• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سنن الترمذی

تالیف:
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی (۲۰۰-۲۷۹ھ)
اردو ترجمہ سنن ترمذی عربی متن کے ساتھ مع تخریج وتحشیہ

تیار کردہ
مجلس علمی دارالدعوۃ
اشراف ، مراجعۃ وتقدیم
ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی
استاذ حدیث جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ ، ریاض
ناشر: دار الکتب السلفیۃ ، دہلی (انڈیا)
احادیث یہاں ملاحظہ کریں
۱-کتاب: طہارت کے احکام ومسائل
۲-کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
صلاۃ میں سہوونسیان سے متعلق احکام ومسائل
۳- صلاۃِ وترکے ابواب
۴-کتاب: جمعہ کے احکام ومسائل
عیدین کے احکام و مسائل
سفر کے احکام ومسائل
۵-کتاب: زکاۃ وصدقات کے احکام ومسائل
۶-کتاب: صیام کے احکام ومسائل
۷-کتاب: حج کے احکام ومناسک
۸-کتاب: جنازہ کے احکام ومسائل
۹-کتاب: نکاح کے احکام ومسائل
۱۰-کتاب: رضاعت کے احکام ومسائل
۱۱-کتاب: طلاق اور لعان کے احکام ومسائل
۱۲-کتاب: خریدوفروخت کے احکام ومسائل
۱۳- کتاب : نبی اکرم ﷺکے احکامات اور فیصلے
۱۴-کتاب: دیت وقصاص کے احکام ومسائل
۱۵-کتاب: حدود وتعزیرات سے متعلق احکام ومسائل
۱۶-کتاب: شکار کے احکام ومسائل
۱۷-کتاب: قربانی کے احکام ومسائل
۱۸-کتاب: نذراورقسم (حلف) کے احکام ومسائل
۱۹-کتاب: جہادکے احکام ومسائل
۲۰- کتاب :فضائلِ جہاد
۲۱- کتاب: جہادکے احکام ومسائل
۲۲-کتاب: لباس کے احکام ومسائل
۲۳-کتاب :کھانے کے احکام ومسائل
۲۴-کتاب: مشروبات( پینے والی چیزوں)کے احکام و مسائل
۲۵-کتاب : نیکی اورصلہ رحمی
۲۶- کتاب: طب (علاج ومعالجہ) کے احکام ومسائل
۲۷-کتاب : وراثت کے احکام ومسائل
۲۸-کتاب : وصیت کے احکام ومسائل
۲۹- کتاب: ولاء اور ہبہ کے احکام ومسائل
۳۰-کتاب : تقدیرکے احکام ومسائل
۳۱- کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
۳۲- کتاب: خواب کے آداب واحکام
۳۳- کتاب: شہادت( گواہی) کے احکام ومسائل
۳۴- کتاب: زہد،ورع، تقوی اور پرہیز گاری
۳۵- کتاب : احوال قیامت ،رقت قلب اورورع
۳۶- کتاب: جنت کاوصف اور اس کی نعمتوں کاتذکرہ
۳۷- کتاب : جہنم اور اس کی ہولناکیوں کاتذکرہ
۳۸-کتاب: ایمان واسلام
۳۹- کتاب: علم اور فہم دین
۴۰- کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب واحکام
۴۱-کتاب: اسلامی اخلاق وآداب
۴۲-کتاب: مثل اورکہاوت کاتذکرہ
۶۳-کتاب: قرآن کریم کے مناقب وفضائل
۴۴-کتاب: قرآن کریم کی قرأت وتلاوت
45- کتاب : تفسیر قرآن کریم
46- کتاب: مسنون ادعیہ واذکار
47- کتاب: فضائل و مناقب
کتاب العلل
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
سوانح حیات
امام ترمذی رحمۃاللہ علیہ
( ۲۱۰ھ-۲۷۹ھ)​
نام ونسب اور کنیت:
نام محمد اور کنیت ابوعیسی ہے ، اورنسب یہ ہے:محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک سلمی بوغی ترمذی، اکثر روایات کے مطابق آپ کا نسب نامہ یہی ہے ،بعض اقوال کے مطابق آپ کا نسب نامہ یوں ہے : محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن شداد سلمی بوغی ترمذی ہے یعنی موسیٰ بن ضحاک کے بجائے شداد ہے جیسا کہ سمعانی کی کتاب الأنساب میں ہے، تہذیب الکمال للمزی میں یوں ہے : محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن سکن سلمی بوغی ترمذی ،یعنی ابن موسیٰ کے بجائے ابن سکن ہے۔
ولادت وخاندان:
ا مام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش غالبا ۲۱۰ ھ ؁ کے حدود میں ہوئی، بعض علماء کے قول کے مطابق ۲۰۹ ھ ؁ میں ہوئی۔
آپ کے دادا مروزی تھے، لیث بن یسار کے دور میں مرو سے ترمذ منتقل ہوئے اور وہیں سکونت اختیار کرلی ، نہر بلخ جسے نہر جیحون بھی کہتے ہیں پر واقع شہر ترمذمیں امام ترمذی کی پیدائش ہوئی ، پیدائش اور سکونت کی وجہ سے ترمذی کی نسبت سے مشہور ہوئے ۔
ترمذ''ت اورم''کے کسرے (زیر)سے مشہورہے، ''ت''کے زبراور پیش کے ساتھ بھی آیا ہے ۔
قبیلہ غیلان کی شاخ ''بنی سلیم '' کی نسبت سے سلمی کہلاتے ہیں ، اور بوغ ترمذکے قریب ایک گاؤں کی نسبت سے بوغی ، جو ترمذسے چھ فرسخ کی دوری پرواقع تھا ، اورجہاں پر آپ کی وفات ہوئی تھی ۔
نابینا لیکن بابصیرت محدث:
امام ترمذی کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ آپ پیدائشی طور پر نابینا تھے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کبر سنی میں علمی اسفار کرنے اور احادیث لکھنے لکھانے کے بعد آپ کی بصارت جاتی رہی، اس کا سبب زیادہ لکھنا پڑھنا بھی ہوسکتا ہے ، اور بقول امام حاکم کے آخری عمر میں اللہ کے ڈر سے اتناروئے کہ بینائی جاتی رہی، اور اسی حالت میں زندگی کے کئی سال گزرے (تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۳۴، تہذیب التہذیب ) ۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ سنن ترمذی کے عظیم شارح علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری بھی آخر ی عمر میں اور سنن ترمذی کی شرح کی تکمیل سے پہلے نابینا ہوگئے ،تو آپ کے ارشد تلامذہ نے آپ کی نگرانی میں شرح کی تکمیل کا کام کیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
طلب حدیث کے لئے بلاد اسلامیہ کی سیاحت:
محدثین کے طریقہ کے مطابق امام ترمذی نے احادیث کی روایت و تحصیل کے لئے بلاد اسلامیہ کے علمی مراکز کا سفرکیا،اور حجاز ( مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ )، بغداد (عراق) جزیرہ، بصرہ، واسط اورخراسان وغیرہ کے علماء سے بکثرت سماع حدیث کیا،مصر اور شام نہ جاسکے ۔
حافظ ذہبی اورابن حجر کہتے ہیں:امام ترمذی نے بلاد اسلامیہ کا سفرکیا، اور خراسانی ، عراقی اور حجازی وغیرہ رواۃ کی ایک بڑی تعداد سے سماع حدیث کیا،
امام ترمذی نے نیساپور، مرواور اصبہان وغیرہ کے محدثین کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے استفادہ کیا ۔
اساتذہ وشیوخ:
آپ کا زمانہ علوم حدیث کے عروج اور ترقی کا زمانہ تھا چنانچہ آپ نے بہت سارے محدثین کو پایا ، ان سے اکتساب فیض کیا ، احادیث سنیں اور روایت کیں ، حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ اورسیر أعلام النبلاء میں آپ کے اساتذہ وشیوخِ حدیث کی ایک فہرست دی ہے جن سے آپ نے سماع حدیث کیا ،ان میں سے بعض مشاہیر درج ذیل ہیں :
۱- ابراہیم بن عبد اللہ بن حاتم ہروی ( م: ۲۴۴ھ) ۔
۲- ابو مصعب احمد بن ابی بکر الزہری المدنی ( م: ۲۴۲ھ) ۔
۳- احمد بن منیع ۔
۴- اسحاق بن راہویہ ۔
۵- اسماعیل بن موسیٰ فزاری سدی ( م: ۲۴۵ھ)۔
۶- ابوداود سلیمان بن الاشعث (صاحب سنن) (م:۲۷۵ھ)۔
۶- سوید نصر بن سوید مروزی ( م: ۲۴۳ھ) ۔
۷- عبد اللہ بن معاویہ جمحی ( م: ۲۴۳ھ)۔
۸- علی بن حجرمروزی ( م: ۲۴۴ھ)۔
۹- علی بن سعیدبن مسروق الکندی الکوفی(م: ۲۴۹ھ)۔
۱۰- عمرو بن علی الفلاس (م: ۹۴۲ھ)۔
۱۱- محمد بن بشار بندار(م: ۲۵۲ھ)۔
۱۱- قتیبہ بن سعید ثقفی ابو رجاء ( م: ۲۴۰ھ) ۔
۱۲- محمد بن عبد الملک بن ابی الشوارب ( م: ۲۴۴ھ)۔وغیرہ وغیرہ
۱۳- محمود بن غیلان مروزی بغدادی(۲۳۹ھ)۔
۱۴- اورروایت حدیث کے ساتھ علوم حدیث ورجال اور فقہ حدیث امام محمد بن اسماعیل بخاری سے حاصل کی۔
۱۵- امام مسلم سے بھی آپ نے سماع حدیث کیا ہے ، اور اپنی جامع کے اندر ان سے ایک روایت بھی نقل کی ہے ۔
تلامذہ:
امام ترمذی سے بہت سارے علمائے حدیث کو شرف تلمذ حاصل ہے، جن میں سے بعض رواۃ مندرجہ ذیل ہیں:
۱- ابوبکر احمد بن اسماعیل بن عامر السمرقندی ۔
۲- ابوحامداحمد بن عبداللہ بن داود المروزی ۔
۳- احمد بن علی بن حسنویہ المقریٔ ۔
۴- احمد بن یوسف نسفی۔
۵- ابو الحارث اسد بن حمدویہ ۔
۶- حماد بن شاکر وراق نسفی۔
۷- مکحول بن فضل نسفی۔
۸- محمود بن عنبر نسفی ۔
۹- ابوالفضل محمد بن محمود بن عنبرنسفی۔
۱۰- عبد بن محمد بن محمود نسفی۔
۱۲- داود بن نصر بن سہیل برزوی۔
ٍ ۱۳ - محمد بن مکی بن نوح نسفی۔
۱۴ - محمد بن سفیان بن نضر نسفی۔
۱۵ - محمد بن منذر بن سعید ہروی۔
۱۶- ہیثم بن کلیب شاشی۔(الشمائل کے راوی )
۱۷- محمد بن محبوب ابو العباس محبوبی مروزی(سنن الترمذی کے راوی)۔
۱۸- امام بخاری نے بھی آپ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث محمد بن اسماعیل نے مجھ سے سنی ،وہ حدیث یہ ہے: عن أبي سعيد: يا علي لا يحل لأحد أن يجنب في المسجد غيري وغيرك.(سنن الترمذي 3727).
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
امام ترمذی کے علم وفضل اور قوت حافظہ کے بارے میں علماء اور محدثین کے اقوال:
امام ترمذی متفق علیہ مشہور ثقہ حافظ حدیث امام ہیں ان کو حفاظ حدیث میں بہت بڑا مقام حاصل ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میرے استاد امام بخاری نے مجھ سے کہا کہ جتنا تم نے مجھ سے فائدہ حاصل کیا اتنا فائدہ میں تم سے حاصل نہ کرسکا ( تہذیب الکمال )۔
قوت حافظہ کی ایک مثال:
ابو اسعدعبدالرحمن بن محمدادریسی کہتے ہیں: ابوعیسی ترمذی حفظ حدیث میں ضرب المثل تھے ، اس سلسلے کا ایک واقعہ وہ اپنے شیخ ابوبکر احمد بن محمد بن حارث مروزی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے احمد بن عبداللہ بن داود کو یہ کہتے سنا کہ میں نے امام ترمذی کو کہتی سنا : ایک بار میں مکہ کے راستے میں تھا اور میں نے ایک شیخ کی احادیث کے دو جزء لکھے تھے،مجھے شیخ ملے تو میں نے آپ سے سماع حدیث کا مطالبہ کیا ، میں سمجھ رہا تھا کہ شیخ کی احادیث کے دونوں جزء میرے پاس ہیں ،آپ نے قرأت حدیث پر آمادگی ظاہر کی، میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے پاس سادہ کاغذوں کے دوجزء ہیں ، شیخ یہ احادیث پڑھ کر مجھے سنا نے لگے اور مجھے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سادہ کاغذہے، اور مجھ سے کہا : تمہیں ایسا کرتے مجھ سے شرم نہیں آتی تو میں نے صورت حال سے آپ کو باخبر کیا ، اور عرض کیا کہ مجھے ساری احادیث یاد ہیں، تو آپ نے کہاکہ پڑھو میں نے انہیں پڑھ کر سنایا تو انہوں نے میری تصدیق نہ کی اور کہا کہ کیا آنے سے پہلے تم نے ان احادیث کو یادکرلیاتھا؟ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے دوسری حدیثیں سنائیں ، تو آپ نے چالیس حدیثیں مجھے پڑھ کر سنائیں پھر مجھ سے کہا کہ لاؤ سناؤ، تو میں نے ان کو پڑھ کر سنا دیا ، ایک بھی حرف کا فرق نہ تھا تو انہوں نے کہا : میں نے تمہارے جیسا کسی کو نہیں دیکھا(تہذیب التہذیب ، السیر ۱۳/۲۷۳)۔
حافظ ابو یعلیٰ کا بیان ہے:'' محمدبن عیسیٰ بن سورہ، متفق علیہ ثقہ حافظ حدیث امام ہیں ، ان کی حدیث میں ایک کتاب ہے نیز جرح و تعدیل میں ان سے بہت سارے اقوال منقول ہیں ... وہ امانت، دیانت اور علم میں ایک مشہور امام ہیں۔
حافظ ابو سعد عبدالرحمن بن محمد ادریسی کہتے ہیں: علم حدیث میں جن ائمہ کی اقتداء کی جاتی ہے ، امام ترمذی اُن میں سے ایک امام تھے ، آپ نے جامع ، تواریخ اور علل نامی کتابیں تصنیف فرمائیں، آپ کی تصانیف پختہ عالم دین کی تصانیف ہیں، آپ حفظ حدیث میں ضرب المثل تھے ۔(شروط الأئمہ الستہ : ص۲۰، تہذیب التہذیب ۹/۳۸۶)۔
امام ابن حبان اپنی کتاب الثقات میں ترمذی کے بارے میں فرماتے ہیں : '' یہ ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جنہوں نے احادیث جمع کیں،علم حدیث میں کتابیں لکھیں ، احادیث کو حفظ کیا اور اس کا مذاکرہ کیا۔(الثقات،تذکرۃ الحفاظ، نکت الہمیان للصفدی ، تہذیب الکمال )۔
امام سمعانی فرماتے ہیں : '' امام ترمذی بلا اختلاف اپنے عہد کے امام اور صاحب تصانیف تھے اور ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کی علم حدیث کے اندر اقتداء کی جاتی تھی '' ، اور اسی جیسی بات امام ابن خلکان نے بھی کہی ہے۔( الأنساب، وفیات الاعیان )۔
امام حاکم کہتے ہیں: میں نے عمربن علک کو یہ کہتے سنا : بخاری کا انتقال ہوا تو انہوں نے خراسان میں علم ، حفظ اور ورع وزہد میں ابوعیسیٰ ترمذی کی طرح کسی اور کو نہیں چھوڑا، ترمذی اتناروئے کہ اندھے ہوگئے اور کئی سال اندھے رہے ۔ (السیر ۱۳/۲۷۳، تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۳۴، تہذیب التہذیب ۹/۳۸۹)۔
محدث خراسان امام ابو احمد حاکم نیساپوری ( م: ۳۷۸ھ) نے اپنے ایک شیخ سے یہ بات نقل کی ہے کہ جس وقت امام محمد بن اسماعیل کا انتقال ہوا اس وقت انہوں نے اپنے شاگردوں میں امام ترمذی سے بڑھ کر کسی کو علم، حفظ، زہد و ورع میں نہیں چھوڑا،ترمذی خوف ا لٰہی اس قدر روتے تھے کہ نابینا ہوگئے ۔
امام حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی کا بیان ہے:'' محمد بن عیسیٰ بن سورہ ترمذی جو کہ نابینا تھے ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کی علم حدیث کے اندر اقتداء کی جاتی تھی۔ انہوں نے علم حدیث، تاریخ اور علل میں کتابیں لکھی ہیں جو ایک متبحر عالم کی تصنیفات ہیں حفظ حدیث میں ان کوبطور مثال ذکرکیا جاتاہے۔
امام مزی کہتے ہیں: وہ حافظ حدیث صاحب الجامع اور دیگر کتابوں کے مصنف ہیں،نیز حفظ اور ثقاہت کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک تھے جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے امت کو نفع پہنچایا''( تہذیب الکمال )۔
امام ذہبی سیر أعلام النبلاء میں امام ترمذی کو حافظ ، علم ، امام ، بارع کا خطاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ جامع اور علل وغیرہ کے مصنف ہیں، اور تذکرۃ الحفاظ میں فرماتے ہیں کہ امام ترمذی حافظ حدیث، صاحب الجامع متفق علیہ ثقہ تھے ، ابن حزم نے آپ کو جو مجہول کہا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ( تذکرۃ الحفاظ )۔
امام حافظ ابن حجر عسقلانی کا بیان ہے:''وہ حفظ اور ثقاہت کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک تھے ''۔ (تقریب التہذیب )۔حافظ ابن حجر فتح الباری کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ترمذی نے بخاری سے علم حاصل کیا ،اور آپ پر کافی اعتماد کیا (ہدی الساری : ۴۹۲)۔
طاش کبری زادہ لکھتے ہیں : '' یہ حافظ حدیث، اور ان ائمہ اعلام میں سے ہیں اور انہیں فقہ میں بھی مہارت تھی انہوں نے ائمۂ حدیث کی ایک جماعت سے احادیث حاصل کیں اور صدر اول کے مشائخ سے ان کی ملاقات ہوئی( مفتاح السعادہ)۔
ابن عمادحنبلی کہتے ہیں:امام ترمذی اپنے ہم عصروں میں واضح مقام رکھتے تھے۔ اور حفظ اور اتقان میں وہ ایک نشانی، نمونہ تھے(کتاب شذرات الذہب )۔
امام ترمذی متفقہ طورپر ثقہ محدث ، ناقدحدیث اور امام دین ہیں، آپ کی تصانیف مشہور ومعروف ہیں، لیکن اس شہرت اور امامت کے علی الرغم ابن حزم نے آپ کے بارے میں کتاب الاتصال کے باب الفرائض میں یہ کہہ دیا کہ آپ مجہول راوی ہیں، اس پر علماء نے نکیر کی ، حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں کہتے ہیں: ترمذی حافظ اور اعلام میں سے ہیں، جامع کے مؤلف اورمتفق علیہ ثقہ ہیں، ابن حزم کا یہ کہنا کہ ترمذی مجہول ہیں، لائق التفات بات نہیں ہے، ابن حزم نے نہ ترمذی کو جانا اور نہ ہی جامع ترمذی اور علل ترمذی کے وجود کا انہیں علم تھا(میزان الاعتدال )
امام ذہبی سیر أعلام النبلاء میں ابن حزم کے فضائل اور عیوب کے گنانے کے بعد فرماتے ہیں: مجھے ابومحمد ابن حزم سے ان کی صحیح حدیث سے محبت اور اس کی معرفت کی بناپر محبت ہے،گرچہ میں ان کے علم رجال،علل حدیث اور اصول وفروع میں غلط مسائل کی کثرت کی وجہ سے اُن کی موافقت نہیں کرتا ، اور کئی مسئلے میں قطعی طورپر اُن کو غلط کہتا ہوں، لیکن نہ تو اُن کی تکفیر کرتاہوں، اورنہ انہیں گمراہ کہتا ہوں، ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے عفوودرگزرکا امیدوار ہوں، اُن کے ذہن کی تیزی اور علم کی وسعت کا قائل ومعترف ہوں، میں نے دیکھا کہ انہوں نے ایک شخص کا یہ قول ذکر کیا کہ سب سے عظیم اور اہم کتاب موطأمام لک ہے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: بلکہ سب سے عظیم کتابیں صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، صحیح ابن السکن ، منتقی ابن الجارود ، اور منتقی قاسم بن اصبغ ہے،پھراس کے بعد سنن ابی داود ، سنن نسائی، مصنف قاسم بن اصبغ ، مصنف ابی جعفر الطحاوی کا نمبرآتا ہے، ذہبی کہتے ہیں: ابن حزم نے نہ تو ابن ماجہ کا ذکر کیا اورنہ ہی جامع ترمذی کا ، یہ دونوں کتابیں ابن حزم نے دیکھی نہ تھی، بلکہ ان کی موت کے بعد یہ دونوں کتابیں اندلس پہنچیں(سیر أعلام النبلاء )۔
حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں: خلیلی نے ترمذی کو متفق علیہ ثقہ کہاہے، لیکن ابن حزم نے اپنے بارے میں یہ اعلان کیا کہ انہیں اس بارے میں علم نہیں تھا اس لیے کہ انہوں نے کتاب الاتصال کے کتاب الفرائض میں محمدبن عیسیٰ ترمذی کو مجہول کہا، ہرگز کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ شاید ابن حزم نے ترمذی کو نہ جانا اور نہ ان کے حفظ اور ان کی تصانیف پر مطلع ہوئے، اس لیے کہ یہ حضرت مشاہیر ثقات حفاظ کی ایک جماعت کے بارے میں اس طرح کی عبارات استعمال کرتے ہیں، جیسے ابوالقاسم البغوی اسماعیل بن محمد الصفار اور ابوالعباس الاصم وغیرہ وغیرہ۔
تعجب یہ ہے کہ حافظ ابن الفرضی نے اپنی کتاب المؤتلف والمختلف میں ترمذی کا تذکرہ کیا،اور ان کی علمی منزلت کو واضح کیا، تو ابن حزم کیسے ان معلومات کی آگاہی سے چوک گئے(تہذیب التہذیب )
واضح رہے کہ مشاہیر کے سلسلے میں اس طرح کی عدم واقفیت ابن حز م ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے، امام بیہقی کے بارے میں آتاہے کہ ان کے پاس سنن نسائی، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نہیں تھیں، ہاں ان کے پا س حاکم کی مستدرک علی الصحیحین تھی ، جس سے انہوں نے بکثرت احادیث روایت کی (تذکرۃ الحفاظ ، مقدمہ تحفۃ الأحوذی ۱/۲۷۱)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تصانیف

۱ - کتاب الجامع الصحیح (سنن الترمذی)۔
امام ترمذی کی یہ کتاب مختلف ناموں سے مشہورہے،(۱) اسے جامع ترمذی کہتے ہیں،(۲) نیز سنن الترمذی کے نام سے بھی اس کی شہرت ہے ، اس کا پورا نام یہ ہے : الجامع المختصر من السنن عن رسول الله ﷺ ومعرفة الصحيح والمعلول وما عليه العمل (فہرست ابن خیر ،ص: ۹۸)۔
حاجی خلیفہ کشف الظنون میں جامع ترمذی کے متعلق لکھتے ہیں: اس کتاب کے مؤلف کی طرف منسوب ہوکر یہ جامع ترمذی کے نام سے مشہور و معروف ہے البتہ اسے سنن ترمذی بھی کہا گیا ہے لیکن پہلا نام زیادہ مشہور و معروف ہے ۔
(۳) امام حاکم نے اس کا نام جامع صحیح ترمذی کہا ہے، اور خطیب بغدادی نے اس پر اور امام نسائی کی سنن پر صحیح کا اطلاق کیا ہے( تدریب الراوی)۔
جامع ترمذی پر جامع صحیح یاصحیح کا اطلاق کیا گیا ہے، جبکہ اس میں ضعیف احادیث بھی پائی جاتی ہیں، اس کتاب پرصحیحکا اطلاق اس کی غالب احادیث کے صحیح اور قابل حجت ہونے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اور اس میں ضعیف احادیث بہت ہی کم پائی جاتی ہیں۔ اس پر صحیح کا اطلاق اسی طریقے سے ہے جیسے صحاح ستہ ان چھ کتابوں (بخاری، مسلم، جامع ترمذی ، سنن ابو داود، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ) کی غالب احادیث کے صحیح اور قابل حجت ہونے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ جبکہ صحیحین کے علاوہ بقیہ چاروں میں کچھ ضعیف احادیث بھی پائی جاتی ہیں اور ان کی غالب احادیث صحیح ہیں۔
(۴) اس کتاب کو جامع الترمذی بھی کہاجاتا ہے ، اس لیے کہ اس کتاب میں فقہی کتب وابواب کے علاوہ ایمان، تفسیر، زہد، صفۃ القیامہ ، رقائق ، ورع ، صفۃ الجنہ ، امثال ، مناقب وفضائل وغیرہ ابواب وکتب کا ذکرہے۔
۲- کتاب شمائل النبی ﷺ (مطبوع)
۳- کتاب العلل الصغیر (سنن کے آخرمیں )اس کتاب کا موضوع اصول حدیث اور منہج محدثین ہے، اس کی حافظ ابن رجب نے فاضلانہ شرح کی ہے، جو مطبوع ہے، واضح رہے کہ ابن رجب نے ترمذی کی شرح کی تھی لیکن وہ مفقود ہے، اور صرف شرح علل پائی جاتی ہے، اس کی شرح علامہ عبدالرحمن مبارکپوری نے بھی کی ہے، جس کا نام شفاء العلل في شرح كتاب العللہے،اورتحفۃ الأحوذی کے آخر میں مطبوع ہے۔
امام ترمذی کو صرف امام بخاری سے شرف تلمذہی نہیں حاصل تھا بلکہ آپ کی شہرت یہ بھی تھی کہ آپ امام بخاری کے علم کے حامل ووارث اور ناقل ہیں، چنانچہ سنن میں امام بخاری سے باربار افادات کو نقل کرتے ہیں، علل صغیر میں بھی آپ نے صراحت کردی ہے کہ اس کتاب میں علل احادیث ، رجال اور تاریخ سے متعلق افادات کو میں نے بخاری کی تاریخ سے اخذ کیا ہے ،اور اکثر مسائل پر امام بخاری سے مذاکرہ (تبادلہ خیال) ہوچکاہے، نیز بعض مسائل پر دار می (عبداللہ بن عبدالرحمن) سے بھی تبادلہ خیال ہوا، لیکن زیادہ تر امام بخاری سے ،اور دارمی اور ابوزرعہ رازی سے بہت ہی کم (العلل ۱۰/۴۶۶-۴۶۷)۔
۴- کتاب العلل الکبیر : (ترتیب ابی طالب القاضی ) یہ ایک مستقل تالیف ہے ،جس کا موضوع علل احادیث ہے ، اور یہ حمزہ دیب مصطفی کی تحقیق سے مکتبہ الاقصی سے (۱۴۰۶ھ) میں شائع ہوچکی ہے۔
۵- کتاب التاریخ (ابوسعد عبدالکریم السمعانی کی مرویات میں سے ہے ، التحبیر فی المعجم الکبیر۲/۲۲۳) ۔
۶- کتاب الزہد(مفقود)۔
۷- کتاب الأسماء و الکنی(مفقود)۔
۸- کتاب التفسیر(مفقود)۔
۹- مصنف کے طرز پر ایک بڑی کتاب جو مرفوع اور موقوف احادیث کا مجموعہ ہو: کتاب العلل میں جہاں امام ترمذی نے سنن میں اپنے مراجع ومآخذ کی اسانید کاذکر کیا وہیں اُس کے آخرمیں لکھتے ہیں کہ'' تفصیلی اسانید کاذکر اُس کتاب میں ہوگاجس میں موقوف کاتذکرہ ہوگا''، اُن کے اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ مؤلف کی مرفوع احادیث اور موقوف آثار سے متعلق اس سے بڑی کتاب ہے، جس میں سب چیزیں سند سے مذکورہیں، اور سنن ترمذی مرفوع احادیث پر مشتمل ہے، اور تھوڑے ہی موقوف اقوال اس میں مذکور ہیں(شرح العلل، ص: ۴۵)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
امام ترمذی کا عقیدہ

اللہ رب العزت نے اپنے دین کی حفاظت کا وعدہ فرمایاہے ،اور مادی اسباب کی دنیا میں گروہ محدثین کواس بات کی توفیق دی کہ وہ کتاب وسنت کی محبت سے سرشار ہوکر اُس کی ممکن خدمت کریں، چنانچہ طلب علم سے لے کر تدوین حدیث کے مختلف مراحل تک کتاب وسنت کو صحیح سندوں کے ساتھ اور صحیح معانی ومفاہیم کو محفوظ رکھنے کی جد وجہد میں اس گروہ کو نمایاں مقام حاصل ہے، اور آیت کریمہ: إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون کی عملی تفسیر ائمہ اسلام کی یہی جد وجہد ہے، جس کے نتیجے میں دینی نصوص صحیح سندوں اور سلف صالحین کی تعبیرات کے ساتھ محفوظ ہیں، امام ترمذی سلسلہ محدثین کی اہم کڑی ہیں، جنہوں نے حدیث کی حفاظت وتدوین کے ساتھ ساتھ جرح وتعدیل رواۃ پر بھی بڑا سرمایہ چھوڑا اور فہم حدیث کے سلسلہ میں بھی آپ کی کوششوں سے مسلک سلف ہم تک پہنچا ، صحیح اسلامی عقائد کو بھی آپ نے امت تک پہنچا یا ، اسی وجہ سے سنن الترمذی کی افادیت کے ایک سے زیادہ پہلو کی ائمہ نے صراحت کی ہے۔
امام ترمذی عقائدکے باب میں بھی امام ہدیٰ تھے، اور اپنے شیوخ کے نقش قدم پر سنن ترمذی میں اسماء وصفات کے بارے میں اپنے پیش رو ائمہ کے اقوال ومذاہب کو جگہ دیتے ہیں، چنانچہ کتاب صفۃ الجنۃ میں باب ما جاء فی خلود اہل الجنۃ واہل النار کے تحت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت باری تعالیٰ سے متعلق حدیث روایت کرکے فرماتے ہیں: رویت باری سے متعلق نبی اکرم ﷺ سے بہت ساری احادیث مروی ہیں، جس میں یہ ہے کہ لوگ اپنے رب کو دیکھیں گے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قدم کا ذکرہے، اور اس طرح کے دوسرے مسائل کا ذکرہے ، اس بارے میں اہل علم ائمہ جیسے سفیان ثوری ، مالک بن انس ، ابن مبارک ، سفیان بن عیینہ ، وکیع وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ ان حضرات نے صفات باری تعالیٰ سے متعلق احادیث کی روایت کی ، پھر فرمایا: یہ احادیث روایت کی جائیں گی اور ان پر ایمان بھی لا یا جائے گا ، اور ان صفات کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا کہ ان کی کیفیت اور حقیقت کیاہے، یہ اہل حدیث کا اختیار کردہ مذہب ہے کہ احادیث جیسی آئی ہیں، ان کو ویسے ہی روایت کیا جائے گا اور ان پر ایمان لایا جائے گا ، اور ان کی تفسیر نہ بیان کی جائے گی، اور نہ اس میں اپنے وہم وگمان سے بات کی جائے گی اور نہ یہی کہا جائے گا کہ ان کی کیفیت کیا ہے ، ان صفات کے بارے میں اہل علم کا یہی مختار مذہب ہے(سنن الترمذی ۴/۶۹۱)۔
تقریباً اسی طرح کی بات امام موصوف نے کتاب التفسیر کے باب تفسیر سورۃ المائدۃ میں لکھی ہے، حدیث یہ ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَمِينُ الرَّحْمَنِ مَلأَى سَحَّاءُ لاَ يُغِيضُهَا اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ قَالَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ؛ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَمِينِهِ وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الأُخْرَى الْمِيزَانُ يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَتَفْسِيرُ هَذِهِ الآيَةِ: { وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ } وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَتْهُ الأَئِمَّةُ نُؤْمِنُ بِهِ كَمَا جَاءَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُفَسَّرَ أَوْ يُتَوَهَّمَ هَكَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الأَئِمَّةِ مِنْهِمْ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ تُرْوَى هَذِهِ الأَشْيَاءُ وَيُؤْمَنُ بِهَا، وَلاَيُقَالُ كَيْفَ.
( ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوتاہے، (کبھی خالی نہیں ہوتا) بخشش وعطاکرتارہتاہے، رات ودن لُٹا نے اور اس کے دیتے رہنے سے بھی کمی نہیںہوتی ،آپ نے فرمایا: ''کیاتم لوگوں نے دیکھا (سوچا؟) جب سے اللہ نے آسمان پیداکیے ہیں کتنا خرچ کرچکا ہے؟ اتنا کچھ خرچ کرچکنے کے باوجود اللہ کے ہاتھ میں جوکچھ ہے اس میں کچھ بھی کمی نہیںہوئی ۔ اس کا عرش پانی پر ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے وہ اسے بلند کرتا اور جھکاتا ہے (جسے چاہتا ہے زیادہ دیتاہے اور جسے چاہتاہے کم)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔پھرفرما تے ہیں:یہ حدیث اس آیت { وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ } اوریہودیوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، انہی کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں اوران کے اس قول کی وجہ سے ان پرلعنت کی گئی ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوںہاتھ کھلے ہوئے ہیں، جس طرح چاہتاہے خرچ کرتاہے (المائدہ: ۶۴)۔ کی تفسیرہے، اس حدیث کے بارے میں ائمہ دین کی روایت یہ ہے کہ ان پر ویسے ہی ایمان لائیں گے جیسے کہ ان کا ذکر آیا ہے، ان کی نہ کوئی تفسیر کی جائے گی اور نہ ہی کسی طرح کا وہم وقیاس لڑایاجائے گا۔ ایسا ہی بہت سے ائمہ کرام: سفیان ثوری ، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ ، ابن مبارک وغیرہم نے کہا ہے۔ یہ چیزیں ایسی ہی بیان کی جائیں گی جیسی بیان کی گئی ہیں اور ان پر ایمان رکھاجائے گا لیکن ان کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ ( سنن الترمذی: ۳۰۴۵)، یہ حدیث متفق علیہ ہے، ملاحظہ ہو: خ/تفسیر ھود ۲ (۴۶۸۴)، والتوحید ۱۹ (۷۴۱۱)، و ۲۲ (۷۴۱۹)، م/الزکاۃ ۱۱ (۹۹۳)۔
امام ترمذی نے اس حدیث میں بھی ائمہ سلف کا صفات باری تعالیٰ کے بارے میں اجماعی عقیدہ نقل کیا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جن اسماء وصفات کا ذکرکیاہے ا س کی نہ تو بے جاتاویل کی جائے گی اورنہ ہی کوئی غلط تفسیر،یعنی یہ نہیں کہاجائے گا کہ اس کا ہاتھ ایساایساہے بلکہ جیسی اس کی ذات ہے ایسے ہی اس کاہاتھ بھی ہے ، اس کی کیفیت بیان کئے بغیراس پر ایمان لاناضروری ہے ۔
ایسے ہی کتاب صفۃ القیامۃ کے باب فی القیامہ میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث : ما منكم من رجل إلا سيكلمه ربه يوم القيامة وليس بينه وبينه ترجمان... إلخ.(تم میں سے ہرآدمی سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات کرے گا ، اور اس کے اوراللہ کے درمیان کوئی مترجم نہیں ہوگا)۔اس حدیث میں اللہ رب العزت کی صفت کلام کا ذکر ہے ،اس کی روایت کے بعد امام ترمذی کہتے ہیں کہ ہم سے ابوالسائب نے بیان کیا کہ وکیع نے اعمش سے اس حدیث کی روایت کے بعد فرمایا : یہاں پر خراسان والوں میں سے جو موجود ہو اس کو اللہ سے ثواب حاصل کرنے کی نیت سے خراسان میں اس حدیث کو بیان کرنا چاہئے اس لیے کہ جہمیہ صفت کلام باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں (۴/۶۱۱) ۔
صحیح سنت پرعمل کرنے، اس کے مطابق فتویٰ دینے، اُس کی نشر و اشاعت کرنے، اور اُس کے مخالف مسلک کے ردوابطال میں یہ مثال بھی بے جا نہ ہوگی کہ امام ترمذی نے یہ حدیث ذکر کی کہ نبی اکرمﷺ نے حج میں ہدی (قربانی ) کے جانور کا اشعارکیا، یعنی ان کو زخمی کرکے یہ ظاہر کیا کہ یہ ہدی (قربانی کا جانور) ہے،اپنی سند سے اس حدیث کو امام وکیع سے روایت کرنے کے بعد اُن کا یہ قو ل نقل کیا : اس مسئلہ میں اہل رائے کے قول کو نہ دیکھو اس لیے کہ اشعارسنت ہے، اور اُن کا قول بدعت ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے ابوالسائب کو یہ کہتے سناکہ ہم وکیع کے پاس تھے تو اُنہوں نے ایک آدمی سے جو رائے میں پڑتا تھا اس سے کہا : رسول اللہﷺ نے ہدی کے جانور کا اشعار کیا ، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اشعار مثلہ ہے، تو اس آدمی نے کہا : ابراہیم نخعی سے مروی قول ہے کہ اشعار مثلہ ہے ، تو میں نے دیکھا کہ امام وکیع سخت غصہ ہوئے ،اور کہا کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں، تم کتنا زیادہ اس بات کے حقدار ہو کہ تم کو جیل میں بندکردیاجائے اور اس وقت تک تم کو وہاں سے نہ نکالا جائے جب تک کہ تم اپنے اس قول سے باز نہ آجاؤ(سنن الترمذی ۳/۲۴۱)۔
اسی طرح سے کتاب النکاح میں امام ترمذی نے باب ماجاء في المحل والمحلل له میں اس موضوع پر علی ، اورعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے دوحدیثیں روایت کیں کہ رسول اکرم ﷺنے حلالہ کرنے اور حلالہ کروانے والے پر لعنت بھیجی ہے، اور ذکر کیا کہ صحابہ اور فقہائے تابعین اور دوسرے علمائے دین کا اس حدیث پر عمل رہاہے، پھر کہا : میں نے جارود بن معاذ کو سنا کہ وکیع بھی یہی فتویٰ دیتے تھے، اور وکیع نے کہا: اس باب سے اہل رائے کے قول کو رد کردینا چاہئے ، اور وکیع سے روایت ہے کہ سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی جب عورت سے نکاح اس نیت سے کرے کہ وہ اسے (پہلے شوہر کے لیے) حلال کرے گا پھر اسے اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھ لینا ہی بھلا معلو م ہو تو وہ اسے اپنی زوجیت میں نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اس سے نئے نکاح کے ذریعے سے شادی نہ کرے(۱۱۱۹، ۱۱۲۰) ، اس مثال میں واضح طور پر امام ترمذی نے جمہور ائمہ حدیث وائمہ فقہ کے مقابلے میں حدیث کے مخالف اہل رائے کا حلالہ کے بارے میں فتویٰ نقل کیا، اور اس پروکیع اور سفیان ثوری کے قول کے ذریعے واضح طور پر تردید کی ،اور یہ معلوم ہے کہ اصحاب رائے سے مرادامام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نکاح حلالہ صحیح ہے گوحلال کرنے کی ہی نیت سے ہو ۔ان کی رائے کوچھوڑدینااس لیے مناسب ہے کہ ان کا یہ قول حدیث کے مخالف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شروع ہی سے عقائد کے باب میں انحراف کی روش رکھنے والوں کی کج فکری اور اعتقادی گمراہیوں پر نقد ونظر ائمہ دین کے یہاں بہت معروف ومشہور بات ہے ،بلکہ راہ اعتدال سے ہٹ جانے والے حضرات پر تنقید سلف صالحین کا شعار اور منہج رہا ہے ،بالخصوص محدثین عظام نے یہ کام بڑی ذمہ داری سے انجام دیا ، گمراہ فرقوں اور اُن کے ائمہ اور ان کے مقالات واعتقادات پر کھل کر تنقید کی ، سلفی عقائد واصول اور اتباع سنت کے مضامین کو خوب اچھی طرح سے بیان کیا، معتزلہ ، جہمیہ ، قدریہ ، جبریہ وغیرہ ، گمراہ فرقوں کے خلاف ائمہ حدیث کے مقدس گروہ نے شروع ہی سے جنگ چھیڑی ، معتزلہ اور جہمیہ کے رد کے نام سے مستقل کتابیں لکھیں اور عقائدکی کتابوں میں ان گمراہ عقائد پر کھل کرتنقید کی ، امام احمد بن حنبل تو مسئلہ خلق قرآن کے خلاف فتوے پر ڈٹے رہنے کی بناپر امام اہل سنت والجماعت کے لقب سے مشہور ہوئے ،ان کے شاگرد رشید امام بخاری نے خلق أفعال العباد نامی مستقل رسالہ لکھا، اور صحیح بخاری میں کتاب العلم، کتاب الإیمان، کتاب التوحید والرد علی الجہمیہ ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ وغیرہ وغیرہ کتب میں اتباع سنت اور عقیدہ سلف کی خوب خوب وضاحت کی ، امام احمد کے تلامذہ میں امام ابوداود نے اپنی سنن میں کتاب السنہ کے نام سے یہ خدمت انجام دی، امام ترمذی نے کتاب العلم ، کتاب الإیمان ،کتاب القدراورکتاب صفۃ القیامۃ وغیرہ میں ان مسائل پر روشنی ڈالی ، اگر ائمہ حدیث کی عقائد سلف کی شرح ووضاحت اور منحرفین کے رد وابطال سے متعلق کتب ورسائل کی محض فہرست ذکر کی جائے تو یہ مقدمہ طویل ہوجائے گا، میں نے امام وکیع بن الجراح کی کتاب الزہد کی تحقیق میں ائمہ دین کی ان کتابوں کا تذکرہ کیاہے، اس باب میں علامہ عبدالسلام مبارک پوری کی کتاب سیرۃ البخاری کے ساتویں باب عقائد اور علم کلام کا مطالعہ مفید ہوگا۔
سلف صالحین کتاب وسنت کے صحیح دلائل کی روشنی میں عقیدہ کے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کو سمجھتے، اور اس پر ایمان رکھتے ، اس کی دعوت دیتے تھے، اور اس کے خلاف ہر رائے اور عقیدے کا رد وابطال کرتے تھے، اور فلاسفہ اور متکلمین کی موشگافیوں کو سخت ناپسندکرتے تھے ، اس سلسلے میں امام مالک کے اقوال کافی مشہور ہیں، جن میں سے آپ کا یہ قول عقیدہ سلف کی نمائندگی واضح طور پر کرتا ہے :الاستواء معلوم والكيف مجهول والإيمان به واجب والسؤال عنه بدعة.یعنی اللہ رب العزت نے قرآن میں جو اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ عرش پر مستوی ہے ، تو استواء کا معنی ومفہوم معلوم ومشہور بات ہے ، لیکن یہ استواء کیسے ہوگا ، اس کی کیفیت کا علم نہیں ہے، اور اس پر ایمان لانا واجب اورفرض ہے، اور اس سلسلے میں سوال وجواب کرنا بدعت ہے ۔امام مالک نے یہ بات اس وقت کہی جب ایک آدمی نے آپ سے اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا ، اسی طرح سے امام بخاری کو خلق قرآن کے مسئلہ پر نیساپور میں جب کچھ کہنے کے لیے مجبور کیا گیا تو آپ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: القرآن كلام الله غير مخلوق وأفعال العباد مخلوقة والامتحان بدعة. یعنی قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، مخلو ق نہیں ہے ،اور بندوں کے افعال مخلوق ہیں، یعنی ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیاہے ، اور اس مسئلے پر کسی کو امتحان میں ڈالنا اور اس سے پوچھ گچھ کرنا بدعت ہے۔(مقدمۃ فتح الباری :۴۹۰)۔
سلف کا منہج عقائد کے بارے میں یہ تھا کہ وہ علم کلام کے مسائل میں زیادہ غور وخوض کو سخت ناپسندکرتے تھے، اور ان مسائل میں سوال جواب کو بدعت کہتے تھے، امام احمد بن حنبل اس باب میں بہت سخت موقف رکھتے تھے، چنانچہ خلق قرآن کے مسئلے میں کتاب وسنت کے علاوہ اور کسی بات کے سننے کے قائل نہ تھے، احادیث رسول سے اس مسلک کی تقویت ہوتی ہے ، چنانچہ خود امام ترمذی نے كِتَاب الْقَدَرِ، بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ فِي الْخَوْضِ فِي الْقَدَرِ: 2133 میں نیز امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں یہ حدیث نقل کی ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْنَتَيْهِ الرُّمَّانُ، فَقَالَ: " أَبِهَذَا أُمِرْتُمْ أَمْ بِهَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ؟ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِينَ تَنَازَعُوا فِي هَذَا الأَمْرِ، عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تَتَنَازَعُوا فِيهِ ".
(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث ومباحثہ کررہے تھے، آپ غصہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ کاچہرہ سرخ ہوگیا اور ایسا نظر آنے لگاگویاآپ کے گالوں پر انارکے دانے نچوڑدئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا:'' کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یامیں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بناکربھیجاگیا ہوں؟ بے شک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوگئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتاہوں کہ اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ نہ کرو)۔
تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء وقدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے،اوراس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے، لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتاہے،مگر اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسندکرتاہے، اور برے اعمال کو ناپسندکرتاہے، اور اسی اختیار کی بنیاد پر جزا وسزا دیتا ہے، تقدیر کے مسئلہ میں عقل سے غور و خوض اور بحث ومباحثہ جائز نہیں، کیوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔
اوپر کی گزارشات سے یہ واضح ہوگیا کہ سلف صالحین کے نزدیک باطل عقائد کا رد وابطال کتاب وسنت کے دلائل اور سلف کے اقوال سے ہوتا ہے ، اور یہی صحیح علم کلام ہے ،صحابہ کرام کے زمانے میں خوارج ، قدریہ اور روافض جیسے فرقوں کا فتنہ موجودتھا، خود صحابہ کرام نے تمام مسائل پر کتاب وسنت کی روشنی میں کلام کیا، اور محدثین نے اسی اسلوب کو آگے بڑھا کر ہرطرح کے منحرف فرقو ں اور ان کے آراء واقوال کا رد وابطال کیا ، ساتھ ہی غیرسلفی منہج وفکر پر مبنی علم کلام اور اس سے تعلق رکھنے والوں سے خود دور رہنے اوردوسروں کو ان سے دوررہنے کی تلقین اور وصیت فرمائی تاکہ نہ خود ان کے میل جو ل سے متاثر ہوں اور نہ ہی وہ اس تعلق کے ذریعے افراد امت کو گمراہ کرسکیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
امام ترمذی کا فقہی مسلک

سنن ترمذی کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام ترمذی اپنے شیوخ بالخصوص امام بخاری کی طرح کتاب وسنت سے آزادانہ طور پر استدلال کرتے اور صحیح اور ثابت شدہ مسئلے پر عمل کرتے تھے ،اور اپنے اسلاف معتبر فقہائے امت کے فتاویٰ سے استفادہ کرتے تھے ، جس کی آپ کو گہری واقفیت تھی ، تیسری صدی ہجری میں تقلید مذاہب کا کوئی رواج بھی نہ تھا ، لیکن تقلیدکے رسیا بعض لوگوں نے امام ترمذی کوبھی مقلدین کی فہرست میں شامل کردیا، چنانچہ بعض علمائے حنفیہ کے نزدیک آپ امام شافعی کے مقلد شافعی المذہب تھے جبکہ بعض دیگر حضرات کے نزدیک آپ امام احمد بن حنبل کے مقلدحنبلی المذہب تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی نسبت خانہ ساز ،اور دلائل سے عاری ہے، کیونکہ محدثین کا قرآن و سنت کی روشنی میں اختیار کردہ اپنا ایک مستقل اور متفقہ مسلک و منہج ہے جس کو ہم اتباع کتاب و سنت کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔
عملاً قرآن وحدیث اور آثار سلف کی خدمت میں زندگی گزارنے والے محدثین کو بالخصوص تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں کسی مخصوص امام کی تقلید کی ضرورت ہی نہیں تھی ، ائمہ کے تعامل سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں اُنہیں کسی مسئلہ میں نصوص کتاب و سنت اور آثار صحابہ و تابعین میں کوئی واضح بات نہ ملتی وہاں وہ خود قرآن و سنت کی روشنی میں اصولی طور پر اجتہاد کیا کرتے تھے، اس لئے محدثین کے بارے میں یہ کہنا کہ فلاں امام مالک، یا شافعی، یا احمد بن حنبل کے مقلد مالکی، یا شافعی یا حنبلی المذہب تھے دلیل سے عاری اور امرواقع کے خلاف بات ہے ، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان ائمۂ حدیث میں سے کسی نے بھی کسی ایک کے قول کی تائید و ترجیح کا طریقہ نہیں اپنایا ، بلکہ محدثین کرام نے قرآن و سنت کی روشنی میں اختیار کردہ اپنے متفقہ مسلک و منہج اور مذہب اتباع کتاب و سنت کی بنا پر (جو نصوص کتاب وسنت کے مطابق ہو ) جو صحیح و راجح تھا اسی کو صحیح و راجح قرار دیا۔ اور جو اس کے مخالف تھا اس کا رد و ابطال کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری تحفۃ الأحوذی کے مقدمہ میں فائدہ کے عنوان سے امام ترمذی اور دوسرے محدثین کی فقہی نسبت کے بارے میں فرماتے ہیں: بعض حنفی علماء کے خیال میں امام ترمذی شافعی المذہب تھے ، اور بعض لوگوں نے آپ کو حنبلی المذہب کہا ہے ،یہ ان کے اپنے خانہ ساز اقوال اور زعم باطل دعوی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ امام ترمذی نہ تو شافعی تھے اور نہ ہی حنبلی ، نیز وہ مالکی اور حنفی بھی نہ تھے ، بلکہ آپ کا شمار اصحاب الحدیث میں سے ہے ، آپ سنت کے عامل اور متبع تھے ،مجتہد تھے ، کسی کے مقلد نہ تھے ،جامع ترمذی کو جس نے پڑھا اور اس میں غوروفکر کیا ہے ،اس کے لیے یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے تعجب کی بات یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے زعم میں امام ترمذی کو شافعی یا حنبلی کہا ، کیا ان حضرات کو اس بات کا پتہ نہیں ہے کہ اگر امام ترمذی امام شافعی کے مقلد ہوتے تو مختلف فیہ سارے یا اکثر مسائل میں اپنے امام کے مذہب کو دوسرے مذاہب کے مقابلے میں راجح قرار دیتے ، اور اسی کی حمایت وتائید کرتے جیسا کہ مقلدین حضرات کاطریقہ ہے ، لیکن آپ نے ایسا نہ کیا ، بلکہ بعض مقامات پر امام شافعی کے اقوال کی تردید فرمائی ، اور اتباع دلیل کو زیادہ بہتر قرار دیا ،پھر اس کو کئی مثالوں کے ذریعے واضح کیا ، اس کے بعد امام ترمذی کا یہ کہنا کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک عمل یہ اور یہ ہے ، کا مطلب واضح فرمایا، امام ترمذی بار بار اپنی سنن کے ابواب میں کہتے ہیں: والعمل على هذا عند أصحابنا منهم الشافعي، وأحمد وإسحاق...یعنی ہمارے اصحاب اہل الحدیث جن میں مالک، شافعی، احمد بن حنبل، اوراسحاق وغیرہ ہیں کے یہاں اس پر عمل رہا ہے ۔ علامہ مبارکپوری ''اصحابنا'' کا معنی بیان کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ ''اصحابنا '' سے مراد اصحاب الحدیث ہیں جن کا مسلک اور مذہب ، مذہب اہل حدیث ہے جن میں امام مالک،امام شافعی،امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ سبھی شامل ہیں،ان سارے محدثین کا مسلک اتباع دلیل ہے اور اسی کو مذہب ومسلک اہل حدیث کہا جاتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پھرملاعلی قاری سے ترمذی کی اصطلاح ''اصحابنا'' کا معنی نقل کرتے ہیں کہ اس سے ان کی مراد'' اہل حدیث'' ہیں، اور یہی قول امام طیبی کا ہے(المرقاۃ شرح المشکاۃ )۔محدث مبارکپوری اس کے بعد کہتے ہیں: یہی بات حق اور صواب ہے، امام ترمذی کے اقوال سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے ۔
امام حاکم نے معرفۃ علوم الحدیث کی بیسویں قسم کا عنوان'' معرفۃ فقہ الحدیث'' رکھا ہے، وہ کہتے ہیں: فقہ حدیث کی معرفت علوم حدیث کا ثمرہ اور نتیجہ ہے اور اسی سے شریعت قائم ہوتی ہے، رہ گئے فقہائے اسلام تو وہ قیاس، رائے، استنباط اور جدل ونظر والے ہوتے ہیں، وہ ہر زمانے میں معروف ہوتے ہیں، اور ہرشہرمیں پائے جاتے ہیں، ہم اس قسم میں اللہ کے حکم سے اہل حدیث سے فقہ حدیث کاتذکرہ کریں گے تاکہ اس سے اس بات پر استدلال کیا جائے کہ صنعت حدیث والے جنہوں نے اس علم میں کمال حاصل کیا ہے ، وہ فقہ حدیث سے ناواقف نہیں ہوتے ، اس لیے کہ فقہ حدیث ،علم حدیث کی ایک قسم ہے، اس کے بعد اہل حدیث فقہاء کا تذکرہ کرتے ہیں اورہر ایک فقیہ سے بعض اقوال اور روایات فقہ حدیث سے متعلق نقل کرتے ہیں، اُن کے ذکرکردہ فقہاء یہ ہیں:
۱-محمد بن مسلم الزہری ،۲- یحیی بن سعید الانصاری ، ۳- عبدالرحمن بن عمرو الاوزاعی، ۴- سفیان بن عیینہ الہلالی ، ۵-عبداللہ بن المبارک المروزی ، ۶- یحیی بن سعید القطان ، ۷- عبدالرحمن بن مہدی ، ۸- یحیی بن یحیی التمیمی، ۹-احمد بن حنبل، ۱۰- علی بن المدینی، ۱۱- یحیی بن معین ، ۱۲- اسحاق بن راہویہ ، ۱۳- محمد بن یحیی الذہلی ، ۱۴- محمد بن اسماعیل البخاری، ۱۵- ابوزرعہ عبیداللہ بن عبدالکریم الرازی ، ۱۶- ابوحاتم محمد بن ادریس الرازی، ۱۷- ابراہیم بن اسحاق الحربی ،۱۸- مسلم بن الحجاج القشیری ، ۱۹- ابوعبداللہ محمد بن ابراہیم العبدی البوشنجی ، ۲۰- عثمان بن سعید الدارمی ، ۲۱-محمد بن نصر المروزی ، ۲۲- احمد بن شعیب النسائی، ۲۳- ابوبکرمحمد بن اسحاق ابن خزیمہ ، ان کے تذکرہ کے بعدامام حاکم کہتے ہیں: میں نے یہ باب مختصر طورپر لکھاہے، اور اپنے ائمہ کی ایک جماعت کے نام میں نے یہاں چھوڑدیے ہیں، جب کہ حق یہ تھا کہ میں اُن کا یہاں پر تذکرہ کرتا، ان میں سے ۲۴- ابوداود السجستانی ، ۲۵- محمد بن عبدالوہاب العبدی، ۲۶-ابوبکر الجارودی، ۲۷- ابراہیم بن ابی طالب ، ۲۸- ابوعیسیٰ الترمذی ،۲۹- موسیٰ بن ہارون البزاز ، ۳۰- حسن بن علی المعمری ،۳۱- علی بن الحسین ابن الجنید، ۳۲- محمد بن مسلم بن و ارہ ، ۳۳- محمدبن عقیل البلخی وغیرہ ہمارے مشائخ ہیں رضی اللہ عنہم (معرفۃ علوم الحدیث ۶۳-۸۵)۔
 
Top