اور اس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔
(٣) بسم اللہ کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے، یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے، یا یہ صرف سورہ فاتحہ کی ایک آیت ہے یا یہ کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے، اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کے لیے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے۔ قراء مکہ و کوفہ نے اسے سورۃ فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے، جبکہ قراء مدینہ، بصرہ و شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا ہے۔ سوائے سورہ نمل کی آیت ٣٠ کے، کہ اس میں بالاتفاق بسم اللہ اس کا جزو ہے۔ اسی طرح جہری نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے میں بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری آواز سے (فتح القدیر) اکثر علما نے سری آواز سے پڑھنے کو راجح قرار دیا ہے۔ تاہم جہری آواز سے بھی پڑھنا جائز ہے۔
بسم اللہ کے آغاز میں اقرا، ابدا یا اتلو محذوف ہے۔ یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا، یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں۔ ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بسم اللہ پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت بسم الله الرحمن الرحيم سے پہلے اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بھی پڑھنا ضروری ہے (
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ) (النحل-98) "جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو"۔
(٤) بسم اللہ کے آغاز میں أقْرَأُ، أبْدَأُ یا أَتْلُوا محذوف ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا، یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں۔ ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بسم اللہ پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت ”بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ“ سے پہلے ”أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ“ پڑھنا بھی ضروری ہے ﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾ (النحل:98) ”جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔“