• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
اُردو ترجمہ کتاب:’’ مَا ذَا یُحِبُّ شدوَمَا ذَا یُبْغِضُ؟ ‘‘

مولف: عدنان الطرشہ
الریاض،المملکۃ العربیۃ السعودیۃ

۱- خطبہ مسنونہ
۲- قولِ ناشر
۳- پیش لفظ
۴- مقدمہ
۵- پہلا باب …اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ عبادات …(فصل اوّل)

(۱) ایمان باللہ
(۲) صلہ رحمی
(۳) امر بالمعروف و نہی عن المنکر
(۴) اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین
(۵) فرائض
(۶) نماز کو وقت پر ادا کرنا
(۷) والدین کے ساتھ حسن سلوک
(۸) جہاد فی سبیل اللہ
(۹) کثرتِ سجود
(۱۰) ذکر الٰہی
(۱۱) تسبیح و تہلیل اور تحمید و تکبیر
(۱۲) تسبیح اور تعظیم
(۱۳) اللہ تعالیٰ افتتاح نماز والی دعا کو پسند کرتے ہیں
(۱۴) ثلث اللیل کا قیام
(۱۵) داؤدی روزہ
(۱۶) اللہ کی پسند … و تر یعنی طاق عدد
(۱۷) ذوالحجہ کے پہلے دس دن کے اعمال
(۱۸) سورۃ الفلق
(۱۹) باجماعت نماز میں لوگوں کی کثرت
۶- فصل ثانی …اللہ کے پسندیدہ اُمور
(۱) ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ ٔ حق کہنا
(۲) اللہ کی پسند … دین اسلام
(۳) اللہ تعالیٰ کے تین اور پسندیدہ اُمور
* اللہ کی رسی مضبوطی سے پکڑنا اور فرقہ بازی سے بچنا
(۴) حکمرانوں کی خیر خواہی

۷- دوسرا باب… اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگ
(۱) محسنین
(۲) متقین
(۳) متوکلین
(۴) صابرین
(۵) رسول کی اتباع کرنے والے
(۶) مجاہدین
(۷) مومنین کے لیے نرم اور کافروں پر سخت
(۸) عدل و انصاف کرنے والے
(۹) کثرت سے توبہ کرنے اور پاک صاف رہنے والے
(۱۰) قربِ الٰہی حاصل کرنے والے
(۱۱) عادل مسلمان حکمران
(۱۲) لوگوں کے لیے زیادہ مفید مسلمان
(۱۳) خوش اخلاق انسان
* تین خصلتوں والا انسان
(۱۴) مجاہد فی سبیل اللہ
(۱۵) رات کو قیام کرنے والا
(۱۶) صبر کرنے والا ہمسایہ
(۱۷) دنیا سے بے رغبتی رکھنے والا
(۱۸) سورۃ الاخلاص کی تلاوت کرنے والا
(۱۹) سخی اور کریم انسان
(۲۰) اہل و عیال کو نفع پہنچانے والا
(۲۱) جلد روزہ افطار کرنے والا
(۲۲) فتنے فساد کے وقت چھپ کر رہنے والا مال دار متقی شخص
(۲۳) پاک دامن سوال سے بچنے والا حیا دار انسان
(۲۴) اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرنے والا
(۲۵) اللہ کے لیے کسی مومن سے محبت کرنے والا
(۲۶) اللہ تعالیٰ کی جناب علی رضی اللہ عنہ سے محبت
(۲۷) حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنے والے کو اللہ پسند کرتا ہے
(۲۸) انصار سے محبت رکھنے والا
(۲۹) چھپ کر صدقہ کرنے والا
(۳۰) نرمی والا آدمی
(۳۱) آمین کہنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں
(۳۲) عمل صالح کرنے والے اہل ایمان سے اللہ کا راضی ہونا
(۳۳) مہاجرین اور انصار کی اخلاص کے ساتھ پیروی کرنے والے
(۳۴) اللہ تعالیٰ کے اور اپنے دشمنوں کو دو ست نہ بنانے والے
(۳۵) اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرنے والا
(۳۶) اللہ اور اس کے رسول کے مخالفین سے دوستی نہ رکھنے والے
(۳۷) صدقہ ، نیکی اور اصلاح کا حکم دینے والے
(۳۸) مومن و مطمئن نفس
(۳۹) آزمائش پر راضی رہنے والا
(۴۰) کھانے پینے کے بعد اللہ کی تعریف کرنے والا
۸- تیسرا باب … اللہ تعالیٰ کےنا پسندیدہ لوگ
(۱) کفر کرنے والے
(۲) ظلم کرنے والے
(۳) حد سے تجاوز کرنے والے
(۴) فساد اور فسادی
(۵) خیانت کرنے والے
(۶) تکبر کرنے والے
(۷) اللہ تعالیٰ کی آیات پر جھگڑا کرنے والے
(۸) اللہ ذوالجلال کی بے عمل لوگوں سے ناراضگی
(۹) اسراف کرنے والے
(۱۰) خوش ہونے اور اترانے والے
(۱۱) متکبر اور شیخی بگھارنے والا
(۱۲) کپڑا ٹخنوں سے نیچا رکھنے والا
(۱۳) فاسقین
(۱۴) اللہ تعالیٰ کی شرابی سے ناراضگی
(۱۵) منافق مردوں اور عورتوں پر اللہ کا غضب
(۱۶) یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب
(۱۷) دین اسلام سے مرتد آدمی پر اللہ کی ناراضگی
(۱۸) مومن آدمی کے قاتل پر اللہ کی ناراضگی
(۱۹) قتال فی سبیل اللہ کے دن میدانِ جنگ سے فرار ہونے والے پر اللہ کا غضب
(۲۰) شہنشاہ کا لقب اختیار کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب
(۲۱) آخر زمانہ کی پولیس پر اللہ کا غضب
(۲۲) رزق کے معاملے میں سرکشوں پر اللہ کا غضب
(۲۳) جھوٹی زانیہ عورت پر اللہ کا غضب
(۲۴) اللہ سے نہ مانگنے والے پر اس کا غصہ
(۲۵) اللہ تعالیٰ کی مبغوض ترین مخلوق … خوارج
(۲۶) تین قسم کے لوگ اللہ کو ناپسند ہیں
(۲۷) سخت جھگڑالو انسان
(۲۸) انصار سے بغض رکھنے والا
(۲۹) آخرت سے جاہل اور دنیا کا علم رکھنے والا انسان
(۳۰) جواظ اور جعظری
(۳۱) فاحش اور متفحش
(۳۲) چمٹ کر سوال کرنے والا
(۳۳) فضول گو، باتونی آدمی
(۳۴) تین مَردوں پر اللہ کا غضب
(۳۵) چار قابل نفرت انسان
(۳۶) ظالم غنی سے اللہ کی ناراضگی
(۳۷) اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرنے والا
۹- چوتھا باب … اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ اُمور
۱۰- فصل اوّل … پسندیدہ اُمور

(۱) اعلیٰ اور اشرف اُمور
(۲) بلند اخلاق
(۳) در گزر کرنا
(۴) نرمی اختیار کرنا
(۵) اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء
(۶) عذر پیش کرنا
(۷) اللہ تعالیٰ کی قسم اُٹھانا
(۸) بردباری اور تحمل
(۹) پردہ پوشی اور حیاء
(۱۰) خوبصورتی سے محبت
(۱۱) جنگ اور صدقہ کے وقت تکبر کرنا
(۱۲) رخصتوں پر عمل کرنا
(۱۳) عمل کا مستحکم ہونا
(۱۴) عمل میں احسان
(۱۵) شک کی بنیاد پر غیرت کا مظاہرہ کرنا
(۱۶) بندے پر نعمت کے نشانات کا ظہور
(۱۷) اصلاح کے موقع پر صدقہ و خیرات کی پسندیدگی
(۱۸) چھینک مار کر الحمد للہ کہنا
(۱۹) ہمیشگی والے اعمال
(۲۰) مسلمان آدمی کو خوشی عطا کرنا
(۲۱) اللہ تعالیٰ کو عبداللہ اور عبدالرحمن والے نام بہت پسند ہیں
(۲۲) عفراء قربانی
(۲۳) شکر کرنا اللہ کو پسند ہے
۱۱- فصل ثانی… اللہ کے ناپسندیدہ اُمور
(۱) کسی کو اعلانیہ بُرا کہنا
(۲) والدین کی نافرمانی
(۳) قول باطل بھی اللہ کے ہاں ناپسندیدہ
(۴) اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل: شرک
(۵) قطع رحمی
(۶) اللہ کے ہاں ایک اور غصے والی بات: تم اپنا خیال کرو بس
(۷) خود کو بھوکا ننگا اور مسکین ظاہر کرنا
(۸) سرکشی اور فخر میں تکبر کرنا
(۹) وہم کی بنیاد پر غیرت کا مظاہرہ کرنا
(۱۰) پیٹ کے بل (اوندھا) لیٹنا
(۱۱) ردّی اُمور سے ناپسندیدگی
(۱۲) ردّی اخلاق سے ناپسندیدگی
(۱۳) مزید تین اُمور سے ناپسندیدگی
(۱۴) جماہی لینا
۱۲- پانچواں باب… اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ و ناپسندیدہ جگہیں اور چیزیں
۱۳- فصل اوّل… اللہ کی پسندیدہ جگہیں اور چیزیں

(۱) روئے زمین میں سب سے پسندیدہ شہر: مکہ
(۲) دوسرے درجہ پر محبوب مقامات ، مساجد
(۳) دو قطرے اور دو نشانات
(۴) ہاتھوں کی محنت والی کمائی
(۵) مل بیٹھ کر اکٹھے کھانا
(۶) اللہ کے ہاں ایک اور پسندیدہ چیز، مسواک
۱۴- فصل ثانی… اللہ کی ناپسندیدہ جگہیں
(۱) ناپسندیدہ مقامات میں سے ، بازار
۱۵- چھٹا باب… اللہ کا محبوب اور ناپسندیدہ بندہ
(۱) محبوب بندہ
(۲) ناپسندیدہ بندہ
(۳) خاتمہ



 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
خُطْبَہ مَسْنُونَہ


(( إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہ،وَنَسْتَعِیْنُہٗ1، وَنَسْتَغْفِرُہٗ2، وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا3 وَمِنْ سَیِّاٰتِ أَعْمَالِنَا4، مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فلَا مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلا ھَادِیَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ 5
{یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ6o}
{یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَفْسٍِ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ط وَّاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْأَرْحَامَ ط إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا7o}
{یٰٓـأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَولًا سَدِیْدًاo یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا 8o}
أَمَّا بَعْدُ : فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَخَیْرَ الْھُدٰی ھُدٰی مُحَمَّدٍ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا، فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ 9 وَّ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، أَلضَّلَالَۃُ فِي النَّارِ۔))

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۲۳۴۵ صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والجمعۃ، حدیث=۲۰۰۸،
۶۷۸ ابوداؤد،کتاب النکاح ،باب في خطبۃ النکاح ،حدیث = ۲۱۱۸(نَحْمَدُہ کے بغیر) مسند احمد ۱؍۳۹۳ (اِنّ اور نَحْمَدُہ کے بغیر) جامع الترمذی ،کتاب النکاح ،باب ماجاء فی خطبۃ النکاح، حدیث۱۱۰۵ ( نَحْمَدُہ کے بغیر) مشکوٰۃ المصابیح، حدیث = ۳۱۴۹ تصحیح فضیلۃ الشیخ الالبانیؒوقال:حدیثٌ صحیحٌ۔

۹ سورۃ آل عمران آیت نمبر ۱۰۲ ۱۰ سورۃ النساء آیت نمبر۱
۱۱ سورۃ الاحزاب آیت نمبر۷۰،۷۱
( فَانَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ کے الفاظ مسند احمد ۴؍۱۲۷ کے ہیں ۔

ترجمہ خطبہ مسنونہ


’’بلا شبہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ۔ہم اس کی تعریف کرتے ہیں ۔اس سے مدد مانگتے اور اسی سے ہم بخشش طلب کرتے ہیں ۔ہم اپنے نفسوں کے شر اور اپنی بد اعمالیوں سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں ۔ جسے اللہ (سیدھی )راہ سجھا دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں (ہو سکتا ۔) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،وہ اکیلا ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اوراس کے رسول ہیں ۔
اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو ۔اے لوگو !اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور (پھر)اس (جان)سے اس کی بیوی کو پیدا کیا ۔پھر ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پیدا کر کے (زمین پر)پھیلا دیے ۔اور ڈرو اللہ سے کہ جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے (حاجت براری کے لیے )سوال کرتے ہو اور ناطہ توڑنے سے(بھی ڈرو) بلاشبہ اللہ تمہارے اوپر نگہبان ہے۔اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور بات سیدھی(سچی)کہا کرو ۔(ایسا کروگے تو)اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی اطاعت کی ،اس نے بڑی کامیابی حاصل کی ۔
حمد و صلوٰۃکے بعد:یقیناتمام باتوں سے بہتر اللہ کی کتاب ہے ۔تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمد(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )کا ہے اور تمام کاموں سے بد ترین کام وہ ہیں جو (دین اسلام میں)اپنی طرف سے وضع کیے جائیں۔ دین میں ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔گمراہی کا انجام جہنم کی آگ ہے ۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
احسانِ خالق

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی وَبَعْدُ!
تمام کائنات ارض و سماء میں سے ہر ہر جہان کے ہر ہر فرد کا ، جو ہمارے علم و ادراک میں آسکے یا وہ ہماری علمی تحقیق کی پہنچ سے باہر ہو … پیدا کرنے والا بھی ہر ایک کا تنہا اللہ رب العالمین ہے اور پوری کائنات کے تمام جہانوں کے سارے نظام کو مضبوط نظامِ علم و قدرت کے ساتھ مربوط کر کے سب کی تدبیر و تقدیر کرنے والا بھی صرف وہی اللہ عزوجل ہے۔ خالق کائنات کا ہم پر کس قدر احسان ہے کہ اس نے ہمیں دیگر مخلوقات کی نسبت ’’احسن تقویم‘‘ میں پیدا فرما کر …
اوّلا: ہمیں عقل و شعور اور فہم وادراک والی عظیم نعمت سے نوازا۔
ثانیًا: اس نے ہم مسلمانوں کو اپنے دین و ایمان کی سمجھ عطا کر کے ہم پر بہت بڑا کرم فرمایا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے: {بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ أَنْ ہَدَاکُمْ لِلْاِیْمَانِط} (الحجرات:۱۷) ’’بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمہارے اُوپر احسان جتلاتے ہیں کہ اس نے تمہیں ایمان (اور عقیدۂ توحید خالص) کی راہ دکھلائی۔‘‘
اللہ خالق کائنات کے ہاں عقیدۂ توحید خالص، ایمان کے تمام ارکان اور دین حنیف، اسلام جیسی کوئی بھی نعمت، نعمت عظمیٰ نہیں۔ چنانچہ اپنے بندوں کے لیے اپنے عطا کردہ دستورِ حیات کی تکمیل کے وقت فرما دیا کہ:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا} (المائدہ:۳)
’’ آج میں (اللہ رب العالمین) نے تمہارے لیے تمہارا دین (مکمل دستور العمل اور نظامِ حیات) مکمل کر دیا ہے۔ اور اپنی ( سب سے بڑی یہ) نعمت تم پر پوری کر دی ہے۔ اور تمہارے لیے میں نے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا ہے۔‘‘
دنیا پر پائے جانے و الے آثار اور سیرت و تاریخ کی کتب میں سے ثقہ روایات اس بات کی عینی شاہد ہیں کہ: جب تک ہم اہل ایمان و اسلام نے اللہ عزوجل کی اس پسند کو اپنی پسند بنائے رکھا اور اللہ ذوالجلال کی ناپسندیدہ چیزوں ، ناپسندیدہ افعال و اقوال اور اللہ کے مبغوض افراد کو ناپسند کرتے ہوئے ان سے نفرت کرتے رہے، دنیا پر غالب رہے اور دنیا ہماری غلام بن کر رہی۔
اللہ عزوجل نے قرآن میں ہمارے اسلاف کے مضبوط ترین ربانی منہج اور اُن سے اپنی رضا و خوشنودی کو کتنے شان دار پیرا ئے میں بیان فرمایا ہے:
{لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ اَوْ اِِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیرَتَہُمْ اُوْلٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِِیْمَانَ وَاَیَّدَہُمْ بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ اُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَ لَا اِِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo} (المجادلہ: ۲۲)
’’تو ان لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہیں پائے گا کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی، خواہ وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے ،یا ان کے بھائی، یا ان کا خاندان۔ یہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اس نے ایمان لکھ دیا ہے اور انھیں اپنی طرف سے ایک روح کے ساتھ قوت بخشی ہے اور انھیں ایسے باغوں میںداخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے۔ یہ لوگ اللہ کا گروہ ہیں، یاد رکھو! یقینا اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘
مگر آج ہم اہل اسلام عقیدۂ توحید و رسالت میں خرابی، بدعملی و بے راہ روی اور اُمت میں تفرقہ بندی کرتوتوں کا شکار ہو کر پوری دنیائے کفر کے سامنے کیا حقیر و رسوا نہیں ہو چکے؟ اُن اقوام کے سامنے آج ہم غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کہ جن کے آباؤ و اجداد کل ہمارے اسلاف سے اپنی زندگیوں کی بھیک مانگا کرتے تھے۔دنیا بھر میں آج مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا اور مولی گاجر کی طرح کاٹا جارہا ہے۔
حالی نے عصر حاضر کے مسلمانوں کی حالت کو ایک ہی بند میں کتنے اختصار سے بیان کر دیا؟
نہ ثروت رہی اُن کی قائم نہ عزت
گئے چھوڑ ساتھ اُن کا اقبال و دولت
ہوئے علم و فن اُن سے ایک ایک رُخصت
مٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت
رہا دین باقی ، نہ اسلام باقی
اک اسلام کا رہ گیا نام باقی​
البتہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود اللہ عزوجل کا اپنے مومن صالح بندوں کے ساتھ آج بھی ایک وعدہ موجود ہے۔ فرمایا:
{وَعَدَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُo} (التوبہ: ۷۲)
’’اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے، اور پاکیزہ رہنے کی جگہوں کا جو ہمیشگی کے باغوں میں ہوں گی اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنودی سب سے بڑی ہے، یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے وعدہ کی مضبوطی اور سچائی کے حوالے سے فرمایا:
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا وَعْدَ اللّٰہِ حَقًّا وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلًاo} (النساء:۱۲۲)
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، عنقریب ہم انھیں ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہمیشہ۔ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ بات میں کون سچا ہے۔‘‘
اس لیے مسلمانو! اگر آج پھر تم اللہ کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھتے ہوئے اس پر ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی خاطر وہن کا شکار نہ ہو جاؤ تو رب کائنات فرماتے ہیں:
{فَـلَا تَہِنُوْا وَتَدْعُوْا اِِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ط وَاللّٰہُ مَعَکُمْ وَلَنْ یَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْo} (محمد:۳۵)
’’پس نہ کمزور بنو اور نہ صلح کی طرف بلاؤ اور تم ہی سب سے اونچے ہو۔ اور اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہ ہر گز تم سے تمھارے اعمال کم نہ کرے گا۔‘‘
اور دوسرے مقام پر اللہ عزوجل نے یوں وعدہ فرمایا ہے:
{یٰٓـاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ تَنصُرُوا اللّٰہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ o} (محمد:۷)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم جما دے گا ۔‘‘
آپ کے ہاتھوں میں محترم عدنان الطرشہ حفظہ اللہ کی کتاب’’ مَا ذَا یُحِبُّ شدوَمَا ذَا یُبْغِضُ؟ ‘‘ کا یہ اُردو ترجمہ ’’اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند ‘‘ اسی موضوع کو کھول کر بیان کر رہا ہے۔ عصر حاضر کے اس اہم ترین موضوع کے اُردو ترجمہ کی خدمات ہم نے پاکستان کے ایک معروف علمی ادارے ’’جامعہ محمدیہ‘‘ لوکو ورکشاپ مغل پورہ لاہور ، کے جید اُستاد؍ عالم دین فضیلۃ الشیخ؍ خاور بٹ حفظہ اللہ کی خدمات حاصل کی ہیں۔ ترجمہ کی نظر ثانی اور تزئین و تذہیب کا فریضہ دو بڑے علماء کرام ؍ محترم محمد زکریا زکی ، مدرس حدیث جامعہ محمدیہ رحیم یار خاں اور محترم امین الرحمن حفظہما اللہ( لاہور) نے سر انجام دیا ہے۔ جب کہ نئی طبع میں اضافہ شدہ عبارتوں اورابواب کا ترجمہ ، کتاب کی تحسین و ترتیب اور حتمی اصلاح کا کام معروف مصنف و مترجم محترم ابو یحییٰ محمد زکریا زاہد حفظہ اللہ نے کیا ہے۔ یوں آپ کے ہاتھوں میں یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک شاہکار کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔
مصنف حفظہ اللہ کی دونوں کتابوں’’ مَا ذَا یُحِبُّ شد وَمَا ذَا یُبْغِضُ؟ ‘‘اور ’’ مَاذَا یُحِبُّ النَّبِیُ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وَمَاذَا یَکْرَہُ؟ ‘‘ اور ان کے دونوں ترجموں ’’ اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند ‘‘ اور ’’ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند اور ناپسند‘‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ : ان میں کسی ضعیف روایت اور کسی کچی بات کا سہارا نہیں لیا گیا۔ ہر موضوع پر ٹھوس اور ثقہ دلائل کی روشنی میں بات کی گئی ہے۔ اُردو ترجمہ میں آسان فہم ، سلیس اُردو اور بامحاورہ ترجمہ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا ترجمہ کو اصل تصنیف سمجھنے لگتا ہے۔
انتہائی ناقدری و ناسپاسی ہو گی اگر ہم کتاب ہذا کی کتابت،ترتیب وتزئین میں لاہور کے ایک معروف ادارے ’’مکتبۃ الکتاب ‘‘ کا شکریہ ادا نہ کریں کہ جس کے مدیر عبدالرؤف صاحب نے خود اس کتاب کی تزئین و آرائش ، نستعلیق و نسخ اور دیگر خطوط، طغروں اور ادبی اسلوب کے اعلیٰ چناؤ میں اپنے فنی ذوق کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے ہر صفحہ کی ترتیب حسبِ اسلوب اُردو ابواب کے آغاز، ہر باب کے اختتام پر پھولوں اور بیلوں کے انتخاب، حاشیہ کے خطوط کا لحاظ اور ہر طرح کی ترتیب احسن کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ کتاب کا سرورق کس قدر شاندار ہے؟ یہ تو خود بنانے والے کے حسن ذوق کی داد دے رہا ہے۔ سرورق جناب ضیاء الرحمن ضیاءؔ صاحب نے بنایا ہے جو اس میدان کے شاہسوار اور ’’مانی ہوئی شخصیت ‘‘ ہیں۔ اللہ عزوجل تمام احباب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور مصنف و مترجم، ناشر اور قاری سمیت سب کو رب کریم آخرت میں اعلیٰ ترین انعامات سے نواز دے۔ اَللّٰھُمَّ آمین
لیجیے برادران! یہ شاہکار آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کا مطالعہ خود بھی کیجیے ، اور دوسروں کو بھی اس کے مطالعہ کی دعوت دیجیے۔ اگر اس کتاب کے مطالعہ سے ہماری زندگی اللہ عزوجل کی پسند اور ناپسند کے مطابق بن گئی تو دنیا میں بھی کامیابی ہمارا مقدر ہو گی اور اللہ کریم کے وعدہ کے مطابق آخرت میں اس کی رضا و جنت بھی ہماری منتظر ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔ کتاب ہذا کے مطالعہ سے جس جس بھائی اور بہن کے دل میں اللہ عزوجل کی محبت مزید گہری ہوجائے وہ مصنف و مترجمین ، نظر ثانی کرنے والوں اور ناشر کو اپنی نیک دعاؤں میں ضرور یاد رکھے۔
ترجمہ و ترتیب اور تحسین و تذہیب میں اس کتاب کے اندر جو بھی خوبی پیدا ہوئی ہے وہ خاص اللہ عزوجل کی توفیق سے تھی۔ اور جتنی غلطیاں ہیں وہ ہماری انسانی کمزوریوں کی بنا پر ہیں۔ اس لیے کتاب ہذا کے مطالعہ کے دوران جو غلطیاں نظر آئیں انہیں قلم بند کرتے جائیں اور پھر آخر میں ہمیں اُن سے مطلع ضرور فرمائیے تاکہ اگلی طبع میں اُن کی اصلاح ہو سکے۔
وَجَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا وَّ اَحْسَنًا
آ پ کا بھائی
ارشدبیگ مغل (ابو سلطان)
الریاض؍سعودی عرب
۱۵؍ شعبان ۱۴۲۹ھ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
پیش لفظ

کتاب ’’ ما ذا یحبّ اللّٰہ… ‘‘ بنیادی طور پر تزکیۂ نفس اور اخلاق کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب ہے لیکن اس کتاب نے زندگی کے تقریباً تمام شعبوں کا احاطہ کرلیا ہے۔ چنانچہ بعض مقامات پر توحید و شرک کی گفتگو ہے تو بعض جگہوں پر اسلامی معاشرت، اجتماعی فرائض، دعوت و جہاد، آداب و عاداتِ اسلامی پر بحث کی گئی ہے۔ اس طرح فضائلِ اعمال، رقاق، زہد، اعمالِ قلبی پر بڑی نفیس و نازک بحثیں پیش کی گئی ہیں۔ مختصراً یہ کتاب زندگی کے بیش تر پہلوؤں کو سمیٹ لیتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں اخلاق و تزکیۂ نفس پر دو قسم کے مکتبِ فکر ہیں۔ چنانچہ اس کتاب کے تعارف پر دونوں مکاتبِ فکر کا تذکرہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ایک مکتبۂ فکر اہلِ تصوف ہے اور دوسرا اہلِ ظاہر کے نام سے پکارا جاتا ہے جس میں ہر وہ گروہ شامل ہے جو متصوفین کے اجتھادات سے راضی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل تصوف نے اخلاق و تصوف پر بہت گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں اور انہوں نے بہت سے علم کے موتی چھوڑے ہیں جو خالص قرآن و سنت پر بھی مشتمل ہیں لیکن اس قدر نیک نامی، شاندار علمی خدمات کے باوجود ان کا علمی رویہ اور بعض افکار اہلِ ظاہر کے ہاں مذموم قرار پاتے ہیں اور اہل ظاہر میں سب سے پہلا درجہ محدّثین کا ہے۔ (خیال رہے کہ یہاں اہل ظاہر سے ٹھیٹھ ظاہری، قیاس کے منکر، داؤد ظاہری کے پیروکار مراد نہیں) محدثین ہر دور اور ہر زمانے میں اہل تصوّف کے بعض اجتھادات اور ان کے علمی رویے سے بیزار رہے ہیں۔ یہ کتاب اہلِ ظاہر محدثین کے اسلوب و افکار کی حامل ہے چنانچہ اس میں توحید کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں: (۱) توحید ربوبیت، (۲) توحید الوہیت، (۳) توحید اسماء و صفات، جب کہ اہل تصوف توحید کی دو قسمیں بناتے ہیں: (۱) عوام کی توحید جو اہل ظاہر کے ہاں بیان ہوتی ہے (۲) خواص کی توحید جو اہل تصوف کے ہاں وحدت الوجود کی شکل میں موجود ہے۔ اہل تصوف کے ہاں وحدت الوجود کا منکر شرک فی الوجود کا مرتکب ہے۔
اہل تصوف اور محدثین کے ہاں مشترکہ طور پر ذکر الٰہی کی بڑی اہمیت ہے لیکن محدثین اپنے سادہ علمی رویے کے باعث فقط منصوص اذکار پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور احادیث کے ظاہر کے مطابق ذکر و فکر میں مشغول ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں افضل ترین ذکر کے الفاظ تسبیح، تحمید، تہلیل اور تکبیر کی شکل میں بیان ہوئے ہیں لیکن اہل تصوف نے کمزور احتمالات اور اجتہادات سے ذکر کی ایسی شکلیں پیش کیں جن کا واضح تذکرہ قرآن و سنت میں موجود نہیں اور جن کا کوئی محدث کبھی قائل نہیں رہا۔ لیکن وہ اذکار برصغیر کے بڑے بڑے اساطینِ علم نے مدوّن کیے اور ان پر کئی خانقاہوں اور محافل میں ورد کیا گیا۔ چنانچہ اہل تصوف فقط لفظ ’’اللہ ‘‘ کا یا ’’إِلَّا اللّٰہُ‘‘ کا یا ’’اللہ ھو ‘‘ کا ورد کرتے ہیں۔ بعض اہل تصوف ذکر کا یہ طریقہ بتلاتے ہیں کہ ’’دونوں آنکھیں بند کرکے زبان کو نوکِ تالو سے لگا کر دل ہی دل میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا ورد اس طرح کیا جائے کہ لَا اِلٰہَ کہتے وقت سانس اندر لے جائیں اور اِلا اللّٰہُ کہتے وقت سانس خارج کردیں۔ ‘‘
یہ کتاب انتہائی سادہ، عام فہم اور فطری اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اللہ تعالیٰ کو کیسے راضی کرے؟ چنانچہ اس کتاب میں اللہ کی رضا و محبت کے ہر عمل کی وضاحت کی گئی ہے اور قرآن و سنت سے اس کی وضاحت کی گئی۔ اہل تصوف میں سے بے شمار متصوفین اپنے صوفیانہ ملفوظات اس طریق سے بیان کرتے ہیں کہ وہ عام انسان کی ذہنی سطح سے بلند ہوتے ہیں یا قرآن و حدیث سے دور کے استدلال پر مبنی ہوتے ہیں جو بسا اوقات بظاہر کفریہ کلمات محسوس ہوتے ہیں اور بسا اوقات ان کلمات کو ’’سکر‘‘ (مدہوشی) کی کیفیت پر محمول کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ کتاب دیگر اخلاق و تزکیۂ نفس کی کتب کی طرح نہ تو خالص فنی ہے اور نہ خالص صوفیانہ ملفوظات کی طرز پر پیش کی گئی ہے بلکہ یہ کتاب انسان کے مقصد حیات سے براہِ راست تعلق رکھتی ہے۔
فکری میدان میں محدثین تین محاذوں پر سخت عامل ہوتے ہیں:
(۱)… محدثین عقیدہ کے انتہائی ٹھوس اور متصلّب ہوتے ہیں۔
(۲)…دنیا کا کوئی گروہ بدعات کی تفہیم، پہچان و اجتناب میں محدثین کا مدِ مقابل نہیں۔
(۳)…اسی طرح محدثین ان سنتوں کے علمبردار ہوتے ہیں جن کو ساری دنیا نظر انداز کردیتی ہے۔ اس کتاب میں محدثین کا یہی خالص منہج مصنف کے پیش نظر رہا ہے۔ اگرچہ یہ کتاب خالص عقیدہ کی تفہیم پر نہیں لکھی گئی لیکن جہاں پر بھی عقیدہ کی کوئی سرسری بحث آتی ہے تو سلف صالحین والی توحید محسوس ہوتی ہے۔ اس کتاب میں کوئی بدعت والا عمل نہیں پیش کیا گیا اور نہ ہی من گھڑت سنتوں کو اجاگر کیا گیا ہے بلکہ خالص مسنون فضائلِ اعمال پیش کیے گئے ہیں۔
علمی اسلوب کے حوالے سے محدثین اپنے خاص طرزِ استدلال کے حامل ہوتے ہیں یعنی ’’صحیح حدیث کی قبولیت ‘‘ چاہے وہ عقیدے سے تعلق رکھتی ہو یا فضائلِ اعمال سے اور چاہے وہ قرآن پر اضافہ کر رہی ہو یا قرآن کی وضاحت کر رہی ہو۔ البتہ محدثین ضعیف حدیث کے متعلق دو نظریات کے حامل ہیں۔ بعض محدثین ضعیف حدیث کو فضائلِ اعمال میں قبول کرتے ہیں اور ان کی بیان و تبیین جائز سمجھتے ہیں جب کہ محدثین کا دوسرا گروہ ضعیف حدیث سے فضائلِ اعمال کا استخراج ناجائز سمجھتا ہے۔ یہ کتاب محدثین کے دوسرے گروہ کے نظریہ کے مطابق لکھی گئی ہے چنانچہ اس کتاب میں سینکڑوں احادیث پیش ہوئی ہیں لیکن کوئی ایک حدیث بھی بغیر تحقیق اور بغیر وضاحت کے پیش نہیں کی گئی۔ اکثر احادیث کی تحقیق محدث العصر ناصر الدین البانی کی کتب سے ماخوذ ہے جب کہ مسند احمد کے حوالے احمد زین کی تخریجات سے پیش کیے گئے ہیں۔ کئی فضائل صحیح الجامع سے پیش ہوئے ہیں جو برصغیر کے علماء کے لیے نئی لیکن پسندیدہ چیز ہے۔
آیات و احادیث کی تشریح خالص محدثین کی کتب سے ماخوذ ہے اور غالی صوفیاء اور سہل پسند مقلّدین سے احتراز کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کتاب کے اکثر حوالے ابن کثیر، قرطبی، ابن حجر، نووی، خطابی، مبارکپوری، مناوی، ابن قیم، ابن تیمیہ کی کتب سے پیش کیے گئے ہیں۔ بعض مقامات پر امام غزالی سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال اس حدیث کی تشریح ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی آنکھ، کان اور ہاتھ بن جاتا ہے جب وہ اللہ کے قریبی بن جاتے ہیں۔ فاضل مصنف نے اس حدیث کی خوب وضاحت کی ہے جب کہ اہلِ اھواء اور صوفیاء اس حدیث کو اپنے ذہن کے مطابق محمول کرتے ہیں۔
یہ کتاب ہر مسلمان کے لیے ایک انمول خزانہ ہے کیونکہ انسان تو اللہ تعالیٰ کی محبت میں مصروف رہنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن وہ شخص کس قدر عظیم ہے جس سے اللہ تعالیٰ بذاتِ خود محبت کریں۔ یہ کتاب گویا صاف و شفاف پانی کا ذخیرہ ہے جس میں غوطہ زن ہوکر انسان اپنی تمام چھوٹی یا بڑی، معمولی یا غیر معمولی خوبیوں و خامیوں کا پتہ چلا سکتا ہے۔ بعض جگہوں پر انتہائی بلند اخلاق کی دعوت دی گئی ہے کہ جیسے انسان کو پہاڑ کی طرح بلند اور سمندر کی طرح وسیع و کشادہ اخلاق والا بننے کی تلقین کی جارہی ہو اور بعض جگہوں پر انتہائی چھوٹی مگر ضروری باتوں کو نہایت ہمدردی کے ساتھ سمجھایا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک آئینہ ہے جس کو پڑھنے کے بعد انسان اپنی کوتاہیوں اور خوبیوں کی دیکھ بھال کرسکتا ہے۔ دنیا کی کامیابی، آخرت کی نجات، اللہ تعالیٰ کی رضا، اطمینانِ قلب، گہری فکر و نظر اور بصیرت ہر شخص کی دلی تمنا ہے اور یہ کتاب ہماری دلی تمناؤں کا جواب بن کر آئی ہے۔ سالکین کے لیے راہِ سلوک نمایاں کرتی ہے۔ فرد، اہل خانہ، طلباء، اہل مکتب، اہل مدرسہ، علماء، خطباء اور زعماء کی تربیت کرتی اور نجاتِ اخروی کے فکر مندوں کے لیے تسکین کا باعث بنتی ہے۔ مشائخ، مربی، داعی اور اساتذہ اس کو اپنے دروس کا نصاب بنا سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے مصنف، مترجم، ناشر اور متعلقین کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لے اور اس کتاب کو ہمارے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے۔ وہی تو ہمارا غمگسار، ساتھی، ہمدرد اور معبود ہے۔ اسی کے لیے ہماری کوششیں، محنتیں اور خوشیاں و غم ہیں۔
رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَإِلَیْکَ أَنَبْنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیْرُ، وَمَا عَلَیْنَا إِلاَّ الْبَلَاغُ۔
محمد زکریازکی
مدرس جامعہ محمدیہ اہل حدیث
خانپور ضلع رحیم یار خان
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مقدمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم


مقدمہ​

تمام تعریفات اس ذات کے لیے ہیں جس کی رحمت غضب پر، محبت بغض پر اور خوشنودی ناراضی پر غالب آچکی ہے۔
لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ= نعمت، فضل اور اچھی ثناء صرف اسی کے لیے ہے ہم صرف اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں، خواہ کافر ناخوش ہی ہوں۔
میں مختلف موضوعات پر کتب لکھنے میں مصروف تھا، اس موضوع کا میرے دل و دماغ میں گمان تک نہ تھا۔ ایک دن کسی حدیث کی تلاش میں کتب حدیث کی طرف رجوع کیا تو وہاں ایک صفحہ پر جتنی بھی احادیث تھیں میری نظر میں آیا کہ ان سب کی ابتداء (إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ…) کے الفاظ سے ہورہی ہے، لہٰذا ایک سیکنڈ سے بھی تھوڑی مدت میں میرے دل میں ان احادیث کی طرف بعد میں مراجعت کرنے کا خیال آیا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ رب کائنات کی محبوب اشیاء و اعمال کا علم حاصل کرسکوں تاکہ میں انہیں اپنا اوڑھنا بچھونا بنا سکوں۔
اچانک ایک آواز آئی: اکیلا معلومات حاصل کرکے کیا کرے گا؟ کیوں نہ تو اس موضوع پر ایک کتاب تالیف کردے تاکہ دیگر مسلمان بھی ان چیزوں سے با خبر ہوسکیں۔ میں نے اس کام کو بعد پر چھوڑ دیا۔ یہ سوچ ایک سیکنڈ یا اس سے بھی قلیل مدت تک رہی۔ چونکہ یہ محض ایک خیال تھا اس لیے میں نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا اور میں اپنی دیگر کتب لکھنے میں ہی بدستور مشغول رہا۔
کچھ ایام بعد زیر نظر کتاب کے آوازۂ دل کی باز گشت بار بار میرے نفس میں شروع ہوگئی۔ میں سمجھا کوئی مخفی طاقت مجھے یہ کتاب لکھنے پر مجبور کر رہی اور کھینچ رہی ہے۔ یہاں تک کہ میں نے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دیگر کتب کا کام موقوف کردیا۔
یہ کشش اور رغبت لذیذ ذائقہ کی حامل تھی، ذائقہ عمدہ کیوں نہ ہوتا، حالانکہ یہ تحریر اللہ جل شانہ کے متعلق اور اس کی محبوب و مبغوض اشیاء کے متعلق لکھی جانے والی تھی۔یہاں تک کہ میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میری تمام کتب میں سے سب سے زیادہ شہرت اور عزت کی حامل یہ کتاب ہوگی۔ یہ رغبت دن بدن بڑھتی رہی حتیٰ کہ اس نے میری نیند اڑا کر رکھ دی اور اگر نیند آتی تو خواب اسی کتاب کے آتے۔ دوسری کتب کے لکھنے سے آہستہ آہستہ میرا جذبہ کم ہوتا گیا یہاں تک کہ میں ایک لفظ لکھنے کی بھی ہمت نہ رکھتا تھا۔ گویا وہاں ایک دروازہ تھا جو مجھ پر بند کردیا گیا اور جب میں نے اس کتاب کو تالیف کرنے کا دروازہ کھلتا دیکھا تو اسے لکھنا شروع کردیا۔
راقم شروع میں یہی سمجھتا تھا کہ اس موضوع پر چند آیات اور کچھ احادیث ہی ہوں گی لیکن جب ابتداء کی تو میرے سامنے ایک بہت بڑا قابلِ تکمیل منصوبہ نظر آنے لگا۔ میں مایوس نہ ہوا چنانچہ اس ذات کی طرف سے بہت زیادہ نصرت نازل ہوئی کہ جس نے میری مطلوبہ تحقیق و جستجو، مطالعہ اور استنباط وغیرہ کو میرے لیے آسان کردیا۔
کچھ کتاب کے متعلق!
(۱) یہ کتاب ایک سو پینتیس سے زیادہ مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ ہر عنوان اس قابل ہے کہ اسے مستقل کتاب، جمعہ کا خطبہ، لیکچر یا دینی درس بنایا جائے۔
(۲) تین سو سے زائد آیات قرآنی اور چار سو سے زائد احادیث پر مشتمل ہے اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ میں نے اس کتاب کی تالیف میں وہی حدیث نقل کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ہے یعنی اس کتاب میں سب کی سب احادیث صحیح ہیں۔
مقصد:
اس کتاب کو احاطۂ تحریر میں لانے کا مقصد یہ ہے کہ انسان رب تعالیٰ کے محبوب بندوں کو جان لے تاکہ وہ عمل کرکے ان میں شامل ہوسکے اور ایسے اعمال سے باخبر ہوجائے کہ جن پر وہ عمل پیرا ہوکر دنیا و آخرت کی کامیابی و نجات حاصل کرسکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے تھے:
(( أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ، وَتَرَکَ الْمُنْکَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ، وَأَنْ تَغْفِرْلِيْ وَتَرْحَمْنِيْ، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ وَأَسْئَلُکَ حُبَّکَ، وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ، وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلیٰ حُبِّکَ۔ )) صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۵۸۲۔
’’اے اللہ کریم! میں تجھ سے تیری محبت اور جنہیں تو پسند فرماتا ہے، ان کی محبت اور ایسے عمل کی محبت جو تیری محبت کے قریب کردے، مانگتا ہوں۔ ‘‘ 1
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ لوگوں کا علم بھی ہوجائے تاکہ ان جیسی صفات سے بچ سکے اور رب تعالیٰ کے مبغوض اعمال پر اطلاع پالے اور ان سے پرہیز کرکے دنیا و آخرت کے خسارے اور عذاب سے بچ سکے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم درج ذیل الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے اور اس کی پناہ چاہتے۔
(( أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ مُّنْکَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَھْوَائِ۔)) صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۸۴۰۔
’’ اے اللہ میں برے اخلاق و اعمال اور خواہشات سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘
اللہ بلند و قادر سے میں امید رکھتا ہوں کہ اس کتاب کو مسلمانوں کے لیے نافع بنائے گا، ان مسلمانوں میں سے ایک مؤلف بھی ہے جو اس کی رحمت کا محتاج ہے۔
اللہ الوہاب الکریم سے دعاگو ہوں کہ اس کتاب کو خالص اپنے چہرے کے لیے کرلے اور قیامت کے دن اسے میرے نیکیوں والے پلڑے میں رکھے۔ امیدوں کے مرجع کے اعتبار سے وہی ذات سب سے زیادہ عزت والی ہے اور وہی دعاؤں کو قبول کرنے کے لائق ہے۔
وَآخِرُ دَعَوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَّآلِہِ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔
عدنان الطرشہ
الریاض،المملکۃ العربیۃ السعودیۃ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱- اے اللہ! میں آپ سے اچھے کاموں کی اور برائی چھوڑنے کی توفیق مانگتا ہوں۔ مسکینوں کی محبت مانگتا ہوں اور یہ کہ آپ مجھے معاف فرما دیں اور مجھ پر رحم فرمائیں اور جب آپ کسی قوم میں فتنہ کا ارادہ فرمائیں تو مجھے فتنہ میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی فوت کرلینا اور میں آپ کی محبت اور جس سے آپ محبت کرتے ہیں اس عمل کی محبت جو آپ کی محبت کے قریب کردے آپ سے مانگتا ہوں۔

عدنان الطرشہ
الریاض،المملکۃ العربیۃ السعودیۃ
 
Last edited:
Top